پچھلے تین سالوں میں کشمیر میں حکومتی اور میڈیا سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 837 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب میں 172 سیکورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ ان میں سے اکثر افراد کو لائن آف کنٹرول کے پاس ورثاکی موجودگی اور آخری رسومات کے بغیر ہی پولیس نے خود ہی نامعلوم قبروں میں دفن کر دیا ہے۔
کوئی شقی القلب انسا ن ہی حیدر پورہ سری نگر میں حال ہی میں ہوئے ‘جعلی مقابلے’کے دوران ہلاک شدہ محمد الطاف بٹ اور ڈاکٹر مدثر گل کے لواحقین اور ان کی کم سن بچیوں کی فریادیں سن کر خون کے آنسو نہ رویا ہوگا۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وہ انصاف یا خاطیوں کو سزا دینے کی مانگ کرنے کے بجائے الطا ف اور مدثر کی لاشوں کی تدفین اور نماز جنازہ ادا کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
عوامی دباؤ کی وجہ سے بعد میں ان کی لاشیں ورثا کے سپرد تو کی گئیں، مگر پولیس کی نگرانی میں بس چند لوگوں کی معیت میں رات کے اندھیرے میں تدفین کی اجازت دی گئی۔جموں خطے کے رام بن ضلع کا مزدر عامر ماگرے، بھی اس مقابلے میں ہلاک ہوا۔ اس کی لاش ابھی تک ورثا کے سپر د نہیں کی گئی ہے۔
اس کے والد کو خود ہندوستانی فوج نے 2004 میں حب الوطنی کی سند عطا کی تھی، کیونکہ اس نے پتھر سے ایک عسکریت پسند کو مبینہ طور پر ہلاک کردیا تھا۔گو کہ کشمیر میں اس طرح کی ہلاکتیں نئی چیز نہیں ہیں، مگر 2019کے بعدلاشوں کو ورثا کو سپرد کرنے کے بجائے کئی سو کیلومیٹر دور نامعلوم قبروں میں دفن کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
پچھلے تین سالوں میں کشمیر میں حکومتی اور میڈیا سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 837افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب میں 172سیکورٹی فوسز کے اہلکار تھے۔ ان میں سے اکثر افراد کو لائن آف کنٹرول کے پاس ورثاکی موجودگی اور آخری رسومات کے بغیر ہی پولیس نے خود ہی نامعلوم قبروں میں دفن کر دیا ہے۔
جموں وکشمیر کے طول وعرض میں گزشتہ 30 برسوں کے دوران ایسے لاتعداد المناک واقعات رونما ہوئے ہیں جنہیں ضبط تحریر میں لانے سے خوف کی آندھیوں کا سامناکرناپڑتاہے۔دنیا کے دیگر تنازعات کو کور کرتے ہوئے اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ ان کے مقابلے، کشمیر میں ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی پامالی بہت کم رپورٹ ہوئی ہے۔ ایسے علاقے بھی ہیں، جہاں میڈیا کی رسائی ہی نہیں ہوسکی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ 90 کی دہائیوں میں ہندواڑہ کے لنگیٹ علاقے میں جنگلوں سے ایندھن کے لیے لکڑیا ں لانے والے گھوڑا گاڑی والوں کے لیے لازم ہوتا تھا لکڑیوں کا ایک حصہ راستے میں دو ملٹری کیمپوں میں جمع کرائیں۔یہ سلسلہ ایسے ہی برسوں چلتارہا۔ پھر ایک دن 1997میں منزپورہ کا غلام احمد وانی، جو مقامی ممبر اسمبلی عبدالاحد کار کا رشتہ دار تھا، نے کچھ کم ہی مقدار میں لکڑیاں جمع کروائیں۔
اس پر سنتری کے ساتھ توں توں میں میں ہوگئی۔ چونکہ 1996 میں اسمبلی انتخابات کے بعد فاروق عبداللہ کی قیادت میں نام نہاد عوامی حکومت قائم ہوئی تھی، اس لیے وانی، ممبر اسمبلی کے ساتھ اپنی رشتہ داری کو طاقت سمجھنے کی حماقت کر بیٹھا تھا۔ چند گز دور اسکول کے بچے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔
بس پھر کیا تھا سنتری نے بنکر سے باہر نکل کر اپنی بندوق گاڑی بان کے سینے کی طرف موڑکر گولی چلائی اور وانی کے سینے سے گرم گرم خون کے فوارے سڑک کو لال کرگئے۔ گھوڑا فائرنگ کی آواز سن کر بھاگنے کے بجائے اپنے مالک کی لاش کے گرد محافظ کی طرح کھڑا ہوگیا۔
اس گھوڑے کی وفاداری کو آج بھی اس علاقے میں لوگ یاد کرتے ہیں۔ اسی علاقے میں شاہ نگری نامی گاؤں میں حزب المجاہدین کا ایک عسکری غلام حسن کمارکا گھر تھا۔ اس کی بوڑھی ماں اوربیوی کا جیناسپاہیوں نے دوبھر کر دیا تھا۔اس بدنصیب ساس اور بہو نے علاقے سے ہجرت کی ہوتی لیکن ان کے پاس نہ کوئی وسائل تھے اور نہ ہی گھر میں کوئی مرد موجودتھا۔
غلام حسن کا دوسرا بھائی محمدیوسف کمار بھی فوج کے ہاتھوں کافی سختیاں اٹھانے کے بعد جیل میں تھا،جبکہ غلام حسن کی دس برس کی اکلوتی بیٹی آنکھوں کی مہلک بیماری کا شکار تھی۔ غلام حسن کی بیوی جانہ بیگم کاپاؤں بھاری تھا۔ پھر ایک رات لگ بھگ نو بجے اخوانیوں(سرکاری بندوق برداروں)کی ایک ٹولی نے ان کے گھر پر دستک دی۔ جیسے ہی جانہ بیگم دروازہ سے باہر نکلی تو بندوق برداروں نے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ جسم میں اتنی زیادہ گولیاں پیوست کی گئیں کہ اس کے بطن میں پلنے والے بچے کی ٹانگ، بازو اور جسم کے ٹکڑے ہوکر باہر بکھر گئے۔
اگلے دن جب جانہ بیگم اور اس کے بچے کا جنازہ اٹھا تو کسی کو رونے کی اجازت نہیں تھی۔ بدنصیب اندھی بیٹی نے اپنی ماں کی قبر پر ننھے معصوم ہاتھوں سے کچھ مٹی بھی ڈال دی۔ بوڑھی ساس اور پوتی نے آخری بار قبر اور اس کے ساتھ اپنے اجڑے ہوئے گھر کی طرف دیکھا اور پھر ان دونوں کے قدم کسی نامعلوم منزل کی جانب چل دیے۔ سارا گاؤں بڑھیا اور اس کی پوتی کو الوداع کہہ رہا تھا لیکن کسی میں بھی ان کو روکنے یا ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی ہمت نہ تھی، کیونکہ یہ موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔
اس کے آدھے گھنٹے کے بعد دیہاتیوں کو حکم ملا کہ پورا مکان گرا دیا جائے اور اس کی ساری لکڑی اپنے کاندھوں پر لاد کر د چار کیلومیٹر دورقلم آباد کے ملٹری کیمپ میں جمع کرائیں۔ اسی طرح 70برس کے سیرعلاقہ کے نمبردار شمس الدین کو کیمپ میں بلا کر بتا یا گیا کہ اس کے گاؤں میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور اس کی ساری ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔
ابھی وہ اپنی صفائی دینے کے لئے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ میجر صاحب نے انہیں پاس ہی کیچڑ کے گڑھے میں کھڑا ہونے کو کہا۔ سپا ہیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ کیچڑ نمبردار صاحب کے چہرے اور کپڑوں پر مار دیں۔ علاقے کی اس ذی عزت شخصیت کو بتایا گیا کہ وہ بھر ے بازار سے ہوتے ہوئے ایسے ہی گھر جائے۔ اس واقعے کا ان پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ بیمار پڑ گئے اور پھر کچھ عرصے کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
بدقسمتی سے ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں میں چاہے کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)، دونوں کا رویہ کشمیریوں کے ساتھ یکساں رہا ہے۔ مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے بجائے وہ کشمیر کو منیج کرنے کی پالیسی پر گامزن رہی ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ بی جے پی نے مخملی دستانے اتار کر پھینک دیے ہیں۔ کانگریس حکومت مرنے مارنے کے بعد لفظی جمع خرچ سے مرہم لگانے کا کام کرتی تھی۔
معروف اسٹریجک جریدہ”فورس“میں غزالہ وہاب نے حال ہی میں کشمیر کا دورہ کرنے کے بعد تحریر کیا ہے کہ پورا خطہ بے بسی اور بے کسی کی تصویر ظاہر کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر ایک بڑی اوپن جیل بن چکی ہے، جہاں کے مکینوں کو لگتا ہے کہ وہ قید ہیں۔
حکومت کی پالیسی ہے کہ آؤٹ ریچ کے بجائے عوام کے دلوں میں خوف و دہشت کی فضا قائم کی جائے۔ اس کی مثال حال ہی میں ٹی-20ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت کے بعد آگرہ کے تاریخی شہر میں انجیئنرنگ کالج کے کشمیری طلبہ پر غداری کا مقدمہ درج کرنا ور سری نگر میں میڈیکل کالج کے طلبہ پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت کیس رجسٹر کرنا ہے۔ آگرہ کی بار ایسوسی ایشن نے ان طلبا کو قانونی نمائندگی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یعنی ان کا کہنا ہے کہ طلبہ کا جرم دہشت گردی سے کم نہیں ہے۔ ادھر جنوب میں کرناٹک میں کانگریس کی طلبہ تنظیم نے کشمیری طلبہ کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔اسی طرح اب کشمیر میں سرکاری ملازمین کو بیک جنبش قلم برطرف کرکے بے روزگارکرنے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ان سے کوئی وضاحت بھی طلب نہیں کی جاتی ہے۔ بس اتنا بتایا جاتا ہے کہ و ہ ‘ملک دشمن سرگرمیوں’ میں ملوث ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ایسا خطہ ہے، جوقانون و آئین کی عملداری سے مبرا ہے۔ یہاں حکمران لوگوں سے روزی روٹی کا بنیادی حق چھیننے اور ان کے اہل خانہ، ان کے زیر کفالت افراد کو محرومی اور پریشانی کی طرف مجبور کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ کشمیر نے پچھلی تین دہائیوں میں ایسے ہیبت ناک مظالم دیکھے ہیں جنہیں بیان کرنے کے لئے پتھر کا دل چاہیے۔
پتہ نہیں کب تک یہ بدقسمت اور مظلوم قوم تاریخ کے گرداب میں پھنسی رہے گی۔یہ بھی سچ ہے کہ ظلم و بربریت کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں۔ بس انتظار ہے، اس دن کا جس کا وعدہ ہے۔
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے