انتظار حسین ؛ ابن صفی کا لوہا جیسا ماننا چاہیے تھا نہیں ماناگیا

07:17 PM Jul 26, 2021 | انتظار حسین

یوم وفات پر خاص: ادھر مقبولیت کا یہ عالم کہ ابن صفی کے جاسوسی ناول دھڑا دھڑ بک رہے ہیں اور ادھر یہ مٹھی بھر ناخدا اتنے زور آور ہیں کہ اتنے مقبول و مشہور مصنف کو ادب میں گھسنے نہیں دے رہے۔

فوٹو : سوشل میڈیا

عام طور پر ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ابن صفی آج ہی کے دن پیدا بھی ہوئے  تھے، حالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ تحقیق کے مطابق ابن صفی اپریل کی کسی تاریخ کو 1928  میں پیدا ہوئے تھے۔ مزید معلومات کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے۔ ادارہ

ابن صفی نے جیتے جی جاسوسی ناول کے ذیل میں بہت لکھا، سمجھ لیجیے کہ مضامین نو کے انبار لگا دیئے اور اپنا لوہا منوایا۔ان کے گزر جانے کے بعد اب ان کے مداح اور عقیدت مند ان کا مزید لوہا منوانے کے درپے ہیں اور انھوں نے اس ضمن میں بہت کچھ کیا ہے۔ یعنی جتنا لوہا ابن صفی نے اپنے زور قلم سے منوایا تھا اس میں اگر مداحوں کے حساب سے کوئی کسر رہ گئی تھی وہ کسر اب پوری ہو جانی چاہیے۔

دیکھو ان کے مداح خصوصی راشد اشرف نے کس شان کا مجموعہ مرتب کیا ہے بعنوان ’ابن صفی، کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا‘۔ عقیدت مندوں عاشقوں مداحوں کی داد و تحسین سے لبریز مجموعہ۔ مگر خراج تحسین کے سلسلہ کے بیچ ایک شک بھی بار بار سر اٹھاتا نظر آتا ہے کہ قبول عام کے باوصف کچھ ایسے مورکھ ابھی تک موجود ہیں جنہوں نے ابن صفی کا لوہا جیسا ماننا چاہیے تھا نہیں مانا ہے۔

مرتب نے دیباچہ میں لگی لپٹی کے بغیر سیدھی سیدھی بات اس طرح کی ہے کہ ابن صفی کی ’’حیران کن مقبولیت سے خائف ادب کے ناخداؤں نے انھیں اردو ادب میں ان کا جائز مقام کبھی نہیں دیا۔‘‘

ہم سوچ میں پڑ گئے کہ یہ ناخدا کون لوگ ہیں۔ ادھر مقبولیت کا یہ عالم کہ ابن صفی کے جاسوسی ناول دھڑا دھڑ بک رہے ہیں اور ادھر یہ مٹھی بھر ناخدا اتنے زور آور ہیں کہ اتنے مقبول و مشہور مصنف کو ادب میں گھسنے نہیں دے رہے۔ اسی سوچ میں کتاب کی ورق گردانی کرتے کرتے ہم عارف وقار کی تحریر پر ٹھٹھکے۔

لکھتے ہیں کہ ’’یہ رویہ ہمارے ذہنوں میں ادب عالیہ اور مقبول عام ادب کی تقسیم نے پیدا کیا ہے۔ اور یہ محض اردو ادب سے مخصوص نہیں بلکہ دنیا بھر کی زبانوں میں یہ تقسیم موجود ہے۔‘‘کیا یہ تقسیم بجا ہے اور یہ رویہ جائز ہے اس بات کو وہ گول کر گئے اور آگے نکل گئے۔ پھر انھوں نے اور ہی ذکر شروع کر دیا۔

’’کتابوں کی بکری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا کی تاریخ میں جاسوسی ناولوں کی مصنفہ اگاتھا کرسٹی پہلے نمبر پر ہیں جن کے 80 ناولوں کی اب تک چار ارب سے زیادہ جلدیں فروخت ہو چکی ہیں‘‘۔ عارف وقار اتنی بات کہہ کر پھر آگے گزر گئے۔ مگر لیجیے ہم اس میں ٹکڑا لگاتے ہیں۔ اگاتھا کرسٹی کے 80 ناولوں کی جلدیں اب تک چار ارب سے زیادہ فروخت ہو چکی ہیں۔

اگاتھا کرسٹی کو اس کے بعد اپنی مقبولیت میں مگن ہونا چاہیے۔ مگر اس کی بلا سے کہ جوائس، لارنس، اور پروست ایسے ناول نگاروں کے بارے میں ادب کے نقاد کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ ناول نگار 80 ناولوں کی مصنفہ کے مقابلہ میں کیا بیچتے ہیں۔

جاسوسی ناول نگاری کی روایت اپنی جگہ بہت مستحکم روایت ہے جسے قبول عام کی سند حاصل ہے۔ جو اس روایت کے قائل چلے آتے ہیں وہ اپنی جگہ مطمئن اور پر اعتماد ہیں۔ آخر ابن صفی کے مداح اس اعتماد سے کیوں محروم ہیں۔ اور راشد اشرف کو یہ سوال اٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے کہ ’’آگ کا دریا سے عام آدمی نے کتنا اثر لیا۔ نیز اس کو پڑھنے والوں کی تعداد اس ملک میں کتنی ہے‘‘۔

ابن صفی کے مقبول عام ناولوں کا ستارہ اپنے مدار میں زور شور کے ساتھ گردش کرا دیا ہے۔ ادھر قرۃ العین حیدر کا ستارہ اپنے مدار میں اپنی جو بھی رفتار ہے اس رفتار سے گردش کر رہا ہے۔ اگر ان کے مداح ابن صفی کی بے پناہ مقبولیت سے پریشان نہیں ہیں تو ابن صفی کے مداح اپنے ہیرو کی اس بے پناہ مقبولیت کو جاننے کے باوجود کیوں مطمئن نہیں ہیں۔

ہاں کتاب کی ورق گردانی کرتے کرتے خراج تحسین پیش کرنے والوں کے ہجوم میں مجنوں گورکھپوری کا نام نظر آیا۔ اس نام پر ہم ٹھٹھکے۔ چلو اردو کا ایک مستند نقاد تو بہرحال خراج تحسین کرنے والوں میں شامل ہے۔ اس کی رائے کو ہمیں جاننا چاہیے، اس کا احترام کرنا چاہیے۔ اور انھوں نے چھوٹتے ہی ہمیں بتا دیا ہے کہ ’’ابن صفی کے بیشتر ناول میرے مطالعے سے ایک سے زائد بار گزر چکے ہیں۔‘‘

لیجیے اردو کے جانے مانے نقاد سے سند مل گئی۔ ارے اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے۔ قبول عام کی سند تو پہلے ہی مل چکی تھی۔ مگر مجنوں گورکھپوری آخر مجنوں گورکھپوری ہیں۔ تجزیئے اور تنقید کے ماہر۔ اپنے قارئین کو اتنا آسان تو نہیں گزرنے دیں گے۔ اب وہ اپنے مطالعہ کی داستان شروع کرتے ہیں’’پھر ایسا ہوتا رہا کہ جب سنجیدہ مسائل پر کتابیں پڑھنے سے میری طبیعت کبھی کبھی اکتا جاتی تو میں وقت کو ذبح کرنے کے لیے ہر طرح کا تفریحی ادب بالخصوص جاسوسی ناول یا افسانے انگریزی میں پڑھتا رہا۔‘‘

ان کے بیانات سے پتہ چلا کہ مجنوں صاحب تو جاسوسی ناولوں کے بہت بڑے شناور ہیں۔ انگریزی میں لکھے ہوئے ایسے سارے فکشن کو گھوٹ کر پی رکھا ہے۔ لیکن یہ سب پڑھنے اور ہمیں اس کی اطلاع دینے کے بعد کہتے ہیں’’لیکن یہ بات اپنی جگہ کہ کہانی یا ناول کی حیثیت سے ان سب نے مجھے نا اسودہ چھوڑا۔‘‘

ہاں اور سنئے۔ کہتے ہیں کہ ’’میری نظر اور میری فکر ادب میں گہرائیاں ڈھونڈتی ہے۔ اور یہ خصوصیت مجھے شرلاک ہومز کے افسانوں میں بھی نہیں ملی۔‘‘

مگر مجنوں صاحب کا خلوص نیت ملاحظہ فرمائیے۔ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ جاسوس ناول سب کچھ جانتے ہوئے اسی انہماک سے پڑھے چلے جا رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’آج بھی جب مجھے وقت کا گلا گھونٹنا ہوتا ہے تو یا تو شرلاک ہومز کے افسانے دہراتا ہوں یا اگاتھا کرسٹی، کا کوئی ناول اٹھا لیتا ہوں جس کو ایک رات میں ختم کر دیتا ہوں۔‘‘

اب پتہ چلا کہ مجنوں صاحب کا مسئلہ کیا ہے۔ پتہ چلا کہ ان کا اصل شغف سنجیدہ ادب کا مطالعہ ہے۔ مگر جب ادھر سے تھک جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وقت تو اتنے مطالعہ کے بعد بھی بہت بچ گیا کہ کاٹے نہیں کٹ رہا ہے۔ تب وہ جاسوسی ناول کی چُھری ہاتھ میں لیتے ہیں اور وقت کو ذبح کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر چُھری سے بھی پیچھا چھڑاتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ وقت کو ذبح کرنا کیا ضروری ہے۔

اسے گلا گھونٹ کر بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ ’’آج بھی جب مجھے وقت کا گلا گھونٹنا ہوتا ہے تو یا تو شرلاک ہومز کے افسانے دہراتا ہوں یا اگاتھا کرسٹی کا کوئی ناول اٹھا لیتا ہوں جسے ایک رات میں ختم کردیتا ہوں‘‘۔

مگر اس کے آگے پہاڑ سا دن کھڑا نظر آتا ہے یعنی وقت کا ایک پورا پہاڑ۔ یا اللہ مجنوںصاحب کو قدرت نے وقت کی کتنی دولت عطا کی تھی۔ دنیا بھر کے جاسوسی ناول پڑھ پڑھ کے کتنے وقت کو ذبح کیا، کتنے وقت کا گلا گھونٹا مگر وقت تھا کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہا تھا۔

وقت کا بحر بیکراں اور مجنوںصاحب کی اکیلی ذات، اردو فارسی کی کلاسیکی شاعری میں کتنی غوطہ زنی کی، کتنے مخطوطے چاٹ ڈالے۔ پھر مغربی فکشن کی چراگاہ کا رخ کیا۔ ٹالسٹائی دوستوفسکی اور جانے کس کس کے ناول چر ڈالے۔

مگر دیکھا کہ وقت کا بحر ذخار اسی طرح موجزن ہے۔ جی میں آیا کہ کسی طرح اس کا گلا گھونٹ کر اس کا کام تمام کرو۔ جاسوسی ناول کو دیکھا کہ اس سمندر کا تو کوئی اور چھور (کنارہ) ہی نہیں ہے۔ ہر جاسوسی ناول نگار نے لکھ لکھ کر ناولوں کے انبار لگائے ہیں۔ مگر اس سمندر میں غوطہ زنی بھی کر دیکھی۔ اس بہانے کتنا وقت ذبح ہوگیا۔ مگر وقت کا کوئی انت ہی نہیں ہے۔ کتنا ذبح ہو گیا، پھر بھی کتنا بچ رہا۔

مجنوں صاحب کے اس بیان میں ہم ایسے کھوئے گئے کہ یہ بھول ہی گئی کہ ارے ہمیں تو ابن صفی کے ناولوں پر بات کرنی تھی۔ وہ قصہ تو ادھورا ہی رہ گیا۔ خیر کوئی بات نہیں۔ ابن صفی کا قصہ تو ابھی تازہ ہے۔ چلتا رہے گا۔ مے باقی و ماہتاب باقی۔

یہ مضمون پہلی بار26جولائی 2018کو شائع کیا گیا تھا۔

(بہ شکریہ ایکسپریس نیوز)