وزیر داخلہ امت شاہ کا دعویٰ ہے کہ پچھلی حکومت نے ہندو مذہب کو دہشت گردی سے جوڑنے کے لئے اصلی مجرموں کو چھوڑ دیا تھا، اگر ایسا ہے تو این آئی اے ان کو پکڑنے کی سمت میں کوئی قدم کیوں نہیں اٹھا رہی ہے؟
گزشتہ ہفتہ راجیہ سبھا میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) چلانے والے قانون میں مجوزہ ترمیم پر بحث کے دوران وزیر داخلہ امت شاہ نے اس تنقید کا جواب دینے کی ہرممکن کوشش کی کہ بی جے پی کے ذریعے دہشت گردی کے ملزم ہندتووادی کارکنوں کو چھوڑنے کے لئے این آئی اے کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔انہوں نے جو کہا وہ تعصب آمیز ہونے کے ساتھ ساتھ کافی خطرناک بھی تھا۔ سمجھوتہ ایکسپریس، اجمیر اور حیدر آباد بم بلاسٹ کے معاملوں کے ملزمین کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف این آئی اے نے عرضی دائر کرنے کی زحمت کیوں نہیں اٹھائی ہے، اس کو لےکر دی گئی ان کی صفائی میں بھروسہ اور خوداعتمادی کی کمی تھی۔
سب سے خراب بات یہ ہے-اور یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ ہندوستان کے وزیر داخلہ کو اپنے فرقہ وارانہ تعصبات کا اتنا کھلےعام مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے-شاہ اس غیرمنطقی دعویٰ کو آگے بڑھانے سے باز نہیں آ رہے ہیں کہ کسی ایک بھی ہندو پر دہشت گردی کا الزام لگایا جانا تمام ہندوؤں کو دہشت گرد بتاکر ان پر حملہ کرنے اور ہندو مذہب کو بدنام کرنے کے برابر ہے۔
2014 میں جب نریندر مودی حکومت اقتدار میں آئی، اس وقت این آئی اے ایسے کئی دہشت گرد معاملوں کا مقدمہ لڑ رہا تھا جس میں کلیدی ملزم کا تعلق راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سمیت دیگر ہندتووادی تنظیموں سے تھا۔ان میں 2007 کا اجمیر شریف بم بلاسٹ جس میں تین لوگ مارے گئے تھے اور بارہ زخمی ہوئے تھے، 2007 کا حیدر آباد کا مکہ مسجد بلاسٹ، جس میں 14 لوگ مارے گئے تھے، 2008 کا مالیگاؤں بلاسٹ اور 2007 کا دہلی-لاہور سمجھوتہ ایکسپریس بلاسٹ، جس میں 68 لوگ مارے گئے تھے (جن میں زیادہ تر پاکستانی شہری تھے) شامل تھے۔
مودی حکومت ان معاملوں میں کیا رخ اپنانے والی ہے، اس کا ذرا سا احساس ہمیں 2015 میں ہی تب ہوا تھا، جب مالیگاؤں بلاسٹ معاملے میں این آئی اے کے لئے کام کر رہے ایک وکیل روہنی سالین نے یہ انکشاف کیا تھا کہ ان پر جرم کو انجام دینے کے ملزم ہندو شدت پسندوں پر نرمی برتنے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔اتفاق سے مالیگاؤں کے ملزمین میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر بھی شامل تھیں، جو اب ناتھو رام گوڈسے کو پوجنے والی اور یقینی طور پر اس شخص کے طور پر جس کو امت شاہ اور نریندر مودی نے بھوپال شہر سے بی جے پی کی نمائندگی کرنے کے لئے چنا، زیادہ مشہور ہیں۔
این آئی اے نے سالین کے الزامات سے انکار کیا، لیکن ایک سال سے بھی کم وقت کے بعد ان کی بات تب صحیح ثابت ہوئی جب این آئی نے پرگیہ سنگھ سمیت پانچ لوگوں پر لگے تمام الزامات کو واپس لینے کی مانگ کی!خوش قسمتی سے کورٹ نے ایجنسی کے ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہونے کے دعویٰ کو نہیں مانا اور مقدمہ کو آگے بڑھانے پر زور دیا۔
ایسا لگتا ہے کہ دوسرے معاملوں میں بھی این آئی اے نے استغاثہ کے کیس کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد اور سمجھوتہ بم بلاسٹ کے سبھی ملزمین کو بری کر دیا گیا۔
اجمیر شریف بم بلاسٹ معاملے میں (این آئی اے کی اعلیٰ قیادت کے لئے بدقسمتی سے) 2017 میں اسپیشل کورٹ نے آر ایس ایس کے دو کارکنوں-دیویندر گپتا اور بھاویش پٹیل کو مجرم قرار دیتے ہوئے ان کو عمر قید کی سزا سنائی۔ آر ایس ایس کے تیسرے شخص ، سنیل جوشی، جن کی موت ہو چکی تھی، کو موت کے بعد مجرم قرار دیا۔
اجمیر کی این آئی اے عدالت نے یہ درج کیا ہے کئی ملزم ابھی بھی کھلےعام گھوم رہے ہیں۔ ان میں سے ایک ہندوتوا کارکن سریش نائر کو بعد میں پکڑ لیا گیا اور جیل بھیج دیا گیا۔اس سے پہلے کہ میں امت شاہ کے پارلیامنٹ میں دئے گئے چونکانے والے بیان پر آؤں میں کچھ باتیں انڈرلائن کرنا چاہوںگا۔آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے دیویندر گپتا اور بھاویش پٹیل کو مجرم قرار دیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندتووادی دہشت گرد گروپ کانگریس یا پچھلی یو پی اے حکومت کی ایجاد نہیں تھا۔
این آئی اے کی بنیادی جانچ نے کئی بم دھماکوں کے معاملے میں سوامی اسیمانند اور پرگیہ ٹھاکر سمیت کئی ایسے لوگوں کی ظاہری شمولیت کا پردہ فاش کیا تھا، جن کے تار آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ان معاملوں میں تین فرار لوگوں، رام چندر کلسانگرا، سندیپ ڈانگے، رمیش مہال کر-کا رول سب سے زیادہ دھیان کھینچنے والا تھا۔ 12 سال پہلے ہوئے سمجھوتہ ایکسپریس حملے کے معاملے میں، جو ان سب میں سب سے گھناؤنا بم بلاسٹ تھا، ٹوٹے ہوئے سرے سب سے زیادہ مضبوطی سے آپس میں جڑتے ہوئے دکھ رہے تھے۔
لیکن این آئی اے کی لاپروا تفتیش اور بے من سے لڑے گئے مقدموں اور واضح سراغ کے باوجود کلسانگرا اور ڈانگے کا پتا لگانے سے انکار کرنے کی وجہ سے اس سال کی شروعات میں سمجھوتہ ایکسپریس کے معاملے میں ملزمین کو بری کر دیا گیا۔تب سے حکومت نے ان کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی ہے-ٹھیک ویسے ہی جیسے اس نے اجمیر اور حیدر آباد دھماکہ کے معاملے میں ملزمین کو الزام سے بری کئے جانے کے خلاف اپیل کرنا ضروری نہیں سمجھا ہے۔
حزب مخالف کے رکن پارلیامان سمجھوتہ معاملے پر امت شاہ کے بیان کے تین خاص نکات کو لےکر یہ جاننا چاہتے تھے کہ امت شاہ نے یہ باتیں کیوں کہی؟پہلا، پولیس نے شروع میں سات اصلی مجرموں کو گرفتار کیا تھا، لیکن ان کو چھوڑ دیا گیا۔ دوسرا، یہ سب صرف ایک خاص مذہب-ہندو مذہب-کو دہشت گردی سے جوڑنے کی سیاسی سازش کے تحت کیا گیا۔ اور تیسرا، جن لوگوں پر مقدمہ چلایا گیا، ان کو اس لئے سزا نہیں دی جا سکی، کیونکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔
آئیے ان دعووں پر ایک ایک کرکے غور کرتے ہیں۔
مجھے پولیس کے ذریعے سات لوگوں کو، جو مبینہ طور پر اس معاملے کے اصلی مجرم تھے، پولیس کے ذریعے پہلے پکڑے جانے اور بعد میں چھوڑ دینے کے بارے میں عوامی طور پر موجود کوئی بھی جانکاری نہیں ملی۔ ہاں، پنجاب پولیس نے ان دھماکوں کے دو ہفتہ بعد ایک پاکستانی شہری کو پکڑا ضرور تھا، لیکن اس کے خلاف کوئی فیکٹ نہ پانے کی وجہ سے اس کو چھوڑ دیا گیا تھا۔
ایک سینئر آئی پی ایس افسر بھارتی اروڑہ نے دی ہندو کو 2017 میں بتایا تھا کہ پاکستانی شہری عظمت علی سے ‘ اچھی طرح سے پوچھ تاچھ کی گئی تھی اور جب پوچھ تاچھ کے بعد اس کے خلاف کچھ بھی نہیں پایا گیا، تب اس کو چھوڑ دیا گیا۔ ‘اگر شاہ سچ مچ صحیح ہیں اور سات لوگوں-‘ اصلی مجرموں ‘-کو گرفتار کرنے کے بعد غلط طریقے سے چھوڑ دیا گیا تھا، تو ان کو ہمیں یہ بتانا چاہیے کہ آخر دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کی سب سے اہم ایجنسی این آئی اے نے ان کے بارے میں کیوں کچھ نہیں کہا؟
این آئی اے نے ان کی پہچان کو عام کیوں نہیں کیا اور ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ چلیے ایک لمحہ کے لئے یہ مان لیتے ہیں کہ این آئی اے نے آزاد طریقے سے یہ فیصلہ کیا کہ جن لوگوں پر مقدمہ چلایا وہ بے قصور تھے اور اس لئے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی۔لیکن ایسی حالت میں وہ اصلی مجرموں کی شناخت کرنے اور ان کو پکڑنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی ہے؟ کیا اس کو حکومت کی سب سے بڑی ترجیحات میں نہیں ہونا چاہیے؟
دوسری بات، شاہ کے اس دعویٰ کو کیسے دیکھا جائے کہ پچھلی یو پی اے حکومت نے ہندو مذہب کو دہشت گردی سے جوڑکر اس کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ شاہ ایک چالاک آدمی ہیں۔ کیا کوئی یہ کہےگا ہندو مذہب کو بدنام کیا جا رہا ہے، کیونکہ وجئے مالیا اور نیرو مودی پر بینکوں کے ساتھ دھوکہ دھڑی کا الزام لگایا گیا ہے؟
کیا ہندو مذہب پر اس لئے داغ دار ہو گیا کہ اجمیر کی این آئی اے عدالت نے دیویندر گپتا اور بھاویش پٹیل کو دہشت گردی کا مجرم پایا؟ کیا ہندو مذہب اس لئے بدنام ہو گیا کیونکہ بی جے پی اور سنگھ کے سینئر رہنما بابری مسجد کے انہدام میں شامل تھے؟یہ حقیقت کہ ایک ہندو کے دہشت گردانہ سرگرمی میں مشتبہ طورپر ملوث ہونے اور اس پر مقدمہ چلائے جانے پر ہندوستان کے وزیر داخلہ ایسا بےتکا بیان دے سکتے ہیں، اس بات کی ہی تصدیق کرتا ہے کہ ان کی نظر میں دہشت گردی ایک دیگر ‘ خاص مذہب ‘ سے جڑا ہوا ہے۔
کچھ بھی ہو، سمجھوتہ معاملے کے آگے بڑھنے کو لےکر کچھ بھی راز جیسا نہیں ہے۔ 2016 میں ان دھماکوں کی سب سے پہلے تفتیش کرنے والے ہریانہ ایس آئی ٹی کے ہیڈ، وکاس نارائن رائے نے دی وائر کو ان لوگوں کے ذریعے کئے گئے کاموں کے بارے میں بتایا تھا اور یہ بھی کہ کیسے وہ اور ان کی ٹیم اصل میں تفتیش میں ابھرکر سامنے آنے والے ہندو زاویہ کے بارے میں بات کرنے سے کترا رہے تھے۔
یہ صاف ہے کہ جہاں تک تفتیش کاروں کا سوال ہے، پولیس کا پرانا کام کرنے کا انداز ان کےکام آیا۔تیسری بات امت شاہ نے یہ کہی کہ جن لوگوں پر مقدمہ چلایا گیا، ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔ لیکن حقیقت میں جج نے ایک کمزور مقدمہ کھڑا کرنے کے لئے ایجنسی کی کھنچائی کی۔
روہنی سالین نے مالیگاؤں کے بارے میں جو بتایا، اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ این آئی اے نے شاید جان بوجھ کر بےحد اہم ثبوتوں کو دباکر مقدمہ کو کمزور کیا۔ یا شاید اس کے پاس ویسے ثبوت نہیں تھے، جس سے اس مقدمہ کو اس کے صحیح انجام تک پہنچایا جا سکتا، کیونکہ جج نے سوامی اسیمانند کے اقبالیہ بیان کو ناقابل قبول قرار دے دیا۔
یہ بھی پوری طرح سے ممکن ہے کہ لاپروائی کا سلسلہ یو پی اے کے وقت سے ہی شروع ہوا ہو، جیسا کہ امت شاہ نے الزام لگایا ہے-کہ پچھلی حکومت جلد سے جلد نتائج دکھانا چاہتی تھی، جس کی وجہ سے این آئی اے نے سمجھوتے کیے یا ہو سکتا ہے کہ وہ ناقابل تھی۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایجنسی سیاست سے متاثر ہوکر کام کر رہی تھی۔ جیسا کہ پروین سوامی نے لکھا ہے، ‘ این آئی اے کا اجمیر شریف درگاہ بلاسٹ میں شامل دو دہشت گردوں کو مجرم ثابت کرانے میں کامیاب رہنا یہ دکھاتا ہے کہ این آئی اے غلط سمت میں ہاتھ-پاؤں نہیں چلا رہی تھی-اور یہ ایک ایسی چیز ہے، جس سے سیاست سے پرے ہر ہندوستانی کو فکرمند ہونا چاہیے۔ ‘
میں یہ بھی جوڑنا چاہوںگا کہ بم دھماکے کے پیچھے کے ماسٹرمائنڈ مانے جانے والے تین ہندتووادی کارکنوں-رام چندر کالسنگرا، سندیپ ڈانگے اور رمیش مہال کر-ان کو پکڑنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔شاید میں غلط ہوں۔ ایسے میں امت شاہ کو پارلیامنٹ کے سامنے فرار ہونے والوں کو پکڑنے کے لئے ان کی حکومت کے ذریعے کی گئی کوششوں کے بارے میں بتانا چاہیے۔
میں وزیر داخلہ کی آخری خیالی کہانی-کہ کورٹ کے کسی فیصلے پر اپیل کرنے سے متعلق کوئی فیصلہ اکیلے لاء افسر کے ذریعے لیا جاتا ہے، نہ کہ سیاستدانوں کے ذریعے، سے اپنی بات ختم کروںگا۔انہوں نے راجیہ سبھا میں کہا، ‘ یہ ایک ایسی حکومت نہیں ہے، جو سیاسی مینڈیٹ کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ ‘ پچھلے پانچ سالوں میں حکمراں جماعت کے ‘ سیاسی مینڈیٹ ‘ کے ذریعے روند دئے گئے اداروں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ ایک حیران کر دینے والا دعویٰ ہے۔
لیکن یہ باتیں کرنے والا میں کون ہوتا ہوں! امت شاہ کو صاف طور پر معلوم ہے کہ وہ کس بارے میں بات کر رہے ہیں۔ہو بھی کیوں نہ، خود ان کو لاء افسروں کے اس حیرت انگیز آزاد فیصلے کا فائدہ پہنچا، جب سی بی آئی نے سہراب الدین-کوثر بی قتل معاملے میں ان کو بری کرنے کے خلاف اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جیسا کہ بالی ووڈ میں کہا جاتا ہے، ‘ مائی لارڈ، مجھے اس معاملے میں آگے اور کچھ نہیں کہنا ہے۔ ‘