جموں وکشمیر انتظامیہ نے ٹاپ بیوروکریٹس کو یہ یقینی بنانے کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کو کہا ہے کہ ‘مشتبہ افراد اور ملک دشمن عناصر’کے ساتھ براہ راست اور بالواسطہ روابط رکھنے والے افراد اور فرموں کو کوئی سرکاری ٹھیکہ نہ ملے۔
جموں و کشمیر(فوٹو: پی ٹی آئی)
صوبے کی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے ملازمین پر سخت کارروائی کرنے کے مرحلے میں جموں وکشمیر انتظامیہ ملک دشمن عناصر اور مشتبہ پس منظر والے افراد/فرموں کو کانٹریکٹ کے الاٹمنٹ اور سپلائی آرڈر کو روکنے کی تیاری میں ہے۔
یہ قدم 5 اگست، 2019 کے بعد یونین ٹریٹری انتظامیہ کی جانب سے شروع کیے گئے سخت انتظامی اقدامات کے سلسلے کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔بتا دیں کہ 5 اگست، 2019 کو بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے آرٹیکل 370 کے اہم اہتماموں کو ختم کرتے ہوئے سابقہ صوبے کو دو یونین ٹریٹری میں منقسم کر دیا تھا۔
سرکاری ہدایات
دی وائر کے ذریعے حاصل کیے گئے دستاویز بتاتے ہیں کہ یونین ٹریٹری انتظامیہ نے ٹاپ بیوروکریٹس کو یہ یقینی بنانے کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کے لیے کہا ہے کہ مشتبہ افراد اور ملک دشمن عناصر کے ساتھ براہ راست اور بالواسطہ روابط والے افراد اور فرموں کو کوئی سرکاری کانٹریکٹ نہیں ملےگا۔
گزشتہ31مئی کو سری نگر واقع سول سکریٹریٹ پر ہوئی بیٹھک کے منٹ میں کہا گیا، ‘کچھ افراد اور فرموں کے مشتبہ پس منظر اور سرکاری کانٹریکٹ حاصل کرنے والے ملک دشمن عناصر کے ساتھ براہ راست اور بالواسطہ روابط کے معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے تمام ایڈمنسٹریٹوسکریٹریوں کو صلاح دی گئی کہ وہ یہ یقینی بنانے کے لیے مناسب طریقہ کاروضع کریں کہ ایسے کسی فردیا فرم کو سرکار سے کوئی کانٹریکٹ/سپلائی آرڈر نہ ملے۔’
اس ہائی پروفائل بیٹھک کی صدارت جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کی تھی اور اس میں چیف سکریٹری ارون کمار مہتہ، سبکدوش ہونے والے چیف سکریٹری بی وی آرسبرامنیم اور تمام ایڈمنسٹریٹو سکریٹری شامل ہوئے تھے۔
بعد میں10جون کو جموں وکشمیر سرکار کے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ نے ضروری کارروائی کے لیے افسروں کے بیچ بیٹھک کے منٹس سرکولیٹ کیے۔
جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کےایڈیشنل سکریٹری روہت شرما کے ذریعےتمام محکموں کو ارسال کردہ مواصلات میں کہا گیا، ‘ذیل میں دستخط کیے گئےتمام ایڈمنسٹریٹو سکریٹریوں سے گزارش ہے کہ وہ مذکورہ فیصلوں پر دھیان دیں اورہر فیصلے کے سلسلے میں کی گئی کارروائی کی رپورٹ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کوپیش کریں۔’
سرکار کا دعویٰ ہے کہ مشتبہ پس منظر والے اورملک دشمن عناصر سے تعلق رکھنے والے ٹھیکیداروں کو ٹھیکے مل رہے ہیں، لیکن حال کے سالوں میں ایسا کوئی معاملہ عوامی جانکاری میں نہیں آیا ہے۔رابطہ کیے جانے پر چیف سکریٹری، روڈ اینڈ بلڈنگ ڈپارٹمنٹ، شیلندر کمار نے کہا کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح کا طریقہ کار وضع کیا جا سکتا ہے۔
پولیس سےکریکٹر سرٹیفکیٹ
موجودہ طریقہ کارکے تحت ایک شخص کو جموں وکشمیر میں ایک ٹھیکیدار کے طورپر رجسٹریشن کے لیے دیگر دستاویزوں کے ساتھ پولیس کی جانب سے جاری کریکٹر سرٹیفکیٹ جمع کرنا ہوتا ہے۔
سال1992میں گورنر راج کے دوران جموں وکشمیر انتظامیہ کی جانب سے جاری ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق، ایک ٹھیکیدار کے طور پر رجسٹریشن کے لیےضروری دستاویزوں میں کریمنل انوسٹیگیشن ڈپارٹمنٹ سے تصدیق کے بعد متعلقہ ضلع کے پولیس ایس پی کےعہدے سے نیچے کے افسرکی جانب سے جاری کیا جانے والا کریکٹر سرٹیفکیٹ شامل ہے۔
جموں وکشمیر میں ٹھیکیداروں کارجسٹریشن1956 میں اس کے مقننہ کے ذریعےوضع کردہ ایک قانون کے تحت چل رہا ہے۔ قانون اس پر چپ ہے کہ کیا سرکار مخالف یا ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کو کانٹریکٹ کے لیے بولی لگانے میں حصہ لینے سے نااہل قراردیا جاتا ہے۔ لیکن یہ انتظامیہ کو ایک ٹھیکیدار کے طور پر رجسٹریشن کے لیے شرطیں اور اہلیت کے تعین کے لیے ضابطہ بنانے کا اختیار دیتا ہے۔
یہ اسے ایک ٹھیکیدار کے طور پر رجسٹریشن رد کرنے کے لیے شرطوں کو طے کرنے کا بھی اختیار دیتا ہے۔
سرکار نے بھی پچھلے دو سالوں میں اسی طرح کے انتظامی اقدامات کو اپنایا ہے۔ اس نے ملک مخالف سرگرمیوں میں مبینہ شمولیت کے الزام میں چھ ملازمین کو بنا کسی جانچ کے برخاست کر دیا ہے۔ان ملازمین کی برخاستگی کے لیے کوئی خصوصی وجہ نہیں بتائی گئی جس میں تین اساتذہ، ایک اسسٹنٹ پروفیسر، ایک پولیس افسر اور ایک ریونیو افسر شامل ہیں۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)