کشمیر: حراست میں لیے جانے کے بعد نوجوان کی موت، گھر والوں نے پولیس پر لگایا قتل کا الزام

جموں وکشمیر پولیس نے دہشت گردوں کو پناہ دینے کےالزام میں23سالہ عرفان احمد ڈار نام کے ایک نوجوان کو حراست میں لیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ عرفان حراست سے بھاگ گئے تھے اور بعد میں ان کی لاش ملی تھی، لیکن اس نے موت کی کوئی وجہ نہیں بتائی ہے۔

جموں وکشمیر پولیس نے دہشت گردوں کو پناہ دینے کےالزام میں23سالہ عرفان احمد ڈار نام کے ایک نوجوان کو حراست میں لیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ عرفان حراست سے بھاگ گئے تھے اور بعد میں ان کی لاش ملی  تھی، لیکن اس نے موت کی کوئی وجہ  نہیں بتائی  ہے۔

عرفان کی موت کے بعدمظاہرہ کرتےلوگ۔ (فوٹو: پیرزاد وسیم)

عرفان کی موت کے بعدمظاہرہ کرتےلوگ۔ (فوٹو: پیرزاد وسیم)

نئی دہلی: گزشتہ15ستمبر کو دوپہر میں تقریباً12بجے جموں وکشمیر پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ (ایس اوجی)نے شمالی کشمیر میں بارہمولہ ضلع کے سوپور میں واقع صدیق کالونی میں ایک 23سالہ دکاندار عرفان احمد ڈار کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔

اس کے بعد ایس اوجی نے عرفان کو گرفتار کر لیا۔ اسی دن تقریباً 3:30 بجے پولیس نے ان کے گھر پر چھاپےماری کی اور تقریباً 20 منٹ تک تلاشی لی۔ اس بار انہوں نے عرفان کے بڑے بھائی 30 سالہ جاوید کو گرفتار کر لیا اور انہیں ایس اوجی کیمپ لے گئے۔

رات میں پولیس نے جاوید کو تو چھوڑ دیا لیکن اگلے دن 16 ستمبر کو یہ خبر سامنے آئی کہ عرفان کی موت ہو گئی ہے۔عرفان کی موت کشمیر میں تقریباً ڈیڑھ سال پہلے 19مارچ 2019 کو ہوئےاس واقعہ کی طرح  ہے،جہاں جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع کے ایک اسکول پرنسپل رضوان اسد پنڈت کی جموں وکشمیر پولیس کے ذریعےحراست میں لیے جانے کے بعد موت ہو گئی تھی۔

عرفان احمد ڈار کی موت کے بعد سے علاقے میں احتجاجی مظاہرےشروع ہو گئے ہیں اورمقامی لوگوں اوراہل خانہ نے الزام لگایا ہے کہ عرفان کا حراست میں قتل کیا گیا ہے۔ اہل خانہ نے ‘قاتلوں’ کوفوراً سزا دینے اور لاش  کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیاہے۔

حکام نے احتیاط کے طور پر سوپور اور آس پاس کے علاقوں میں انٹرنیٹ خدمات بند کر دی ہیں۔

سوپورپولیس نے بیان جاری کرکےدعویٰ کیا ہے کہ عرفان دہشت گردوں  کے لیے کام کرتے تھے اور وہ اندھیرے کا فائدہ اٹھاکر حراست سے بھاگ نکلے تھے اورتلاشی کے دوران ان کی لاش  ملی۔ پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ عرفان کے پاس سے دو چینی ہتھ گولے برآمد کیے گئے ہیں۔

پولیس کے بیان میں موت کی کوئی وجہ نہیں بتائی  گئی ہے۔ ویسے لاش  کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا، لیکن اس کی جانکاری گھروالوں کو نہیں دی گئی ہے۔

سوپورپولیس نے عرفان کے اہل خانہ کو ان کی موت کی جانکاری نہیں دی ہے، اس کے بعد ان کی لاش بھی دینے سے منع کر دیا، جس کے بعد اہل خانہ اس بات کو لےکر مطمئن  ہیں کہ پولیس حراست میں ان کا قتل کر دیا گیا اور بعد میں دہشت گردوں  کے مددگار طور پر اس کا پروپیگنڈہ (پولیس کے ذریعے)کیا گیا۔

حراست میں اموات کے لیےنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی گائیڈ لائن کے تحت نہ صرف پوسٹ مارٹم ضروری ہے، بلکہ اس کی پوری ویڈیو ریکارڈنگ کی جانی چاہیے۔قبل میں کئی ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں، جہاں این ایچ آرسی نے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں درج زخموں کے آدھار پر پولیس کی دلیلوں کی تردید کی ہے۔

جاوید نے دی  وائر کو بتایا،‘کشمیر کے کسی بھی پولیس تھانے میں میرے گھروالوں میں کسی کے بھی نام پر ایک بھی ایف آئی آر درج نہیں ہے۔ نہ ہی ہم کسی دہشت گردی میں شامل تھے۔ میرے بھائی کا حراست میں قتل کر دیا گیا اور پھر اس کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔’

جاوید نے کہا کہ پولیس نے عرفان کو سوپور میں ایس اوجی کیمپ میں حراست میں رکھا تھا، نہ کہ سوپور پولیس اسٹیشن میں، جیسا کہ پولیس دعویٰ کر رہی ہے۔

انہوں نے آگے کہا، ‘پولیس نے مجھ سے کہا کہ کچھ دہشت گرد10دن پہلے ہمارے گھر میں رکے تھے۔ انہوں نے مجھ سے دہشت گردوں کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ آپ سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کر سکتے ہیں اوراگرآپ ہمارے گھر میں آتے ہوئے کسی کو پاتے ہیں تو آپ جو چاہے کر سکتے ہیں۔’

حالانکہ پولیس ان باتوں سے مطمئن نہیں ہوئی اور وہ لگاتار ‘دہشت گرد اور ان کے لوکیشن’ کے بارے میں پوچھتی  رہی۔گزشتہ 15 ستمبر کو گرفتاری کے بعد رات تقریباً11 بجے جاوید نے کہا کہ وہ کچھ اچھا نہیں محسوس کر رہے ہیں اور انہیں ان کے گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔

جاوید نے آگے بتایا، ‘میں نے ان سے عرفان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ انہیں صبح چھوڑ دیا جائےگا، اس لیے میں واپس گھر چلا آیا۔ اب ہم یہ جان کار بہت حیران ہیں کہ ان کا قتل  کر دیا گیا ہے۔’متاثرہ خاندان کے پڑوسی رئیس احمدنےدی وائر کو بتایا کہ دونوں بھائی ہمیشہ اپنے کام میں مصروف رہتے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘انہیں وقت پر کھانا کھانے کا بھی موقع نہیں ملتا تھا۔’

پولیس نے ان دعووں سے انکار کیا ہے۔ سوپور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس جاوید اقبال نے کہا کہ انتظامیہ نے عرفان کی موت کےمعاملے میں مجسٹریٹ جانچ کی ہدایت دی ہے۔ حالانکہ انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ عرفان دہشت گردوں  کے لیے کام کرتے تھے۔

اقبال نے کہا، ‘گھروالے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ جذباتی کیفیت میں ہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ انہوں نے دہشت گردوں  کو پناہ دی۔ ہم نے جانچ کی سفارش کی ہے، اس کے بعد سب کچھ صاف ہو جائےگا۔’

یہ پوچھے جانے پر کہ عرفان کیسے بھاگ پائے اور ان کی موت کیسے ہوئی اور پولیس عرفان کے گھر کے پاس سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ کیوں نہیں کر رہی ہے جیسا کہ ان کےگھروالوں نے کہا ہے، اس پر اقبال نے کہا، ‘ہم ثابت کر دیں گے کہ عرفان نے دہشت گردوں  کو پناہ  دی تھی اور دہشت گردی  میں شامل تھے۔ ہم پہلے ہی بیان جاری کر چکے ہیں کہ وہ کیسے بھاگ پائے تھے۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)