میڈیا رپورٹ میں مقامی لوگوں کے حوالے سے دعویٰ کیا گیاہے کہ مظاہروں میں 100 سے زائد لوگ زخمی ہوئے ، لیکن وہ اپنی گرفتاری کے خوف کے باعث ہاسپٹل نہیں گئے ۔
بند کے دوران سرینگر کا لال چوک (فوٹو : رائٹرس)
نئی دہلی : جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے تقریباً 3 ہفتے بعد بھی حالات معمول پر لوٹتے نظر نہیں آرہے ہیں ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، ریاست کے لوگوں میں ابھی بھی خوف کا ماحول ہے ۔ علاج کی ضرورت ہونے کے باوجود لوگ ہاسپٹل جانے سے پرہیز کر رہے ہیں ۔ لوگوں میں خوف ہے کہ ان کو گرفتار کیا جاسکتا ہے ۔
خبررساں ایجنسی رائٹرس نے ریاست میں کچھ لوگوں کے انٹرویو کے بعد اس کا انکشا ف کیا ہے۔
رائٹرس کے مطابق، لوگ اس قدر سہمے ہوئے ہیں کہ انٹرویو کے دوران وہ نام ظاہر کرنے سے انکار کر رہے ہیں ۔ حالاں کہ اعجاز نامی ایک شخص نے کشمیر کی صورت حال کو لے کر ایجنسی سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ، ہماری کوئی آواز نہیں ہے ۔ ہمارے اندر غصہ ہے ۔ اگر دنیا ہماری بات نہیں سنے گی تو ہمیں کیا کر نا چاہیے ۔ انہوں نے کہا ، کیا ہم بندوق اٹھالیں ؟
کشمیر کے سورا میں رائٹرس نے دو درجن سے زائد لوگوں سے بات کی ۔ لیکن یہاں مشکل سے کوئی ایسا آدمی ملا جس نے 370 پر مودی کی قیادت والی حکومت کے فیصلے کا استقبال کیا۔ گزشتہ ایک ہفتے میں ایجنسی نے جن لوگوں سے بھی بات کی ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے مودی کو ‘ظالم ‘ کی طرح پیش کیا۔ بات چیت میں بعض مقامی لوگوں نے کہا کہ سکیورٹی اہلکار مظاہرین کو گرفتار کرنے کے مقصد سے مقامی ہاسپٹل شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی نگرانی کر رہے تھے۔ اس کی وجہ سے جو مظاہرہ کے دوران پیلیٹ گن سے زخمی ہوئے وہ علاج و معالجہ کے لیے ہاسپٹل جانے سے پر ہیز کر رہے ہیں ۔ان کو ڈر ہے کہ ہاسپٹل سے سکیورٹی اہلکار ان کو حراست میں لے لیں گے۔
زخمیوں کی مدد کرنے والےفیزیوتھراپسٹ یاور حمید نے رائٹرس کو بتایا کہ ، ہم تب تک ہاسپٹل نہیں جاتے جب تک کچھ گمبھیر نہیں ہوتا یا آنکھوں میں چوٹ نہ آئی ہو۔دو منزلہ لکڑی کے مکان میں حمید 45 سالہ بشیر احمدکے اوپر جھکے ہوئے بشیر کی بائیں آنکھ سے پیلیٹ گن کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے اس کو صاف کر رہے تھے ۔ حالاں کہ حمید نے ایجنسی کو یہ بتایا کہ انہوں نے اس کے لیے کوئی تربیت یا ٹریننگ نہیں لی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، بشیر کو درد سے نجات مل گئی ہے ، لیکن اس کے لیے حمیدکو کئی بار کوشش کرنی پڑی ۔ اس کے بعد بشیر کی پیٹھ کی گولی نکالنے میں ان کوکامیابی ملی۔کچھ منٹوں کے بعد دو نوجوان کو اس کمرے میں لایا گیا ۔انہوں نے گھٹنے کے بل بیٹھ کر اپنی ٹی شرٹ نکالی جس کے بعد وہاں خون کے نشان دکھے ۔ ان کو پیلیٹ سے نشانہ بنایا گیا تھا۔حمید نے ایجنسی کو بتایا کہ اگر ہمیں رہنا ہے تو ہمیں یہ جاننا ہی ہوگا کہ ہمیں یہ کیسے کرنا ہے۔
دریں اثنا
بی بی سی نے بھی اپنی ایک ویڈیو اسٹوری میں مقامی لوگوں کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ مظاہروں میں 100 سے زائد لوگ زخمی ہوئے ، لیکن وہ اپنی گرفتاری کے خوف کے باعث ہاسپٹل نہیں گئے ۔