راجیہ سبھا ممبراور ایم ڈی ایم کے رہنما وائیکو نے اپنی ہیبیس کارپس عرضی میں پچھلی چار دہائیوں سے خود کو جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبدااللہ کا قریبی دوست بتاتے ہوئےکہا تھا کہ نیشنل کانفرنس کے رہنما کو غیر قانونی طریقے سے حراست میں رکھ کر انہیں آئینی حقوق سے محروم کیا گیا ہے ۔
نئی دہلی: جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی رہائی کی مانگ کو لے کر ایم ڈی ایم کے رہنما وائیکو کی ہیبیس کارپس عرضی کو سپریم کورٹ نے سوموار کو خارج کردیا ۔لائیو لاء کے مطابق،سی جے آئی ربجن گگوئی کی صدارت والی بنچ نے کہا کہ 16 ستمبر کو پبلک سیفٹی ایکٹ( پی ایس سی)کے تحت عبداللہ کو حراست میں لیے جانے کے حکم کے بعد عرضی میں کچھ نہیں بچا ہے۔عدالت نے کہا کہ حراست میں لئے جانےکے حکم کو طے شدہ عمل کے تحت چیلنج دینے کے لئے درخواست گزار آزاد ہیں ۔
واضح ہو کہ،عبداللہ کو حراست میں لئے جانے کا حکم 16 ستمبر کی صبح تب جاری کیا گیاتھا جب عدالت نے وائیکو کی عرضی کوشنوائی کے لئے زیر سماعت رکھا تھا۔جموں و کشمیر کو خاص ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر دفعات کوختم کئے جانے کے ساتھ ہی عبداللہ کو 5 اگست سے ہی نظر بندرکھا گیا تھا۔
16 ستمبر کی عرضی پر سی جے آئی رنجن گگوئی ،جسٹس ایس ایس بوبڈے اور جسٹس عبدالنذیر نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔تمل ناڈو سے راجیہ سبھا ممبروائیکونے اپنی عرضی میں اپیل کی تھی وہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کوسپریم کورٹ کے سامنے پیش کرنے کےلئے مرکز ی حکومت کو ہدایت دے اور چنئی میں 15 ستمبر کو ہونے والے کانفرنس میں شامل ہونے کے لئےآزادی دے۔
وائیکو نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ افسروں کو فاروق عبداللہ کو 15 ستمبر کو چنئی میں منعقد پیس فل، ڈیموکریٹک سالانہ کانفرنس میں شامل ہونے کی اجازت دینی چا ہیئے۔یہ پروگرام تمل ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ سی این انادرائی کی سالگرہ کے موقع پر منعقد کیاجائے گا۔راجیہ سبھا ممبر نے پچھلی چار دہائیوں سے خود کو عبداللہ کا قریبی دوست بتاتے ہوئے کہا تھا کہ نیشنل کانفرنس کے رہنما کو غیر قانونی طریقے سے حراست میں رکھ کر انہیں آئینی حقوق سے محروم کیا گیا ہے۔
عرضی میں کہا گیا تھا کہ جواب دینے والوں(سینٹرل اور جموں و کشمیر) کی کارروائی پوری طرح سے غیر قانونی اور من مانی ہے۔زندگی کے تحفظ اور نجی آزادی کے حقوق اور گرفتاری اور حراست سے تحفظ کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ یہ اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کے خلاف ہے جو جمہوری ملک کا سنگ بنیاد ہے۔اس میں کہا گیا تھا ،’اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کی جمہوریت میں سب سے زیادہ اہمیت ہے کیونکہ یہ اپنے شہریوں کو مؤثر طریقے سے ملک کے اقتدار میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے۔
وائیکو نے کہا تھا کہ انہوں 29 اگست کو افسروں کو اس کے بارے میں خط لکھا تھا کہ وہ عبداللہ کو چنئی جا کر کانفرنس میں حصہ لینے کی اجازت دیں لیکن اس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔انہوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے 4اگست کو فون پر عبداللہ سے بات چیت کی تھی اور جموں و کشمیر کے اس سابق وزیر اعلیٰ کو15 ستمبر کو منعقد پروگرام میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔عرضی میں کہا گیاتھا کہ گزشتہ 5 اگست کو مرکزی حکومت کے ذریعہ جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لئے جانے کے بعد سے ہی عبداللہ سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ )