دو جون کو جاری جموں وکشمیر کی نئی میڈیا پالیسی کے مطابق، سرکار اخباروں اور دوسرے میڈیا چینلوں پر آنے والے مواد کی نگرانی کر کےیہ طے کرےگی کہ کون سی خبر ‘فیک، اینٹی سوشل یا اینٹی نیشنل’ ہے۔ ایسا پائے جانے پر متعلقہ ادارے کو سرکاری اشتہار نہیں دیےجا ئیں گے، ساتھ ہی ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائےگی۔
(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)
نئی دہلی : جموں وکشمیر انتظامیہ نے نئی میڈیا پالیسی کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت اب یونین ٹریٹری کی انتظامیہ ہی طے کرےگی کہ کون سی خبریں ‘فرضی،غیر اخلاقی یاملک مخالف’ ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، دو جون کو جاری اس نئی میڈیا پالیسی کے تحت انتظامیہ فیک نیوز کے لیے ذمہ دارصحافیوں اورمیڈیا اداروں کے خلاف قانونی کارروائی کرےگی، جس میں سرکاری اشتہارات پر روک لگانا اور ان سے متعلق جانکاریاں سلامتی ایجنسیوں کے ساتھ شیئر کرنا شامل ہے تاکہ آگے کی کارروائی ہو سکے۔
پچاس صفحات کی اس پالیسی، جو اکثرمیڈیا اداروں کو سرکاری اشتہارات دیےجانے سے متعلق ہوتی ہے، میں کہا گیا ہے، ‘جموں وکشمیر میں نظم ونسق اورسلامتی سےمتعلق اہم خدشات ہیں، یہ سرحدپار سے حمایت یافتہ پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسی حالت میں یہ بےحد ضروری ہے کہ امن و امان کوبگاڑنے والے غیر سماجی اور ملک دشمن عناصر کی کوشش کوناکام کیا جائے۔’
نئی پالیسی کے تحت سرکاری اشتہارات کے لیے لسٹ کرنے سے پہلے اخباروں کے پبلشرز، مدیران اور اہم اسٹاف کے پس منظر کی جانچ لازمی کر دی گئی ہے۔اس کے علاوہ کسی بھی صحافی کومنظوری دیے جانے سے پہلے جموں وکشمیر پولیس کی سی آئی ڈی کے ذریعے اس کا سیکورٹی کلیرنس ضروری ہوگا۔ ابھی تک ریاست میں اس طرح کا کلیرنس صرف کسی اخبار کے آراین آئی کے رجسٹریشن سے پہلے کیا جاتا ہے۔
نئی پالیسی کےمطابق، ‘سرکار اخباروں اور دوسرے میڈیا چینلوں میں شائع مواد کی نگرانی کرےگی اور یہ طے کرےگی کہ کون سی خبر ‘فیک، اینٹی سوشل یا اینٹی نیشنل رپورٹنگ’ ہے۔ ایسے کاموں میں شامل پائے جانے پر نیوز اداروں کو سرکاری اشتہارات نہیں دیےجا ئیں گے، ساتھ ہی ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائےگی۔
جہاں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر اصغر نے اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے منع کر دیا، وہیں انفارمیشن سکریٹری اور سرکار کے ترجمان روہت کنسل نے اس اخبار کے ذریعے کئی کوششوں کے بعد بھی رابطہ نہیں کیا جا سکا۔پالیسی دستاویز کے پیج نمبر آٹھ اور نو میں کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز (ڈی آئی پی آر)فیک نیوز،سرقہ اورغیر اخلاقی اورملک مخالف سرگرمیوں کے لیے پرنٹ، الکٹرانک اور میڈیا کے دوسرے وسائل میں موادکی جانچ کرےگا۔
نئی پالیسی کے مطابق، ‘کوئی بھی فیک نیوزیا نفرت پھیلانےیافرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑنے والی کسی بھی خبر پر آئی پی سی اور سائبر قوانین کے تحت کارروائی کی جائےگی۔’یہ پالیسی دستاویزصحافیوں کے بارے میں کہتا ہے، ‘اسی طرح صحافیوں کو منظوری دیتےوقت یا اس کے حتمی فارمیٹ میں ہرصحافی کے پس منظر کی گہرائی سےجانچ کی جائےگی۔ اس مقصد کے لیے صحافیوں کو منظوری دینے کی گائیڈلائنس میں ترمیم کیا جائےگا اور ضرورت کے مطابق اس کو اپ ڈیٹ کیا جائےگا۔’
ہندوستان میں میڈیا پریس کاؤنسل اور نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈس اتھارٹی کے ذریعے اکثرسیلف ریگولیٹ ہی کام کرتا ہے۔ جموں وکشمیر سے پہلے صرف ہریانہ میں پرنٹ میڈیا اشتہارپالیسی کے گائیڈ لائن میں ایسا کہا گیا ہے کہ اگر کوئی اخبار کو پریس کاؤنسل یا ریاستی حکومت کے ذریعے کسی طرح کی ‘غیر اخلاقی یاملک مخالف سرگرمیوں ’ میں ملوث پایا گیا تو اس کااشتہاری رجسٹریشن رد کر دیا جائےگا۔
صحافیوں کوایکریڈیشن دینے کے لیے ریاستوں کے اپنے اپنے ضابطے ہیں، لیکن کسی میں بھی ‘بیک گراؤنڈ چیک’ کئے جانے کی پہلے سے شرط نہیں ہے۔گزشتہ کچھ وقتوں میں جموں وکشمیر کے کئی صحافیوں کو ان کے کام کے لیے پولیس کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان میں
فوٹوگرافر مسرت زہرا اورصحافی -قلمکار
گوہر گیلانی شامل ہیں، جن پر ان کی سوشل میڈیا پوسٹس کے لیے یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔پولیس نے ایک نیوز رپورٹ کو لےکر دی ہندو پر کیس درج کرتے ہوئے اور اس کے سرینگرنامہ نگار پیرزادہ عاشق کو سمن دیا ہے۔
دریں اثنا ڈی ڈبلیو اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق، سرینگر کے صحافی الطاف حسین کا کہنا ہے کہ ”یہ نئی پالیسیاں حکومت کی جانب سے کشمیری صحافت کو دبانے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں۔” ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا، کہ بھارت میں قومی سطح پر بھی اب صحافت کہاں بچی ہے۔ بھارتی میڈیا کے پاس حکومت کی مدح سرائی اور قصیدہ خوانی کے سوا کیا ہے۔ ”کشمیر کی مقامی صحافت اصل جرنلزم پر یقین رکھتی ہے تاہم انتظامیہ نے اتنی مشکلیں کھڑی کر دی ہیں کہ ”کشمیری میڈیا بھی وہی کرنے لگا ہے جو بھارتی میڈیا کر رہا ہے۔”
الطاف حسین کے مطابق مقامی میڈیا پر حکومت کا ”معاشی اور جیل جانے کا دباؤ ہے۔ سیاسی صورتحال پر یہاں کا میڈیا خاموش ہے۔ پہلے حریت رہنماؤں کے بیانات شائع ہوتے تھے اب برائے نام ہوتے ہیں۔ اگر آزاد صحافی کے طور پر میں آج ایک مضمون لکھوں تو اسے کشمیر کا شاید ہی کوئی اخبار شائع کرے گا۔ انہیں اب بہت خوف ہے۔”
الطاف حسین کے مطابق کشمیر میں میڈیا پر اس طرح کی بندشیں اور دباؤ پہلے بھی رہا ہے لیکن اب حکومت اس طرح کی پالیسیوں سے اسے قانونی شکل دے رہی ہے تاکہ ” کشمیری صحافیوں کو ہراساں کرنے میں مزیدآسانی ہواور آزاد صحافت کا بھی کلا گھونٹاجا سکے۔”
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ چند ماہ میں پولیس نے کئی نامور صحافیوں کے خلاف محض ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے لیے ان پر انسداددہشتگردی جیسے سخت قوانین کے تحت مقدمات درج کیے ہیں۔ صحافیوں کا الزام ہے کہ انہیں ان کی خبروں کے لیے پولیس اپنے دفاتر میں طلب کر کے اکثر پریشان کرتی ہے۔