جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35اے ہٹانے اور ریاست کو دو یونین ٹریٹری ریاستوں میں بانٹنے کی مخالفت میں مظاہرہ کر رہیں ان خواتین کو سی آر پی سی کی دفعہ 107 کے تحت حراست میں لےکر سرینگر سینٹرل جیل میں رکھا گیا ہے۔
پولیس حراست میں فاروق عبداللہ کی بہن ثریا عبداللہ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: پولیس نے منگل کو سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کی بیٹی اور بہن سمیت تیرہ خواتین کو گرفتار کر لیا۔ یہ خواتین جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کے زیادہ تر اہتمام ہٹائے جانے اور ریاست کو دو یونین ٹریٹری ریاستوں میں بانٹنے کی مخالفت میں مظاہرہ کر رہی تھیں۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، گرفتار کی گئی سماجی کارکنوں اور سول سوسائٹی سے جڑی ان خواتین کو سی آر پی سی کی دفعہ 107 کے تحت حراست میں لےکر سرینگر سینٹرل جیل میں رکھا گیا ہے۔
ان خواتین میں سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن ثریا، ان کی بیٹی صفیہ، دہلی کی کارکن سشوبھا بھاروے، جموں و کشمیر کے سابق چیف جسٹس بشیر احمد خان کی بیوی، کشمیر یونیورسٹی کی میڈیا کنوینر مسلم جان اور سماجی کارکن قرۃ العین شامل ہیں۔ سرینگر کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (سابق) داؤد احمد نے کہا، ‘ ہم نے انہیں پریوینٹو کسٹڈی میں لیا ہے۔ ‘
اس سے پہلے منگل کی صبح خواتین کا یہ گروپ سرینگر کے پرتاپ پارک میں اکٹھا ہوا تھا، جہاں جموں و کشمیر پولیس پہنچی اور ان کو پارک سے نکال دیا۔ اس کے بعد جیسے ہی خواتین نے نعرے لکھی تختیاں دکھائیں، سی آر پی ایف کی خاتون اہلکاروں نے ان کو پولیس گاڑیوں میں بیٹھانا شروع کر دیا۔ کوٹھی باغ تھانہ میں کئی گھنٹوں کی حراست کے بعد خواتین کو گرفتار کر کےسینٹرل جیل بھیج دیا گیا۔
پولیس کے ذریعے حراست میں لئے جانے سے پہلے جموں و کشمیر کے سابق چیف جسٹس بشیر احمد خان کی بیوی نے کہا، ‘ ہم یہاں پر امن مظاہرےکے لئے آئے تھے۔ حکومت کہتی ہے کہ خصوصی درجہ ہٹنے پر کشمیری خوش ہیں۔ ہم یہاں یہی کہنے آئے ہیں کہ ہم خوش نہیں ہیں۔ ہم جب یہاں اکٹھے ہو رہے تھے، تبھی انہوں نے اس پبلک پارک کے تمام دروازے بند کر دئے۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟ ‘
خواتین کے ذریعے مظاہرہ میں لائی گئی تختیوں پر ‘ کشمیری دلہنیں بکاؤ نہیں ہیں، حراست میں لئے گئے لوگوں کو رہا کرو، بنیادی حقوق کا احترام کرو’ جیسے نعرے لکھے تھے، جن کو خواتین سے پارک پہنچنے پر پولیس نے چھین لیا۔ تھانے میں 13 خواتین کے خلاف دفعہ 107 کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔ خواتین کو جیل بھیجنے سے پہلے ریناواڑی کے جے ایل این ایم ہاسپٹل میں ان کی میڈیکل جانچ بھی کروائی گئی تھی۔
گرفتاری کے وقت دیے بیان کے مطابق، خواتین نے کہا کہ وہ ‘ مختلف علاقوں سے آنے والی خواتین ہیں اور حکومت ہند کے آرٹیکل 370 اور 35 اے ہٹانے اور جموں و کشمیر کا درجہ گھٹاکر اس کو بانٹنے کے فیصلے کو نامنظور کرتی ہیں۔ ‘ بیان میں شہری آزادی اور بنیادی حقوق کی بحالی کی مانگ کرتے ہوئے خواتین نے کہا کہ ان کو مرکزی حکومت کی طرف سے دھوکہ اور توہین ملی ہے۔
انہوں نے حراست میں لئے گئے لوگوں کو فوراً رہا کرنے اور دیہی اور شہری علاقوں سےفوجیں ہٹانے کی بھی مانگ کی۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے، ‘ ہم کشمیر میں جھوٹی اور گمراہ کرنے والی تشہیر کے لئے نیشنل میڈیا کے خلاف اپنے غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔ ‘ نیشنل کانفرنس نے پارٹی چیف کی بہن اور بیٹی کو حراست میں لئے جانے کی تنقید کی ہے۔ انہوں نے ان اقدام کو غیر معمولی اور عوام کے احتجاج کرنے کے حق کے خلاف بتایا۔
انہوں نے رہنماؤں اور عام لوگوں کے لگاتار حراست میں رہنے پر غم کا اظہار کیا اور کہا کہ اب حالات اتنے خراب ہو چکے ہے کہ پبلک لائف گزارنے والوں کے رشتہ داروں پر بھی خطرہ ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)