اگر موجودہ حالات و کوائف پرنظر ڈالی جائے تو اس بات کا خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں 47 کے واقعہ کو پھر سے دہرایا جا سکتا ہے، جیسا کہ سابق کابینہ وزیر چودھری لا ل سنگھ نے ایک مسلم وفد کو 47یاد کرنے کا مشور ہ دیا تھا۔
فوٹو بہ شکریہ: Rayan Naqash/Scroll
ویسے تو خطہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں تمام مہینے کچھ نہ کچھ خونچکاں یادیں لےکر وارد ہوجاتے ہیں، مگر 73 سال قبل اکتوبر کا مہینہ تو بدقسمتی کا ایک ایسا تازیانہ لےکرآیا کہ اس سے چھٹکارے کی دور دور تک امید نظر نہیں آرہی ہے۔ برصغیر میں جب دو مملکتیں ہندوستان اور پاکستان وجود میں آکر آزاد فضاؤں میں سانسیں لینے کا آغاز کر رہی تھیں، امید تھی کی صدیوں سے غلامی اور مظالم کی چکی میں پسنے کے بعد اس خطہ کے باسیوں کو بھی راحت ملے گی، مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
کچھ اپنے لیڈروں کے خود غرض اور ناعاقبت اندیش فیصلوں، اور کچھ قوم کی نادانی اور ان بے لگام اور احتساب سے مبرا لیڈروں کے پیچھے پالتو جانوروں کی طرح چلنے کی روش نے کشمیری قوم پر آزمائش اور ابتلا کا ایک ایسا دور شروع کیا، جو اب ایک بدترین مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔
جب ہندوستان اور پاکستان صبح آزادی کا جشن منانے میں مصروف تھیں، اس وقت جموں خطے میں دنیا کی بدترین نسل کشی ہو رہی تھی۔کئی بر س قبل جب دہلی میں ایک پروگرام کے دوران میں نے دی ٹائمز لندن کی10اگست 1948کی ایک رپورٹ کا حوالہ دےکر بتایا کہ اس نسل کشی میں دو لاکھ37ہزار افراد کو ہلاک کردیاگیا تھا، تو سب کا یہی سوال تھا کہ اتنا بڑا قتل عام آخر تاریخ اور عام معلومات سے کیسے یکسر غائب ہے؟ کشمیر کے ایک سابق بیوروکریٹ خالد بشیر کی تحقیق کا حوالہ دےکر ٹائمز آف انڈیا کے کالم نویس سوامی انکلیشور ائیر اور معروف صحافی سعید نقوی نے بھی جب جموں قتل عام کو کالم کا موضوع بنایا، تو کئی تحقیقی اداروں میں تہلکہ مچ گیا۔
مگر جلد ہی اس پر مباحثہ کو دبادیا گیا۔ جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی دبیز تہہ جم چکی ہےکہ کوئی یقین ہی نہیں کر پارہا ہے۔اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1941 میں جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی32 لاکھ اور ہندوؤں کی آٹھ لاکھ تھی۔
وادی کشمیر میں93 فیصد جب کہ جمو ں میں 69فیصد مسلم آبادی تھی۔ اگر ان علاقوں کو جو تقسیم کے بعد لائن آف کنٹرول کے دوسری طرف چلے گئےکو چھوڑ دیا جائے تو موجودہ جموں و کشمیر میں مسلم آبادی 77.1فیصد تھی۔1961کی مردم شماری میں مسلم آبادی گھٹ کر 68.29فیصد رہ گئی تھی۔ جموں خطے میں مسلمانوں کی اکثر یتی شناخت کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کیا گیا۔2011کی مردم شماری کےمطابق اس خطے میں مسلم آبادی کا تناسب33.45فیصد ہے۔
جموں وکشمیر کی جدید صحافت اور موخر انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے بانی آنجہانی وید بھسین1947کے واقعات اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے وہ چشم دید گواہ تھے۔بقول ان کے ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ نے اس علاقہ میں باضابطہ ٹریننگ کیمپ کھولے تھے، جن میں نہ صرف ہتھیاروں کی مشق کرائی جاتی تھی، بلکہ مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی بھی کی جاتی تھی۔ وہ کہتے تھے؛
اور ہندو ساتھیوں کی دیکھا دیکھی میں بھی ٹریننگ کیمپ میں چلا گیا، مگر جلد ہی سڑکوں پر کشت و خون سے دلبرداشتہ ہو گیا۔ اس کو روکنے کے لیے، میں، بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ مہاراجہ کے محل پہنچا۔ ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ وہ الٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناطے، ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوں کا مطالبہ کرنا چاہیےکیونکہ اب جمہوری دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے، اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛بالکل اس طرح۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور و کفن لاشیں نظر آئیں، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے۔
بقول وید جی، مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر مصر تھا۔جب میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی ایما پر ایڈمنسٹریشن کی لگام شیخ محمد عبداللہ کے ہاتھوں میں دی گئی تھی، انہوں نے اس قتل عام کو روکنے کی کوشش آخر کیوں نہیں کی؟ تو وید جی نے کہا ؛
ہم نے کئی بار ان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔ میں خود بھی نیشنل کانفرنس میں شامل تھا‘مگر وہ ان سنی کرتے رہے۔ یا تو وہ معذور تھے، یا جان بوجھ کر جموں کے معاملات سے الگ رہنا چاہتے تھے۔ بعد میں بھی کئی بار میں نے شیخ صاحب کو کریدنے کی کوشش کی، مگر یہ ذکر چھیڑتے ہی وہ لب سی لیتے تھے یا کہتے تھے کہ جموں کے مسلمانوں نے ان کوکبھی لیڈر تسلیم ہی نہیں کیا تھا۔
ان کو شکوہ تھا کہ کشمیری مسلمانوں کے برعکس 1938میں جب انہوں نے مسلم کانفرنس سے کنارہ کرکے نیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی، تو جموں کے مسلمانوں نے ان کے مقابلے چودھری غلام عباس کا دامن تھامے رکھا۔ محقق خالد بشیر کا کہنا ہے کہ مسلم کش فسادات کا سلسلہ کشمیر میں قبائلیوں کے داخل ہونے سے قبل ہی شروع کردیا گیا تھا۔ اس لیےمتعصب مؤرخین اور تاریخ سے نابلد اور نا عاقبت اندیش صحافیوں کا یہ کہنا کہ وادی میں قبائلیوں کے حملے کے ردعمل میں جموں میں فسادات ہوئے‘درست نہیں ہے‘کیونکہ واقعات ان کی نفی کرتے ہیں۔
اس خطے پر اب ایسی نئی افتاد آن پڑی ہےکہ فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں یہ33فیصد مسلم آبادی بھی بر ی طرح کھٹک رہی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ جموں خطے کے مسلم اکثریتی پیر پنچا ل اور چناب ویلی کے علاقوں سے مسلمان آکر جموں شہر اور اس کے آس پاس زمینیں خرید کر بس جاتے ہیں۔ اور اس کو ‘لینڈ جہاد’کا نام دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے جموں شہر اور اس کے آس پاس آباد ی کا تناسب بگڑ رہا ہے۔ کیا پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، بھدرواہ کے اضلاع جموں خطے کا حصہ نہیں ہیں؟
اگر ان دور دراز علاقوں سے تعلیم اور معاش کے لیے لوگ اس خطے کے واحد بڑے شہر جموں وارد ہوجاتے ہیں، تو اس سے آبادی کا تناسب کیسے بگڑ سکتا ہے؟ دوسال قبل ایک مہم کے تحت جموں میں مسلمان گوجروں اور بکر والوں کی بستیوں کو ٹھنڈی، سنجواں، چھنی،گول گجرال، سدھرا، ریکا، گروڑا اور اس کے گرد و نواح سے ہٹایا گیا۔ یہ زمینیں مہاراجہ ہری سنگھ کے حکم نامہ کے تحت 1930میں ان لوگوں کو دی گئی تھیں۔ دراصل جموں کا پورا نیا شہر ہی جنگلاتی اراضی پر قائم ہے اور صرف مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنانے کا مطلب مسلمانوں کو اس خطے سے بے دخل کرنا تھا، جہاں وہ پچھلے 70برسوں سے حاشیہ پر چلے گئے ہیں۔
اب حال میں الزام لگایا جا رہا ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے جموں و کشمیر روشنی ایکٹ کے تحت زمینوں کے وسیع و عریض قطعے مسلمانوں کے حوالے کیے جارہے ہیں۔ اور اس سلسلے میں بے لگام ہندوستانی ٹی وی چینلوں نے بھی بغیر کسی ثبوت و ڈاکیومنٹ کے طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا ہے۔
برسوں کی عدالتی غلام گرد شوں سے تنگ آکر2001 میں حکومت نے روشنی ایکٹ کو اسمبلی میں پاس کروایا، جس کی رو سے 20لاکھ کنال کی حکومتی زمین پر قابضین کے مالکانہ حقوق کو معاوضہ کے عوض تسلیم کیا گیا تھا، بشرطیکہ وہ اس زمین پر 1990سے قبل رہ رہے ہوں۔ اس سے حکومت کو 250بلین روپے کی رقم کمانے کی امید تھی۔2005میں وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے 1990سے بڑھا کر 2005بعد میں غلام نبی آزاد نے 2007کردیا۔ معلوم ہوا چونکہ اس کا فائدہ سیاستدانوں اور نوکر شاہی نے ا ٹھایا، اس لیے حکومت 70کروڑ روپے کی رقم کی اکٹھا کر پائی۔
معروف صحافی مزمل جلیل نے ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس قانون کی رو سے جموں میں44912زمین تقسیم ہوئی تھی، جس میں محض 1180کنال زمین یعنی 2.63 فیصد ہی مسلمانوں کے حصے میں آئی۔ مسلمانوں کو زمینوں کے مالکانہ حقوق دینا دور کی بات ان کی وقف زمینوں پر بے جا قبضہ کیے گئے ہیں۔ چند برس قبل جلیل نے جب وقف زمینوں کو ہتھیانے پر تحقیق شروع کی تو معلوم ہوا کہ نہ صرف فرقہ پرست بلکہ حکومت کے مقتدر حلقے خود اس خرد برد میں ملوث تھے۔
اس خطے میں 3144کنال وقف زمین غیر قانونی قبضہ میں ہے، جس میں کئی قبرستان، رنبیر سنگھ پورہ کی جامع مسجد، چاند نگر کی زیارت وغیرہ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مڑ تحصیل میں وقف کونسل کی 460کنال کی زمین ہے، جس کو محکمہ تعلیم نے ہتھیایا ہے اور مسجد کو گوردوارے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مقامی افراد نے بقیہ زمیں پر آبادی کھڑی کر دی ہے۔ چاند نگر میں پیر بابا کی زیارت کے احاطہ پر سبھاش نامی ایک شخص نے قبضہ کیا ہے۔تحصیل سانبہ کے تھلوری گجران میں 49کنال قبرستان پر ایک مندر اور اسکول بنایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ 65کنال زمین پر پولیس نے اپنا ٹریننگ اسکول تعمیر کیا ہے۔ ریہاری کی 49کنال قبرستان کی زمین پر فوج کا قبضہ ہے۔ وقف کونسل کی طرف سے بار بار نوٹس دینے کے باوجود فوج اس کو خالی نہیں کر رہی ہے۔ اس قبرستان کا ایک قطعہ حکومت نے ایک بیوہ ایودھیا کماری کو عطیہ کردیاہے۔ وقف کونسل کی اجازت کے بغیر ہی60کنال کی زمین پولیس کو دی گئی ہے۔جموں میونسپل کارپوریشن نے قبرستان کے ایک حصے پر بیت الخلا تعمیر کروائے ہیں۔
تحصیل سانبہ کے لیکی منڈا علاقہ میں وقف کی98کنال زمین ضلع سینک بورڈ کے حوالے کی گئی ہے۔ چنور گاؤں میں20کنال زمین بھی پولیس کے تصرف میں ہے۔تحصیل اکھنور کے مہر جاگیر 65کنال قبرستان پر مقامی افراد نے مکانات تعمیر کیےہیں۔ اسی طرح پیر گجر میں بھی پولیس نے وقف کی37کنال زمین ہتھیا لی ہے۔
اگر موجودہ حالات و کوائف پرنظر ڈالی جائے تو اس بات کا خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں 47 کے واقعہ کو پھر سے دہرایا جا سکتا ہے، جیسا کہ سابق کابینہ وزیر چودھری لا ل سنگھ نے ایک مسلم وفد کو 47یاد کرنے کا مشور ہ دیا تھا۔ اس سلسلے میں ہندوستان میں مسلم قائدین سے بھی گزارش ہے کہ کچھ ملی حمیت کا ثبوت دےکر عمل سے نہ سہی، کچھ زبانی ہی جموں کے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کریں۔
اگر لال سنگھ یا اس طرح کے افراد اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہیں، تو خون ان کی گردنوں پر بھی ہوگا۔ وزیر اعظم نریند ر مودی کی حکومت،جو مہاتما گاندھی کی تعلیمات کو استعمال کرکے ہندوستان کو دنیا بھر میں ایک اعتدال اور امن پسند ملک کے طور پر اجاگر کروانے کی کوشش کرتی ہے، کو اسی گاندھی کے ہی ایک قول کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں۔ ‘ہندوستان اگر رقبے میں چھوٹا ہو لیکن اس کی روح پاکیزہ ہو تو یہ انصاف اور عدم تشدد کا گہوراہ بن سکتا ہے۔یہاں کے بہادر لوگ ظلم و ستم سے بھری دنیا کی اخلاقی قیادت کرسکتے ہیں۔لیکن صرف فوجی طاقت کے استعمال سے توسیع شدہ ہندوستان مغرب کی عسکری ریاستوں کا تیسرے درجے کا چربہ ہوگا، جو اخلاق اور آتما سے محروم رہے گا۔اگر ہندوستان جموں و کشمیر کے عوام کو راضی نہیں رکھ سکا تو ساری دنیا میں اسکی شبیہ مسخ ہو کر رہ جائے گی۔’
بقول شیخ عبداللہ،گاندھی کہتے تھے، کہ کشمیر کی مثال ایسی ہے، جیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتے ہوئے انگارے کی۔ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارے کا سار ا برصغیر اس کی آگ کے شعلوں میں لپیٹ جائے گا۔’مگر گاندھی کے نام لیوا تو اس کی تعلیمات کب کی بھول چکے ہیں، اور اس کا استعمال تو اب صرف سفارتی ڈگڈگی بجا کر دنیا کے سامنے جمورے کا کھیل رچانے کے لیےکیا جاتا ہے۔