گراؤنڈ رپورٹ : جھارکھنڈ کے لاتیہار ضلع میں گزشتہ جنوری میں دو بچوں کی ماں کے ساتھ گینگ ریپ اور مارپیٹ کی گئی، جس کے بعد وہ کوما میں چلی گئیں۔ تقریباً چار مہینے کوما کی حالت میں ایک ہاسپٹل سے دوسرے ہاسپٹل بھٹکنے کے بعد اس آدیواسی خاتون کی موت ہو گئی۔
رانچی: جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی کے راجیندر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزکے مارچیوری روم کے باہر ایک سات سال کی بچی سبک رہی ہے۔ بچی رو رہی ہے، کیونکہ اس کی ماں اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔35 سالہ ان کی ماں کے ساتھ گزشتہ23 جنوری کو تین لوگوں نے گینگ ریپ کیا تھا اور اس دوران ان کو بری طرح سے چوٹ پہنچائی گئی۔ ان کے کندھے، ناک، آنکھ پر 6-6 ٹانکے لگانے پڑے۔ وہ کوما میں چلی گئی تھیں۔رانچی سے 120 کلومیٹر دور لاتیہار ضلع لاری گاؤں کی اس آدیواسی خاتون نے زندہ رہنے کے لئے ہاسپٹل میں 121 دن تک جدو جہد کیا۔ ریپ کرنے والوں کے ذریعے بےرحمی سے پٹائی اور پھر ہاسپٹلکی لاپروائی سے پار نہیں پا سکیں۔ گزشتہ23 مئی کو انہوں نے ہاسپٹل میں ہی دم توڑ دیا۔\اس طرح سے سات سال کی اس معصوم بچی اور اس کے 12 سال کے بھائی کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا۔
22 مئی کو جب ہم ریمس پہنچے تھے، تب یہ معصوم ہر آدھے گھنٹے پر اپنی ماں کی پیشانی کو ہلا رہی تھی، کوشش تھی کہ وہ بول دیں۔ دوچاربار سر ہلانے کے بعد وہ پاس میں رکھے ایک گلاس میں دو انڈا پھوڑتی ہے اور اس کو ایک پائپ میں ڈال دیتی۔ یہ پائپ اس کی ماں کی ناک میں لگا تھا، جس کے ذریعے سے کھانا دیا جا رہا تھا۔تیسری کلاس کی یہ طالبہ کہتی ہے، ‘میں اور میرے بھیا 23 جنوری کو گھر میں تھے۔ ماں سبزی بیچنے بازار گئی تھی۔ رات آٹھ بجے تک نہیں آئی۔ ادھر آندھی اور بارش بہت تیز ہو رہی تھی۔ میں اور بھیا سوچے کہ بارش ختم ہونے کے بعد ماں آ جائےگی، لیکن وہ نہیں لوٹی۔ ‘متاثرہ کے بیٹے کے مطابق، ’12 بجے رات تک ماں نہیں آئی تو ہم دونوں روتے روتے سو گئے۔ صبح میں ان کو کھوجنے گیا تب گاؤں کے لوگوں سے پتہ چلا کہ ماں گاؤں کے ایک کھیت میں پڑی ہے۔ ہم دونوں دوڑتے ہوئے وہاں پہنچے۔ وہ بےہوش تھیں۔ بڑے چچا کے ساتھ ہم لوگ اس کو لےکر لاتیہار ضلع ہاسپٹل گئے۔ ‘
واقعہ کے وقت خاتون کے شوہر گجرات میں تھے، وہ وہیں پر رہکر کام کرتے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی نے بتایا کہ ضلع ہاسپٹل لے جانے پر وہاں کے ایک ڈاکٹر نے بولا کہ ریپ ہوا ہے، یہاں مناسب علاج نہیں ہو سکتا، رانچی لےکے جائیے۔ اسی وقت ہم لوگ رانچی چلے گئے۔ ‘
حالانکہ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی لاتیہار پولیس کی طرف سے ریپ کی تصدیق کے لئے میڈیکل کرانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، اس بات کا ذکر پولیس کی ابتدائی تفتیش رپورٹ میں بھی درج ہے۔ایس پی پرشانت آنند نے کہا کہ اس وقت خاتون کا بیان درج نہیں ہو پایا تھا، بعد میں جانچکے دوران کئی چیزیں سامنے آئیں۔ جائےواردات پر جو ثبوت ملے ہیں، اس کو فورینسک بھیجا گیا ہے۔
بےہوش خاتون کو دن بھر ایمرجنسی کے باہر رکھا گیا
متاثرہ کے جیٹھ نے بتایا کہ واقعہ کے اگلے دن 24 جنوری کو ان کو رانچی کے ریمس لایا گیا۔ بے ہوشی کی حالت میں ان کو ایمرجنسی کے باہر رکھا گیا، کیونکہ انٹری کارڈ اور کاغذی خانہ پری ہونے تک شام ہو گئی تھی۔ دیر رات ان کو میڈیسن وارڈ میں بھرتی کیا گیا۔اس بیچ تقریباً دو مہینے ریمس میں ایڈمٹ رہیں لیکن حالت میں اصلاح نہیں ہو رہی تھی۔ متاثرہ کے شوہر کے مطابق، ‘ڈاکٹروں نے ہم سے کہا کہ اس کی صحت میں کچھ اصلاح نہیں ہو رہی ہے، اس کو لےکر لاتیہار چلے جاؤ۔ ہم بولے بھی کہ ابھی تک تو اس کا منھ بھی نہیں کھلا ہے، بیماری میں کیسے لےکے جائیں۔ پھر بھی انہوں نے کہا کہ لےکرجانا ہوگا۔ “
مارچ 27 کو ہاسپٹل (ریمس) چھوڑنے سے پہلے جو ڈسچارج شیٹ ملی، اس میں لکھا ہے کہ مریض کو ڈفیوج ایگجونل انجری ہے۔ نام نہ چھاپنے کی شرط پر رانچی کے ایک ڈاکٹر نے بتایا،’ یہ ایک قسم کی ٹرامیٹک برین انجری ہے۔ اس کا مطلب برین کا زیادہ تر حصہ ڈیمیج ہو چکا ہے۔ ایسے مریض کو لائف سپورٹ سسٹم پر رکھا جاتا ہے۔ ‘بہر حال دباؤ میں آکر رشتہ داروں نے کوما میں پڑی خاتون کو ایک بار پھر لاتیہار ضلع ہاسپٹل میں بھرتی کرا دیا۔ادھر معاملے کی جانکاری سماجی کارکن سنیل منج کو ملی۔ انہوں نے فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے بطور 27 اپریل کو اپنے دوستوں فلپ کُجور، سیبسٹئن کُجور اور جیمس ہیرینج کے ساتھ پورے معاملے کی جانکاری لی۔ اس کے بعد ایک اور سماجی ادارہ ‘ آلی ‘ کی پونم وشوکرما، تارامنی ساہو بھی جانکاری لینے لاتیہار صدر ہاسپٹل پہنچیں۔
پونم کے مطابق، متاثرہ کے شوہر نے بتایا کہ وہاں کسی طرح کا علاج نہیں کیا جا رہا ہے، صرف نرس آکر پانی چڑھاتی ہے۔ انہوں نے ہاسپٹل انتظامیہ سے جب اس کی جانکاری مانگی تو پتہ چلا کہ ڈاکٹروں کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ کوئی ریپ متاثرہ ان کے یہاں بھرتی ہے۔اس کے بعد آناً فاناً میں رجسٹر چیک کیا گیا۔ لاتیہار کلکٹر سے بات کی اور متاثرہ کو فوراً 20 ہزار روپے فلاح و بہبود محکمہ کی طرف سے دلائے گئے۔ ریاستی حکومت کے اصول کے مطابق یہ رقم ریپ متاثرہ کو فوری مدد کے لئے ضلع سطح پر فوراً مہیّا کرائی جاتی ہے۔
لاتیہار سول سرجن ڈاکٹر ایس پی شرما نے متاثرہ کا صحیح سے علاج نہ ہونے کی بات سے انکار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی نرس بنا ڈاکٹر کی صلاح کے پانی نہیں چڑھاتی ہے۔ اس سوال پر کہ بھرتی ہونے کے دس دن بعد متاثرہ کو فلاح و بہبود محکمے سے ملنے والا پیسہ کیوں دیا گیا-انہوں نے کہا کہ جب ان کو پتہ چلےگا، تبھی تو مدد دلائیںگے۔
لاتیہار ضلع ہاسپٹل کے ڈاکٹر ایس کے سنہا نے بتایا،’انہوں نے تو متاثرہ کے شوہر کو پہلے ہی دن کہہ دیا کہ یہاں اس کا بہتر علاج نہیں ہو سکتا، رانچی ہی لےکر جاؤ۔ لیکن وہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا۔ ‘متاثرہ کے شوہر کے مطابق، وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر علاج کہاں ہوگا۔ ریمس کہہ رہا تھا کہ لاتیہار لےکر جاؤ، لاتیہار ضلع ہاسپٹل میں کہا جا رہا تھا کہ ریمس لےکے جاؤ۔ادھر فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے 3 مئی کو پورے معاملے کو لےکر لاتیہار میں پریس کانفرنس کی۔ رپورٹ جب میڈیا میں آئی تو متاثرہ کو آٹھ مئی کو انہی کارکنان کی مدد سے دوبارہ ریمس میں بھرتی کرایا گیا تھا۔اس کے بعد آلی ادارہ نے 10 مئی کو ہائی کورٹ لیگل سروس کمیٹی، جھارکھنڈ کو متاثرہ کے بہتر علاج کے لئے درخواست کی۔ کمیٹی نے کہا کہ کوئی خاتون یا متاثرہ کے شوہر کے ذریعے درخواست دلوائیے۔ اس کے بعد 15 مئی کو متاثرہ کے شوہر کی طرف سے درخواست دی گئی اور معاملے کی جانکاری جھارکھنڈ ہائی کورٹ کو دی گئی۔
گزشتہ17 مئی کو ہائی کورٹ نے ہیلتھ سکریٹری، ریمس ڈائریکٹر اور سپرٹنڈنٹ کو عدالت میں حاضر ہونے کی نوٹس بھیجی۔ ہائی کورٹ نے سوال کیا،’ایک کوما میں پڑی خاتون کو کیسے گھر بھیج دیا گیا۔ ‘ کورٹ نے جواب دینے کے لئے 10 جون کی تاریخ طے کی۔ فی الحال ہائی کورٹ میں گرمی کی تعطیل چل رہی ہے۔ادھر، ریمس سپرٹنڈنٹ ڈاکٹر وویک کشیپ نے کہا کہ 27 مئی کو ریمس کمیٹی بنائےگی۔ اس کے بعد تفتیش کی جائےگی کہ شدیدطور پر مریض رہنے کے بعد بھی کیسے متاثرہ کو ڈسچارج سلپ دی گئی۔ ڈاکٹروں کی لاپروائی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اب معاملہ کورٹ میں ہے، وہ کچھ نہیں بولیںگے۔ کورٹ کو ہی جواب دیںگے۔ریمس میں دوسری بار ایڈمٹ ہونے کے بعد متاثرہ کا علاج کر رہے ڈاکٹر انل کمار نے بتایا کہ لاتیہار ضلع ہاسپٹل میں بھرتی رہنے کے دوران متاثرہ کے سینے میں انفیکشن ہو چکا تھا۔ برین میں خون سرکُلیشن رک رک کر ہو رہا تھا، انیمیا جیسی کئی بیماریوں نے جکڑ لیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کو ملٹی پل فریکچر اور ہیڈ انجری بھی تھی۔
لاتیہار ایس پی پرشانت آنند کی رپورٹ کے مطابق خاتون کی ناک، داہنی آنکھ، نچلے ہونٹ، بائیں کان میں زخم تھا۔ ریپ کے دوران متاثرہ کے منھ میں جو کپڑا ٹھوسا گیا، وہ اس کے گلے میں پھنس گیا۔ اس وجہ سے ان کے گلے کا بھی آپریشن کیا گیا تھا۔
مرنے سے سات دن پہلے ملا دو لاکھ، علاج میں خرچ ہو چکے ہیں 4.5 لاکھ
متاثرہ کے شوہر گجرات میں دس ہزار مہینے کی تنخواہ پر فوکلین چلانے کا کام کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا،’علاج میں اب تک 4.5 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں، اس میں چار لاکھ قرض لینے پڑے ہیں۔ ایک ایکڑ زمین گروی رکھی ہے۔ ‘سرکاری ہاسپٹل میں علاج کرانے کے باوجود اتنا پیسہ لگ گیا، اس کے جواب میں انہوں نے بتایا،’دس دن پہلے آیوشمان بھارت یوجناکا کارڈ بنا ہے۔ اتنی مہنگی دوائی ملتی ہے کہ کیا کریں۔ پھر کھانے میں بھی ہر دن پیسہ خرچ ہوتا رہا۔ ‘ہائی کورٹ کی پھٹکارکے بعد فلاح و بہبودمحکمہ کی طرف سے لاتیہار ضلع انتظامیہ نے متاثرہ کے شوہر کے بینک کھاتے میں دو لاکھ روپے ان کی موت سے سات دن پہلے جمع کرائے تھے۔لاتیہار سول کورٹ کے وکیل سنیل پرساد کے مطابق، متاثرہ کے شوہر کو اب کتنا پیسہ ملےگا، بچوں کو کیا ملےگا، یہ سماعت کے دوران کورٹ طے کرےگی۔ معاملے میں ابھی تک چارج شیٹ بھی نہیں داخل کی گئی ہے۔ ایسے میں وقت لگنا طے ہے۔
مدد پانے کی کٹھن ڈگر
جھارکھنڈ پولیس کی ویب سائٹ کے مطابق اس بیچ جھارکھنڈ کے تمام 24 ضلعوں میں سال 2011 سے لےکر 2018 تک ریپ کے کل 8466 معاملے درج کئے گئے۔ وہیں اس سال جنوری سے فروری تک 226 معاملے درج کئے گئے۔
جھارکھنڈ لیگل سروسیز اتھارٹی ریاست بھر میں لوگوں کو قانونی مدد پہنچاتی ہے۔ مدد کے لئے ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ لیگل سروسز اتھارٹی کام کرتی ہے۔ اس واقعہ سے متعلق خبر لگاتار چھپنے کے بعد بھی لاتیہار اتھارٹی کی نظر تب تک اس پر نہیں پڑی جب تک کہ متاثرہ کے شوہر نے ہائی کورٹ کو خط لکھکر اپنی تکلیف نہیں سنائی۔ ہائی کورٹ میں یہ معاملہ واقعہ کے چار مہینے بعد پہنچا تھا۔نربھیا فنڈ کے تحت بنے ون اسٹاپ کرائسس سینٹر کی تشکیل جھارکھنڈ میں بھی کی گئی ہے۔ جس کے تحت متاثرہ کو ہر طرح کی لیگل، ہیلتھ، کھانےرہنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سینٹر شاید ہی کسی متاثرہ کے پاس خود پہنچتا ہو۔ جھارکھنڈ میں اب تک 24 میں 18 ضلعوں میں ہی ون اسٹاپ کرائسس سینٹر بنایا گیا ہے۔ لاتیہار میں وہ بھی نہیں ہے۔
مقدمہ واپس لینے کا دباؤ
ریپ کے ملزمین میں سے ایک مکیش ٹھاکر پاس کے گاؤں ڈاٹم کا رہنے والا ہے۔ وہیں دوسرا ملزم سنیل اراؤں اور آرسی اراؤں دونوں لوٹی کے ہی رہنے والے ہیں۔ اب دونوں گاؤں کے لوگ آدیواسی خاتون کی فیملی پر مقدمہ واپس لینے کا دباؤ بنا رہے ہیں۔متاثرہ کے بیٹے کے مطابق اس کے لئے دو بار میٹنگ کر اس کے چچا کو بلایا گیا تھا۔ انہوں نے ایسا کرنے سے منع کر دیا، حالانکہ اس کے بعد بھی فیملی پر مقدمہ واپس لینے کا دباؤ بنایا جا رہا ہے۔ایس پی پرشانت آنند نے بتایا کہ تمام تین ملزمین کو جیل بھیجا دیا گیا ہے۔ فورینسک تفتیش رپورٹ آتے ہی سب کے خلاف چارج شیٹ داخل کی جائےگی۔ اگر کسی نے متاثرہ کے رشتہ داروں پر مقدمہ واپس لینے کا دباؤ بنایا تو اس کے خلاف بھی کارروائی کریںگے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)