ایڈیٹرز گلڈآف انڈیا کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے گزشتہ ماہ منی پور کا دورہ کیا تھا۔ ٹیم کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منی پورحکومت کی طرف سے انٹرنیٹ پر پابندی کا صحافت پر نقصاندہ اثر پڑا، کیونکہ بغیر کسی ابلاغ کے اکٹھی کی جانے والی مقامی خبریں صورتحال کا متوازن نظریہ پیش کرنے کے لیے کافی نہیں تھیں۔
نئی دہلی: ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے منی پور سے متعلق میڈیا رپورٹس کی تحقیقات کے لیے ریاست کا دورہ کیا ہے۔ ٹیم نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ نسلی تشدد کے دوران ‘یکطرفہ’ رپورٹ شائع کی گئیں اور انٹرنیٹ کی پابندیوں نے ‘معاملات کو مزید خراب کر دیا’۔
سیما گہا، بھارت بھوشن اور سنجے کپور کی تین رکنی ٹیم 7 سے 10 اگست تک منی پور میں تھی۔ 24 صفحات پر مشتمل ‘منی پور میں نسلی تشدد کی میڈیا رپورٹس پر فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ’یہ بھی بتاتی ہے کہ کس طرح کچھ خبروں کی وجہ سے سیکورٹی فورسز کی بدنامی ہوئی۔
مثال کے طور پر اپنی سفارشات میں اس نے کہا، ‘میتیئی میڈیا سیکورٹی فورسز، بالخصوص آسام رائفلز کی مذمت کرنے میں ایک فریق بن گیا۔ وہ آسام رائفلز کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ کرتے ہوئے اپنے فرض میں ناکام رہے۔ یہ دعویٰ کرتا رہا کہ یہ صرف عوام کی رائے نشر کر رہا تھا۔ یہ حقائق کی تصدیق کرنے اور پھر اپنی رپورٹ میں ان کا استعمال کرنے میں ناکام رہا۔’
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت نے بھی منی پور پولیس کو آسام رائفلز کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت دے کر اس بدنامی کی خاموش حمایت کی،’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کے ایک ہاتھ کوعلم نہیں تھا کہ دوسرا کیا کر رہا ہے یا یہ جان بوجھ کر کی گئی کارروائی تھی۔’
ملک کی سب سے قدیم نیم فوجی دستوں میں سے ایک آسام رائفلز اور منی پور پولیس کے درمیان تصادم غیرمعمولی رہا ہے۔ اس کے خلاف منی پور پولیس کی ایف آئی آر مبینہ طور پر ‘کُکی عسکریت پسندوں کو فرار ہونے کی اجازت دینے’ کے سلسلے میں درج کی گئی تھی۔ آسام رائفلز کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)، لیفٹیننٹ جنرل پی سی نائر نے ایک ستمبر کو کہا ہے کہ منی پور کے حالات غیرمعمولی ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ،’ہم منی پور میں جس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں وہ غیرمعمولی ہے۔ ہمیں تاریخ میں ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہ ہمارے لیے نیا ہے، منی پور کے لیے بھی نیا ہے۔’
انٹرنیٹ پر پابندی سے خبروں کی تصدیق کا عمل متاثر ہوا
ایڈیٹرز گلڈ کی رپورٹ نے خبروں کی کراس چیکنگ اور نگرانی کو متاثر کرنے میں انٹرنیٹ پابندی کے کردار کا ذکرکیا اور اسے ‘غلطیوں’ اور افواہوں کو براہ راست پھیلنے دینے کا ایک طریقہ بتایا ہے۔
منی پور میں پہلی بار 3 مئی کو انٹرنیٹ پر پابندی لگا ئی گئی تھی۔ اس دن ریاست میں نسلی تشدد شروع ہوا تھا، جو پچھلے چار ماہ سے جاری ہے۔ اس کے بعد سے کئی سرکاری احکامات میں پابندی کو جاری رکھا گیا تھا، جب تک کہ جون کے آخر میں اس کے محدود استعمال کی اجازت نہیں دی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا،’حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ پر پابندی کا صحافت پر نقصاندہ اثر پڑا، کیونکہ اس کا براہ راست اثر صحافیوں کی ایک دوسرے، ان کے مدیران اور ان کے ذرائع سے بات چیت کرنے کی صلاحیت پر پڑا۔ اس نے میڈیا کو بھی متاثر کیا، کیونکہ بغیر کسی ابلاغ کے اکٹھی کی جانے والی مقامی خبریں صورتحال کا متوازن نظریہ پیش کرنے کے لیے کافی نہیں تھیں۔’
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر انٹرنیٹ پر پابندی بالکل ضروری ہو جاتی ہے، تو نیوز پلیٹ فارموں کو پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا جانا چاہیے اور میڈیا کے نمائندوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور حکومتی نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی کو پابندی اور اس کے دورانیے کی نگرانی کرنی چاہیے۔
اس میں زور دے کر کہا گیا ہے،’کسی بھی حالت میں ریاستی حکومت کو انورادھا بھسین کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی ہدایات کے خلاف نہیں جانا چاہیے۔’
رپورٹ میں خصوصی طور پر کہا گیا ہے کہ تصادم کے دوران منی پور کا میڈیا مؤثر طریقے سے اکثریتی میتیئی کمیونٹی کا میڈیا بن گیا تھا۔
اس کے مطابق، ‘میتیئی میڈیاجیسا کہ تصادم کے دوران منی پور میڈیا بن گیا تھا، نے مدیران کے ساتھ اجتماعی طور پر ایک دوسرے سے مشورہ کرنے اور ایک بیانیہ پر اتفاق کرنے کے لیےایک ساتھ کام کیا۔ مثال کے طور پر کسی واقعے کی رپورٹنگ کے لیے عام زبان پر اتفاق کرنا، زبان کے کچھ استعمال کا حوالہ دینا یا کسی واقعے کی رپورٹنگ بالکل نہ کرنا۔ ایڈیٹرز گلڈ کی ٹیم کو یہ اس لیے بتایا گیا ، کیونکہ وہ پہلے سے ہی غیر مستحکم صورتحال کو مزید بھڑکانا نہیں چاہتے تھے۔’
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بظاہر یہ رجحان ان دنوں سے شروع ہوا جب وادی میں عسکریت پسند گروپ سرگرم تھے اور کسی بھی منفی رپورٹنگ کے لیے اخبار کے مدیران کودھمکیاں دیتے تھے۔
رپورٹ کے مطابق، ‘تاہم، نسلی تشدد کے دوران اس طرح کے نقطہ نظر کا منفی پہلو یہ ہے کہ یہ آسانی سے ایک عام نسلی بیانیہ تیار کر سکتا ہے۔ کیا رپورٹ کرنا ہے اور کس چیز کو سینسر کرنا ہے، یہ طے کرناصحافتی اصولوں کے اجتماعی خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ایسا کچھ حد تک میتیئی اور کُکی برادریوں کے درمیان نسلی تشدد کے موجودہ تصادم کے دوران بھی ہوا ہے۔
ایڈیٹرز گلڈکی ٹیم نے یہ بھی کہا کہ ‘واضح اشارے ہیں کہ ریاستی قیادت تصادم کے دوران متعصب ہو گئی’۔ ٹیم نے اسے جمہوری حکومت کے طور پر اپنا فرض ادا کرنے میں ریاست کی ناکامی قرار دیا۔
اس میں کہا گیا ہے، ‘امپھال میں میتیئی حکومت، میتیئی پولیس اور میتیئی بیوروکریسی ہے اور پہاڑیوں میں رہنے والے قبائلی لوگوں کو ان پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔’
ایڈیٹرز گلڈ کی مکمل رپورٹ؛
Report of the fact-finding … by The Wire
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔