ایران میں اگر گشتی دستے زبردستی حجاب پہنا رہے ہیں ہیں توہندوستان میں سرکاری گشتی دستے زبردستی حجاب اتار رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایران میں اسلامی حکومت مسلمانوں کو اپنے حساب سے پابندکرنا چاہتی ہے اور ہندوستان میں ایک ہندو حکومت مسلمانوں کو اپنے قاعدوں میں قید کرنا چاہتی ہے۔
کیا آج مجھےایران کے بارے میں لکھنا چاہیے؟ ایران کی ان آزادی کی متلاشی خواتین کے بارے میں؟ ان کی طرف سے جو اپنے لیے، ایرانی خواتین کے لیے، ایران کی مسلمان خواتین کے لیے آزادی کا مطالبہ کر رہی ہیں؟ کیا مجھے اُس ہندی میں آزادی کی اس پیاس کے بارے میں نہیں لکھنا چاہیے، جسے فارسی نے حرارت اور خوبصورتی بخشی ہے؟
آزادی کا یہ جذبہ، خود مختاری کی یہ تڑپ کتنی اپنی، کتنی قریبی جان پڑتی ہے! اس کو اس خوف سےنظر انداز کرنا کہ آج کے ہندوستان میں اس کا غلط استعمال کیا جائے گا، جومسلم خواتین کی زندگی کا فیصلہ ان کے ہاتھ سے چھین لینا چاہتا ہے اور ان کا ویسے ہی سرپرست بننا چاہتا ہے جیسےایران کی اسلامی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ان کی محافظ ہے؟ تصویریں سامنے ہیں اور خبریں بھی۔ یہ آزادی کی جدوجہد کی تازہ ترین خبر ہے اور اسے ضرور سننا، پڑھنا اور دیکھنا چاہیے۔
کار کے بونٹ پر کھڑی ایک عورت ڈنڈے کی نوک پر جلتا ہوا حجاب لہرا رہی ہے۔ یہ ایران کی تصویر ہے۔ سینکڑوں، ہزاروں خواتین ایران میں جگہ جگہ حجاب کو ہوا میں اچھالتے ہوئے بتا رہی ہیں کہ انہیں کیسے رہنا چاہیے، کیسےدکھنا چاہیے، یہ وہ خود طے کریں گی۔ پیشانی کھلی ہے، بال بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی بغاوت ہے۔
This is Iran today. A woman proudly burning the most visible symbol of religious dictatorship; compulsory hijab.
Hijab police killed #MahsaAmini but now there are millions of Mahsa in Iran who are shouting NO to Forced hijab NO to gender apartheid regime.#مهسا_امینی pic.twitter.com/9tzd9IRwgB— Masih Alinejad ️ (@AlinejadMasih) September 19, 2022
بہت سی خواتین اپنے بال کاٹ کر پھینک رہی ہیں اور اس کی تصویریں عام کر رہی ہیں۔ انہیں حجاب نہیں چاہیے۔وہ اپنے بال کیسے سنواریں گی ، یہ وہ خود ہی طے کریں گی۔ تہران کی سڑکوں پراوریونیورسٹیوں کے کیمپس میں خواتین سراپا احتجاج ہیں۔
یہ بغاوت ہے ایران کی اسلامی حکومت کی اخلاقیات کو بحال کرنے والی پولیس ‘گشت ارشاد’ کے خلاف۔ یہ پولیس گشت لگاتی رہتی ہے اس بات کی نگرانی کے لیے کہ خواتین ان کے کوڈکے مطابق اپنے بال ڈھانپتی ہیں یا نہیں اور ان کی پوشاک شرافت اور شائستگی کی سرکاری طور پر مقرر کردہ حدود کو پورا کرتی ہے یا نہیں۔
ایک طویل عرصے کے بعد اس قانون اور اس پر عملدرآمد کروانے والی پولیس کے خلاف بغاوت ہوئی ہے۔ اس نے ایران کی اسلامی حکومت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔
لیکن اس بغاوت کے لیے 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کو پہلے اپنی جان دینی پڑی۔ انہیں ایران کے اس ‘گشت ارشاد’ یعنی اخلاقی پولیس کے اہلکاروں نے سڑک پر یہ کہتے ہوئے پکڑا کہ انہوں نے اسلامی لباس کوڈ کے مطابق حجاب نہیں پہنا تھااور اس کے ملبوسات بھی شائستگی کے خلاف تھے۔ پولیس انہیں پکڑنے کے بعد ان کے اہل خانہ سے الگ لے گئی۔
بتایا جارہا ہے کہ ان کو مارا پیٹا گیا۔ وہ بری طرح زخمی ہوگئیں اور پھر ان کی موت ہوگئی۔ پولیس اپنے دفاع میں کہہ رہی ہے کہ وہ امینی کو ضابطے کی تعلیم دےرہی تھی کہ انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ گر پڑیں۔ اس کاپولیس کی کارروائی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ امینی کی والدہ نے پولیس کے بیان کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی کے کپڑے اور حجاب کوڈ کے مطابق ہی تھے۔
امینی کی موت کی خبر نے جیسےایران کی خواتین کے دلوں میں موجود غصے کی آگ کوبھڑکا دیا۔ پولیس کی جانب سے ان کے جنازے میں شرکت پر پابندی کے باوجود ہزاروں افراد جمع ہوئے۔ اس کے بعد خواتین نے سرعام اپنے حجاب اتارنے شروع کردیے۔ کھلے عام اپنے بال کاٹے، اس کی تصاویر بڑے پیمانے پر نشر کیں۔
یہ احتجاج وقتی نہیں تھا۔ آج بھی،یہ سطور لکھتے وقت ایران میں خواتین ہر شہر میں سڑکوں پراپنے حجاب جلا رہی ہیں،اپنے بال کاٹ کر پھینک رہی ہیں اورمرد ان کے ساتھ ہیں۔
واضح رہے کہ اس ایک واقعے نے ایران میں اسلامی حکومت کے ثقافتی جبر کے خلاف دیرینہ غصے کو اظہار کی وجہ دی ہے۔ یہ صرف امینی کے قتل کے خلاف احتجاج نہیں ہے ،بلکہ امینی کے اپنے طریقے سے جینے کے حق کو پامال کرنے کے خلاف غم و غصے کا اظہار ہے۔
حکومت کے لیے اب اس احتجاج کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایران کے سپریم مذہبی رہنما آیت اللہ خامنہ ای کے نمائندے کو متاثرہ کے اہل خانہ سے ملاقات کے لیے جانا پڑا اور بیان دینا پڑا کہ امینی کے حقوق کی خلاف ورزی کی ذمہ داری طے کی جائے گی اور کارروائی بھی کی جائے گی۔ دیگر ارکان پارلیامنٹ نے بھی اس قانون اور اخلاقی پولیسنگ کی مخالفت کی ہے۔
کیا یہ احتجاج حکومت کو ‘گشت ارشاد’ کو ختم کرنے پر مجبور کر دے گا؟ کہنا مشکل ہے۔ لیکن جیسا کہ ایرانی خواتین نے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ وہ مذہبی اتھارٹی کی مقرر کردہ حدود اور دائروں میں قید رہنے کو تیار نہیں ہیں اور اپنے لیے حقوق حاصل کیے ہیں،اسی طرح اس بار بھی وہ کامیاب ہو جائیں گی،اس کا یقین ہونا چاہیے۔ اگر کچھ حاصل نہ ہو تب بھی ان کی بغاوت کا یہ لمحہ ہم سب کے اندر آزادی کے جذبے کو مزید تقویت دیتا ہے اور اسی لیےیہ کافی ہے۔
سال1979 کے انقلاب میں اسلام پسند اور بائیں بازو کے لوگ شامل تھے۔ لیکن اسے اسلامی انقلاب کا نام دیا گیا۔ بائیں بازو نے اس وقت رجعت پسندی کے خطرے کو کم کرکے دکھانے کی کوشش کی کیونکہ ان کے لیےیہ انقلاب زیادہ اہم تھا۔ یہ لوگوں کی ذاتی آزادیوں کو محدود اور خاص طور پر خواتین کے لیے ایک مستقل تباہی ثابت ہونےوالا تھا۔ لیکن اسے ماننے سے انکار کر دیا گیا۔
جبراً حجاب کے خلاف اس تحریک کو دیکھ کر مجھے آذر نفیسی کی لکھی ہوئی کتاب ‘ریڈنگ لولیتا ان تہران‘ یاد آگئی۔نفیسی ادب کی استاد تھیں۔ وہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران لوٹی تھیں۔ یونیورسٹیوں میں بھی اسلامی اخلاقیات کے گشتی دستے تعینات تھے۔
وہ عورتوں کے لباس کی کی جانچ کرتے تھے۔ کیا برقعے کے نیچے ناخن رنگے ہوئے ہیں؟ کیا عورتوں نے اپنے ہونٹ رنگے ہیں؟ گشتی دستے اس کی تحقیقات کرتے اور مجرموں کو سزا دیتے۔ نفیسی کو حجاب کی وجہ سے ایک جگہ چھوڑنی پڑی۔ ناول پڑھنا اور پڑھانا ایک گوریلا عمل تھا۔ کیسے ناول پڑھنا ایک جابر انہ نظام کے خلاف مزاحمت ہے، اس کو اس کتاب میں سلیقے سے پیش کیا گیا ہے۔
وہ سات طالبعلموں کو اپنے گھرمیں ناول کی کلاس کے لیےمنتخب کرتی ہیں۔ مجھے ناول کا وہ حصہ یاد ہے جس میں انہوں نے ان طالبات کے بارے میں بتایا ہے جو برقع میں ملبوس ان کے گھر آتی ہیں۔ اندر آتے ہی جب وہ برقع اتارتی ہیں تو رنگنیاں بکھر جاتی ہیں۔ ان کے رنگ برنگے کپڑے، ان کی رنگین لپ اسٹک، ان کی رنگین نیل پالش! انہیں کیوں گشت ارشاد کا ڈرنہ تھا؟
یہ رنگ ہر انسان کے اندر کی آزادی کی خواہش کی علامت ہیں۔ اسے کسی بھی طرح دبایا نہیں جا سکتا۔ جن وعدوں کے ساتھ انقلابات کیے جاتے ہیں اور جو کرتے ہیں ان میں کافی فرق ہوتاہے۔ جو حقیقت میں ہوتا ہے وہ کافی برا ہوتا ہے۔ نفیسی کہانی کار نوبوکوف کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ صرف گھٹیا نہیں بلکہ مصنوعی طریقے سے اہم ، خوبصورت اور پرکشش ہے۔
انقلابات کی یہ جھوٹی کشش اور مصنوعی طور پران کی اہمیت ہی پہلے لوگوں کو اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ شخصی آزادی کے تصور کو خود غرضی اور تنگ نظری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن آخر کار وہی سب سے طاقتور ثابت ہوتا ہے جس کے لیے انسان خطرہ مول لینے اور جان دینے کو بھی تیار ہو۔
ایران کی خواتین جو کچھ کر رہی ہیں اس سے ہندوستان میں کےایک دوسری مذہبی اتھارٹی کے جبرکو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔ ایران میں اگر گشتی دستے زبردستی حجاب پہنا رہے ہیں ہیں توہندوستان میں سرکاری گشتی دستے زبردستی حجاب اتار رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایران میں اسلامی حکومت مسلمانوں کو اپنے حساب سے پابندکرنا چاہتی ہے اور ہندوستان میں ایک ہندو حکومت مسلمانوں کو اپنے قاعدوں میں قید کرنا چاہتی ہے۔
ایرانی خواتین شخصی آزادی کے لیے لڑ رہی ہیں۔ ہندوستان کی مسلم خواتین کی جدوجہد بھی اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے حق کے لیے ہے۔ دونوں ملکوں کی خواتین کہہ رہی ہیں کہ وہ اپنے جینے کا انداز خود طے کریں گی۔ اگر ہم ایران کی خواتین کے ساتھ ہیں تو ہم ہندوستان میں ان خواتین کے خلاف نہیں ہو سکتے جو یہاں کے گشتی دستوں کی مخالفت کر رہی ہیں۔ جو مسئلہ ایران میں ہے وہی ہندوستان میں ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ دونوں جگہ لوگ اس مسئلہ کے لیے ایک ہی لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ ہےآزادی۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)