اس پورے باب نے کشمیر کی آواز اور بولنے کا حق دونوں چھین لیا، لیکن کہا گیا کہ کشمیری عوام خوش ہے۔ اجیت ڈوبھال کو سب نے چار کشمیری کے ساتھ کھانا کھاتے تو دیکھا پر کسی کو نہیں پتہ کہ ان تصویروں میں پیچھے کتنے فوجی بندوق تانے کھڑے تھے۔
‘ کشمیر میں کچھ بہت برا ہونے والا ہے، آپ گھر میں آٹا-چاول بھرکر رکھ لینا، پتہ نہیں پھر کتنے دن کھانا نہ ملے۔ ‘ ہر سنیچر ہمارے گھر کے لئے نئے پودے لےکر آنے والے مالی فیاض نے مجھ سے کہا۔
فیاض تقریباً پچاس-پچپن کی عمر کا ایک تجربےکار مالی ہے، جس کو میں نے اکثر گڑائی کرتے وقت پودوں سے باتیں کرتے بھی دیکھا ہے۔ وہ کشمیر کے سب سے حساس علاقوں میں سے ایک شوپیاں سے روز سائیکل پر سرینگر آتا تھا، اس لئے شاید اس کو آنے والی ہر خوشی اور خطرہ کا اندازہ شہری لوگوں سے پہلے ہی ہو جاتا تھا۔
ہم سرینگر کے ایک پاش علاقے راج باغ میں ضرور رہتے ہیں لیکن آئے دن ہونے والے بند اور مظاہروں کے عادی ہو چکے تھے، اسی لئے جب میں نے اس کی بات پر حیرت کا اظہار کیا اور پوچھا کہ ایسا کیا ہو جائےگا کہ کھانا ہی نہیں ملےگا تو اس نے بڑی سادگی سے کہا، ‘ آپ نے وہ دن دیکھے نہیں ہیں ابھی، اس لئے آپ سمجھ نہیں سکتیں۔ ‘
کشمیر میں افواہوں کا بازار گرم تھا، ہفتے بھر میں 10000 ہزار فوجی وادی میں آ چکے تھے۔ عام طور پر اپنے-اپنے کاموں میں مصروف رہنے والے کشمیری لوگوں کی زبان پر ظلم اور فریب جیسے لفظوں سے بھری کہانیاں لوٹ آئی تھیں۔ہمیں کشمیر میں رہتے تقریباً ایک سال ہوا تھا لیکن اس طرح کا خوف میں نے پہلے بار یہاں لوگوں کے چہروں پر دیکھا۔ بازاروں، دکانوں، دفتروں میں ان کی آپسی باتیں میں نے بہت غور سے سنی۔
‘ شاید قیامت آنے والی ہے پھر، فوج والے ہمیں گھروں میں گھس-گھسکر ماریںگے۔ اتنے ہیں کہ ہم بول بھی نہیں پائیںگے ان کے آگے۔ ‘ سنکر دماغ سکتے میں آ جاتا۔ ظاہر ہے کشمیر کی عوام تمام باتیں اپنے تجربے سے کہہ رہی تھی۔ لیکن اخبار اور نیوز چینلوں کے ذریعے مرکزی حکومت ٹروپس کے اضافے کو روٹین بتاتی رہی۔
کشمیر کی ایک خاصیت ہے، یہاں لوگوں کی زبان آپ کو کسی بھی نیوز چینل یا اخبار سے بہتر خبر دے سکتی ہے۔خبر میں صرف اتناہی دیکھا تھا کہ امرناتھ یاترا کو کسی بڑے دہشت گرد انہ حملے کے خطرے کی وجہ سے پہلی بار بیچ میں ہی روکا جا رہا ہے، لیکن سڑکوں پر جاکر دیکھا-سنا تو پتہ چلا کہ پولیس اہلکار کھینچ کھینچکر سیاحوں کو ہوٹل کے کمروں سے باہر نکال رہے ہیں۔
یہاں تک کہ اتر پردیش اور بہار سے آکر رہنے والے یومیہ مزدوروں کو بھی اٹھاکر بس اڈوں پر دھکیل دیا گیا۔ بیوٹی پارلر اور سیلونوں میں کام کرنے والے شاملی اور بجنور کے لڑکےلڑکیوں کو اپنا سامان باندھکر اچانک گھر کے راستے دکھا دئے گئے۔ہمیں بھی اپنے مہمان کو فوراً رفع دفع کرنا پڑا اور پھر ایک شام جب روز کی طرح میں اپنے تین سال کے بیٹے کے ساتھ پارک میں گھوم رہی تھی تو دیکھا کہ بی ایس ایف کی ایک بس بھرکر جوان تقریباً سو-ڈیڑھ سو لوگوں سے بھرے پارک کے باہر آکر تعینات ہو گئے۔
جوان بس سے نہیں اترے لیکن لگا کہ وہ شام ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ اس بات کا بھی کہ یہ سبھی بچے، مائیں اور بزرگ کب اپنے گھر واپس جائیں، تاکہ ان کی ڈیوٹی شروع ہو۔ اس شام دکانوں اور بازاروں میں لوگوں کے ہجوم ٹوٹ پڑے۔ آٹا، دال، چاول، میگی جس کے جو ہاتھ آیا اس نے خرید لیا۔ دوا کی دکانیں بھی کھچاکھچ بھری تھیں۔ طے تھا کہ کچھ بہت بڑا یا بہت برا ہونے والا تھا۔
پہلی بار لگا کہ کشمیر جنت ہے تو اس کو جہنم میں تبدیل کرنا بھی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ لیکن اس کے لئے وزارت داخلہ نے جس پلان کو انجام دیا وہ مانو خود چانکیہ نے ہی رچا تھا۔ دفعہ 370 ہٹائے جانے سے پہلے سات دن میں کشمیر وادی میں تقریباً 38000 ہزار نئے فوجی تعینات ہو چکے تھے۔
تمام میڈیا پر یہ خبر تھی کہ کشمیر میں پاکستان کی رچی ایک دہشت گردانہ سرگرمی ہونے والی ہے جس سے بچاؤ کے لئے یہ سب ہو رہا ہے۔ چن-چنکر سیاحوں اور امرناتھ مسافروں کو وادی سے نکال لیا گیا۔ سوال پوچھے جانے پر کہا گیا کہ یہ سب کچھ کشمیر اور وہاں رہنے والوں کی حفاظت کے لئے ہو رہا ہے۔
اصل میں یہ کشمیریوں ‘ کی ‘ نہیں بلکہ کشمیریوں ‘ سے ‘ حفاظت کے لئے ہو رہا تھا۔ عام لوگوں پر اس طرح شکنجہ کس دیا گیا کہ جس صبح دفعہ 370 برخاست ہوئی کشمیر سے مخالفت کرنے کے سارے طریقے چھن چکے تھے۔5 اگست رات 12 بجے سے جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ اور موبائل خدمات بند۔ ہر سڑک پر جوان تعینات تھے، دفعہ 144 لگ چکی تھی یعنی لوگ سڑکوں پر اکٹھے نہیں ہو سکتے تھے۔ رہنما چاہے علاحدگی پسند ہوں یا غیرعلاحدگی پسند، ہرایک کے نظربند ہونے کی خبر آنے لگی۔
اسکول بند، کالج بند، دفتر بند، دکانیں بند اور ساتھ ہی کشمیر کی زبان بھی بند۔ ہرطرف تالے تھے، گلیوں میں سناٹا تھا۔ اس شکنجے کی ایک اور سطح کو ہم نے قریب سے دیکھا جب پتہ چلا کہ ایسے حالات میں کشمیری پولیس سے ان کے تمام ہتھیار سرینڈر کرنے کو کہا جاتا ہے کہ وہ کہیں طیش میں آکر باغی نہ ہو جائیں۔
لہذا چوکیوں پر تعینات پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں صرف لٹھ ہی دکھائی دئے۔ اتناہی نہیں سرینگر کے گپ کار روڈ پر بنے اقوام متحدہ دفتر کو بھی سختی سے بند کیا گیا تاکہ کسی بھی طرح کا تشدد ہونے پر وہاں سے کارروائی نہ ہو پائے۔بڑے ہی قرینے سے سرینگر کے علاقوں کو ایک دوسرے سے کاٹ دیا گیا یعنی اگر آپ جواہر نگر میں رہتے ہیں تو آپ کے علاقے کے دونوں راستے بند ہیں، جس کی وجہ سے باہر آسانی سے نہیں نکلا جا سکتا۔
ضرورت پڑنے پر آپ محض ایک گلی سی دوسری میں جا سکتے ہیں لیکن دوسرے علاقوں میں رہنے والوں کے گھر نہیں۔ یہ چاک چوبند لگتے ہی عام لوگوں نے اپنے گھروں کے اندر بیٹھنا ہی ٹھیک سمجھا۔ صرف ایک راحت کے ساتھ کہ زیادہ تر علاقوں میں ٹیلی ویژن اور کیبل موجود تھا جس پر سب کو پتہ چلا کہ آرٹیکل 370 اب ہٹ چکی ہے۔
کشمیر بند تھا اور ہم نے پہلی بار یہ جانا کہ گھر میں بند ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ پانچ دن میں یہ شکنجہ اور کستا گیا اور مجھے پہلی بار تجربہ ہوا کہ صرف آلو اور چاول کھاکر کس طرح چہاردیواری میں گزارہ کیا جاتا ہے۔
کشمیر کی عوام زبان پر تالے لگائے ٹی وی پر صرف ایک ہی چیز دیکھ رہی تھی، ہندوستان کے الگ الگ حصوں سے آ رہی جشن کی تصویریں۔ کہیں کشمیر میں پراپرٹی خریدنے کے خواب بیان ہو رہے تھے تو کہیں کشمیر کی بیٹیوں سے شادی کی خواہش مندوں کی خوشی۔کوئی 370 کے چولے میں پاکستان کو نیچا دکھا رہا تھا اور کوئی کشمیر پر فتح پاکر اپنی حب الوطنی کی کہانی سنا رہا تھا۔ ہر کسی کے لئے اس سے جڑی خوشی کی اپنی وجہ تھی۔ تمام ٹی وی چینل اس طرح کی ساؤنڈبائٹس سے بھرے ہوئے تھے۔
بس، نہیں دکھ رہی تھی تو کشمیر کی رائے عامہ۔ جن اکا دکا خبر اینکرس نے اس کو رکھنے کی کوشش بھی کی ان کو اپنے ہی پینل پر بیٹھے کسی ایکسپرٹ نے غدار قرار دے دیا۔اسی سب کے درمیان ایک پڑوسی نے مجھ سے کہا، ‘ یہ ٹھیک ویسا ہی ہے جیسے آپ نشے کی گولیاں کھلاکر اپنی بیٹی کو بیاہ دیں، اس کے بعد دنیا سے کہتے پھریں کہ سب کام راضی خوشی ہو گیا۔ ‘
واقعی اس پورے باب نے کشمیر کی آواز اور بولنے کا حق دونوں چھین لئے، جس کے بعد کہا گیا کہ کشمیری عوام خوش ہیں۔ پی ایم کے قومی سلامتی صلاح کار اجیت ڈوبھال کو سب نے چار کشمیریوں کے ساتھ کھانا کھاتے تو دیکھا لیکن کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ ان تصویروں میں زوم-آؤٹ کرکے دکھایا جائے کہ پیچھے کتنے فوجی بندوق تانے کھڑے تھے۔
کشمیر میں لوگ مین اسٹریم سے ہی نہیں ایک دوسرے سے بھی کٹ چکے تھے۔ وادی کے بارے میں کم جاننے والے لوگوں کو یہ شاید ہی پتہ ہو کہ یہاں کی ایک بڑی آبادی بزرگوں سے بنتی ہے، جن کے بچے دہلی، ممبئی یا دبئی جیسے شہروں میں نوکری کرتے ہیں۔
ایسے گھروں کی کمی نہیں ہے جہاں صرف بوڑھے ماں باپ رہتے ہیں اور ان کی خیریت صرف فون یا وہاٹس ایپ کے ذریعے ہی لی جا سکتی ہے۔ سوچیےان نوجوانوں کا جو اس دوران اپنے بوڑھے ماں باپ کی آواز تک نہیں سن پائے۔ سوچیے ایسے بزرگ کے بارے میں جو دل کا مریض ہے اور صرف فون کرکے ہی پڑوسی یا ایمبولنس کو بلا سکتا ہے۔ خود کو ان تمام لوگوں کی جگہ رکھیے اور سوچیے۔
بہر حال عید قریب تھی اور اتفاق سے دہلی جانے کا ہمارا ٹکٹ پہلے سے بک تھا۔ سوال یہی تھا کہ گھر سے ایئر پورٹ کیسے جایا جائے؟ تالابندی کے اس دور میں نہ آپ کوئی ٹیکسی بلا سکتے ہیں، نہ اپنی گاڑی ایئر پورٹ لے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو مدد کے لئے بلا سکتے ہیں۔لیکن ہر مشکل میں انسانیت زندہ رہتی ہے اور اسی کا ثبوت بنکر ایک دن ہمارے گھر آئی ‘ ہوپ (Hope)’ نام کے این جی او کی ایمبولنس۔ اس کے ڈائریکٹر گھرگھر جاکر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی کو ان کی مدد کی ضرورت تو نہیں۔ ‘ ہوپ ٹرسٹ ‘ نے ہمیں گھر سے ایئر پورٹ تک چھوڑا۔
سرینگر کے سناٹے کو پیچھے چھوڑ جب دہلی ایئر پورٹ پر ہماری فلائٹ نے لینڈ کیا، تو فون اور وہاٹس ایپ پر سیکڑوں پیغام انتظار کر رہے تھے۔
(افشاں انجم سینئر ٹی وی جرنلسٹ ہیں)