کشمیر پریس کلب نےصحافیوں اور میڈیا اداروں کے لیے انٹر نیٹ اور ٹیلی فون خدمات بحال کرنے کی مانگ کرتے ہوئے انتظامیہ کے ذریعے کچھ صحافیوں سے سرکاری رہائش گاہ خالی کرنے کے حکم کی تنقید کی ہے۔
نئی دہلی: کشمیر پریس کلب (کے پی سی) نے وادی میں ‘ غیر متوقع طور پر ذرائع ابلاغ پر پابندی ‘ کو لےکر تشویش کا اظہار کیا اور کچھ سینئر صحافیوں سے سرکاری رہائش گاہ خالی کرنے کے لئے کہے جانے پر انتظامیہ کی تنقید کی۔
دی اسکرال کے مطابق، کے پی سی نے کہا کہ یہ کچھ نہیں بلکہ صحافیوں کو جھکانے پر مرکوز ظلم وستم ہے۔
بتا دیں کہ، جموں و کشمیر میں لگی ذرائع ابلاغ پر پابندی کو منگل کو 30 دن ہو گئے۔ گزشتہ 5 اگست کے بعد جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ ختم ہونے کے بعد سے ہی جموں و کشمیر میں ذرائع ابلاغ کے ساتھ ہی کئی طرح کی پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ جن تین کشمیری صحافیوں کو رہائش گاہ چھوڑنے کے لئے کہا گیا ہے وہ عالمی خبر رساں ایجنسی اے پی کے اعجاز حسین، رائٹرس کے فیاض بخاری اور این ڈی ٹی وی کے نذیر مسعودی ہیں۔
کشمیر میں میڈیا اور صحافیوں پر لگی پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے کلب کی ایگزیکٹو کمیٹی نے اپنے اجلاس میں کہا کہ ‘ غیر متوقع طور پر ذرائع ابلاغ پر پابندی ‘ کی وجہ سے موبائل، انٹرنیٹ اور لینڈلائن کے متاثر رہنے سے صحافیوں کا کام کاج ٹھپ پڑ گیا ہے اور وہ زمینی صورت حال کے بارے میں رپورٹ نہیں کر پا رہے ہیں۔
اس نے ایک بیان میں کہا کہ پانچ اگست کو ذرائع ابلاغ پر پابندی لگنے کے بعد سے کلب نے کئی بار انتظامیہ کے سامنے یہ مدعا اٹھایا اور صحافیوں اور میڈیا اداروں کے لئے موبائل، انٹرنیٹ اور لینڈلائن بحال کرنے کی اپیل کی لیکن ساری کوشش بےکار گئی۔
بیان میں کہا گیا ہے، ‘ کشمیر پریس کلب مانگ کرتا ہے کہ حکومت صحافیوں اور میڈیا اداروں کے لئے انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سہولت بحال کرے۔ ‘ وہیں دوسری طرف، ریاستی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ جموں و کشمیر کے 93 فیصدی حصوں میں دن کے وقت پابندی کے حکم نافذ نہیں ہوتے ہیں۔ حالانکہ، جہاں پابندیوں میں آہستہ آہستہ چھوٹ دی جا رہی ہے وہیں، کئی حصوں میں ذرائع ابلاغ پر پابندی نافذ ہے۔
اس کے ساتھ ہی پریس کلب نے کشمیری صحافی اور قلمکار
گوہر گیلانی کو گزشتہ 31 اگست کو جرمنی جانے کے دوران نئی دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر امیگریشن افسروں کے ذریعے روکے جانے کے طریقے کی تنقید کی۔ وہ جرمن میڈیا ادارہ ڈائچے ویلے کے ایک پروگرام میں حصہ لینے جا رہے تھے۔ گیلانی کشمیر پریس کلب کے بھی ایگزیکٹو ممبر ہیں۔
پریس کلب نے یہ الزام بھی لگایا کہ ایک کشمیری صحافی کو افسروں نے اس کا سورس بنانے کے لئے سمن بھی کیا۔ ہم نے انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ صحافیوں کو بنا کسی دباؤ کے کام کرنے کی چھوٹ دیں اور میڈیا کے کام کرنے کا آزاد ماحول تیار کریں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)