کشمیریوں نے اقلیت کو کبھی اقلیت نہیں سمجھا بلکہ انہیں ہمیشہ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی مانند اپنی محبتوں سے نوازا ہے۔ مگر بد قسمتی یہ رہی کہ جب بھی کوئی تاریخی موڑ آیا‘یہاں کی اقلیت اکثریت کے ہم قدم نہیں تھی۔کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ دہلی کے ایوانوں میں نوکر شاہی کو اپنا کعبہ و قبلہ تصور کرنے کے بجائے کشمیری پنڈت ہم وطنوں کے مفادات کا بھی خیال رکھیں۔
کشمیر ی قوم پر اس وقت جو افتاد آن پڑی ہے اور جس طرح مودی حکومت نے ان کے تشخص و انفرادیت پر وار کیا ہے، ہونا تو چاہئے تھا کہ مذہبی عناد سے اوپر اٹھ کر اس کا مقابلہ کیا جاتا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ کشمیری پنڈتوں (ہندوؤں)کے بااثر طبقے اور اکثریت نے ایک بار پھر اپنے ہم وطنوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر تاریخ کے مختلف ادوار کو دوہرا کر ظلم و جبر کے آلات (Instruments of Tyranny) بننے کا کام کیا۔ چند باشعور افراد جن میں سابق ایئر وائس مارشل کپل کاک، مقتدر اسپورٹس صحافی سندیپ میگزین، اشوک بھان، نتاشا کول، فلم میکر سنجے کاک اور ایم کے رینہ وغیرہ شامل ہیں،کے علاوہ پنڈت برادری کشمیریو ں پر آئی اس آفت پر جھوم اٹھی ہے۔قومی میڈیا میں موجود اسی کمیونٹی کے تین افراد سیکورٹی کے ہمراہ کشمیر میں گھوم کر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے کشمیری خوش ہیں اور کسی بھی طرح کے رد عمل کا اظہار نہیں کر رہے ہیں۔
یہ تو بھلا ہوا
بین الاقوامی میڈیا کا، جس نے ان کی پول کھول دی۔ حیرت کا مقام ہے کہ جہاں بقیہ تمام میڈیا، انٹرنیٹ و فون کی عدم دستیابی کی وجہ سے بے دست و پا ہوگیا تھا، یہ تین افراد لمحہ بہ لمحہ تصویریں و رپورٹس سوشل میڈیا پر اپ لورڈ کر رہے تھے۔ وہ کشمیر کو بھول کر فرقہ واریت کے پیمانے سے معاملات کو جانچ رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بتایا گیا کہ 1990میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، جس کی وجہ سے وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، آج مودی حکومت نے اس کا بدلہ چکایا ہے۔ آخر اس کی سزا اجتماعی طور پر پوری کشمیری قوم کو کیسے دی جاسکتی ہے؟ ویسے 1990سے لےکر اب تک کشمیر میں تو ہندوستان ہی کی عملداری ہے۔ جن لوگوں نے کشمیری پنڈتوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اس کو محض پروپیگنڈہ کا ہتھیار بنایا گیا۔ یہ خود کشمیری پنڈتوں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے۔
یہ سچ ہے کہ1989 میں کشمیر میں عسکری تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی طوائف الملوکی کے ساتھ خوف کی فضا طاری ہوگئی تھی۔ عسکریت پسندی پر کسی کا کنٹرول نہ ہونے کے باعث، آوارہ، اوباش اور غنڈہ عناصر نے بھی اس میں پناہ لی۔ کئی افراد توبغیر کسی مقصد، محض ہیرو بننے کی غرض سے یا کسی سے بدلہ چکانے کی نیت سے بھی عسکریت میں شامل ہوگئے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین کو چھوڑ کرایک وقت تو وادی میں ایک سو سے زائد عسکری تنظیمیں تھیں۔اس طوائف الملوکی کو مزید ہوا دینے میں ہندوستانی ایجنسیوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ 1989ء میں گورنر بننے کے فوراً بعد جگ موہن نے پوری سیاسی قیادت کو، جو حالات کنٹرول کر سکتی تھی، گرفتار کرکے ہندوستان کے دور دراز علاقوں کی جیلوں میں بند کرادیا۔ہند نواز سیاسی قیادت تو پہلے ہی فرار ہوکر جموں اور دہلی منتقل ہوچکی تھی۔ وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے تھے۔
اس انارکی کا خمیازہ کشمیری پنڈتوں کو ہی نہیں بلکہ مقامی اکثریتی آبادی مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق30سالوں میں 250 پنڈت قتل ہوئے، جس کی وجہ سے ڈھائی لاکھ کی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوگئی۔اگر یہ نسل کشی ہے تو جو اس دوران کشمیر میں اندازاً ایک لاکھ مسلمان بھی مارے گئے، وہ کس کھاتے میں ہیں۔ جموں خطہ کے دور دراز علاقوں میں 1500 کے قریب غیر پنڈت ہندو، جو زیادہ تر دلت، اور راجپوت تھے، قتل عام کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے، مگر ان خطوں میں آبادی کا کوئی انخلاءنہیں ہوا۔ چونکہ میں خود ان واقعات کا چشم دید گواہ ہوں، اس لئے مکمل ذمہ داری کے ساتھ یہ تحریر کرسکتا ہوں کہ گورنر جگ موہن، پنڈتوں کے انخلاء میں براہ راست ملوث ہو یا نہ ہو، مگر اس نے حالات ہی ایسے پیدا کئے کہ ہر حساس شخص محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈنے پر مجبور تھا۔
اگر معاملہ صرف پنڈتوں کی سکیورٹی کا ہوتا، توسوپور اور بارہ مولا کے پنڈت خاندانوں کو پاس ہی ہندوستانی فوج کے 19ویں ڈویڑن کے ہیڈکوارٹر منتقل کیا جا سکتا تھا۔ایک تو اپنے گھروں کے ساتھ ان کا رابطہ بھی رہتا اور حالات ٹھیک ہوتے ہی واپس بھی آجاتے۔جگ موہن کے آتے ہی افواہوں کا بازار گرم تھا، کہ آبادیوں پر بمباری ہونے والی ہے۔ کوئی ان افواہوں کی تردید کرنے والا نہیں تھا۔90ء کے اوائل میں انارکی کے حالات اور بندوق کے غلط ہاتھوں میں جانے اور سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے کئی بے گناہوں کی جانیں چلی گئیں‘ مرنے والوں میں پنڈت بھی شامل تھے۔ مگر جہاں اب کشمیر ی پنڈتوں کی گھر واپسی کے موضوع پر سرکار سے لے کرمیڈیا کے ایک بااثر حلقے تک‘اکثریتی طبقہ کے جذبات ومحسوسات کو جان بوجھ کرمنفی انداز میں پیش کر رہے ہیں’ وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پنڈتوں کو مارنے والے وہ بندوق بردار جب تائب ہوئے تو انہیں سکیورٹی ایجنسیوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔
کشمیر کی آزاد حثیت کو زیر کرکے جب مغل بادشاہ اکبر نے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کو قید اور جلا وطن کیا، تو مغل گو کہ مسلمان تھے، مگر اس خطہ میں ان کی سیاسست کا انداز سامراجیوں جیسا تھا۔ چونکہ کشمیر میں مسلمان امراء نے ہی مغل فوج کشی کی مزاحمت کی تھی، اسی لئے انہوں نے کشمیری پنڈتوں کی سرپرستی کرکے اقلیت گری (minority complex) کو ابھارا اور مسلمان امراء کو نیچا دکھانے کے لیےکشمیری پنڈتوں کو اپنا حلیف بنایا۔ بقول شیخ محمد عبدللہ پنڈتوں کے جذبہ امتیاز کو تقویت دینے کے لیے آدتیہ ناتھ بٹ کو ان کی مراعات کا نگہبان مقر ر کیا۔ جنوبی و شمالی کشمیر میں کشمیر پنڈت ہی گورنر بنائے گئے۔ معروف مؤرخ جادو ناتھ سرکار کے مطابق مغل سلطنت کے دوران کشمیری مسلمانوں کو امور سلطنت سے دور رکھا گیا۔ اس طرح کشمیر کے بطن سے مغلوں نے ایک قابل اعتبار Fifth Coloumnistوطن فروش گھر کا بھیدی پیدا کیا۔ مسلمانوں پر فوج کے دروازے بند تھے، مگرپنڈتوں کے لیے کھلے تھے۔
کشمیری میرو پنڈت تو نو ر جہاں کی ذاتی فوج کا نگران اعلیٰ تھا۔ پنڈتوں کی یہ بالا دستی اورنگ زیب کے دور میں بھی جاری تھی۔ اس کے دربار میں مہیش شنکر داس پنڈت کا خاصا اثر ر رسوخ تھا۔ افغان دورکی ظلم و ستم کی کہانیاں جہاں کشمیر میں زد و عام ہیں، اس وقت بھی کشمیری پنڈت ظالموں کی صف میں اپنے ہم وطنوں سے کٹ کر کھڑے تھے۔ بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم بنایا تھا۔ حاجی کریم داد خان نے پنڈت دلا رام کوپیش کار کا عہدہ دیا تھا۔ افغان حکومت کے زوال کے بعد سکھ اور ڈوگرہ دور میں بھی پنڈتوں کا ہی طوطی بولتا تھا۔ یہ دونوں دور ظلم و ستم میں افغانوں سے بازی لے گئے۔ کشمیر کے مشہور’در’ خاندان کا عروج اسی دور میں ہوا۔ سکھ دور میں ہی کشمیری پنڈتوں کی ایما پر نہ صرف گئو کشی بلکہ گائے کا گوشت برآمد ہونے پر سزائے موت کا فرمان جاری ہوا، جس کو بعد میں ازراہ ترحم ڈوگرہ حکمرانوں نے عمر قید میں تبدیل کیا۔ تب تک 19کشمیری مسلمان اس جرم میں پھانسی کی سزا پا چکے تھے۔ ڈوگرہ حکمران مہاراجہ گلاب سنگھ نے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنایا، جس کی سختیوں اور شال بننے والے کاریگروں پر اس کے ٹیکس کی مار نے 1865میں سرینگر کی سڑکوں پر دنیا کی پہلی مزدو ر بغاوت برپا کی۔
مصنف اور بندوبست اراضی کے کمشنر سر والٹر لارنس کے مطابق ڈوگرہ حکومت میں ساری قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں تھی۔ مسلمان کا شت کار کو برہمنوں کے آرام و آسائش کے لیے بیگار پر مجبور کیا جاتا تھا۔ 19ویں صدی کے آواخر میں جب پنجاب سے آنےوالے ہندو اور کشمیری نژاد مسلمانوں نے ڈوگرہ دربار میں نوکریاں حاصل کرنی شروع کی، تو کشمیری پنڈتوں نے کشمیر، کشمیریوں کے لیے اور اسٹیٹ سبجیکٹ کا نعرہ بلند کرکے علیحدہ شہریت کا مطالبہ کیا۔ اب ایک صدی کے بعد کشمیری پنڈتوں نے ہی اسی قانون کی مخالفت میں زمین و آسمان ایک کئے۔ 1931میں جب تحریک کشمیر کا باقاعدہ آغاز ہوا، تو ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیری پنڈتوں کو ڈھال بناکر پروپیگنڈہ کیا کہ یہ دراصل ہندو مہاراجہ کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت ہے۔ شاید یہی تاریخ اب دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ پورے ہندوستان میں ظالم و مظلوم کی جنگ کو کشمیر مسلمان بنام پنڈت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
ڈوگرہ حکومت کے دور میں جب چند پڑھے لکھے مسلمانوں کو معمولی سرکاری نوکریا ں ملنی شروع ہوئی، تو کشمیری پنڈتوں نے اس کے خلاف ‘روٹی ایجی ٹیشن’ شروع کی۔ انہوں نے مہاراجہ کو ایک میمورنڈم پیش کیاکہ کولگام علاقہ میں ان کیلئے ایک علیحدہ وطن بنایا جائے۔ یہ وہی مانگ ہے جو کشمیری پنڈت آجکل ایک علیحدہ ہوم لینڈ یعنی’پنن کشمیر’کے نام سے کر رہے ہیں۔ بھلا ہو چند روشن خیال کشمیری پنڈتوں کا، خاص طور پر پنڈت پریم ناتھ بزاز کا، جس نے برطانوی حکومت کی ایماء پر بنائے گئے گلینسی کمیشن کو بتایا کہ مسلمانوں کے مقابلے کشمیری پنڈتوں کی حالت خاصی بہتر ہے۔ خود جواہر لال نہرو نے کشمیری پنڈتوں کے گڑھ شیتل ناتھ جاکر ان کو مشورہ دیا تھا کہ و ہ ظالم و مظلوم کی جنگ میں مظلوم کا ساتھ دیں۔ نہرو اس وقت اپنے دوست شیخ عبداللہ کے لیے پنڈتوں کی حمایت چاہتے تھے۔ مگر پنڈت ڈوگرہ مہاراجہ کا دامن چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انفرادی طور پر کئی پنڈت لیڈران کشمیری مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ رہے، مگر طبقاتی حیثیت سے وہ تحریک آزادی کے دھارے سے کٹے ہی رہے۔
اسی مہاراجہ نے 1947میں قبائلی حملوں کے خوف سے رات کے اندھیرے میں بھاگ کر ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ یہ تو کشمیری مسلمان ہی تھے، جنہوں نے ان کی حفاظت یقینی بنائی۔ پنڈت پران ناتھ جلالی ایک واقعہ سناتے تھے، کہ شیخ عبداللہ نے بطور چیف ایڈمنسٹریٹر جب زمام کار سنبھالی تو ان کو کشمیری پنڈتوں کی باز آباد کاری کا کام سونپا گیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ ہندواڑ ہ تحصیل کے کسی گاؤں میں کشمیری پنڈتوں کے کئی خاندان ہفتوں سے غائب ہیں۔ سرینگر سے روانہ ہوکر سوپور تھانہ سے سپاہیوں کی کمک ساتھ لیکر وہ اس گاؤں میں پہنچے۔ معلوم ہوا کہ اطلاع صحیح تھی۔ گاؤں کے سرکردہ افراد کو بلا کر ان کا انٹروگیشن کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی سخت پٹائی کی، حتیٰ کی ان کی خواتین و بچوں تک کو نہیں بخشا، مگر سبھی گاؤ ں والے عذا ب تو سہتے رہے، مگر بس یہی کہتے رہے کہ ان کو کچھ نہیں معلوم کہ یہ پنڈت خاندان کہاں چلے گئے ہیں۔
خیر جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ایک خالی پنڈت مکان میں انہوں نے اور سپاہیوں نے ڈیرا ڈالا۔ ایک رات ایک سپاہی نے ان کو بتایا کہ رات گئے گاؤں میں لوگوں کی کچھ غیر معمولی نقل و حرکت محسوس ہوتی ہے۔ اگلی رات انہوں نے ناکہ لگاکر دیکھا کہ و اقعی گاؤں کے سرکردہ افراد سروں پر ٹوکریاں جمائے پاس کے جنگل کی طرف رواں ہیں۔ جلالی صاحب اور سپاہیوں نے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ چند ایک میل چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ نالہ کے دوسری طرف ایک محفوظ و تنگ گھاٹی میں کشمیری پنڈت خاندان چھپے ہوئے تھے اور گاؤ ں والے ہر رات ٹوکریوں میں ان کو کھانا پہنچا رہے تھے۔ جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ندامت سے ان کے پاؤں زمین میں گڑگئے۔ پچھلے کئی روز سے انہوں نے ان گاؤں والوں کا جس طرح ٹارچر کیا تھا، وہ اس پر پشیمان تھے۔ ان جاہل ان پڑھ دیہاتیوں نے ٹارچر اور گالیا ں کھانا برداشت تو کیا، مگرکیا بچے کیا خواتین، کسی نے پنڈتوں کے ٹھکانے کا افشا ء نہیں کیا۔ بعد میں گاؤں والوں نے بتایا کہ ان کو جلالی صاحب کی ٹیم پر بھروسہ نہیں تھا، کہ آیا وہ واقعی سرینگر سے ان پنڈتوں کو بچانے آئے ہیں یا ان کو قتل کرنے کے درپے ہیں۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے، جب جموں میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ایک باضابطہ نسل کشی کے ذریعے ان کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔ اسی لئے مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ جب پورا برصغیر فرقہ وارانہ آگ میں جل رہا تھا تو کشمیر سے اس کو روشنی کی کرن نظر آرہی تھی۔
کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ دہلی کے ایوانوں میں نوکر شاہی کو اپنا کعبہ و قبلہ تصور کرنے کے بجائے کشمیری پنڈت حضرات ہم وطنوں کے مفادات کا بھی خیال رکھیں۔
جب بھی مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا تو یہ اقلیتی طبقہ احساس کمتری کا شکار ہونے لگا۔ یہ نفسیات اب بھی بعض انتہا پسند پنڈتوں کو اس بھرم میں مبتلا کر چکی ہے کہ وہ نئی دہلی کے آشیرواد سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کردیں گے۔ کشمیریوں نے اقلیت کو کبھی اقلیت نہیں سمجھا بلکہ انہیں ہمیشہ ہی اپنے بیچوں بیچ رکھتے ہوئے اپنے عزیزوں اور پیاروں کی مانند اپنی محبتوں سے نوازا ہے۔ مگر کشمیری قوم کی بد قسمتی یہ رہی کہ جب بھی کوئی تاریخی موڑ آیا‘یہاں کی اقلیت اکثریت کے ہم قدم نہیں تھی، نہ صرف ہم قدم اور ہم خیال نہیں تھی بلکہ بار بار ایک ایسا راستہ اختیار کیا گیا جو اکثریتی شاہراہ کے مخالف رہا ہے۔ وقت ہے کہ پنڈتوں کو اپنا دامن دیکھ لینا چاہیے کہ آخر دونوں فرقوں کے بیچ نفسیاتی خلیج کو کس نے جنم دیا؟ اقلیت کی سلامتی اور ان کا تحفظ اکثریتی فرقہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔
مگر کشمیر میں اکثریتی طبقہ تو اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ فوجی گرفت کے بیچوں بیچ ادھار زندگی گزارنے والا کیسے کسی اور کی زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے؟ اگر ہندوستان کے مفادات کی بھی بات کریں، جس طرح کی رسائی پنڈتوں کی دہلی دربار میں تھی، وہ ہندوستان کے لیے بھی ایک طرح کے پل کا کام کرسکتے تھے۔ مگر دہلی کے جاسوسوں اور ففتھ کالم کا کردار ادار کرکے انہوں نے کشمیر میں ہندوستان کے مفادات کو بھی زک پہنچائی۔ ان کے کردار نے کشمیری مسلمانوں کو نہ صرف ہند مخالف بنایا، بلکہ نفرت کرنے کی حد تک پہنچادیا۔ کشمیری پنڈتوں کے موجودہ رویہ سے یہ کہاوت بھی ثابت ہوگئی کہ جب’در’ عروج پر ہوتے ہیں، تو کشمیر پر زوال آتا ہے۔ کشمیر ایک بار پھر آگ اور خون کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ان حالات میں اس دعا کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
دیار یار تری جوشش جنوں کو سلام
میرے وطن ترے داماں تار تار کی خیر
رہ یقین تری افشاں خاک و خون پہ سلام
میرے چمن تیرے زخموں کے لالہ زار کی خیر