جموں و کشمیر انتظامیہ ریاست کے آر ٹی آئی معاملوں کو نپٹانے میں جان بوجھ کر تاخیر کر رہی

03:31 PM Dec 04, 2019 | دی وائر اسٹاف

آر ٹی آئی کے تحت حاصل دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ مرکز کے ڈی او پی ٹی نے جموں و کشمیر میں آر ٹی آئی کے تحت زیر التوا معاملوں کا تصفیہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن کے ذریعے کرنے کا فیصلہ لیا تھا۔ حالانکہ اب جموں و کشمیر انتظامیہ نے ایک کمیٹی بنا دی ہے جس کے بعد ہی اس پر کوئی آخری فیصلہ لیا جا سکے‌گا۔

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے اس وقت کے جموں و کشمیر کے رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) ایکٹ، 2009 کے تحت ریاستی انفارمیشن کمیشن کے سامنے سماعت کے لئے زیر التوا سبھی دوسری اپیلوں اور شکایتوں کا تصفیہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی)کے ذریعے کرنے کا فیصلہ لیا تھا۔ لیکن جموں و کشمیر  انتظامیہ محکمے نے اس معاملے پر آخری فیصلہ لینے کے لئے ایک پانچ رکنی کمیٹی کی تشکیل کی ہے۔ اس کمیٹی کو 26 دسمبر 2019 تک اپنی رپورٹ سونپنی ہے۔ آر ٹی آئی کارکنان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا آر ٹی آئی معاملوں کے حل میں جان بوجھ کر دیری کرنا ہے۔

جموں و کشمیر ریاست کو 31 اکتوبر 2019 کو دو یونین ٹریٹری-جموں وکشمیر اور لداخ میں بانٹ  دیا گیا۔ اس فیصلے کی وجہ سے جموں و کشمیر کا آر ٹی آئی ایکٹ، 2009 بھی ختم ہو گیا ہے اور یہاں پر مرکز کا آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 نافذ ہو گیا ہے۔ جموں و کشمیر آر ٹی آئی ایکٹ، 2009 کے تحت بڑی تعداد میں دی گئی درخواست اور اپیلیں ریاست کی تقسیم کے وقت زیر التوا تھیں۔

آر ٹی آئی کے تحت حاصل کئے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ مرکز کے ڈپارٹمنٹ آف پرسنل اینڈ ٹریننگ (ڈی او پی ٹی) نے جموں و کشمیر کی تقسیم کرنے کے فیصلے کو نافذ کرنے سے 15 دن پہلے 15 اکتوبر 2019 کو سی آئی سی کو ایک دس-فارمولائی ایجنڈے کے ساتھ ایک خط بھیجا تھا جس میں جموں و کشمیر کے ریاستی انفارمیشن کمیشن میں زیر التوا تمام معاملوں کو سی آئی سی کے ذریعے فیصلہ لینے کے لئے کہا تھا۔

جموں و کشمیر کے معاملوں  سے متعلق ڈی او پی ٹی  کے ذریعے لیا گیا فیصلہ۔

اس کے علاوہ ڈی او پی ٹی نے یہ بھی کہا تھا کہ جموں و کشمیر کے آر ٹی آئی ایکٹ، 2009 کے تحت دائر کی گئی سبھی آر ٹی آئی درخواست، سبھی پہلی اپیلیں، سبھی مقرر کیے گئے پبلک انفارمیشن افسر اور پہلا اپیلیٹ افسر کو مرکز کے آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے تحت مانا جائے‌گا۔ بعد میں 25 اکتوبر 2019 کو ہوئی ایک میٹنگ میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے ڈی او پی ٹی کی ان تجاویز کو منظوری دے دی اور وہ جموں و کشمیر کے معاملوں کو سننے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔

حالانکہ گزشتہ 28 نومبر 2019 کو جموں و کشمیر جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ ڈپٹی گورنر جی سی مرمو کے حکم پر ایک پانچ رکنی کمیٹی بنائی ہے جس کو ریاست کے آر ٹی آئی معاملوں پر فیصلہ لینا ہے۔ کمیٹی کو اس تناظر میں مشورے دینے ہیں کہ کیا جموں و کشمیر یونین ٹریٹری  کو سینٹرل انفارمیشن کمیشن کے دائرے میں لایا جائے‌گا یا پھر اس کا الگ سے مرکزی اطلاعاتی کمیشن ہوگا۔

اس کے علاوہ ان کو اس معاملے پر بھی فیصلہ لینا ہے کہ اگر جموں و کشمیر یونین ٹریٹری  سی آئی سی کے دائرے میں آتا ہے تو آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک انفارمیشن آفیسر اور دیگر اہلکاروں کی پھر سے عہدے پر تقرری کرنے کے لئے کیا کام کرنے ہوں‌گے۔ حالانکہ آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ  12-17 کے مطابق، یونین ٹریٹری کو انفارمیشن  کمیشن بنانے کااختیار نہیں ہے۔ یہاں کے معاملوں کی سماعت سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں ہوتی ہے۔

آر ٹی آئی کارکن کا ماننا ہے کہ ڈی او پی ٹی کے ذریعے اس معاملے کا حل کرنے کے بعد بھی کمیٹی بناکر پھر سے اسی معاملے پر فیصلہ لینا آر ٹی آئی معاملوں کے حل میں جان بوجھ کر دیری کرنا ہے۔

جموں و کشمیر  جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ  کے ذریعے بنائی گئی کمیٹی۔

آر ٹی آئی کارکن وینکٹیش نایک نے کہا، ‘ آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ یونین ٹریٹری کو اپنے یہاں انفارمیشن  کمیشن بنانے کا حق نہیں ہے۔ یہاں کے معاملوں کا فیصلہ سی آئی سی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ جموں و کشمیر انتظامیہ نے کسی ایسے موضوع پر فیصلہ لینے کے لئے کمیٹی کیوں بنائی ہے جب قانون میں ایسا کوئی اہتمام ہے ہی نہیں۔ ‘

انہوں نے آگے کہا، ‘ اگر یونین ٹریٹری میں انفارمیشن  کمیشن بنانے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو مرکز کے قانون میں ترمیم کرنا ہوگا اور ایسا کرنے میں کافی وقت لگ جائے‌گا، جو کہ بےوجہ کی ایک دیری ہوگی۔ آج جموں و کشمیر کے لوگوں کو آر ٹی آئی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ‘ جموں و کشمیر انتظامیہ کے ذریعے کمیٹی بنانے کو لےکر ابھی تک ڈی او پی ٹی کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

بتا دیں  کہ مرکزی حکومت نے گزشتہ  پانچ اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے ،اس کو دو یونین ٹریٹری  میں بانٹنے کا فیصلہ لیا تھا۔ اس کے بعد سے ریاست میں ابلاغ، آمد ورفت سمیت کئی پابندی لگا دی گئی جس کی وجہ سے وہاں کی عوام کی زندگی آج بھی کافی متاثر ہے۔