جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے تجاوزات ہٹانے کی مہم نے علاقے میں احتجاج کو ہوا دے دی ہے۔ ایسےالزامات ہیں کہ انتظامیہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیےچنندہ طور پر کارروائی کر رہی ہے۔
جموں شہر کےایک مسلم اکثریتی علاقے میں جموں و کشمیرانتظامیہ بے دخلی مہم چلا رہی ہے۔ اس سے کئی لوگ متاثر ہوئے ہیں، جن میں دو مہینے کاایسابچہ بھی شامل ہے جس کااب تک نام بھی نہیں رکھا گیا ہے۔
گزشتہ منگل،11 جنوری کوجموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جے ڈی اے) کے ذریعے کئی دہائیوں سے اس علاقے میں رہ رے گجر-بکروال قبیلے کےکئی گھر توڑدیے گئے۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ غیرقانونی تجاوزات کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔
حالاں کہ اس کارروائی کی وجہ سے بدھ کو مرکز کے زیر انتظام علاقے کے سرمائی دارالحکومت جموں میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ ساتھ ہی جموں و کشمیر میں بھی اس کارروائی کی شدید طور پر نکتہ چینی کی گئی اور اس کے خلاف غصہ دیکھا گیا۔
مذکورہ بچے کی ماں نسرینہ اختر کہتی ہیں،میں اپنے بچے کو اس سردی سے کیسے بچاؤں گی؟ ہم کہاں جائیں گے؟انہوں نےہمارا گھر توڑ دیا اور ہمارا سامان چھین لیا۔
نسرینہ جموں کے اپر پلورا علاقے میں رہتی ہیں۔
متاثرہ خاندانوں نے دی وائر کو بتایا کہ جے ڈی اے، پولیس اور محکمہ محصولات کے اہلکاروں نے سوموار کی صبح اچانک علاقے پر دھاوا بول دیا اور گھروں کو توڑ دیا۔
سیف علی(70 سالہ)نے کہا،صبح 8:30 بجے افسر جے سی بی کے ساتھ ہمارے علاقے میں آئے اور اچانک ہمارے گھروں کو توڑنا شروع کر دیا۔ ہم نے ان سے منت سماجت کی، لیکن انہوں نے ہماری ایک نہیں سنی۔
ایک اور مقامی رہائشی اکبر حسین کے مطابق،تقریباً 200 پولیس اور سی آئی ایس ایف کے جوانوں نے علاقے کو گھیرلیا اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی اور ہمارا سامان پھینکنا شروع کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ، اس دوران زیادہ تر مرد کام پر جا چکے تھے، صرف خواتین اور بزرگ گھر پر تھے۔
سوشل میڈیا پر وائرل کارروائی کی ویڈیو میں، گجر-بکروال خواتین کو حکام کےسامنے روتے ہوئے اور منتیں کرتے ہوئےاپنے گھروں چھوڑ دینے کے لیے کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک بزرگ عورت کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ،یا اللہ، یہ ہمارے ساتھ کیسا انصاف کیا جا رہا ہے؟ میرے بچے کہاں جائیں گے؟ ہم یہاں چھ دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔ ہماری زمین لے لو لیکن ہمارے گھر چھوڑ دو۔
مقامی لوگوں کے مطابق، درج فہرست قبائل کے لوگ اس علاقے میں کئی دہائیوں سےرہ رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کے دیگر گجر-بکروالوں کی طرح وہ بھی دودھ اور دیگر ڈیری مصنوعات کو بیچ کراپنا گزارہ کرتے ہیں۔
توڑ پھوڑ کی اس کارروائی نے جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر غصے کو ہوا دی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ انتظامیہ چن چن کر گھروں کو نشانہ بنا رہی ہے اور قبائلیوں کو بے گھر کر رہی ہے۔ یہ اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور اپنی نفرت کو ظاہرکرنے کا ایک اور طریقہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے فرقہ وارانہ فیصلے اوپر سے ہوتے ہیں، لوگوں کو اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔
ایک نوجوان کارکن نے بتایا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر میں اس طرح کی بے دخلی مہم کے ذریعے گجروں اور بکروالوں کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔
جموں و کشمیر گجر-بکروال یوتھ کانفرنس کے ترجمان اور سیاسی کارکن گفتار چودھری نے ٹوئٹ کیاہے،جموں میں لوگوں کے خلاف چنندہ کارروائی کی جا رہی ہے۔ جبکہ بی جے پی لیڈر نرمل سنگھ کے ذریعے مقبوضہ زمین کا کیا ہوا؟ جے ڈی اے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال غریب قبائلی عوام پر کرنا بہت آسان ہے۔
متاثرین کے وکیل ایم آر قریشی نے کہا کہ،یہاں کے مکینوں کو قانونی اختیارات کا سہارا لینے نہیں دیا گیا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ، لوگوں کو زمین کے ریگولرائزکرنے کی مانگ جیسےدیگراختیارات کا سہارا لینے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔ انہیں نوٹس کیوں نہیں دیا گیا اور بی جے پی لیڈر نرمل سنگھ کی طرح شنوائی کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟
انہوں نے بتایا کہ، محکمہ ریونیو کے ریکارڈ کے مطابق یہ خاندان 1947 سے پہلےسےیہاں رہ رہے تھے۔
دریں اثنا بدھ کو جموں میں اس کے خلاف لوگوں نے مظاہرہ کیا اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کی دیگر کمیونٹی لیڈروں نے بھی حمایت کی، جن میں کانگریس لیڈر ملا رام بھی شامل تھے۔
اپنے ہاتھوں میں ترنگا تھامے مظاہرین نے الزام لگایا کہ جے ڈی اے علاقے میں قبائلی لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیےچنندہ کارروائی کر رہی ہے۔
اس بیچ جے ڈی اے کے نائب صدر پنکج منگوترا نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ قانون کے مطابق کارروائی کی گئی ہے۔
منگل کی شام کو جاری ایک سرکاری ریلیز میں کہا گیا ہے کہ زمین پر بنائے گئے 17 کچے پکے مکانات کو توڑا گیا ہے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔