جموں میں دودھ کا کاروبار کرنے والے گوجر برادری کا الزام ہے کہ دہلی میں ہوئے تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شامل کئی لوگوں کے کو رونا سے متاثر پائے جانے کے بعد سے ان کو اس سے جوڑکر ‘نفرت انگیز مہم’ چلاتے ہوئے کہا گیا کہ وہ انفیکشن لا رہے ہیں اس لیے ان سے دودھ نہ خریدا جائے۔
نئی دہلی: جموں کشمیر میں مقامی سطح پر دودھ کا کاروبار کرنے والے گوجربرادری کا کہنا ہے کہ کوروناوائرس کے بحران کے دوران انہیں بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اکانومک ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، پولیس نے ان کی شکایت کے بعد انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ ان کی مدد کریں گے۔
گوجربرادری کا کہنا ہے کہ جموں کے کئی علاقوں میں انہیں کو رونا وائرس کاکیریئر بتائے جانے کی توہین آمیز مہم چل رہی ہے، جس کی وجہ سے ان کاتجارتی بائیکاٹ کر دیا گیا ہے۔جموں میں دودھ کا کاروبار کرنے والے گوجر برادری کا الزام ہے کہ دہلی میں ہوئے تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شامل کئی لوگوں کے کو رونا سے متاثر پائے جانے کے بعد سے ان کو اس سے جوڑکر ‘نفرت انگیز مہم’ چلاتے ہوئے کہا گیا کہ وہ انفیکشن لا رہے ہیں اس لیے ان سے دودھ نہ خریدا جائے۔
بتا دیں کہ یہ برادری بنیادی طور پر جانوروں کے دودھ کا کاروبار کرتی ہے، جس کو ہردن جموں کے مختلف اضلاع میں بیچا جاتا ہے۔ان کےدودھ کا کاروبار جموں کی دیہی معیشت کی ریڑھ کی طرح ہے۔ ایسے میں ان کے بارے میں ایسی خبروں کی وجہ سے روزگار کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
جموں کے دودھی گوجر ایسوسی ایشن کے صدر جمیل چودھری کہتے ہیں،‘یہ ملک الکٹرانک میڈیا کی بنائی ہوئی امیج سے چلتا ہے اور اس کے نئے شکار ہم ہیں۔ جموں کے کچھ عناصر ہمیں اقتصادی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور انہوں نے مہم شروع کی ہے کہ مسلمان، بالخصوس گوجر کو رونا وائرس کے کیریئر ہیں۔ اب کئی لوگوں نے ہم سے دودھ لینا بند کر دیا ہے۔’
جمیل خود ایک ڈیری فارم کے مالک ہیں اور گزشتہ ہفتوں میں انہیں کافی نقصان ہوا ہے۔برادری کا یہ بھی کہنا ہے کہ دودھ ضروری اشیا اور خدمات میں شامل ہے، پھر بھی انتظامیہ نے ان کو آنے جانے سے روکا۔اس کے بعد کئی جگہوں پر ہوئی بائیکاٹ والی مہم کی وجہ سےکثیر مقدار میں دودھ کا نقصان ہوا ہے۔ حالانکہ ان مشکلات کے بیچ برادری نے ایک راستہ بھی نکالا ہے۔
بائیکاٹ کے بعد انہوں نے کٹھوعہ، سامبا، جموں، رئیسی اور ادھمپور میں بنے کوارنٹائن سینٹروں میں مفت میں دودھ بانٹ دیا، ساتھ ہی کچھ لوگوں کو بنا پیسے لیے دودھ دے دیا۔چودھری آگے بتاتے ہیں، ‘ہمیں اپنے جانوروں کو چرانے کے لیے لے جانے کی بھی اجازت نہیں ہے، جس کے لیے ہم پہلے ہی سال بھر کی بھرپائی کر چکے ہیں۔ اس سے ہماری تشویش میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔’
جمیل کا کہنا ہے انتظامیہ نے پچھلے کئی ہفتوں تک ان کی شکایتوں پر کوئی دھیان نہیں دیا اس لیے انہوں نے جمعہ کو جموں وکشمیر پولیس کے آئی جی منوج سنگھ سے ملاقات کی ہے، جنہوں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ان کی آمدورفت کو نہیں روکا جائےگا۔منوج سنگھ نے اس اخبار کو بتایا،‘اب تک ہمیں ایسی کسی مہم یا بائیکاٹ کے بارے میں کوئی شکایت نہیں ملی ہے۔ اگر وہ کسی خاص شکایت کو لےکر سامنے آتے ہیں، تو ہم اس پر کارروائی کریں گے۔’
دودھی ایسوسی ایشن نے اس بیچ مویشی پروری کے حکام سے مل کر یہ گزارش بھی کی ہے کہ وہ ان لوگوں کے ذریعے بیچے جانے والے دودھ کی کوالٹی کے بارے میں ایڈوائزری جاری کریں جس سے کہ عام لوگ کسی غلط خبر کا شکار نہ ہوں۔مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، سوشل میڈیا پر اس طرح کی ویڈیو اور خبریں بھی پھیلائی گئی ہیں کہ گوجروں کے ذریعے لائے گئے دودھ میں انفیکشن ہے۔
جمیل کہتے ہیں،‘ہم نے ان سے کہا کہ وہ ایک ہیلپ لائن شروع کر سکتے ہیں، جہاں دودھ کی وجہ سے کوئی پریشانی آنے پر لوگ سیدھے حکام سے رابطہ کر سکیں۔ ہم نے ان سے یہ بھی ہدایت دینے کو کہا کہ دودھ والوں کے دودھ کے ڈبے کو اس بند کے دوران پاس کی طرح دیکھا جائے۔’
جمیل کا کہنا ہے کہ اس طرح ان کی برادری کے بارے میں ہو رہے پروپیگنڈہ کا مقصد ہے کہ انہیں اقتصادی طورپر کمزور کرکے اس کام سے ہٹا دیا جائے۔عموماً گرمیوں کے موسم میں گوجر برادری کے کئی خانہ بدوش لوگ اپنے جانوروں کے ساتھ اوپر پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں، لیکن اس بار کو رونا کی وجہ سے ان کا جانا ٹلتا جا رہا ہے۔
جمیل کہتے ہیں، ‘ہمارے وجود پر خطرہ ہے لیکن ہم بنا کسی جھگڑے یا ملال کے اپنی زندگی جی رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔’