سپریم کورٹ نے کہا کہ کہ انٹرنیٹ کا حق آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کا حصہ ہے۔ انٹرنیٹ پر پابندی لگانے کا کوئی بھی حکم جوڈیشیل جانچ کے دائرے میں ہوگا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اپنے ایک بےحد اہم فیصلے میں جموں کشمیر انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ ایک ہفتے کے اندرسبھی پابندی کے احکامات پر دوبارہ غور کریں۔ یہ پابندیاں پچھلے سال پانچ اگست کو جموں کشمیر کاخصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد سے لگائی گئیں تھیں۔
لائیو لاء کے مطابق، جموں کشمیر میں انٹرنیٹ اور مواصلاتی خدمات پر پابندی لگانے پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ بنا کسی خصوصی مدت اور غیر متعینہ مدت کے لیے انٹرنیٹ بین کرنا مواصلاتی ضابطوں کی خلاف ورزی ہے۔
کورٹ نے سرکار کو حکم دیا ہے کہ دفعہ 144 کے تحت جاری کئے گئے سبھی احکامات کورٹ کے سامنے پیش کئے جائیں۔ اس کے علاوہ کورٹ نے کہا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 144 کے تحت باربار حکم جاری کرنا اقتدار کاغلط استعمال ہوگا۔اس دوران کورٹ نے یہ بھی کہا کہ انٹرنیٹ کا حق آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کا حصہ ہے۔ انٹرنیٹ پر پابندی لگانے کا کوئی بھی حکم جوڈیشیل جانچ کے دائرے میں ہوگا۔
پچھلے سال 27 نومبر کو جسٹس این وی رمنا، آرسبھاش ریڈی اور بی آر گوئی نے جموں کشمیر میں مواصلاتی پابندی کے خلاف دائر عرضیوں پر فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔جسٹس رمنا نے کہا، ‘ریاستی حکام کو سبھی دفعہ 144 اور دوسری پابندیوں کے لیے حکم شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ بنا کسی خصوصی مدت اورغیر متعینہ مدت کے لیے انٹرنیٹ پر پابندی مواصلاتی ضابطہ کی خلاف ورزی ہے۔’
فیصلہ پڑھتے ہوئے جسٹس رمنا نے سی آر پی سی کی دفعہ144 کے تحت جاری احکامات پر کہا، ‘یہ جاری کرنے کے لیے ایمرجنسی جیسے حالات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے عدم اتفاق یا اظہار رائے صرف ایک بنیاد نہیں ہو سکتی۔’انہوں نے آگے کہا، ‘انٹرنیٹ خدمات پر پابندعائد کرنے کے لیے پاس کیا گیا کوئی بھی حکم جوڈیشیل جانچ کے دائرے میں ہوگا۔’ این وی رمنا نے کہا، ‘متعلقہ اسباب پرغور کئے جانے اور دوسرے راستے نہیں ہونے پر ہی اس آزادی پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔’
کورٹ نے فیصلہ پڑھنے کی شروعات کے ساتھ ہی کہا کہ عدالت کی یہ ذمہ داری ہے کہ سبھی شہریوں کے حقوں اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آزادی اور تحفظ ہمیشہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔کورٹ نے کہا، ‘کشمیر نے بہت تشدد دیکھا ہے۔ ہم انسانی حقوق اور آزادی کے ساتھ ساتھ تحفظ میں تال میل بٹھانے کی پوری کوشش کریں گے۔’
فیصلے کی اہم باتیں:
آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت بولنے اور اظہار رائے کی آزادی میں انٹرنیٹ کا حق شامل ہے۔
. انٹرنیٹ پر پابندی کا آرٹیکل 19(2) کے تحت تال میل ہونا چاہیے۔
غیر معینہ مدت کے لیے انٹرنیٹ پر بین نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ یہ صرف ایک مناسب مدت کے لیے ہو سکتا ہے اوروقت وقت پر اس کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔
. جب تک خصوصی اختیار کا دعویٰ نہیں کیا جاتا تب تک سرکار پابندیوں کے احکامات کو کورٹ سے چھپا نہیں سکتی ہے۔
عدم اتفاق کو دبانے کے لیے سی آر پی سی کی دفعہ 144 کے پابندی کے حکم نہیں جاری کئے جا سکتے ہیں۔
سی آر پی سی کی دفعہ144 کے تحت حکم جاری کرتے وقت مجسٹریٹ کو ذاتی حق اور ریاست کے خدشات کے بیچ تال میں بٹھانا پڑےگا۔