حکمرانوں کے ذریعے دیے گئے ایوارڈ سے کوئی بڑا نہیں ہو جاتا: کرشنا سوبتی

گزشتہ دنوں گیان پیٹھ ایوارڈیافتہ ادیبہ کرشنا سوبتی کا انتقال ہو گیا۔ ان کا مشہور ناول 'مترو مرجانی'کے پچاس سال پورے ہونے پر سال 2016 میں ان سے ہوئی بات چیت۔ The post حکمرانوں کے ذریعے دیے گئے ایوارڈ سے کوئی بڑا نہیں ہو جاتا: کرشنا سوبتی appeared first on The Wire - Urdu.

انٹرویو: گزشتہ دنوں گیان پیٹھ ایوارڈیافتہ ادیبہ کرشنا سوبتی کا انتقال ہو گیا۔ ان کا مشہور ناول ‘مترو مرجانی’کے پچاس سال پورے ہونے پر سال 2016 میں ان سے ہوئی بات چیت۔ان کایہ انٹرویو اپریل 2016 میں تہلکہ میگزین میں شائع ہوا تھا۔

کرشنا سوبتی/ فوٹو: بہ شکریہ  ranjana-bisht.blogspot.in

کرشنا سوبتی/ فوٹو: بہ شکریہ ranjana-bisht.blogspot.in

ہندی ادب میں مترو مرجانی کا نام نیا نہیں ہے۔ 1966 میں شائع اس  ناول پر اپنے  بولڈ بیانیہ  کی وجہ سے کافی بحث و مباحثہ  ہواتھا۔یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ خواتین کے حقوق کی موجودہ بحث نے صرف مترو کی آواز کو ہی آگے بڑھا یاہے۔ مترو کے کردار کو خلق  کرنے والی کرشنا سوبتی اب 92 سال کی ہیں اور مترو  50 سال کی ہو چکی ہے۔ملک کی تقسیم اوراپنے سامنے کئی نسلوں کو دیکھ چکیں کرشنااب بھی فعال ہیں۔ ملک کے مختلف مسائل پر وہ  بیباکی  سےبولتی رہی ہیں۔ پدم سمان لینے سے انکار کرنے کے بعد حال ہی میں ساہتیہ اکادمی فیلوشپ لوٹا چکیں کرشنا ملک کی موجودہ صورت حال سے پریشان ہیں ۔لیکن  ان کو اس ملک کی  نوجوان قیادت پر بھروسہ ہے۔پیش ہے  مختلف مدعوں  پر ان سے میناکشی تیواری کی بات چیت۔

مترو مرجانی ‘ کے 50 سال پورے ہوئے ہیں، آج مترو کو کہاں پاتی ہیں؟

اب مترو صرف ایک کتاب نہیں رہی، وقت کے ساتھ-ساتھ وہ ایک شخصیت میں بدل گئی ہے۔ وہ اب ایک مشترکہ خاندان کی عورت نہیں ہے جو ہر بات میں پیچھے رکھی جاتی ہے۔ اس کو اپنی جنسی خواہش کے اظہار کرنے کا بھی حق ہے اور یہ حق اس نے حاصل کیا ہے۔ اور یہ ایک عجیب وغریب بات بھی ہے کہ ایک اتنی چلبلاہٹ پیدا کرنے والا نام اب اتنی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔پچھلی صدی کی جو دس بڑی کتابیں ہیں ان میں مترو مرجانی آتی ہے اور یہ میں جانتی ہوں کہ یہ مصنف کا کام نہیں ہے۔ یہ اس کی اپنی شخصیت تھی، جس کو اس نے خود تیار کیا۔

مترو کو آئے آدھی صدی بیت چکی ہے۔ اس مدت میں خواتین کی آزادی اور مساوات کے حق پرخوب باتیں ہوئی ہیں ۔ ان بحث و مباحثہ کے درمیان کیا مترو اب بھی کہیں کھڑی ہے؟

دیکھیے، مترو اسی دنیا کا حصہ ہے اور اب دنیا بدل رہی ہے۔ اب ہمارے ایک چھوٹے-سے گاؤں کی لڑکی کو بھی شعور ہے کہ میں وہ نہیں جو میں ہوا کرتی تھی۔ اور وہ اس بات کو خود میں ہی نہیں ٹٹولتی بلکہ دنیا میں بھی دیکھتی ہے۔ تب اس کو وہ لفظ یاد آتے ہیں جو اس نے تب کہے تھے جب وہ تعلیم یافتہ بھی نہیں تھی۔اگر ایسا نہ ہوتا کہ اس کی الجھنوں کے پیچھے وہ سنجیدگی نہ ہوتی جس کا تعلق صرف آزادی سے نہیں تھا، تعلیم سے بھی نہیں تھا پر اس کا تعلق سیکس سے بھی ہے، جس کو یہ مان لیا گیا ہے کہ اس پر عورتوں کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس پر صرف مردوں کا حق ہے۔

یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں اس بات کا احساس تلخ ہوکر ابھر رہا ہے کہ خواتین، جس کو اس پورے کائنات  کو قائم رکھنے کی طاقت دی گئی، اس کو ہم نیچے کچل رہے ہیں۔ اس کے پیچھے کئی وجہ بھی ہیں۔ ہمارے یہاں مشترکہ خاندان نے کئی باتوں کو اپنے طور پر ترجمہ کرکے خواتین پر تھوپا ہوا ہے۔ پر اب تعلیم کے ساتھ، اقتصادی آزادی کے ساتھ یہ بدلیں‌گی۔

50 سال پہلے کی مترو اپنی جنسی خواہش کو لےکر جس آزادی کی بات کرتی ہے وہ موجودہ دور میں بھی نظر نہیں آتی ۔ تعلیم، مساوات اور اقتصادی حقوق کی بات ہوتی ہے پر خواتین اپنی جنسی خواہشوں کو ظاہر نہیں کر سکتیں۔ اس کو ‘اخلاقیات’کے پردے میں ڈال دیا گیا ہے۔

یہ دنیا بہت بڑی ہے۔ اس میں کئی طرح کے پردے ہیں۔ آج جو لڑکیاں تعلیم یافتہ ہیں، پڑھ رہی ہیں ان کو اس بات کا احساس ہے۔ ہمارے سماج میں ان باتوں کو لےکر اخلاقیات کا جو کوڈ ہے وہ بہت سخت رہا ہے۔ پر اب یہ بدلے‌گا کیونکہ اب وہ صرف گھر میں نہیں ہے، فیملی میں نہیں باہر بھی ہے۔ وہ اپنی معاشی ضروریات کو پوراکر رہی ہے۔ میرا تو یہ کہنا ہے کہ جب تک کوئی آدمی اپنی معاشی ضروریات کو پورانہیں کرتا وہ پورا شہری ہی نہیں ہے۔ وہ بھی اس سماج میں، جہاں مشترکہ خاندان ہیں۔ مشترکہ خاندان میں جتنی بھی خوبیاں ہوں، یہ آپ کو اور خواتین کو کتنی بھی حفاظت دیتا ہو، پر ان کی خوداعتمادی کو کم کر دیتا ہے۔

تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں مشترکہ خاندان خواتین کو پیچھے کھینچتا رہا ہے؟

جی، بالکل کھینچتا رہا ہے اور اب جو تبدیلی ہو رہی ہے وہ صرف اس لئے کہ بیٹیاں باہر نکل رہی ہیں، بیٹے ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ خاندان کی جو پہلی صورت  تھی وہ منتشر ہو رہی ہے۔ یہ تو سماجیات کے ماہر ین بھی تسلیم کریں‌گے۔

پر سماجیات کے ماہرین  کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک سماج کے بطور ان مشترکہ خاندانوں کا ٹوٹنا منفی ہے۔ لیکن اگر خواتین کی بات کریں تو مشترکہ خاندان سے نکل‌کر ہی وہ کچھ کر پاتی ہیں۔

بالکل-میں خود مشترکہ خاندان سے ہوں پر میری اپنی آزادی کا ایک حصہ ہے جو تمام مشترکہ خاندانوں میں نہیں ملتا۔ وہاں آپ کو حفاظت ملتی ہے یعنی اگر آپ نہیں بھی کما رہے ہیں تب بھی آرام سے رہ سکتے ہیں۔ لوگ انہی باتوں پر سمجھوتہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک آدمی کے طور پر اکیلے رہ‌کر حاصل کی ہوئی خوبیاں نہیں آ سکتیں۔ مشترکہ خاندان میں اپنا الگ وجود بنا پانا بہت مشکل ہے۔

آج جب خواتین کے مسائل پر بات ہوتی ہے تب اس کو تانیثیت  کا نام دیا جاتا ہے۔ اس ڈسکورس  پر کیا کہیں‌گی؟

یہ جو لفظ ہے یہ بھی ایک خاص قسم کی انٹلکچوئیل دھوکہ دھڑی ہے۔ اس طرح کی باتوں سے آپ ایک طرح سے ان کو غلط راستے پر جانے کے لئے لگاتار پرجوش کر رہے ہیں کہ تمہاری حفاظت کا سوال ہے تو اتنا تو چلے‌گا۔ اور اس کے ساتھ ہماری اخلاقیات بھی چلے‌گی۔ آپ کس کو کہہ رہے ہیں اخلاقیات!آج کی تاریخ میں چیزیں بدل گئی ہیں۔ اب پرانی چیزیں نہیں چلیں‌گی۔ اب یہ ایک آزاد جمہوریت ہے۔ جمہوریت کی کچھ شرطیں ہوتی ہیں، اس کی ایک آب وہوا ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے سماج کے ایک حصے کو لگاتار دبائے رہیں‌گے تو یہ مان‌کر چلیے کہ آپ کی اگلی نسلیں ویسی نہیں ہوں‌گی جیسا ان کو ہونا چاہیے۔

برسوں  پہلے مترو جس طرح اپنی جنسی  خواہشات  کو لےکر آزادی کی بات کرتی ہے، اب تک کہیں بحث کا حصہ نہیں ہے۔

ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کچھ چیزوں پرٹھہر  جاتے ہیں۔ ان سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔ ہم دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم بدل رہے ہیں پر ہم اتناہی بدل رہے ہیں جتنی ہماری سہولت ہے۔

ادب میں خواتین کہاں ہیں؟ کچھ کو چھوڑ دیں تو خواتین محبت اور قربانی میں ہی اٹکی ہوئی ہیں۔

ادب کی بات کچھ بدل‌کر کرنی ہوگی۔ ہمارے یہاں سماج کے بدلنے کی رفتار ذرا دھیمی ہے۔ پر چیزیں بدلتی ہیں۔ تو یہ باتیں اپنےآپ آتی ہیں۔ آپ کسی پر تھوپ نہیں سکتے کہ تم کو کیا کرنا چاہیے۔ پہلے تو خواتین لکھتی بھی نہیں تھیں، نہ ادب کا حصہ ہی ہوتی تھیں، اب وہ بہت جدو جہد کے بعد وہاں پہنچی ہیں۔ تو ابھی اس نئی نئی  آزادی کو محسوس‌کر رہی ہیں۔ وہ تبدیلی کی طرف گامزن  تو ہیں۔

لیکن جس طرح سماج بدلا ہے اس تبدیلی کو ادب میں اتنی جگہ نہیں ملی ہے۔

یہ وہ ملک ہے جہاں ناگارجن نے کہیں لکھا ہے کہ گھر میں بھی میری اور میری بیوی کی بات نہیں ہوتی تھی تو ہم نے سوچا کہیں بھاگ چلتے ہیں۔ تو جس طرح کا دباؤ سماج میں ہے وہ ادب میں بھی ہے۔ ویسے کچھ لکھنے والیوں  کے یہاں آپ کو نیا پن ملے‌گا۔

2010 میں آپ نے پدم سمان  لینے سے منع کیا۔اس وقت  آپ نے کہا تھا کہ ادیبوں  کو حکمراں طبقے سے دور ہونا چاہیے۔ وجہ؟

میں اب بھی ایسا ہی سوچتی ہوں۔ اگر حکمراں اور سیاسی جماعتوں کے ذریعے اپنے فائدے کے لئے ایسے ایوارڈ ملتے ہیں تو اس سے آپ بڑے نہیں ہو جاتے۔ اس کے بنا آپ کے پاس یہ حق رہتا ہے کہ اگر آپ کو کوئی بات غلط لگ رہی ہے تو آپ اس پر بول سکتے ہیں۔

تو کیا یہ سمجھیں کہ یہ انعام اس لئے دئے جاتے ہیں کہ آپ حکومت کے آرگن بن جائیں؟

روشن خیال طبقے کی مخالفت کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ جیسے کچھ وقت پہلے انعام واپس کئے گئے۔ میرے حساب سے یہ مخالفت کو ظاہر کرنے کا سب سے مہذب  طریقہ تھا،لیکن  جب آپ اس کو بھی گالیاں دے رہے ہیں تو یہ غلط ہے۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں کوئی معمولی مصنف ہو یا بڑا، اس کے پاس یہ حق تو ہے کہ وہ جو صحیح سمجھتا ہے اس کو کہہ سکے۔

اس بار انعام واپسی پر بھی ادیبوں  کی مخالفت ہوئی۔ کہا گیا کہ یہ مودی مخالف ادیب  ہیں جو ایسا کر رہے ہیں۔

اس طرح کی زبان اور اظہار کی یہ صورت صحیح نہیں ہے۔ ایک جمہوری ملک  کو ایسے طریقوں کی ضرورت نہیں ہے۔ کتنے جدو جہد کے بعد ہمیں آزادی ملی، آئین ملا ہے، ہمیں اس کو قیمتی سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ لیکن ان سب کے باوجود میں ان باتوں کے لئے خوش ہوں کہ اتنی غلط باتوں کے درمیان بھی ہمارے صدر جمہوریہ ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جن پر شہریوں اور سیاسی جماعتوں کو بھی غور کرنا بہت ضروری ہے۔

موجودہ حکومت پر الزام لگ رہے ہیں کہ وہ عدم اتفاق کے حق کو چھین رہی ہے۔

ہاں پر یہ بالکل غلط ہے۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ ہم اس ملک کے شہری ہیں، ہمارے بھی کچھ حقوق ہیں۔ آپ ان کو نہیں چھین سکتے۔

دانشوروں کا ایک طبقہ بار بار کہہ رہا ہے کہ یہ فاشزم  کی علامت ہے۔ کیا یہ ہندو پاکستان بنانے کی راہ پر ہیں؟

ہمارے پاس پالٹیکل آئیڈنٹیٹی بننے کی ایک پوری تاریخ ہے۔ ہم نے پاکستان بنتے دیکھا ہے۔ میں کہہ سکتی ہوں کہ جس راستے پر یہ چل رہے ہیں، اور ٹکڑے ہو جائیں‌گے۔ جب آپ لوگوں میں اتنی نفرت پیدا کریں‌گے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا!آپ جو کر رہے ہیں وہ غلط ہے، آپ اس میں کامیاب نہیں ہوں‌گے۔ اور اگر ہو بھی گئے تو اس سے آپ کا ہی نقصان ہوگا۔

یونیورسٹیز میں بھی مزاحمت کی آوازیں  لگاتار اٹھ رہی ہیں۔ ملک کے کئی نامی یونیورسٹی چاہے حیدر آباد ہو، جے این یو یا الہ آباد یونیورسٹی تنازعات میں ہیں۔ سیاست کے اس طرح سے یونیورسٹیز میں پہنچ جانے پر کیا کہیں‌گی؟

آپ ہر چیز کو اپنے نظریہ کے مطابق نہیں بنا سکتے جبکہ اصل میں وہ کوئی نظریہ بھی نہیں ہے۔ آپ کا نظریہ کچھ نہیں ہے۔ ملک کے لوگ روشن خیال ہیں۔ وہ سب سمجھتے ہیں۔ ایک کسان چاہے پڑھا-لکھا نہ ہو پر وہ بھی اپنا اچھا-برا سب سمجھتا ہے۔ ہماری نسل کے لئے یہ دیکھنا بےحد تناؤ سے بھرا ہے۔آپ اردو ادیبوں  سے لکھواتے ہیں کہ آپ حکومت کے خلاف نہیں لکھیں‌گے!آپ بنا کریٹیکل ہوئے تو خود کو بہتر نہیں بنا سکتے تو کیا حکومت بنا تنقید کے خود کو بہتر بنا سکتی ہے!

نئی نسل کیا کرنا چاہتی ہے، وہ ہم سے کتنی آگے ہے یہ پتہ  ہونا چاہیے، تبھی آپ آگے بڑھ پائیں‌گے۔ گزشتہ دنوں ایک پروگرام میں کنہیا کمار اور ان کے دوستوں سے ملنا ہوا۔ وہ لوگ کتنے صاف ہیں کہ ان کو کیا چاہیے، ان کو کیا کرنا ہے۔ مجھے ان کو دیکھ‌کر بہت اچھا لگا۔ اور ایسا اس لئے ہے کہ وہ بہت کچھ پڑھنے-لکھنے والے لوگ ہیں، وہ ہندی پڑھتے ہیں۔وہ لوگ ہماری طرح نہیں ہیں جو برٹش کے زمانے میں پڑھے ہیں۔ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ وہ اس نسل کے ساتھ کیا کر رہی ہے! نئی نسل کے پاس توانائی ہے، خیال ہے، زیادہ سہولیات نہیں ہیں پھر بھی وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ آپ کا ملک ان سے آگے بڑھے‌گا۔

سماج میں مذہب اور ذات کی بنیاد پر تفریق بڑھ رہی ہے۔ کسی بھی طرح کا تنازعہ ہو اس کو ہندو-مسلم رنگ دے دیا جاتا ہے۔

اس کے پیچھے بس ایک حکمت عملی ہے ہندو  راشٹر، جس میں یہ کبھی کامیاب نہیں ہو پائیں‌گے۔ اور ایسا کبھی دیکھا نہیں ہوگا کہ ہندوؤں کی اکثریت  کے باوجود آپ مسلمانوں سے ڈر رہے ہیں! کیوں؟ اور آپ ملک، سماج میں ان کی خدمات کو فراموش کر رہے ہیں۔ ہر شعبے میں چاہے آرٹ ہو، موسیقی یا ادب۔ لیکن  اب جو بچّے بڑے ہو رہے ہیں وہ بالکل الگ ہیں۔

کچھ وقت پہلے ایک ٹیچر کچھ بچّوں کو مجھ سے ملوانے لائی تھیں۔ ان میں سے کچھ تھوڑے کمزور طبقے کے بھی تھے۔ ایک بچّے نے بتایا کہ اس کے والد کباڑ کا کام کرتے ہیں۔ یہ بات کئی بچّوں کو مایوس کر سکتی ہے پر اس بچّے میں وہ خوداعتمادی تھی۔ کوئی تفریق  نہیں، کوئی گلہ نہیں۔ یہ آزاد ملک ہے۔ تو جب یہ بچّے بڑے ہوں‌گے تو میں نہیں سمجھتی یہ کسی تفریق  میں بھروسہ  کریں‌گے۔

ہندو راشٹر بننے کے خواب کا کوئی مستقبل ہے؟

نہیں۔ یہ کبھی کامیاب ہی نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں کتنے مسلم ممالک ہیں تو کیا اس وقت ان کی بھاگ دوڑ، وہاں ہو رہی ہلچل ہم نہیں دیکھ پا رہے ہیں! آپ کیا سوچتے ہیں کہ آپ کیا نیا کریں‌گے کسی ایک خاص مذہب کی بنیاد پر ملک بناکر!

ادیب، دانشور اور طلبا اپنی رائے ظاہر کرنے پر مخالفت کاسامنا کر رہے ہیں۔ کیا عدم اتفاق کو دبانا اس طرح جمہوریت کے خلاف ہے؟

بالکل ہے۔اتنی صدیوں بعد ملک میں جمہوریت آئی ہے اور جس طرح سے یہ حکومت کر رہے ہیں، یہ ثبوت ہے کہ اتنی بری طرح سے تو باہر کے لوگوں نے بھی ہم پر حکومت نہیں کی۔ مخالفت کرنا کوئی بری بات نہیں ہے، اس سے آپ ترقی کرتے ہیں۔

آپ نے تقسیم سے پہلے کی جدو جہد بھی دیکھی ہے۔ اس وقت بھی حکمراں طبقے کے تئیں  عدم اطمینان تھا۔ کیا آج کے حالات ویسے ہی ہیں؟

آج ماحول اس سے بہت زیادہ خستہ ہے۔ اس وقت بات سیاسی پہچان کی تھی جو اب نہیں ہے۔ ان کی بس ایک حکمت عملی ہے ہندو راشٹر، جس میں یہ کبھی کامیاب نہیں ہو پائیں‌گے۔ اور ایسا کبھی دیکھا نہیں ہوگا کہ ہندوؤں کی اکثریت  کے باوجود آپ مسلمانوں سے ڈر رہے ہیں! کیوں؟

اگر مترو 2016 میں لکھی جا رہی ہوتی تو…

اس پر مجھے ایک بات یاد آتی ہے۔ مترو مرجانی میں ایک جگہ مترو کی ساس خاندان بڑھانے کے بارے میں کہتی ہے، تو مترو جواب دیتی ہے کہ یہ ترت-پھرت کا کھیل نہیں ہے کہ ایک ہی منٹ میں جند بولنے لگے۔ جب اس کو اسٹیج پر دکھایا جا رہا تھا تو خیال یہ تھا کہ لوگ ہنسیں‌گے پر ہم سب حیران رہ گئے جب کوئی ہنسا نہیں۔ تو اس طرح کی کنڈیشننگ ہے۔ لوگ خود بھی جانتے ہیں کہ کیسے انہوں نے خواتین کو دباکر رکھا ہے۔

مترو مرجانی میں ایک جگہ مترو کہتی ہے ‘ جند جان کا یہ کیسا ویاپار؟ اپنے لڑکے بیج ڈالیں تو پنیہ، دوجے ڈالیں تو ککرم! ‘ جس طرح کی سیکسوئل لبرٹی کی بات مترو کر رہی ہے، ہندوستان کے مین اسٹریم  ادب میں ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ ایک پدری سماج میں لکھ پانے کی ترغیب کیسے ملی؟

دیکھیے، صاف کہوں تو مصنف بہت کچھ نہیں کر سکتا، یہ ان کی غلط فہمی ہوتی ہے۔ ہڈی کی نالی مضبوط ہوتی ہے اور اسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں اس وقت راجستھان میں تھی۔وہاں کچھ مزدور کام کر رہے تھے۔ وہاں ایک ٹھیکدار اور عورت تھی۔ عورت لہنگا پہنی ہوئی تھی اور چھوٹا-سا گھونگھٹ بھی نکال رکھی تھی۔ ٹھیکدار نے اس کو اپنے پاس بلانے کے لئے ایک دم سخت آواز میں پکارا، ‘آجا ری’اور وہ عورت زور سے ہنسی اور بولی،’اس لہنگے کی ماند میں آ گئے تو گئے کام سے! ‘ میں نے بس یہ سنا۔

میں نے یہی سوچا کہ یہ ان الفاظ سے زیادہ کچھ ہے۔ راجستھانی مجھے زیادہ نہیں آتی پر اس میں بہت زیادہ ٹیس ہے۔ اور پھر کرداروں کو تخلیق کرنے کا طریقہ ہوتا ہے۔ اگر آپ نے ایک کورے کاغذ پر کوئی ایک لائن کھنچی دیکھی ہے تو لکھتے وقت آپ تین جگہ اپنی طاقت بانٹتے ہیں اس لائن کی جو آپ نے دیکھی ہے، دوسری مصنف کی اپنی طاقت اور پھر کردار کی۔اگر کردار میں جان نہ ہو تو آپ کیا کریں‌گے؟ اور اگر آپ کردار کو پہچانتے نہیں ہیں پھر کیا! اور ایک بات، مصنف کو نہ تو کردار کو اپنے سے قریب رکھنا ہے نہ بہت دور رکھنا ہے۔ تب آپ کرداروں کو منضبط کر سکتے ہیں۔ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ زبان کی مطابقت سے ہی یہ کردار نکلا۔

آپ کے یہاں خواتین کردار بہت آزاد ہیں، جو جس دور میں وہ لکھے گئے، اس وقت کی سچّائی سے بالکل الٹ ہیں۔ یہ کیسے ہوا؟

میری پرورش مشترکہ خاندان میں ہوئی ہے پر ہمیں بہت آزادی ملی ساتھ ہی نظم وضبط بھی تھا۔ تو شاید اسی کا عکس ان کرداروں پر ہے۔

آپ کی زیادہ تر کتابوں کے انگریزی ترجمے ہوئے ، ہندی کے کم ہی مصنف کے کام کو ایسی پذیرائی ملی۔

(ہنستے ہوئے)میں تو بور ہو جاتی ہوں۔ ایک بار کتاب شائع ہو جاتی ہے پھر میں اس کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتی۔

The post حکمرانوں کے ذریعے دیے گئے ایوارڈ سے کوئی بڑا نہیں ہو جاتا: کرشنا سوبتی appeared first on The Wire - Urdu.