کشمیر کا دل مرگھٹ بن گیا ہے…

کہا جا رہا ہے کہ جمہوریت اکثریت سے ہی چلتی ہے اور اکثریت ہے، لیکن'اکثریت' مطلب کثیررائے ہو، مختلف الرائے، لیکن پارلیامنٹ میں کیا رائے کا لین دین ہوا؟ ایک آدمی چیخ رہا تھا، تین سو سے زیادہ لوگ میز پیٹ رہے تھے۔ یہ اکثریت نہیں، کثیرتعداد ہے۔ آپ کے پاس ووٹ نہیں، گننے والے سر ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ جمہوریت اکثریت سے ہی چلتی ہے اور اکثریت ہے، لیکن’اکثریت’ مطلب کثیررائے ہو، مختلف الرائے، لیکن پارلیامنٹ میں کیا رائے کا لین دین ہوا؟ ایک آدمی  چیخ رہا تھا، تین سو سے زیادہ لوگ میز پیٹ رہے تھے۔ یہ اکثریت نہیں، کثیرتعداد ہے۔ آپ کے پاس ووٹ نہیں، گننے والے سر ہیں۔

جمو ں میں بند کے دوران سکیورٹی اہلکار(فوٹو : رائٹرس)

جمو ں میں بند کے دوران سکیورٹی اہلکار(فوٹو : رائٹرس)

وزیر اعظم نریندر مودی نے آدھے گھنٹے سے کچھ زیادہ ہی وقت تک ملک کو خطاب کیا لیکن ملک یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ وہ کس کو اور کیوں خطاب کر رہے تھے۔ اگر ان کے خطاب کا نتیجہ ہی کہنا ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ کشمیریوں کے بہانے ملک کو اپنے اس قدم کا جواز بتا رہے تھے جس کو وہ خود بھی جانتے نہیں ہیں۔وہ ایسا خواب بیچنے کی کوشش کر رہے تھے جس کو وہ ملک میں کہیں بھی پورا نہیں کر پا رہے ہیں۔ کشمیر کو جس بندوق کی طاقت پر آج خاموش کرایا گیا ہے، اسی بندوق کو دوربین بناکر وزیر اعظم کشمیر کو دیکھ اور دکھا رہے تھے۔ ایسا کرنا حکومت کے لئے بدقسمتی اور ملک کے لئے بد شگونی ہے۔

وزیر اعظم نے نہیں کہا کہ ایسا کیوں ہوا ہے کہ دن دہاڑے ایک پوری ریاست ہی ملک کے نقشے سے غائب ہو گئی-ہندوستانی یونین کے 28 ریاست تھے، اب 27 ہی بچے! یہ کسی پی سی سرکار کا جادو نہیں ہے کہ حیران  ہوکر ہم اس کا مزہ لیں، کیونکہ جادو کے کھیل میں ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ سچ نہیں ہے، جادو ہے، مایا ہے۔لیکن یہاں جو ہوا ہے وہ ایسی حقیقت ہے جو غیر تغیر پذیر-سا ہے، بدشکل ہے، بےرحم ہے، غیرجمہوری ہے اور ہماری جمہوری‎ سیاست کے کھوکھلے پن  کا مظہر ہے۔

اندرا گاندھی نے بھی ایمرجنسی کے دوران  لوک سبھا کی ایسی بے عزتی نہیں کی تھی، اور نہ تب کے حزب مخالف نے ایسی بے عزتی ہونے دی تھی جیسا پچھلے دنوں میں راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں ہوا اور ان دو دنوں میں ہم نے وزیر اعظم کو کچھ بھی کہتے نہیں سنا۔یہ جمہوری‎ زوال کی انتہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جمہوریت اکثریت سے ہی چلتی ہے، اور اکثریت ہمارے پاس ہے! لیکن’اکثریت’لفظ میں ہی یہ مطلب پنہاں ہے کہ وہاں کثیر رائے ہونی چاہیے، مختلف الرائے، سب کا صلاح مشورہ!

راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں کیا ان دو دنوں میں ووٹ کا کوئی لین دین ہوا؟ بس، ایک آدمی چیخ رہا تھا، تین سو سے زیادہ لوگ میز پیٹ رہے تھے اور باقی ناکام، سر جھکائے بیٹھے تھے۔ یہ اکثریت نہیں، کثیرتعداد ہے۔ آپ کے پاس ووٹ نہیں، گننے والے سر ہیں۔پچھلے سالوں میں ہم سے کہا جا رہا تھا کہ کشمیر کی ساری دہشت گردی سرحد پار سے چلائی جارہی  ہے۔ اس لئے تو بار بار ہم پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کر رہے تھ، آپ سرجیکل اسٹرائیک کر رہے تھے۔

اچانک وزیر داخلہ اور وزیر اعظم نے ملک کے پیروں تلے سے وہ زمین ہی کھسکا دی۔ اب پاکستان کہیں نہیں ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کا اصلی ویلن دفعہ 370 تھا، اور تین فیملی تھی۔وہ دونوں تباہ ہو گئے ہیں اور اب دہشت گردی سے آزاد کشمیر ڈل جھیل کی خوشگوار ہوا میں سانس لینے کو آزاد ہے۔ کیسا مذاق ہے! ہم بھولے نہیں ہیں کہ یہی وزیر اعظم تھے اور ایسا ہی ایک بےسروپا فیصلہ تھا نوٹ بندی!اس کے جواز کی بات کہاں سے چلی تھی اور کتنی-کتنی بار بدلتی ہوئی کہاں پہنچائی گئی تھی! نقلی مدعے اسی طرح کھوکھلے ہوتے ہیں۔ یہی کشمیر کے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔

لوک سبھا میں وزیر داخلہ امت شاہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

لوک سبھا میں وزیر داخلہ امت شاہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

کہا جا رہا ہے کہ کچھ مٹھی بھر لوگوں نے اور تین فیملی نے کشمیر میں ساری لوٹ مچا رکھی تھی! مچا رکھی ہوگی، تو ان کو پکڑ‌کے جیل میں ڈال دیں آپ ؛ یہاں تو آپ نے تو ساری ریاست کو جیل بنا دیا!کیا آپ کی حکومت، آپ کا گورنر، انتظامیہ، پولیس سب اتنے کمزور ہیں کہ تین فیملی کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے؟کل تک تو انہی فیملی کے ساتھ مل‌کرکانگریس نے، اٹل جی نے اور آپ نے حکومتیں چلائی تھیں، تب کیا اس لوٹ میں آپسی ساجھے داری چل رہی تھی؟

اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ پورا سیاسی نظام بغیر لوٹ‌کے چل سکتا ہے؟ کون سا سرکاری منصوبہ ہے کہ جہاں مختص پوری رقم اسی میں خرچ ہوتی ہے؟ کون-سی ریاست ہے جو اس یا اُس مافیا کے ہاتھ میں گروی نہیں ہے؟ اب تو مافیا کی حکومتیں بنا رہے ہیں ہم!کوئی یہی بتا دے کہ سیاسی جماعتوں کی کمائی کے جو اعداد و شمار اخباروں میں ابھی ہی شائع ہوئے ہیں، ان میں یہ اربوں روپے حکمراں جماعت کے پاس کیسے آئے؟ ایسا کیوں ہے کہ جو حکومت میں ہوتا ہے پیسے کی گنگوتری اس کی طرف بہنے لگتی ہے؟

بات کشمیر کی نہیں ہے، نظام کی ہے۔ مہاتما گاندھی نے اس نظام کو ویسے ہی بد کردار نہیں کہا تھا۔ کشمیر ہمیں سونپا تھا تاریخ نے اس چیلنج کے ساتھ کہ ہم اس کو اپنے جغرافیہ میں شامل کریں۔ایسا دنیا میں کہیں اور ہوا تو مجھے معلوم نہیں کہ ایک بھری پری ریاست اقرارنامہ پر دستخط کرکے کسی ملک میں شرطیہ شریک ہوا ہو۔ کشمیر ایسے ہی ہمارے پاس آیا اور ہم نے اس کو منظور کیا۔ دفعہ 370 اسی معاہدہ کی وضع داری کا نام تھا جس کو عارضی نظام تب ہی مانا گیا تھا-تحریر میں بھی اور جواہرلال نہرو کے قول میں بھی۔

بہت مشکل چیلنج تھا، کیونکہ تاریخ نے کشمیر ہی نہیں سونپا تھا ہمیں، ساتھ ہی سونپی تھی بےقدروقیمت اقتدار کی بےایمانی، بغیر پالیسی والی  سیاست کی لالچ، فرقہ پرستی کی قومی و بین الاقوامی بدنیتی اور پاکستان کے راستے سامراجی طاقتوں کی دخل اندازی!کشمیر بھلے جنت کہلاتا ہو، وہ ہمیں خود غرضی کے جہنم میں لتھڑا ملا تھا۔ اور تب ہم بھی کیا تھے؟ اپنا منقسم وجود سنبھالتے ہوئے، ایک ایسے خون کے دریا سے گزر رہے تھے جیسا تاریخ نے پہلے دیکھا نہیں تھا۔

بر صغیر کے وجود کا وہ سب سے نازک دور تھا۔ ایک غلط قدم، ایک چوک یا کہ ایک پھسلن ہمارا وجود ہی نگل جاتی! اس لئے ہم چاہتے تو کشمیر کے لئے اپنے دروازے بند کر ہی سکتے تھے۔ ہم نے وہ نہیں کیا۔سینکڑوں ریاستوں کے لئے نہیں کیا، جوناگڑھ اور حیدر آباد کے لئے نہیں کیا، تو کشمیر کے لئے بھی نہیں کیا۔ وہ ہمت تھی، ایک نیا ہی سیاسی تجربہ تھا۔آج تاریخ ہمیں اتنی دور لے آئی ہے کہ ہم یہ جان-پہچان نہیں پاتے ہیں کہ جواہرلال-سردار پٹیل-شیخ عبداللہ کی تثلیث نے کیسے وہ سارا سنبھالا، توازن بنایا اور اس کو ایک ساخت بھی دیا۔

ایسا کرنے میں غلطیاں بھی ہوئیں، اختلاف بھی ہوئے، سیاسی اندازے غلط نکلے اور بےایمانی بھی ہوئیں لیکن ایسا بھی ہوا کہ ہم کہہ سکیں کہ کشمیر ہمارا غیرمنقسم حصہ ہے ؛ اور جب ہم ایسا کہتے تھے تو کشمیر سے بھی اس کی گونج اٹھتی تھی۔ آج وہاں بالکل سناٹا ہے۔ کشمیر کا دل مرگھٹ بن گیا ہے۔ہم کشمیر کو اسی طرح بند تو رکھ نہیں سکیں‌گے۔ دروازے کھلیں‌گے، لوگ باہر نکلیں‌گے۔ ان کا طیش، غصہ سب پھوٹے‌گا۔ باہری طاقتیں پہلے سے زیادہ زہریلے طریقے سے ان کو اکسائیں‌گی۔ اور ہم نے بات چیت  کے سارے پل جلا رکھے ہیں تو کیا ہوگا؟

تصویر خوشنما بنتی نہیں ہے۔ حکمراں جماعت کے لوگ جیسی تصویر دکھا رہے ہیں اور اب کشمیر کی چراگاہ میں ان کے چرنے کے لئے کیا-کیا دستیاب ہے، اس کی جیسی باتیں لکھی-پڑھی اور سنائی جا رہی ہیں، کیا وہ بہت نفرت انگیز نہیں ہیں؟وزیر اعظم نے ٹھیک کہا کہ یہ سینہ پھلانے جیسی بات نہیں ہے، نازک دور کو پار کرنے کی بات ہے۔ لیکن وزیر اعظم اسی بات کے لئے تو جانے جاتے ہیں کہ وہ کہتے کچھ ہیں اور ان کا اشارہ کچھ اور ہوتا ہے۔

آخر قانون سازمجلس کو روشن کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اپنے ملک کے ایک حصے پر ہمیں لاچار ہوکر سخت کارروائی کرنی پڑی اس میں جشن منانے جیسا کیا تھا؟ یہ زخم کو گہرا کرتا ہے۔جن سنگھ ہو کہ بھارتیہ جنتا پارٹی-اس کے پاس ملک کے کسی بھی مسئلہ کے تناظر میں کبھی کوئی فکر رہی ہی نہیں ہے۔

رہا تو ان کا اپنا ایجنڈہ رہا ہے جو کبھی، کسی نے، کہیں تیار کر دیا تھا، ان کو اس کو پورا کرنا ہے۔ اس لئے یہ اقتدار میں جب بھی آتے ہیں، اپنا ایجنڈہ پورا کرنے دوڑ پڑتے ہیں۔ان کو پتہ ہے کہ پارلیامانی جمہوریت میں اقتدار کبھی بھی ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ جنتا پارٹی کے وقت یا پھر اٹل-دور میں، تین-تین بار اقتدار کو ہاتھ سے جاتے دیکھا ہے انہوں نے۔جمہوریت اقتدار دے تو بھلی ؛ اقتدار لے لے، یہ ہندوتوا کے فلسفہ کو پچتا نہیں ہے کیونکہ وہ اصل میں اجارہ داری کا فلسفہ ہے۔ اس لئے 2012 سے اس نئے سیاسی انداز کا جنم ہوا ہے جو ہر ممکن ہتھیار سے جمہوریت کو لنگڑا بنانے میں لگا ہے۔

اس کے راستے میں آنے والے لوگ، نظام، آئینی عمل اور جمہوری‎ اخلاقیات کی ہر رکاوٹ کو توڑ-پھوڑ دینے کا سلسلہ چل رہا ہے۔2014 سے ہمارے آئینی اداروں کے زوال کے ایک-پر-ایک مثاک بنتی جا رہی ہیں اور ہر نیا، پہلے والے کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ کشمیر کا معاملہ زوال کی اب تک کی انتہا ہے۔

نئی دہلی میں آرٹیکل 370 ہٹانے کے خلاف مظاہرہ۔ (فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی میں آرٹیکل 370 ہٹانے کے خلاف مظاہرہ۔ (فوٹو : رائٹرس)

ہندوستان میں انضمام کے ساتھ ہی کشمیر ہمیں کئی سطحوں پر پریشان کرتا رہا ہے۔آپ اس کو اس طرح سمجھیں کہ جواہرلال نہرو وزیر اعظم ہوں اور ان کے حکم سے ان کے خاص دوست شیخ عبداللہ کی گرفتاری ہو، ان کی حکومت کی برخاستگی ہو تو حالات کتنے سنگین رہے ہوں‌گے!یہ تو بھلا تھا کہ تب ملک کی عوامی زندگی میں جئے پرکاش نارائن، ونوبا بھاوے، رام منوہر لوہیا جیسی معزز ہستیاں فعال تھیں کہ جو حکومت اور سماج کو ایک ساتھ کٹہرے میں کھڑا کرتی رہتی تھیں اور سرکاری من مانی اور علیحدگی پسند منصوبوں کے پر کترے جاتے تھے۔ آج وہاں بھی ریگستان ہے۔

اس لئے ہندوستان کے لوگوں پر، جو ہندوستان کو پیار کرتے ہیں اور ہندوستان کی عزت میں جن کو اپنی عزت محسوس ہوتی ہے، آج کے صفر کو بھرنے کی سیدھی ذمہ داری ہے۔قانون سازمجلس میں جو ہوا ہے وہ مستقل نہیں ہے۔ کوئی بھی لائق قانون سازمجلس اس کو پلٹ سکتی ہے۔ اپنی خود مختاری پر اتراتی اندرا گاندھی کا زمانہ  پلٹ دیا گیا تو یہ بھی پلٹا جا سکتا ہے۔ جو نہیں پلٹا جا سکے‌گا وہ ہے دل پر لگا زخم، دل میں گھر کر گیا عدم اعتماد!اس لئے اس بحران میں کشمیری کے ساتھ کھڑے رہنے کی ضرورت ہے۔ جو بندوق اور فوج کی طاقت پر گھروں میں بےیارومددگار بند کر دئے گئے ہیں، ان کو یہ بتانے کی سخت ضرورت ہے کہ ملک کا دل ان کے لئے کھلا ہوا ہے، ان کے لئے دھڑکتا ہے۔

(مضمون نگار گاندھی پیس فاؤنڈیشن کے صدر ہیں)

Next Article

ایران پر امریکی حملہ: عالمی غم و غصہ، یورپ کی خاموشی اور ایک نئے المیے کا آغاز

دنیا جب اس بحران کو بڑھتے ہوئےدیکھ رہی ہے، تو بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک نئے عالمی تنازعہ کے آغاز کا مشاہدہ کر رہے ہیں؟ ایران، جو پانچ ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی تہذیب والا  ملک ہے، اس طرح کی جارحیت کے سامنے خاموش رہنے والا نظر نہیں آتا۔

ایک خاتون نے حزب اللہ کے سابق رہنما سید حسن نصر اللہ کی تصویر اٹھا رکھی ہے، جبکہ دیگر ترکی اور ایران کے جھنڈے لہرا رہی ہیں۔ یہ مظاہرہ استنبول، ترکی میں، اتوار، 15 جون، 2025 کو ہوا۔تصویر: اے پی/ پی ٹی آئی

جنیوا:  جب آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایمریٹس پروفیسر ایوی شلیم نے صحافی کرن تھاپر کو کہا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ‘مافیا سرغنہ’کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں اور ‘ جھوٹ بولنے کے بدنام اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو’ کی حمایت کر رہے ہیں، تو ان کے تلخ تبصرےکو سچ ثابت ہونے میں 24 گھنٹے سے بھی کم وقت لگا۔

شلیم نے کہا،’میں حیران ہوں کہ ایک امریکی صدر کسی سربراہ مملکت کو قتل کرنے کی بات کر سکتا ہے۔ یہ زبان کسی ایک مافیا سرغنہ کی ہوتی ہے، مہذب ممالک کے رہنماؤں کی نہیں۔’

شیکسپیئر کے ہیملیٹ کی طرح طویل عرصے تک عدم فیصلہ کے بعد ٹرمپ نے اتوار کی صبح ایران کے اہم جوہری ٹھکانوں  پر حملہ کیا۔

ٹرمپ نے اعلان کیا، ‘امریکی فوج نے ایرانی حکومت کے تین بڑے جوہری مقامات پر شدید اور عین مطابق حملے کیے ۔ یہ سائٹس تباہ کن منصوبے کا مرکز تھیں۔ اب وہ مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ ایران، جو مشرق وسطیٰ کا غنڈہ بن چکا ہے، اب سے امن کا راستہ چننا ہو گا۔ اگر نہیں چنا تو اگلی بار حملے اس سے بھی زیادہ تباہ کن ہوں گے۔’

ٹرمپ نے ‘وزیراعظم نیتن یاہو کا شکریہ ادا کیا اور مبارکباد دی’ – اگرچہ بہت سے لوگوں نے اسے تباہ کن اشتعال انگیزی کے طور پر دیکھا۔

ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اس پر متوازن لیکن سخت ردعمل دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ٹرمپ نے امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کی مہنگی اور نہ ختم ہونے والی جنگوں کو ختم کریں گے۔ لیکن انہوں نے ایران کے ساتھ غداری کی، سفارتی معیارات کی خلاف ورزی کی اور اپنے ہی ووٹروں کو دھوکہ دیا – صرف ایک جنگی مجرم کی مرضی کے سامنے جھکنے کے لیے جو امریکی جانوں اور مال کو اسرائیل کے ایجنڈے کے لیے استعمال کرتا ہے۔’

عالمی برادری پہلے ہی اسرائیل پر جنگی جرائم کا الزام لگا چکی ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں نے نیتن یاہو حکومت کو غزہ میں منظم اور طویل تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

رپورٹس کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں (جن میں ایک ہزار سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہوئے) کے بعد سے غزہ میں 55000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

غزہ اب ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکاہے اور حالیہ تاریخ کے سنگین ترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے – جس میں بھوک اور لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ نے ان حالات کی شدید مذمت کی ہے۔ ان خدشات کو اوربڑھاتے ہوئے، اسرائیل – جو کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا دستخط کنندہ نہیں ہے – کے پاس ایک ہزار سے زیادہ جوہری ہتھیاروں کا تخمینہ ہے۔

تیرہ جون کو، اس نے ایران پر حملہ کیا جسے ایران نے ‘جھوٹ پر مبنی غیر اشتعال جنگ’ قرار دیا ہے۔ اس حملے نے پہلے سے ہی غیر مستحکم صورتحال کو مزید دھماکہ خیز بنا دیا۔ ‘یہ صرف ایران نہیں تھا جس پر بمباری کی گئی تھی’، ‘یہ حملہ صرف ایران کے جوہری ڈھانچے پر نہیں تھا۔’

یہ بات ایران کے وزیر خارجہ عراقچی نے استنبول میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ ‘یہ اقوام متحدہ کے چارٹر، جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے اور پورے بین الاقوامی قانونی فریم ورک پر براہ راست حملہ تھا۔’

عراقچی نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی(آئی اے ای اے) کے مبینہ ‘اورویلین ڈبل اسپیک’ یعنی تضادار اور گمراہ کن زبان پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے ایران کی یورینیم کی افزودگی کے بارے میں مبہم بیانات دیے – انہوں نے کہا کہ افزودگی کی سطح 60 فیصد تک پہنچ گئی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بم بنانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

عراقچی نے کہا،’آئی اے ای اے اور اس کے ڈائریکٹر نے اس تشدد کو ممکن بنایا ہے۔ ان کے متضاد اور دوہرے پیغامات نے اسرائیلی اور امریکی جارحیت کی راہ ہموار کی۔’

یورپی ملی بھگت  اور خاموشی جو حیران کن ہے

ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والی یورپی طاقتوں کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران کے وزیر خارجہ عراقچی نے کہا کہ اس حملے میں برطانیہ، جرمنی اور یورپی یونین نے حصہ لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنیوا میں ابھی امن مذاکرات جاری تھے جب یہ حملے کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایک بار پھر یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات کے بیچ میں ہی تھے۔

اکیسویں صدی کا ایک المناک باب

جیسا کہ دنیا اس بحران کو بڑھتے ہوئے دیکھ رہی ہے، بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک نئے عالمی تنازعہ کے آغاز کا مشاہدہ کر رہے ہیں؟

ایران، جو پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانی تہذیب والا ملک ہے، اس طرح کی جارحیت کے سامنے خاموش رہنے والا نظر نہیں آتا۔ اس کے رہنما پہلے ہی اقوام متحدہ کے چارٹر کی متعدد خلاف ورزیوں کا حوالہ دے چکے ہیں – خاص طور پر آرٹیکل 2، پیرا 4 کا، جو کسی بھی ملک کی خودمختاری کے خلاف طاقت کے استعمال کو روکتا ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ عراقچی نے کہا کہ یہ جنگی کارروائی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی خلاف ورزی ہے اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ ہم اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، آئی اے ای اے اور دیگر تمام متعلقہ اداروں کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ فوری اور فیصلہ کن کارروائی کرنے کے پابند ہیں۔’

انہوں نے خبردار کیا کہ ‘اس طرح کی کھلی جارحیت کے سامنے خاموشی دنیا کو غیرمعمولی بحران اور افراتفری کی طرف دھکیل دے گی۔’

اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی متعدد مذمتی قراردادوں سے خود کو دور کرنے کے بعد، ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے بالآخر ایرانی صدر سے رابطہ کیا اور کشیدگی کو کم کرنے کی اپیل کی۔

لیکن جیسا کہ پروفیسر ایوی شلیم نے خبردار کیا تھا، ‘مافیاسرغناؤں’ کی حکمرانی والی دنیا میں یہ بتانا مشکل ہے کہ آیا قانون کی حکمرانی باقی رہے گی – یا پھروہ فردو، نتنز اور اصفہان کے ملبوں کے نیچے ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکی ہے۔’

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔

Next Article

ایران پر اسرائیلی حملے اور ٹرمپ کی دھمکی سے بے نقاب ہوا عالمی سیاست کا حقیقی چہرہ

اسرائیل نے ایران پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ یہ اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ ایک  ملک جس کے پاس ایٹم بم ہے، ایک پڑوسی ملک پر یہ کہہ کر حملہ کرتا ہے کہ وہ ایٹم بم بنانے کے قریب ہے۔

بائیں سے- آیت اللہ علی خامنہ ای، ڈونالڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

پوری دنیا کے لوگ ایک ناقابل یقین منظر دیکھ رہے ہیں۔ یا اصل حقیقت اب بے نقاب ہو گئی ہے۔ یعنی دنیا میں ڈپلومیسی نام کی کوئی شےنہیں ہے۔ جو ہے وہ غنڈہ گردی یا مسلح قوت ہے۔ بین الاقوامی اصول، قوانین اور ضابطوں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اگر کچھ طاقتور غنڈے، جنہیں قوم کے نام سے قابل فخر سمجھا جاتا ہے، ساتھ آ جائیں تووہ  کسی کو بھی گھیر کر مار ڈال سکتے ہیں۔

یہ بھی ایک ناقابل یقین منظر ہے کہ دنیا کے سب سے طاقتور مانے جانے والے ملک امریکہ کے سربراہ کو اسرائیل نے نکیل ڈال رکھی ہے اور اپنی مرضی سے اسے نچا رہا ہے۔ جیسا کہ بہت سے امریکی ماہرین ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ یہ اسرائیل ہے جو امریکہ کی بین الاقوامی پالیسی کا فیصلہ کرتا ہے، امریکہ نہیں۔

اسرائیل نے ایران پر اچانک حملہ کر دیا ہے۔ تزویراتی طور پر اہم اہداف پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے ایران کی فوج کے رہنماؤں کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا ہے۔


اسرائیل نے فوج اور حکومت میں خامنہ ای کے تمام قریبی لوگوں کو نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا ہے۔ اب یہ دھمکی دے رہا ہے کہ وہ ایران کے لیڈر خامنہ ای کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ ایران میں بغاوت کی بات کر رہا ہے۔ نیتن یاہو ایران کے عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ اپنی حکومت کو معزول کر دیں۔ اور خود کو اس کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ یعنی ایران میں جو تباہی برپا کر رہا ہے اس کے مطابق وہ ایران کی بھلائی کے لیے ہے۔


وہ یہ سوچ بھی پا رہا ہے کہ جو ایرانی عوام اس کی بمباری سے ہلاک اور تباہ ہو رہے ہیں وہ اسے اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اس کو خوش آمدید بھی کہیں گے۔

امریکہ اب تک اپنے پٹھے اسرائیل کے ساتھ براہ راست میدان میں نظر نہیں آ رہا۔ نیتن یاہو پہلے دن سے ہی اپنے سرپرست سے کہہ رہاہے کہ اسے میدان میں اترنا ہی پڑے گا۔ امریکی صدر کو اکسانے کے لیے وہ کھلے عام کہہ رہاہے کہ ایران ٹرمپ کا قتل کر سکتا ہے۔ نیتن یاہو ٹی وی پر کہہ رہا ہے کہ ٹرمپ ایران کا پہلا ہدف ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ٹرمپ خود کو بچانا چاہتے ہیں تو وہ ایران پر اسرائیلی حملے میں شامل ہو جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تنہا ایران کو شکست نہیں دے سکتا۔

اسرائیل یورپ اور امریکہ کو سمجھا رہا ہے کہ وہ دراصل انہیں بچانے کے لیے ایران پر حملہ کر رہا ہے۔ اور وہ سن رہے ہیں۔


اسرائیل میں امریکی سفیر ٹرمپ کو ایک بے ڈھنگا  خط بھیجتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ٹرمپ کو اسے خدا نے کچھ ایسے کام کو انجام دینے کے لیے بھیجا ہے جو کوئی دوسرا صدر نہیں کر سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ 1945 کے ٹرومین کے بعد وہ دوسرا صدر ہے جسے خدا نے اپنا کام کرنے کے لیے چنا ہے۔ سب کو یاد ہے کہ ٹرومین نے 1945 میں کیا کیا تھا۔ اس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا یا تھا۔ سفیر صدر کو ایران کے ساتھ ٹرومین جیسا کچھ کرنے پر اکسا رہا ہے۔ اور صدر اس خط کو پبلک بھی کر دیتا ہے۔


جب  اسرائیل بغیر کسی اشتعال کے ایران پر بمباری کر رہا ہو اور پورے علاقے میں تباہی کا منظر ہو، اس وقت ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ بات چیت بہت اچھی چل رہی ہے۔ ایران کی طرف سے جو امریکہ سے بات چیت کر رہے تھے ، ان ایرانی اہلکار کو اسرائیل نے مار ڈالا اورامریکی صدرتالی بجا رہا ہے۔ کہہ رہا ہے؛ وہ مارا گیا۔

امریکہ ایک خودمختار قوم کو دھمکی دے رہا ہے کہ وہ اس کے سربراہ مملکت کو مار سکتا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں کرے گا۔ ایران ہتھیار ڈال دے ورنہ…!

اسرائیل نے ایران پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ یہ اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ ایک  ملک جس کے پاس ایٹم بم ہے، ایک پڑوسی ملک پر یہ کہہ کر حملہ کرتا ہے کہ وہ ایٹم بم بنانے کے قریب ہے۔

اور دنیا کے تمام ممالک جو اپنے آپ کو تہذیب کا محافظ کہتے ہیں، اسرائیل کی طرف سے ایران پر زبانی حملے شروع کر دیتے ہیں۔ فرانس، جرمنی، انگلینڈ سب چیخنے لگتے ہیں کہ ایران خطرہ ہے۔ جس کے پاس ایٹم بم ہے وہ خود کو غیر محفوظ کہہ کر اپنے پڑوسی پر حملہ کر رہا ہے۔ اگر ایٹم بم بھی کسی کو نہیں بچا سکتا تو اس کے ہونے کا کیا فائدہ؟

دنیا کی طاقتور ترین قومیں کینیڈا میں جمع ہوتی  ہیں۔ لیکن یہ جی7 جوکروں کے اڈے کی طرح لگتا ہے۔ یہ جوکر ہیں، لیکن خطرناک ہیں کیونکہ ان کے پاس پوری دنیا کی طاقت ہے۔

امریکہ کا  صدر یہ اڈے بازی درمیان میں چھوڑ کر اٹھ جاتا ہے یہ کہہ کر کہ وہ کچھ بہت بڑا کرنے کے لیے واشنگٹن لوٹ رہا ہے۔

سب قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ وہ بڑا کیا ہوگا! ‘ میرے ذہن میں کیا ہے، کوئی نہیں بتا سکتا ‘، وہ سب کو چڑاتا ہے۔


صحافی پوچھتے ہیں کہ صرف 3 ماہ قبل امریکی محکمہ انٹلی جنس کی سربراہ تلسی گبارڈ نے بیان دیا تھا کہ ایران کے پاس بم بنانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ پھر امریکہ اب اس بیان سے کیسے پیچھے ہٹ سکتا ہے؟ اور صدر یہ کہتا ہے کہ اسے  ذرا بھی پرواہ نہیں  کہ وہ کیا بولی تھی۔ ابھی اس کے ذہن میں جو آئے گا وہ کرے گا۔ امریکہ میں لوگ چیخ رہے ہیں کہ جنگ کا فیصلہ صرف کانگریس یا سینیٹ ہی کر سکتی ہے، لیکن صدر کے پاس ان اصول و ضوابط کے لیے وقت نہیں ہے۔


آپ کینیڈا میں اس منظر کو دوبارہ دیکھیے؛ فرانس، انگلینڈ، اٹلی، کینیڈا، جاپان، امریکہ اور یورپی یونین کے سربراہان کو دیکھیے۔ ان کے باہمی مسخرے پن کو دیکھیے۔ یہ سب اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ کے لیے اکٹھا ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ دنیا یقین کرے کہ وہ انسانیت کے لیے بھلائی کے طریقے سوچ رہے ہیں۔

مستقبل میں جب کوئی یہ تصویریں دیکھے گا تو کیا وہ اندازہ لگا سکے گا کہ یہ اس وقت کا منظر ہے جب ان ملکوں کا ایک پٹھوں دنیا کے ایک حصے میں تباہی مچا رہا تھا؟ جب غزہ میں روزانہ وہ پٹھوںسینکڑوں فلسطینیوں کو قتل کر رہا تھا؟

یہ 6 مغربی ممالک پوری دنیا کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ باقی ممالک ان کے دعوت نامے کا انتظار کرتے ہیں، ان کے ساتھ تصویر لینے کے لیے دھکا مکی کرتے ہیں۔ سب کوواپس اپنےملکوں میں اپنے ووٹروں کو تصویر دکھانی ہے!

دنیا میں قیادت کا فقدان ہے، ہم افسوس کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں شاید ٹرمپ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ہمیں دکھایا کہ بین الاقوامی تعلقات جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ زمین کے وسائل کی اجتماعی لوٹ مار کے لیے طاقتوروں کے باہمی معاہدے کا دوسرا نام ہے۔ ایک طرح سے 20ویں صدی کا پہلا نصف ختم نہیں ہوا ہے۔ جس طرح یہ ممالک مشرق وسطیٰ کو آپس میں تقسیم کر رہے تھے، آج پھر کر رہے ہیں۔ استعماریت جاری ہے۔

اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔

Next Article

مہاتما گاندھی کا مودی کو خط: تم غزہ پر چُپ کیوں رہے؟

اگر آج مہاتما گاندھی زندہ ہوتے، تو فلسطین جیسی مظلوم قوم کے تئیں ہندوستان کی خاموشی پر کیا کہتے؟ یہاں راجیہ سبھاممبرمنوج کمار جھا گویا  گاندھی کی روح کو لفظوں کا پیرہن عطا کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی۔تصویر بہ شکری:پی آئی بی/السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر

مہاتما گاندھی کو رخصت ہوئےعرصہ بیت چکا ہے، لیکن ہندوستان کی سیاست میں ان کی اہمیت روز افزوں ہے۔ ان کی تعلیمات عالمی سیاست کے تناظر میں آج بھی صدگونہ اہمیت کی حامل ہیں۔ راجیہ سبھا ممبر منوج کمار جھا نے مہاتما گاندھی کےنظریے سے یہ خط وزیر اعظم نریندر مودی کے نام لکھتے ہوئے پوچھا ہے کہ ‘اجتماعی درد اور اذیت  کے سامنے کیا خاموشی کبھی غیر جانبدار ہو سکتی ہے؟’

عزت مآب جناب نریندر مودی جی،

میں آپ کو کسی تاریخی شخصیت کے طور پر نہیں اور نہ ہی مہاتما کے طور پر یہ خط لکھ رہا ہوں ۔ امید ہے کہ آپ میرے الفاظ کو اخلاقی ضمیر کی آواز کے طور پر پڑھیں گے، جس نے جدوجہد، قربانی اور خود شناسی کے دور میں  طویل عرصے تک ہمارے ملک کی رہنمائی کی۔ سچائی، عدم تشدد، رحمدلی اور انصاف کے ساتھ ہندوستان کا رشتہ تاریخ کی یادگار محض نہیں ہے۔ یہ اقدار ہماری تہذیب و ثقافت کے  لازمی اور زندہ اخلاقی کردار (ایتھوس) ہیں۔ یہ دنیا کے ساتھ ہمارے معاملات میں تہذیبی رہنما ہیں۔

میرا اور آپ کا ملک، جس نے عدم تشدد اور اخلاقی مزاحمت کے دم پر اپنی آزادی حاصل کی تھی، آج مظلوموں کی تکلیف پر تذبذب کا شکار ہے اور خاموش ہے۔ میں انتہائی تشویش کے ساتھ فلسطین کے سوال پر ہندوستان کے موقف میں قابل ذکر تبدیلی دیکھ رہا ہوں۔ سچ کہوں تو بہت پریشان بھی ہوں۔ فلسطینی کاز کے لیے ہندوستان کی تاریخی حمایت کبھی بھی خارجہ پالیسی کی سہولت کا معاملہ نہیں تھا۔

تاریخی طور پر ہندوستان ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ جنگ کا نہیں، بلکہ امن کا حامی  رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد پر ووٹ نہ دینے کا فیصلہ، جیسا کہ گزشتہ 12 جون کو اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے تناظر میں دیکھا گیا، ہندوستان کے دیرینہ تہذیبی اخلاق اور تاریخی سفارتی موقف سے کافی الگ تھا۔ یہ ایک ایسے وقت میں اخلاقی خاموشی ہے جب دنیا انصاف کے لیے آواز اٹھانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ میرے خیال میں، آپ کے پیش رو وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو عدم تشدد، نوآبادیاتی قوم کے ساتھ یکجہتی اور فلسطین کی جائز خواہشات کی مستحکم حمایت پر استوار کرنے کی کوشش کی۔

بارہ جون 2025 کو جنگ بندی کی قرارداد پر ووٹ نہ دینے کا فیصلہ نہ صرف ہمیں عدم تشدد اور انصاف کی تہذیبی اقدار سے دور کرتا ہے بلکہ اقوام کے درمیان اخلاقی رہنما کے طور پر ہماری ساکھ کو بھی مجروح کرتا ہے۔ یہ ہماری تہذیبی ذمہ داری ہے کہ نفع و نقصان کے ترازو کو ایک جانب رکھتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہوں جو اب بھی اپنی بقا کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ تزویراتی اتحاد یا معاشی فوائد کے حصول کے لیے اس روایت سے دور جانا یہ بھول جانا ہے کہ ہم بحیثیت فرد کون ہیں اورایک قوم کے طور پر ہماری تاریخ نے ہمارے کندھوں پر کس طرح  کی ذمہ داری ڈالی ہے۔

حال ہی میں میری زندگی کے آخری سالوں کے تناظر میں مانس فراق بھٹاچارجی (گاندھی:دی اینڈ آف نان  وائلنس) کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے دکھایا ہے کہ ہم سچائی، عدم تشدد اور صوابدیدکی بنیاد پر کس طرح بڑے سے بڑے بحران کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ میرا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ سیاسی طاقت پر اخلاقی جرأت غالب آنی چاہیے تاکہ ہماری پالیسیاں خواہ وہ ملکی معاملات ہوں یا خارجہ پالیسی اس ملک کی تہذیب اور آئین کے مطابق طے کی جانی چاہیے۔

برا نہ مانیےگا، لیکن آپ کو خودسے پوچھنا چاہیے؛ کیا اجتماعی درد اور اذیت کےسامنے خاموشی کبھی غیر جانبدار ہوسکتی ہے؟

میں آپ کو عاجزی کے ساتھ لیکن مضبوطی سے یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آزادی سے بہت پہلے میں نے اس عقیدے کا اظہار کیا تھا کہ ‘فلسطین اسی طرح عربوں کا ہے جس طرح انگلستان انگریزوں کا یا فرانس فرانسیسیوں کا ہے’۔ میرے الفاظ کسی برادری کے خلاف دشمنی سے نہیں بلکہ انصاف کے لیے غیرمتزلزل وابستگی  متاثر تھے۔

آپ اور آپ کے وزیر خارجہ جئے شنکر جی یہ دلیل پیش کر سکتے ہیں کہ وقت بدل گیا ہے۔ لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں – کیا سچ بدل گیا ہے؟ کیا ہمدردی غیر متعلق ہو گئی ہے؟ کیا ہندوستان کی اخلاقی آواز اور اس سے پیدا ہونے والی اخلاقی قوت پر بات چیت کا امکان ختم ہو گیا ہے؟

فلسطینی عوام کی مظلومیت – ہزاروں کی تعداد میں ہلاکت، اپنے ہی گھر سے بے دخل ہونا، دن رات آسمان و زمین سے برستی آگ ، ان کے گھروں اور خوابوں کی تباہی – غیر جانبداری نہیں بلکہ اخلاقی وضاحت کا تقاضہ کرتی ہے۔

آپ اکثر اپنے غیر ملکی دوروں پر کہتے ہیں کہ میں یدھ (جنگ) سے نہیں بدھ کی سرزمین سے آیا ہوں۔ اس لیے میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ ایک بار سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ گزشتہ دنوں میں ہماری خارجہ پالیسی کا حاصل کیا رہا ہے۔ ایک ایسی قوم جو ‘ وسودھیو کٹمبکم ‘ کے راستے پر چلنے کا دعویٰ کرتی ہے، جب اس عالمی خاندان کا ایک حصہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو اور روزانہ تشدد کا شکار ہو تو وہ کیسے آنکھیں بند کر سکتی ہے؟

جارح اسرائیلی حکومت کے خلاف مضبوط اخلاقی موقف اختیار کرنے میں ناکامی نہ صرف فلسطینی بحران کو مزید گہرا کرے گی بلکہ پورے علاقائی توازن کو بھی بگاڑ دے گی۔ جب ایشیا اور عرب دنیا کے ممالک اپنی تہذیبی ذمہ داری سے منہ موڑ لیتے ہیں تو وہ انجانے میں مغربی طاقتوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن جاتے ہیں۔ عالمی جنوب کی آزاد آواز دب جاتی ہے اور وہ ایک بار پھر انہی سامراجی قوتوں کی مرضی پر ناچنے پر مجبور ہوجاتا،جن سے ہم نے کبھی آزادی حاصل کی تھی۔

میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین پر ہندوستان کے موقف کو ایک بار پھر اس کے تہذیبی کردار سے جوڑیں – ایک ایسا کردار جو طاقتور کے ساتھ نہیں بلکہ لاچاروں کے ساتھ کھڑا ہو۔ قبضہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں، مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہو۔ تاریخ نہ صرف یہ یاد رکھے گی کہ ہندوستان دنیا میں کس طرح نمایاں ہوا بلکہ یہ بھی یاد رکھے گی جب انصاف کی پکار ہوئی  توہندوستان کیسے کھڑا ہوا۔

میں اس قوم کی ابدی روح میں ہمیشہ امید کے ساتھ رہوں گا۔

آپ کا،

موہن داس کرم چند گاندھی

جون 2025

منوج کمار جھا راشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا ممبر ہیں۔

Next Article

گجرات حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ مسلم تاجر ہندو علاقے میں اپنی دکان کھول سکیں: ہائی کورٹ

وڈودرا کے ہندو اکثریتی علاقے میں ایک مسلمان تاجر نے دکان خریدی تھی، لیکن اسے کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اب گجرات ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو یہ یاد دلاتے ہوئے  کہ امن و امان برقرار رکھنا اس کا فرض ہے، مسلم تاجر کے مسئلے کو حل کرنے کی ہدایت دی ہے ۔

علامتی تصویر: پی ٹی آئی

نئی دہلی: گجرات ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو یاد دلاتے ہوئے کہ امن و امان برقرار رکھنا اس کا فرض ہے، حکام کو ہندو اکثریتی علاقے وڈودرا میں اپنی قانونی ملکیت والی دکان سے کاروبار کرنے میں مسلم تاجر کودرپیش پریشانی کا ازالہ کرنے کی ہدایت دی  ۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس ایچ ڈی سوتھار کی بنچ کی طرف سے دیا گیا یہ حکم درخواست گزار اونالی ڈھولکا والا کو راحت کی خبر لے کر آیا ہے، جنہیں مبینہ طور پر مقامی لوگوں کی طرف سے مسلسل رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ہے، کیونکہ انہوں نے انہیں اپنی دکان کھولنے منع کر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، درخواست گزار نے 2016 میں چمپانیر دروازہ کے قریب دو ہندو بھائیوں سے دکان قانونی طور پر خریدی تھی۔ تاہم، وہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے بعد ہی 2020 میں سیل ڈیڈ رجسٹر کروا سکے، کیونکہ یہ علاقہ گجرات میں غیر منقولہ جائیداد کی منتقلی کی ممانعت اور ڈسٹربڈ ایریازمیں کرایہ داروں کی بے دخلی کے قانون ، 1991(ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ) کے تحت آتا ہے، جو جائیداد کے لین دین پر پابندی لگاتا ہے اور لین دین کے لیے ضلع کلکٹر کی اجازت کو لازمی بناتا ہے۔

دریں اثنا، انہیں دکان کے پڑوسیوں کی طرف سے مسلسل مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، کچھ مقامی لوگوں نے ایک مسلمان کو جائیداد کی فروخت کو چیلنج کیا  تھااور اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھاکہ کسی مسلمان کو علاقے میں جائیداد خریدنے کی اجازت دینا پولرائزیشن کا باعث بن سکتا ہے اور آبادی کا توازن بگڑ سکتا ہے۔

فروری 2023 میں ہائی کورٹ نے ان کی درخواست کو مسترد کر دیا اور اور اس طرح کے اعتراض کو ‘پریشان کن’ قرار دیتے ہوئے دونوں فریقین میں سے ہر ایک پر 25000 روپے کا جرمانہ عائد کیا،کوں کہ مالک کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور اس کی خریدی ہوئی جائیداد کو استعمال کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی خارج کر دی گئی۔

تاہم، مقامی لوگوں نے پھر بھی ڈھولکا والا کو دکان استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے مبینہ طور پر دکان کے گیٹ پر ملبہ ڈال دیا تاکہ یہ  کھل نہ سکے۔

انہوں نے ایک بار پھر ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور پولیس تحفظ طلب کیا تاکہ وہ دکان کی عمارت کی مرمت کر واسکیں اور احاطے سے کاروبار کر سکیں۔ انہوں نے شکایت کی کہ انہوں نے کئی بار پانی گیٹ پولیس سے تحفظ کا مطالبہ کیا، لیکن مبینہ طور پر کوئی مدد نہیں ملی۔

ان کے کیس کی سماعت کرنے کے بعد جسٹس ایچ ڈی سوتھار نے کہا، ‘مقدمہ کے حقائق اور ضمیمہ-اے میں درخواست گزار کی شکایت پر غور کرتے ہوئے متعلقہ جواب دہندہ اتھارٹی کو قانون کے مطابق درخواست گزار کی شکایت کا ازالہ کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے، کیونکہ امن و امان کو برقرار رکھنا ریاست کا فرض ہے۔ اگر کوئی منفی نتیجہ نکلتا ہے، تو درخواست گزار مناسب فورم کے سامنے مناسب کارروائی دائر کرنے کے لیے آزاد ہیں۔’

Next Article

ڈونالڈ ٹرمپ کا ’جنگ بندی‘ کا دعویٰ؛ ایران نے تصدیق کی، اسرائیل اب بھی خاموش

ایران کے امریکی ایئربیس پر حملے کے چند گھنٹے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ایران اور اسرائیل جنگ بندی پر راضی ہو گئے ہیں۔ ایران نے اس کی تصدیق کی ہے، لیکن اسرائیل کی خاموشی شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ عراقچی نے کہا ہے کہ ابھی تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ (تصویر بہ شکریہ: وہائٹ ہاؤس)

نئی دہلی: ایران کی جانب سے قطر میں امریکی فضائیہ کے اڈے پر حملے کے چند گھنٹے بعد  امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ایران اور اسرائیل ‘مکمل جنگ بندی’ پر رضامند ہو گئے ہیں۔ اگرچہ ایران نے اس جنگ بندی کی تصدیق کی ہے، تاہم اسرائیل کی جانب سے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا، ‘سب کو مبارکاد!’ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک ‘اپنا آخری مشن مکمل کرلینے کے بعد’ جنگ بندی پر عملدرآمد کریں گے۔

ٹرمپ نے لکھا، ‘ایران باضابطہ طور پر پہلے جنگ بندی کا آغاز کرے گا، اور بارہویں گھنٹے پر اسرائیل بھی جنگ بندی شروع کرے گا، اور چوبیسویں گھنٹے پر دنیا اس 12 روزہ جنگ کے باضابطہ خاتمے کو سلام کرے گی۔’

انہوں نے مزید لکھا، ‘یہ فرض کرتے ہوئے کہ سب کچھ ٹھیک سے چلے گا – جو کہ چلےگا ہی – میں اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے صبر، ہمت اور دانشمندی کا مظاہرہ کرنے پر اسرائیل اور ایران دونوں ممالک کو مبارکباد دینا چاہوں گا۔ اس جنگ کو ‘دی 12 ڈے وار’ کہا جانا چاہیے۔

روئٹرزکی رپورٹ کے مطابق، ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے بات کی اور ان کی ٹیم ایرانی حکام سے رابطے میں  تھی۔

ٹرمپ نے ایک اور پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل اور ایران تقریباً ایک ہی وقت میں ان کے پاس آئے اور امن کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے لکھا، ‘اسرائیل اور ایران تقریباً ایک ہی وقت میں میرے پاس آئے اور کہا – ‘امن!’ میں جانتا تھا کہ وقت آگیا ہے۔ دنیا اور مشرق وسطیٰ ہی حقیقی فاتح ہیں! دونوں ممالک  کواپنے مستقبل میں بے پناہ محبت، امن اور خوشحالی ملے گی۔ ان کے پاس حاصل کرنے کو بہت کچھ ہے ،اور اگر وہ حق اور راستی کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں تو بہت کھونے کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔ اسرائیل اور ایران کا مستقبل لامحدود ہے… گاڈ بلیس!’

تاہم اسرائیل نے ابھی تک ٹرمپ کے اعلان کی تصدیق نہیں کی ہے۔

اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے میزائل حملے بدستور جاری ہیں اور ان میں تین افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ حملے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے طور پر ہوئے ہیں یا نہیں۔

دوسری جانب ایران نے منگل کی صبح سرکاری ٹیلی ویژن پر جنگ بندی کا باضابطہ اعلان کیا۔

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اس رپورٹ کے شائع ہونے سے دو گھنٹے قبل ایکس پر لکھا  کہ ابھی تک جنگ بندی پر اتفاق نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے لکھا،’جیسا کہ ایران نے بارہا واضح کیا ہے؛ جنگ اسرائیل نے ایران کے خلاف شروع کی تھی، نہ کہ ایران نے اسرائیل پر۔ اب تک کسی جنگ بندی یا فوجی کارروائیوں کو روکنے کا کوئی ‘معاہدہ’ نہیں ہوا ہے۔ تاہم، اگر اسرائیلی حکومت تہران کے وقت کے مطابق صبح 4 بجے تک ایرانی عوام کے خلاف اپنی غیر قانونی جارحیت بند کر دیتی ہے، تو ہمارا جواب دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔’

انہوں نے مزید لکھا کہ ‘ہماری فوجی کارروائیوں کو ختم کرنے کا حتمی فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔’

عراقچی نے ایک اور ایکس پوسٹ میں لکھا کہ اسرائیلی جارحیت کو سزا دینے کے لیے ایران کا فوجی آپریشن ‘صبح 4 بجے تک، آخری لمحے تک’ جاری رہا۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ‘میں اپنی بہادر مسلح افواج کا شکریہ ادا کرنے میں تمام ایرانیوں کے ساتھ شامل ہوں، جو اپنے خون کے آخری قطرے تک اپنے پیارے ملک کے دفاع کے لیے تیار ہیں، اور جنہوں نے دشمن کے ہر حملے کا آخری دم تک جواب دیا’۔

بتادیں کہ قطر میں امریکی ایئربیس پر ایران کا حملہ امریکہ کی جانب سے ایران کے تین جوہری اڈوں پر میزائل حملے کے جواب میں ہے۔ اس سے قبل اسرائیل نے گزشتہ ہفتے ایران پر حملہ کیا تھا جس کے بعد یہ سارا تنازعہ شروع ہوا تھا۔