جھارکھنڈ اسمبلی میں پیش کی گئی سال 2021-22 کی سی اے جی کی آڈٹ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ مشرقی سنگھ بھوم، گوڈا پوٹکا، گھاٹ شیلا، پوڑیاہاٹ اور گوڈا صدر کے 16 مردوں کو اندرا گاندھی نیشنل بیوہ پنشن اسکیم اور ریاستی بیوہ سمان پروتساہن یوجنا کے تحت بیوہ پنشن کے طور پر 9.54 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی۔
نئی دہلی: جھارکھنڈ میں سرکاری اسکیموں کے نفاذ میں کئی بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔
دی ہندو نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان بے ضابطگیوں کا انکشاف اس وقت ہوا جب مالی سال 2021-2022 کے لیے کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کی رپورٹ جمعرات کو اسمبلی اجلاس کے آخری دن پیش کی گئی۔
رپورٹ میں ریاستی حکومت کی جانب سےمردوں کو بیوہ پنشن دینے کی بات سامنے آئی ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ متعدد طالبعلموں کو ایک سے زائد اسکالرشپ دی گئی، ایسا اس کے باوجود ہوا کہ وہ صرف ایک اسکالرشپ کے حقدار تھے۔ سی اے جی کی رپورٹ میں ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (ڈی بی ٹی) اسکیموں میں سوشل آڈٹ اور نگرانی کا فقدان پایا گیا، جس کی وجہ سے فرضی طلبا کو وظائف دیے گئے۔
آڈٹ کے دوران پایا گیا کہ مشرقی سنگھ بھوم، گوڈا پوٹکا، گھاٹ شیلا، پوڑیایاٹ اور گوڈا صدر کے 16 مردوں کو اندرا گاندھی نیشنل بیوہ پنشن اسکیم اور ریاستی بیوہ سمان پروتشاہن یوجنا کے تحت بیوہ پنشن کے طور پر 9.54 لاکھ روپے ادا کیے گئے۔
آڈٹ میں پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپ میں بھی بے ضابطگیاں پائی گئیں، جس میں چترا، مشرقی سنگھ بھوم، گوڈا اور رانچی میں فرضی طالبعلموں کو 1.17 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کو دیے جانے والے اسکالر شپ کے تحت فرضی طالبعلموں کو 9.99 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔
درج فہرست ذات (ایس سی)، درج فہرست قبائل (ایس ٹی) اور پسماندہ طبقات (او بی سی) کو دیے جانے والے وظائف میں بھی بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانچ اضلاع میں 81 فرضی طالبعلموں کو 5.21 لاکھ روپے دیے گئے، جن میں چترا، گوڈا، پلامو، رانچی اور مشرقی سنگھ بھوم اضلاع شامل ہیں۔
آڈٹ کے دوران پنشن کی تاخیر سے ادائیگی کے معاملے بھی سامنے آئے۔ تقریباً 39 فیصد درخواست گزاروں کو پنشن حاصل کرنے میں دو سال سے زیادہ کی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔
وہیں، جھارکھنڈ حکومت نے 31 مارچ 2022 تک 103459.14 کروڑ روپے کے اخراجات کا سرٹیفکیٹ بھی نہیں دیا ہے۔ مالی سال 2021-2022 سے متعلق سی اے جی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے 91277 کروڑ روپے کا بجٹ تخمینہ لگایا تھا، لیکن ریونیو کی وصولیاں 17659 کروڑ روپے ہیں، جو تخمینہ سے بہت کم ہیں۔
رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ریاستی حکومت کو مرکزی امداد کے طور پر 69722 کروڑ روپے ملے تھے، تاہم پایا گیاکہ اس ریونیو کا 40 فیصد تنخواہوں، الاؤنسز، پنشن اور ترقیاتی اسکیموں کے لیے لیے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ کیا گیا تھا۔
مالی سال 2021-22 میں ریاستی حکومت نے تنخواہ کے الاؤنسز پر 13979 کروڑ روپے، پنشن کی ادائیگی پر 7614 کروڑ روپے اور سود کی ادائیگی پر 6286 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ مالی سال 2020-2021 کے مقابلے 2021-2022 میں حکومت کے محصولاتی خسارے میں اضافہ ہوا۔
سال 2020-2021 میں حکومت کا ریونیو خسارہ 3114 کروڑ روپے تھا اور 2021-2022 میں یہ بڑھ کر 6944 کروڑ روپے ہو گیا۔ مالی سال 2021-2022 کے اختتام پر، حکومت پر کل قرض اور دین داری کا بوجھ بڑھ کر 109184.98 کروڑ روپے ہو گیا۔ ریاستی حکومت نے اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے 6.87 فیصد اور 7.35 فیصد کی شرح سود پر 5000 کروڑ روپے کا قرض لیا۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ ریاستی حکومت نے 10000 کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت والے بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹوں کو مقررہ مدت کے اندر مکمل نہیں کیا ہے۔ اس میں 3344.75 کروڑ روپے لاگت کی سڑک کی تعمیرات بھی شامل ہے۔