جموں و کشمیر بی جے پی کے سرکردہ لیڈروں نے پیغمبر اسلام کے خلاف مبینہ قابل اعتراض ریمارکس کے لیے غازی آباد کے ڈاسنہ مندر کے پجاری اور کٹر ہندوتوا لیڈر یتی نرسنہانند کی مذمت کرتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ کیا۔
نئی دہلی: جموں و کشمیر بی جے پی کے سرکردہ لیڈروں نے سنیچر (5 اکتوبر) کو پیغمبر اسلام کے خلاف مبینہ قابل اعتراض تبصرے کے لیے ڈاسنہ مندر کے پجاری یتی نرسنہانند کی مذمت کی اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، اس کے ساتھ ہی جموں، کشمیر اور لداخ کے سرکردہ مسلم رہنماؤں نے اس معاملے میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔
نرسنہانند کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے بی جے پی کے ریاستی صدر رویندر رینا نے کہا، ‘فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اور تمام مذہبی جذبات کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی اشتعال انگیزی ہندوستان کے امن و امان اور اتحاد کے خلاف ہے۔ حکام کوانصاف کو یقینی بنانے اور ملک کے سماجی تانے بانے کو برقرار رکھنے کے لیے فوراً قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔
بی جے پی کے سینئر لیڈر اور جموں و کشمیر وقف بورڈ کی چیئرپرسن درخشاں اندرابی نے بھی نرسنہانند کے مبینہ ریمارکس کی سخت مذمت کی۔
اندرابی نے ایکس پر پوسٹ میں کہا،’میں پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ کے بارے میں یتی نرسنہانند کے انتہائی قابل اعتراض تبصروں کی شدید مذمت کرتی ہوں۔ کروڑوں عقیدت مندوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے انہیں سخت سزا ملنی چاہیے۔یہ پیراسائٹ امن کے دشمن ہیں۔’
دریں اثنا، جموں و کشمیر اور لداخ کے سرکردہ مسلم رہنماؤں نے وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک مشترکہ خط لکھ کر نرسنہانند کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
خط پر دستخط کرنے والی ممتاز مسلم شخصیات میں مولوی عمر فاروق، گرینڈ مفتی ناصر الاسلام، دارالعلوم رحیمیہ کے سربراہ مولانا رحمت اللہ قاسمی، انجمن شرعی شیعیان آغا کے سربراہ سید حسن الموسوی، جامع مسجد جموں کے مفتی عنایت اللہ قاسمی، شیخ صادق رضائی امام خامنی ای میموریل ٹرسٹ کرگل، جمعیۃ علما کرگل کے شیخ نذیر مہدی اور جامع مسجد لیہہ کے مولانا عمر ندوی شامل ہیں۔
خط میں کہا گیا کہ ‘کسی بھی جمہوری معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے، لیکن یہ نفرت پھیلانے اور پوری کمیونٹی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا لائسنس نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان کئی مذاہب اور ذاتوں کا ملک ہے، جہاں تمام مذاہب کا احترام سب سے اوپر ہونا چاہیے۔ اس طرح کے تبصرے نہ صرف قابل اعتراض ہیں بلکہ تفرقہ انگیز بھی ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کے لیے خطرہ ہیں۔’
خط میں وزیر داخلہ سے اپیل کی گئی ہے کہ ‘اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور تمام برادریوں میں امن اور ہم آہنگی کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ اس معاملے میں فوری اور ٹھوس اقدام ایک مضبوط پیغام دے گا کہ ایک مہذب معاشرے میں ہیٹ اسپیچ اور تشدد پر اکسانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔’
بتادیں کہ 29 ستمبر کو غازی آباد کے ڈاسنہ مندر کے پجاری اور کٹر ہندوتوا لیڈر یتی نرسنہانند کے مبینہ اسلام مخالف ریمارکس کے سلسلے میں کئی ریاستوں میں ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور یوپی پولیس نے انہیں حراست میں لیا ہے۔ نرسنہانند کے متنازعہ ریمارکس کو لے کر یوپی، مہاراشٹر، تلنگانہ اور جموں و کشمیر میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔
نرسنہانند کی متنازعہ تاریخ
معلوم ہو کہ کٹر ہندوتوا لیڈر یتی نرسنہانند پہلے بھی اپنے بیانات کو لے کر تنازعات میں رہے ہیں۔
ستمبر 2023 میں نرسنہانند کے خلاف سابق صدر اے پی جے عبدالکلام کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کرنے کے الزام میں ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔
ستمبر 2022 میں پولیس نے ایک مذہبی تقریب میں مسلم کمیونٹی کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دینے کے الزام میں یتی نرسنہا نند، اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا کی قومی جنرل سکریٹری پوجا شکن پانڈے اور ان کے شوہر اشوک پانڈے کے خلاف کیس درج کیا تھا ۔
علی گڑھ میں منعقد اس پروگرام میں انہوں نے کہا تھا کہ مدارس اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کو بم سے اڑا دینا چاہیے۔ نرسنہانند نے علی گڑھ کو ایسی جگہ قرار دیا تھا جہاں’قسیم ہند کا بیج’بویا گیا تھا۔
اپریل 2022 میں ہی انہوں نے متھرا میں ہندوؤں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کی تھی ، تاکہ آنے والی دہائیوں میں ہندوستان کو ‘ہندو اقلیتی ‘ ملک بننے سے روکا جا سکے۔
اسی مہینے نرسنہانند کی ایک تنظیم نے ہندوستان کو اسلامی ملک بننے سے بچانے کے لیے ہندوؤں سے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کی تھی۔ تنظیم نے ہماچل پردیش کے اونا میں تین روزہ دھرم سنسد کا اہتمام کیا تھا۔ پروگرام میں نرسنہانند نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلمان منظم طریقے سے کئی بچوں کو جنم دے کر اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں۔
اس سے پہلے3 اپریل 2022 کو شمالی دہلی کے براڑی میں منعقد ‘ہندو مہاپنچایت’ پروگرام میں نرسنہانند نے ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف تشدد کی اپیل کی تھی۔ اس سلسلے میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیاتھا۔
دھرم سنسد کیس میں گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے نرسنہانند نے ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے نفرت انگیز تقاریر کی تھیں۔
اس معاملے میں عدالت کی ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے کے لیے نرسنہانند اور دیگر مقررین کے خلاف مکھرجی نگر پولیس اسٹیشن میں ہیٹ اسپیچ کے باعث ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
شدت پسندہندوتوا لیڈر یتی نرسنہانند ہری دوار دھرم سنسد کے منتظمین میں سے ایک تھے۔ دسمبر 2021 میں اتراکھنڈ کے شہر ہری دوار میں منعقد ‘دھرم سنسد’ میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف کھلے عام ہیٹ اسپیچ کے ساتھ ان کے قتل عام کی اپیل کی گئی تھی۔
دھرم سنسد میں یتی نرسنہانند نے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان دیتے ہوئے کہا تھاکہ جو شخص ‘ہندو پربھاکرن’ بنے گا وہ اسے ایک کروڑ روپے دیں گے۔