یہ تو معلوم تھا کہ درد ہوگا، لیکن ایسا درد؟ اب درد کی شدت سمجھ میں آ رہی ہے۔ کچھ بھی کام نہیں کر رہا ہے۔ نہ کوئی تسلی اور نہ کوئی دلاسہ۔ پوری کائنات اس درد کے پل میں سمٹ آئی تھی۔ درد خدا سے بھی بڑا اور عظیم محسوس ہوا۔
کچھ مہینوں پہلے عرفان کی بیوی ستپا نے مجھے فیس بک پر پنگ کیا تھا۔ تب تک میں اپنے دل میں عرفان کی بیماری کی ٹیس لئے چپ چاپ تھا۔ سوائے ان کے لئے رسمی طور پر ایک اجتماعی دعا کے ،میں نے نہ تو ان کو، نہ ہی ستپا کو کوئی میسج کیا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ ابھی جس ذہنی حالت میں پوری فیملی ہوگی، میرے جیسوں کے ذاتی پیغامات سے زیادہ ان کوپر سکون تنہائی کی ضرورت ہوگی۔ لیکن ستپا کے میسج سے میں بہت شرمندہ ہوا اور عرفان بھائی کی حالت کے بارے میں تجسس ظاہر کیا۔
انہوں نے کہا کہ ابھی لڑائی لمبی ہے۔ تب بھی یقین کرنے کو دل نہیں چاہا اور ایسا لگتا رہا کہ بس ابھی صحت یاب ہوکر عرفان ہمارے سامنے کھڑے ہو جائیںگے۔ لیکن جب صحافی اجے برہماتمج نے ان کا یہ خط مجھ سے شیئر کیا، تب جاکر مجھے ستپا کی بات پر یقین ہوا کہ لڑائی نہ صرف لمبی ہے بلکہ مشکل بھی ہے۔ یہ خط اس بات کی تصدیق ہے کہ عرفان بےانتہا درد سے گزر رہے ہیں، بھلے ان کے مضبوط ارادوں نے درد کے تاپ کو محسوس کرنا بند کر دیا ہے۔ ہم ان کے جلد سے جلد صحت مند ہونے کی دعا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اگر سچ مچ میں کوئی ایشور ہے، تو وہ ہماری دعا فوراً سے پیشتر قبول کرے۔اویناش داس
عرفان خان کا خط اپنے مداحوں کے نام
کچھ مہینے پہلے اچانک مجھے پتا چلا تھا کہ میں نیورواینڈوکرن کینسر میں مبتلا ہوں۔ میں نے پہلی بار یہ لفظ سنا تھا۔ سرچ کرنے پر میں نے پایا کہ اس لفظ پر بہت زیادہ ریسرچ نہیں ہوئی ہے ۔ کیونکہ یہ ایک نایاب جسمانی حالت کا نام ہے اور اس وجہ سے ا س کے علاج میں غیریقینی زیادہ ہے۔ ابھی تک اپنے سفر میں ،میں تیزگامی سے چلتا چلا جا رہا تھا… میرے ساتھ میرے منصوبے، توقعات، خواب اور منزلیں تھیں۔ میں ان میں ملوث بڑھا جا رہا تھا کہ اچانک ٹی سی نے پیٹھ پر ٹیپ کیا، ‘ آپ کا اسٹیشن آ رہا ہے، پلیز اتر جائیں۔ ‘ میری سمجھ میں نہیں آیا…نہ نہ، میرا اسٹیشن ابھی نہیں آیا ہے… جواب ملا اگلے کسی بھی اسٹاپ پر اترنا ہوگا،آپ کی منزل آ گئی… اچانک احساس ہوا کہ آپ کسی ڈھکن (کارک )کی طرح انجان ساگر میں غیر متوقع لہروں پر بہہ رہے ہیں۔ لہروں کو قابو کرنے کی غلط فہمی لیے۔
اس ہڑبونگ، سہم اور ڈر میں گھبراکر میں اپنے بیٹے سے کہتا ہوں، ‘ آج کی اس حالت میں میں صرف اتناہی چاہتا ہوں… میں اس ذہنی حالت کو ہڑبڑاہٹ، ڈر، بدحواسی کی حالت میں نہیں جینا چاہتا۔ مجھے کسی بھی صورت میں میرے پیر چاہیے ، جن پر کھڑا ہوکر اپنی حالت کو غیر جانبدار ہوکر جی پاؤں۔ میں کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ ‘
ایسی میری منشاتھی، میرا ارادہ تھا…
کچھ ہفتوں کے بعد میں ایک ہاسپٹل میں بھرتی ہو گیا۔ بے انتہا درد ہو رہا ہے۔ یہ تو معلوم تھا کہ درد ہوگا، لیکن ایسا درد؟ اب درد کی شدت سمجھ میں آ رہی ہے۔ کچھ بھی کام نہیں کر رہا ہے۔ نہ کوئی تسلی اور نہ کوئی دلاسہ۔ پوری کائنات اس درد کے پل میں سمٹ آئی تھی۔ درد خدا سے بھی بڑا اور عظیم محسوس ہوا۔
میں جس ہاسپٹل میں بھرتی ہوں، اس میں بالکنی بھی ہے۔ باہر کا نظارہ دکھتا ہے۔ کوما وارڈ ٹھیک میرے اوپر ہے۔ سڑک کی ایک طرف میرا ہاسپٹل ہے اور دوسری طرف لارڈس اسٹیڈیم ہے۔ وہاں ووین رچرڈس کا مسکراتا پوسٹر ہے، میرے بچپن کے خوابوں کا مکہ۔ اس کو دیکھنےپر پہلی نظر میں مجھے کوئی احساس ہی نہیں ہوا۔ مانو وہ دنیا کبھی میری تھی ہی نہیں۔
میں درد کی گرفت میں ہوں۔
اور پھر ایک دن یہ احساس ہوا… جیسے میں کسی ایسی چیز کا حصہ نہیں ہوں، جو متعین ہونے کا دعویٰ کرے۔ نہ ہاسپٹل اور نہ اسٹیڈیم۔ میرے اندر جو باقی تھا، وہ اصل میں کائنات کی لامحدود قوت اور عقل کا اثر تھا۔ میرے ہاسپٹل کا وہاں ہونا تھا۔ من نے کہا، صرف غیریقینی ہی متعین ہے۔
اس احساس نے مجھے سپردگی اور بھروسے کے لئے تیار کیا۔ اب چاہے جو بھی نتیجہ ہو، یہ چاہے جہاں لے جائے، آج سے 8 مہینوں کے بعد، یا آج سے 4 مہینوں کے بعد، یا پھر 2 سال… فکر درکنار ہوئی اور پھر غائب ہونے لگی اور پھر میرے دماغ سے جینےمرنے کا حساب نکل گیا۔
پہلی بار مجھے لفظ ‘ آزادی ‘ کا احساس ہوا، صحیح معنی میں! ایک کامیابی کا احساس۔
اس کائنات کی کرنی میں میرا یقین ہی مکمل سچ بن گیا۔ اس کے بعد لگا کہ وہ یقین میرے ہر سیل میں پیٹھ گیا۔ وقت ہی بتائےگا کہ وہ ٹھہرتا ہے کہ نہیں! فی الحال میں یہی محسوسکر رہا ہوں۔
اس سفر میں ساری دنیا کے لوگ… سبھی ، میرے صحت مند ہونے کی دعا کر رہے ہیں، میں جن کو جانتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا، وہ سبھی الگ الگ جگہوں اور ٹائم زون سے میرے لئے عبادت کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کی دعائیں ملکر ایک ہو گئی ہیں… ایک بڑی طاقت …تیز رفتار زندگی میرےاسپائن سے مجھ میں داخل ہو کر سر کے اوپر کھوپڑی سے پھوٹ رہی ہے۔
پھوٹ کر یہ کبھی کلی، کبھی پتی، کبھی ٹہنی اور کبھی شاخ بن جاتی ہے… میں خوش ہوکر ان کو دیکھتا ہوں۔ لوگوں کی اجتماعی دعا سے پھوٹی ہر ٹہنی، ہر پتی، ہر پھول مجھے ایک نئی دنیا دکھاتی ہے۔
احساس ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ لہروں پر ڈھکن (کارک) کا کنٹرول ہو… جیسے آپ قدرت کے پالنے میں جھول رہے ہوں!
The post عرفان خان کا خط اپنے مداحوں کے نام : مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی appeared first on The Wire - Urdu.