کیا ماؤ نواز تنظیم دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے؟ کیا ایک گروہ ہتھیار ڈال رہا ہے؟

01:55 PM Sep 22, 2025 | سنتوشی مرکام

اگر ماؤنوازہتھیار ڈال دیتے ہیں، تو ان کے مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ کیا وہ کسی ایسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہو جائیں گے، جنہیں وہ اب تک رجعت پسند اور بورژوا کہتے  رہے  ہیں، یا اپنی نئی پارٹی بنائیں گے؟

ممنوعہ سی پی آئی (ماؤسٹ) کی مرکزی کمیٹی کے ترجمان ابھے نے ایک پریس بیان جاری کیا ہے،جس میں مسلح جدوجہد کو عارضی طور پر ترک کرنے اور ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ماؤ ازم کی تاریخ میں یہ ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔ (علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

کیا ماؤ نوازوں کی ساٹھ سالہ مسلح جدوجہد اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے؟ کیا وہ ہتھیار  ڈال رہے ہیں؟

ممنوعہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ) کی مرکزی کمیٹی کے ترجمان ابھے کے نام سے جاری ایک پریس بیان پورے ملک میں موضوع بحث ہے۔ 15 اگست کی ڈیڈ لائن کے ساتھ جاری یہ بیان،’عارضی طور پر مسلح جدوجہد ترک کرنے’ اور ‘ہتھیار ڈالنے’ کے ان کے ارادے کا اظہار کرتا ہے۔ بیان میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو ‘عزت مآب’ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور ماؤنواز تحریک سے متاثرہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے بھی امن دوست رویہ اپنانے کی اپیل کی گئی ہے۔

یہ بیان ماؤنواز تحریک کی تاریخ میں ایک غیرمعمولی واقعہ  ہے جو ان کے بدلتے ہوئے نقطہ نظر کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

اس سے قبل بھی، اسی سال 2 اپریل کو ابھے کے نام سے ایک پریس بیان میں امن مذاکرات کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اگرچہ اس میں ہتھیار چھوڑنے کا ذکر نہیں  تھا، لیکن ماؤ نواز امن مذاکرات کے لیے آمادہ نظر آ رہے تھے۔

نکسل مخالف آپریشن کے دوران ماؤنوازوں کا ضبط کیا گیا اسلحہ ۔ (تصویر بہ شکریہ: نارائن پور پولیس/فیس بک)

اس کے بعد 22 اپریل کو ماؤنواز پارٹی کی نارتھ-ویسٹ سب زونل کمیٹی کے ترجمان روپیش نے ‘بستر ٹاکیز’ نامی یوٹیوب چینل کو ایک ویڈیو انٹرویو دیا تھا، جس میں کہا گیا تھاکہ حکومت کو جنگ بندی کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ انھیں سینئر رہنماؤں سے مشاورت کے بعد کوئی ٹھوس فیصلہ لینے کا موقع مل سکے۔

بیانات کا سلسلہ

اس کے بعد 10 مئی کو ابھے نے ایک اور بیان جاری کیا، جس میں ہتھیار چھوڑنے اور قومی دھارے میں شامل ہونے کے معاملے پر حکومت کے ساتھ بات چیت میں شامل ہونے پر آمادگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ تاہم، اس بیان نے بھی امن مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا اور مرکزی حکومت سے اس پر آگے بڑھنے کا مطالبہ کیا گیا۔

غورطلب ہے کہ اس بیان میں بھی ماؤنوازوں نے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے لیے مہذب الفاظ کا استعمال کیا تھا۔ حکومتوں کو مظلوموں کا آلہ کار ماننے والے ماؤ نواز اکثر ان کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اس زبان کے سامنے آنے کے بعد بہت سے لوگوں نے بیان کی سچائی پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔

اب، ابھے سے منسوب تازہ ترین بیان اور بھی حیران کن ہے۔ اس میں نہ صرف ‘مسلح جدوجہد سے عارضی دستبرداری’ کی بات کہی گئی ہے بلکہ یہ بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ‘ہم نے ہتھیار چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔’

ملک بھر میں ساٹھ سال سے جاری نکسل تحریک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا بیان آیا ہے جس میں انہوں نے ہتھیار چھوڑنے کی بات کہی ہے۔


اس کے علاوہ، اس بیان کے ساتھ ابھے کی تصویر بھی لگی ہوئی ہے۔ یہ نہ صرف حیران کن بلکہ بے مثال ہے۔ کسی انڈرگراؤنڈ ماؤنواز لیڈر کے لیے عوامی طور پر اپنی تصویر دکھانا غیرمتوقع ہے۔ بیان میں ان کا ای میل ایڈریس اور فیس بک آئی ڈی بھی درج ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ شروع میں بہت سے لوگوں نے اس بیان کی سچائی پر شک کیا، لیکن بعد میں آڈیو کلپ منظر عام پر آنے کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ یہ واقعی ابھے کا ہی بیان تھا۔


مزید برآں، بیان میں مئی میں ابوجھماڑ کے گنڈی کوٹ جنگلات میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ مبینہ تصادم میں مارے گئے ماؤنواز پارٹی کے جنرل سکریٹری نمبالا کیشوراؤ (بسوراجو) کا ذکر کرتے ہوئے، ان کے نامکمل امن مذاکرات کی تجویز پر عمل کرنے پر زور دیا گیا  ہے۔

اس بیان کے کئی پہلو ہیں، جن کا تفصیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے پہلے ابھے اور ماؤنواز تحریک کے لیے ان کی اہمیت کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کون ہیں ابھے ؟

پولیس اور ماؤنواز تحریک پر گہری نظر رکھنے والوں کے مطابق، ابھے کا اصل نام ملوجلا وینوگوپال ہے۔ ان کی عمر 69 سال بتائی جاتی ہے۔ وہ تلنگانہ کے شہر پیداپلی میں ایک برہمن گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔

ستر کی دہائی کے اواخر سے ، یعنی تقریباً 45-50 سال سے انڈرگراؤنڈ  رہتے ہوئے کام کرنے والے وینوگوپال کے بڑے بھائی ملوجلا کوٹیشور راؤ عرف ‘کشن جی’ تھے، جو 2011 میں مغربی بنگال میں ایک مبینہ تصادم میں ہلاک ہو گئے ۔ دونوں بھائی طویل عرصے تک ماؤنواز پارٹی کی سینٹرل کمیٹی اور پولت بیوروکے اہم اراکین رہے۔

وینوگوپال کو تنظیمی اور نظریاتی معاملات میں ایک بڑا حکمت عملی ساز سمجھا جاتا ہے۔ وہ پارٹی کے اندر بھوپتی اور سونو کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ 2010 میں پارٹی کے ترجمان چرکوری راجکمار (آزاد) کے مارے جانے کے بعد وینوگوپال پارٹی کے ترجمان بنے اور تب سے وہ ‘ابھے’ کے نام سے پریس بیان جاری کرتے آ رہے ہیں۔

وینوگوپال نے ابتدائی طور پر مہاراشٹر کے گڑھ چرولی ضلع میں ماؤنواز تحریک کی بنیاد رکھی اور بعد میں دنڈکارنیہ کے رہنما بن گئے۔ وہ گزشتہ 28 سالوں سے مرکزی کمیٹی کے رکن کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

دسمبر 2024 میں سونو عرف ابھے کی بیوی تارکا نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کے سامنے سرینڈر کیا۔ (فوٹو بہ شکریہ: گڑھ چرولی پولیس/فیس بک)

وینوگوپال کی بیوی وملا سڑام عرف تارکا نے کئی دیگر ساتھیوں کے ساتھ دسمبر 2024 میں مہاراشٹرا پولیس کے سامنے سرینڈر کیا۔ انہوں نے بتایا تھاکہ بگڑتی صحت اور مسلح افواج کے بڑھتے ہوئے حملوں نے انہیں جدوجہد کا راستہ ترک کرنے پر مجبور کیا۔ وینوگوپال کی بھابھی (جو کوٹیشور راؤ کی بیوی ہیں)، پوتلا پدماوتی عرف سجاتا (عمر 62) نے حال ہی میں 13 ستمبر کو حیدرآباد میں خودسپردگی کی۔ وہ بھی  مرکزی کمیٹی کی رکن تھیں۔

دلت رہنما پارٹی  کے جنرل سکریٹری بنے، قبائلی کمانڈر ڈنڈکارنیہ کے سکریٹری

ابوجھماڑ میں 21 مئی کو ہوئے’انکاؤنٹر’ میں ماؤسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری نمبالا کیشوراؤ سمیت 28 کیڈر مارے گئے تھے۔ اس کے بعد یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں کہ وینوگوپال پارٹی کے اگلے جنرل سکریٹری بن سکتے ہیں، کیونکہ سینئر ہونے کی وجہ سے انہی کا نمبر تھا۔ تاہم ستمبر کے دوسرے ہفتے میں یہ خبر سامنے آئی کہ تپیری تروپتی عرف دیوجی کو نیا جنرل سکریٹری مقرر کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ، دنڈکارنیہ اسپیشل زونل کمیٹی کے سکریٹری کا عہدہ معروف کمانڈر ہڑما کے پاس چلا گیا۔ اگرچہ ماؤنواز پارٹی کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی ، لیکن چھتیس گڑھ سے رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی نے دی وائر سے اس  بات کی تصدیق کی۔

اگر دیو جی اور ہڑما کے پروموشن کی خبر درست ہے تو اس سے کئی معنی نکالے جا سکتے ہیں۔

تلنگانہ کے کورٹلا قصبے میں پیدا ہوئے دیوجی دلت پس منظر سے آتے ہیں اور جنوبی بستر کے گاؤں پوورتی میں پیدا ہوئے ہڑما قبائلی ہیں ۔ 1960 کی دہائی کے اواخر میں نکسل باڑی گاؤں میں شروع ہونے والی ماؤنواز تحریک کی تقریباً 57 سالہ تاریخ میں، یعنی چارو مجمدار اور کنہائی چٹرجی کے زمانے سے آج تک یہ پہلا موقع ہے جب کوئی دلت پارٹی کے سب سے بڑے  عہدے پر فائز ہوا ہے۔

اسی طرح دنڈکارنیہ میں 1980 سے اب تک ، یعنی پچھلے 45 سالوں سے جاری جدوجہد میں ، پہلی بار کسی مقامی قبائلی کو دنڈکارنیہ کمیٹی کی باگ ڈور ملی ہے۔


اگر یہ خبر صداقت پر مبنی ہے تو مرکزی کمیٹی میں وینوگوپال اور دیگر سینئر شخصیات کو نظرانداز کرتے ہوئے دیو جی کو جنرل سکریٹری مقرر کیا گیا۔ اسی طرح، دنڈکارنیہ کمیٹی میں بھی بعض سینئر اراکین کو نظرانداز کرتے ہوئے ملٹری کمانڈر ہڑما کو  اعلیٰ عہدے پر فائز کیا گیا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماؤ نواز پارٹی نے عسکری مورچے کو ترجیح دی ہے۔ اس سے یہ بھی اشارہ مل سکتا ہے کہ اگلے سال 31 مارچ تک اس تحریک کو جڑ سے ختم کرنے کےحکومت کے وعدے کا مقابلہ ماؤ نواز عسکری طریقے سے ہی کرنا چاہتے ہیں۔

اس سے ایک مطلب یہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ ماؤنواز شاید اپنے خلاف اس تنقید کو ختم کرنا چاہتے ہیں کہ پارٹی میں دلتوں اور قبائلیوں کو کبھی  اعلیٰ عہدے نہیں دیے جاتے، بلکہ صرف اونچی ذات کے لوگ ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔


ایک ہفتے میں دو بیان – دو الگ سُر

پارٹی کی 21ویں سالگرہ کے موقع پر سی پی آئی (ماؤسٹ) کی مرکزی کمیٹی کی طرف سے جاری کیے گئے ایک حالیہ بیان اور ابھے کے حالیہ بیان کو ایک ساتھ پڑھنے پر کئی سوال کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بلکہ یہ شبہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پارٹی دو دھڑوں  میں تو نہیں  بٹ گئی ؟

سالگرہ والےبیان میں لکھا گیا ہے،’اگر مرکزی حکومت آپریشن کگار کو روکتی ہے اور انقلابی خطے میں مسلح افواج کے کیمپوں کے قیام کو روکتی ہے، تو ہماری پارٹی عوام کے وسیع تر مفاد میں امن مذاکرات کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔’

ابھے کا بیان اس کے بالکل برعکس ہے۔

ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ کچھ شرائط پر امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں، جبکہ ابھے کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، حکومت  صرف انھیں ایک مہینے کی مہلت دے۔

اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر ایک اور خود تنقیدی رپورٹ وائرل ہے، جو سونو کی طرف سے جاری ہوا ہے۔ تیلگو میں لکھی گئی اس رپورٹ کی تصدیق تو نہیں ہو پائی ، لیکن یہ ابھے کے بیان کی توسیع محض معلوم ہوتی ہے۔ نوٹ کریں کہ ابھے اور سونو دونوں وینوگوپال کے ہی نام ہیں۔ اس رپورٹ کا اصل مصنف جو بھی ہو، اس سے متعدد سوالوں کے جواب ملتے ہیں اور کئی نئے سوال پیدا بھی ہو جاتے ہیں۔

ابھی پردہ اٹھنا باقی ہے

ابھے کے تازہ بیان کے بعد اب ان سوالوں کا جواب ملناباقی ہے کہ پارٹی ترجمان کے طور پر انہوں نے ‘مسلح جدوجہد کے عارضی خاتمے’ اور ‘ہتھیار چھوڑنے’ کی جوتجویز  سامنے رکھی ہے، اس پر ان کے نئے جنرل سکریٹری (اگر وہ منتخب کیے گئے ہیں تو) کی مہر ہےیا نہیں؟

اگر ابھی تک نئے جنرل سکریٹری کا انتخاب نہیں ہوا ہے تو اس بیان میں اس بات کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا کہ ابھے جنرل سکریٹری کی غیر موجودگی میں پارٹی کی جانب سے یہ بیان دے رہے ہیں۔ جب وہ کہہ رہے ہیں کہ صرف چند سینئر کیڈر ان کی تجویز سے متفق ہیں، تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس تجویز پر پارٹی کے اندرعام رائے یا کوئی  وسیع اتفاق نہیں ہے؟

جس دنڈا کارنیہ خطے کو ماؤنواز اپنا سب سے بڑا بیس بتاتے ہیں، اس خطے کے سب سے تیز طرار اور اب ممکنہ دنڈکارنیا اسپیشل زونل کمیٹی کے سکریٹری ہڑما اس تجویز سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں؟ کیا ترجمان ابھے کے نام سے جاری بیان اور پولت بیورو کے رکن سونو کے نام سےجاری خود تنقیدی رپورٹ پارٹی کی مشترکہ رپورٹ ہے یا یہ ان کی ذاتی رپورٹ ہے؟

اکثریت کی بنیاد پر مشترکہ فیصلے کرنے کے ان کے اصول کے برخلاف وینوگوپال کو ذاتی بیانات کیوں جاری کرنے پڑ رہے ہیں؟ کیا وہ پارٹی یا مرکزی کمیٹی میں الگ تھلگ پڑ گئے ہیں؟ یا یہ اس بات کی علامت ہے کہ پارٹی پہلے ہی دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے اور وینوگوپال ممکنہ طور پر ماؤنواز کے ایک دھڑے کی نمائندگی کر رہے ہیں؟

کچھ سال پہلے چھتیس گڑھ کے سلگر گاؤں میں قبائلیوں نے سیکورٹی فورسز کے کیمپ کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ (فائل فوٹو: رانو تیواری)

اس سے قطع نظر کہ کس ماؤ نواز دھڑے نے یہ تجویز پیش کی ہے، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ حکومت اسے مثبت انداز میں لے گی یا نہیں۔ اگر ماؤنواز ہتھیار چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو اس تجویز کا خیرمقدم کرنے اور سہولت فراہم کرنے کی ذمہ داری نہ صرف حکومتوں بلکہ سول سوسائٹی کی بھی ہوگی۔ اس پر فی الحال غیر یقینی صورتحال بنی ہوئی ہے۔

مزید یہ کہ اگر ماؤنواز اپنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو ان کے مستقبل کے اقدامات کیا ہوں گے؟ ابھے کے بیان میں اس بات کا ذکرتھا، ‘جہاں تک ممکن ہو سکے، ہم تمام سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر عوامی مسائل کے لیےجدوجہد کریں گے۔’

اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کن سیاسی جماعتوں کا حوالہ دے رہے ہیں؟ بائیں بازو کی جماعتیں، یا دوسری پارٹیاں جنہیں وہ بورژوا پارٹیاں کہتے رہے ہیں؟ یا وہ اپنی موجودہ پارٹی کو ہی قانونی طور پر کام کرنے والی عام سیاسی جماعت میں تبدیل کرنا چاہیں گے؟

ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا قبائلیوں کی نقل مکانی، جل، جنگل اورزمین کے مسائل اور کارپوریٹ کمپنیوں کی جنگلات میں دخل اندازی، پی ای ایس اے ایکٹ اور دیگر ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی ان کے اہم مسائل رہیں گے یا نہیں؟

ان سوالوں کا جواب اس وقت  تک نہیں ملے گا،  جب تک کہ دیو جی یا ہڑما کی جانب  سے کوئی بیان نہ آ جائے۔