سابق آئی اے ایس افسر ای اے ایس سرما نے 22 مارچ کو الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ایک خط لکھ کر شکایت کی تھی کہ وزیر اعظم نریندر نے اپنی تقریر میں ‘ہندو دھرم کی آستھا’ کے نام پر ووٹ مانگ کر ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔ کمیشن کی طرف سے انہیں ابھی تک کوئی ردعمل موصول نہیں ہوا ہے۔
سابق آئی اے ایس ای اے ایس سرما۔ (تصویر بہ شکریہ: یو ٹیوب اسکرین گریب/ سی ایف ٹی وی نیوز رپورٹس)
نئی دہلی: سابق آئی اے ایس افسر ای اے ایس سرما نے الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) سے پوچھا ہے کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی ‘کمیشن یا عام لوگوں کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔’
انہوں نے یہ سوال الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط کا جواب موصول نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا ہے۔ مذکورہ خط میں سرما نے کہا تھا کہ مودی نے اپنی حالیہ تقریر میں انتخابی مہم کے قواعد کی خلاف ورزی کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ، سرما نے جمعہ (22 مارچ) کو ای سی آئی میں شکایت درج کروائی تھی تاکہ اس کی توجہ اس ہفتے کے شروع میں تمل ناڈو میں ایک
پروگرام میں مودی کی تقریر کی جانب مبذول کروائی جا سکے ، جس میں وزیر اعظم نے
کہا تھا کہ ہندو ناری شکتی اور ماتر شکتی پر یقین رکھتے ہیں، لیکن اپوزیشن اتحادانڈیا نے شکتی کو تباہ کرنے کے بارے میں بیان دیے ہیں اور یہ ہندو مذہب کی توہین ہے۔
تقریرسے متعلق ایک ویڈیو میں انہیں کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ‘ممبئی کے شیواجی پارک میں اپنی ریلی میں، ‘انڈی (انڈیا) الائنس’ کھلے عام اعلان کرتا ہے کہ وہ اس شکتی کو ختم کرنا چاہتا ہے جس میں ہندو مذہب یقین رکھتا ہے۔ تمل ناڈو میں ہر کوئی جانتا ہے کہ ہندو مذہب میں شکتی کا کیا مطلب ہے۔’
مودی نے یہ بھی کہا کہ تمل ناڈو میں دیوی-دیوتاؤں کو وقف کئی مندر’یہاں کی شکتی’ ہیں اور کہا کہ ہندو مذہب میں، یہ لفظ ماتر شکتی اور ناری شکتی سے جڑا ہوا ہے۔
وزیر اعظم نے یہ بھی کہا، ‘انڈی الائنس’ کے لوگ بار بار اور جان بوجھ کر ہندو مذہب کی توہین کرتے ہیں۔’
سرما نے کہا کہ یہ بیانات ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ (ایم سی سی) کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ای سی آئی سے گزارش ہے کہ اگر ان کے ذریعے سامنے لائی رپورٹ میں سچائی ہے تو مودی کے خلاف کارروائی کی جائے ۔
سرما نے اپنے 22 مارچ کے خط میں کہا تھا، ‘انتخابات کے دوران کسی سیاستداں کا مذہبی جذبات کو بھڑکانا ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی کھلی خلاف ورزی ہے… اگر یہ درست ہے تو کمیشن کو اس پر فوراً کارروائی کرنی چاہیے اور ایسا بیان دینے والے شخص کے خلاف احتیاطی، مثالی کارروائی شروع کرنی چاہیے۔’
ابھی تک کوئی ردعمل موصول نہ ہونے پر سرما نے سوموار (25 مارچ) کو کمیشن سے پوچھا کہ کیا اس نے ان کی شکایت پر کارروائی کرنے کے بارے میں سوچا ہے اور کیا وہ کسی وجہ سے ‘آزادانہ طور پر کام کرنے سے ڈرتا ہے’۔
انہوں نے
الیکشن کمشنرز کے انتخاب سے متعلق نئے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے تین رکنی الیکشن کمیشن سے یہ بھی پوچھا کہ ‘یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ آپ میں سے ہر ایک حکمران سیاست کے ذریعے منتخب کیے جانے کے نتیجے میں دفتر میں بیٹھا ہے، تو کیا ایک اجتماعی ادارے کے طور پر کمیشن حکومت کے سربراہ کے لیے کسی شرمندگی کا باعث نہ بننے کے لیے خود کو پابند محسوس کرتا ہے؟’
انہوں نے کہا کہ کمیشن کو ان کے سوالوں کا جواب عوامی طور پر دینا چاہیے اور امیدکرتا ہوں کہ وہ ‘کسی بھی ایسے تاثر کو دور کر دے گا’ کہ وہ غیر سیاسی ہے اورآزاد ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔
غور طلب ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی ایک شق میں کہا گیا ہے کہ ‘ووٹ حاصل کرنے کے لیے ذات پات یا فرقہ وارانہ جذبات سے متعلق اپیل نہیں کی جائے گی۔’
سرما نے25 مارچ کے اپنے خط میں کمیشن سے 10 سوال پوچھے ہیں؛
کیا کمیشن رائے دہندگان کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر کسی سیاستدان کی طرف سے اپنی پارٹی کو ووٹ دینے کی اپیل کو ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سمجھتا ہے؟
کیا کمیشن محسوس کرتا ہے کہ میرے جیسے عام شہری ووٹر کی شکایت پر کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور عام ووٹرز کے خدشات کو آسانی سے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟
کیا کمیشن یہ مانتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ایم سی سی کے دائرے سے باہر ہیں اور اس لیے وہ کمیشن یا عام لوگوں کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں؟
کیا انتخابی عمل کے اصول مودی کے لیے مختلف ہیں اور باقی سب کے لیے الگ؟
کیا کمیشن نے میری شکایت پر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے یا اسے مکمل طور پر نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا ہے؟
کیا کمیشن نے میری شکایت سے متعلق حقائق کو آزاد ذرائع سے معلوم کیا ہے اور میری شکایت پر فوراًحکم جاری کیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا کمیشن اسے عوامی طور پر ظاہر کر سکتا ہے؟
کیا متعلقہ شکایت پر تین مختلف کمشنروں کے درمیان کوئی اختلاف راے ہے اور کمیشن کے اختلافی خیالات کو عوامی طور پر ظاہر نہ کرنے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟
اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ آپ میں سے ہر ایک حکمران سیاست کے ذریعے منتخب کیے جانے کے نتیجے میں دفتر میں بیٹھا ہے، کیا کمیشن ایک اجتماعی ادارہ کے طور پر خود کو پابند کرتا ہے کہ وہ سربراہِ اقتدار کو کسی قسم کی شرمندگی کا باعث نہ بنے؟
کیا کمیشن، کسی وجہ سے، ایم سی سی کو نافذ کرنے کے لیے میری شکایت پر آزادانہ کارروائی کرنے سے ڈرتا ہے؟
یہ دیکھتے ہوئے کہ کمیشن کے دفتر کے اخراجات سرکاری خزانے سے برداشت کیے جاتے ہیں، کیا کمیشن کو عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا چاہیے؟
( پورے خط کو پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ )