حال ہی میں پی ٹی آئی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا کہ ان کے دور حکومت میں پچھلی حکومتوں سے زیادہ نوکریاں دی گئی ہیں۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کس ڈیٹا کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہے ہیں کیونکہ مختلف سروے اور رپورٹس ان کے دعوے کے برعکس تصویر پیش کرتی ہیں۔
نریندر مودی اور اتر پردیش کے سلطان پور میں اپوزیشن ‘انڈیا’ الائنس کی ریلی۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی اور فیس بک/ایس پی)
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی (پریس ٹرسٹ آف انڈیا) کو
انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی حکومت نے پچھلی حکومتوں کے مقابلے نوجوانوں کے لیے زیادہ مواقع پیدا کیے ہیں۔ یہ انٹرویو 20 مئی کو شائع ہوا تھا۔
لوگ کیا سوچتے ہیں: لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس نے اپنے حالیہ سروے کے لیے جن لوگوں سے بات چیت کی ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے بے روزگاری اور مہنگائی کو اپنی پریشانی کا سبب بتایا۔ لوگوں سے پوچھا گیا کہ وہ آج کا موازنہ گزشتہ پانچ سالوں سے کریں اور بتائیں کہ نوکری حاصل کرنا زیادہ آسان ہے یا مشکل؟ 62 فیصد لوگوں کا جواب تھا— نوکری حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
نوکریوں کا گراف کیا کہتا ہے؛
حقائق کیا ہیں؛
ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے مطابق، 15 سال اور اس سے زیادہ عمر کے ہندوستانیوں میں بے روزگاری کی شرح مالی سال 2023-24 میں
بڑھ کر 8 فیصد ہو گئی، جو پچھلے دو سالوں میں 7.5 فیصد اور 7.7 فیصد تھی۔ 2020-21 میں مہاماری کے دوران بے روزگاری کی شرح 8 فیصد سے تجاوز کر گئی تھی۔
سی ایم آئی ای کے اعداد و شمار کے مطابق، فعال طور پر روزگار کی تلاش کر رہے بے روزگار افراد کی تعداد تقریباً 3 کروڑ 70 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔
اس کے علاوہ مزدوروں کی شرکت کی شرح (ایل پی آر) میں بھی کمی آئی ہے۔ یہ شرح کام کرنے والی آبادی کے اس طبقے (16 سے 64 سال کی عمر) کی وضاحت کرتی ہے جو فی الحال کام کر رہی ہے یا روزگا کی تلاش میں ہے۔ مزدوروں کی شرکت کی شرح کووڈ 19 سے پہلے کی سطح پر نہیں پہنچ پائی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 2016-17 میں ہندوستان کا ایل پی آر 46.2 فیصد تھا۔ اگلے تین سالوں میں یہ تقریباً 42-44 فیصد تک گر گیا۔ 2020-21 میں یہ 40 فیصد سے نیچے آگیا۔ مالی سال 2023-24 میں ایل پی آر 40.4 فیصد تھا، جو 2016-17 کے مقابلے میں تقریباً 5.8 فیصد کم ہے۔
سال 2019 میں بے روزگاری 45 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی
وزارت محنت کی طرف سے 2019 میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق
2017-18 میں بے روزگاری کی شرح 6.1 فیصد تھی ۔ اس رپورٹ کی مدد سے 2019 کے عام انتخابات سے قبل یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ بے روزگاری 45 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
دراصل، جولائی 2017 سے جون 2018 کے دوران پیریڈک لیبر فورس سروے (پی ایل ایف ایس) کی رپورٹ کو مودی حکومت نے روک دیا تھا۔ اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دو افسران نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ تاہم، یہ رپورٹ میڈیا میں
لیک ہو گئی ۔ اس کے بعد تازہ ترین پی ایل ایف ایس رپورٹ کا پچھلی رپورٹوں سے موازنہ کیا گیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بے روزگاری 45 سالوں میں بلند ترین سطح پر ہے۔
ہندوستان میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح اس کے جنوب ایشیائی پڑوسیوں سے زیادہ تھی
ورلڈ بینک کی ایک
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022 میں ہندوستان میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح 23.22 فیصد تھی۔ یہ تعداد پڑوسی ممالک پاکستان (11.3 فیصد)، بنگلہ دیش (12.9 فیصد) اور بھوٹان (14.4 فیصد) سے زیادہ ہے۔ اسی سال چین میں بے روزگاری کی شرح 13.2 فیصد تھی۔
ہندوستان کے بے روزگاروں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا
سال 2022 میں ہندوستان کی کل بے روزگاری میں نوجوانوں کا حصہ 82.9 فیصد تھا۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی تازہ ترین
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں بے روزگاری کا مسئلہ نوجوانوں بالخصوص شہری علاقوں میں پڑھے لکھے مرد اور خواتین میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ تمام بےروزگاروں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا حصہ 2000 میں 54.2 فیصد تھا جو 2022 میں 11.5 فیصد بڑھ کر 65.7 فیصد ہو گیا۔ تعلیم یافتہ (ثانوی یا اعلیٰ سطح کے) بے روزگار نوجوانوں میں، خواتین کا حصہ (76.7 فیصد) مردوں (62.2 فیصد) کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
مرکز کی نوکریوں میں تقریباً 10 لاکھ عہدے خالی
جولائی 2023 میں پارلیامنٹ کے مانسون اجلاس کے دوران لوک سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ اس کی وزارتوں اور محکموں میں 964359 خالی اسامیاں ہیں۔ یہ 1 مارچ 2023 تک کا ڈیٹا ہے۔
آئی ٹی سیکٹر میں ختم ہوتی نوکریاں
بھرتی کرنے والی فرم فاؤنڈٹ کے
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ‘ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر آئی ٹی دونوں کے لیے آن لائن خدمات حاصل کرنے کی سرگرمیوں میں 2022 کے مقابلے گزشتہ سال 18 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔’