کسی بھی منظم مذہب میں شامل ہونے والا آدی واسی اپنی بنیادی پہچان بچائے رکھنے کے نام پر قدرت/فطرت سے وابستہ تہواروں میں حصہ لےکر اس وہم میں رہتا ہے کہ وہ زمین سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن کیا وہ کبھی یہ محسوس کرتا ہے کہ اپنی تہذیب، زبان وغیرہ کو لےکر اس کا نظریہ کیسےمبینہ مین اسٹریم کےنظریے کے مماثل ہوجاتا ہے؟
‘عالمی یوم قبائلی’یا قدیم اور مقامی باشندوں کا عالمی دن –آدی واسیوں کے لیے خود سے سوال پوچھنے کا وقت ہے۔ اس موقع پر آدی واسی ناچتے گاتے ہیں لیکن آدی واسی سماج کے بیچ جو اہم سوال ہے، لوگ ان سوالوں سے جوجھنے کا کام نہیں کرتے۔انہیں اپنے سماج کے اندر دیکھنا چاہیے اور پوچھنا چاہیے کہ کیا ناچ گانے تک محدود رہنے سے آدی واسی سماج بچا رہ سکتا ہے؟
کسی بھی منظم مذہب میں شامل ہونے والاآدی واسی اپنی بنیادی پہچان بچائے رکھنے کے نام پر قدرت/فطرت سے وابستہ تہواروں میں حصہ لےکر اس وہم میں رہتا ہے کہ وہ زمین سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن کیا وہ کبھی یہ محسوس کرتا ہے کہ آدی واسی تہذیب،زبان ، جل ، جنگل زمین کو لےکر اس کا نظریہ بھی کیسےدھیرے دھیرےمبینہ مین اسٹریم کے نظریے جیسا ہو جاتا ہے؟
کس طرح وہ بھی برہمن وادیابرتری کے احساس کو ڈھوتا ہے؟ اسی نظریے سے راستہ نکالنا چاہتا ہے۔برہمن وادی نظریہ،طرز معاشرت اور اقدار کو ڈھوتے ہوئے کوئی آدی واسی، کیسےیہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ آدی واسی ہے؟کیسے اس کی زندگی کےاقداروسیع اور زیادہ انسانی ہیں؟ ہر آدی واسی کمیونٹی کے نام کا مطلب جب انسان ہوتا ہے، پھر وہ آدی واسی انسان کہاں رہتا ہے؟ اس کے پاس اپنا کیا نظریہ ہے؟
کیا اس نظریے سے ترقی کے راستے طے نہیں ہو سکتے؟ اگر ہو سکتے ہیں پھر وسیع آدی واسی سماج ایک ساتھ غلط کو غلط کہنے کے لیے کیوں نہیں کھڑا ہو پاتا، کیوں سہی کو سہی کہنے کے لیے بھی متحدنہیں ہو پاتا؟بدلےوقت میں جب آدی واسی پہناوا، زبان،طرز معاشرت سب ختم ہو رہا پھر بھی کوئی آدی واسی ہر بار صرف اپنے بچے کھچے اقدار زندگی سے پہچان لیا جاتا ہے۔
آدی واسی فطرت سے متعلق اپنے فلسفہ زندگی سے ہی جانا جاتا ہے۔لیکن اگر زندگی کی قدریں بھی بدل چکی ہوں تب صرف آدی واسی گوتر(قبیلہ ) لگا دینے، پیڑ کے قریب کوئی گھر بنا لینے، آدی واسی گیتوں پر ناچ گا لینے بھر سے کوئی آدی واسی کیسے بچا رہ سکتا ہے؟ہر آدی واسی کو اپنی تہذیب اورزندگی کی قدروں کوسمجھنا ہوگا۔اپنے سماج کی برائیوں اور کمیوں سے لڑنے، راسخ العقیدہ نظریات کو اندر اور باہرسے توڑنے کا کام بھی خود ہی کرنا ہوگا۔
دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سا بندھن ہے جو اس کو بدلنے نہیں دیتا اور کون سا راستہ ہے جو اس کو بدلنا چاہتا ہے لیکن اس کی اصل ثقافت، زندگی کی قدروں کو چھین لیتا ہے، اس کو انسان رہنے نہیں دیتا۔یہ سارے سوال آدی واسیوں کو خود سے ہی کرنے ہوں گے۔آدی واسی فطرت سے جڑے لوگ ہیں۔ ان کے آبا و اجدادبھی ہزاروں سال سے فطرت سے جڑے تھے۔فطرت کے ساتھ جڑے رہنے کی وجہ سے ان کا ایک نظام ہے۔
اسی نظام سے اجتماعیت ،شراکت داری، یکجہتی کی بات پیدا ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو سننے، سب کی رضامندی جاننے، سب کی پسند اور ناراضگی کو سمجھنے، کوئی راستہ نکالنے کی ایک تہذیب جنم لیتی ہے۔آدی واسیوں کےاسی نظام سے ان کا عقیدہ بھی وابستہ ہے۔ یہ لوگوں کو دل سے جوڑے رکھتی ہے۔ اور ایک ساتھ دل سے جڑے ہونے کی وجہ سے وہ فطرت کی دھن میں ساتھ ناچ اور ساتھ گا پاتے ہیں۔
ساتھ گانے اور ناچنے کے بیچ یہ ذہنی کیفیت ضروری ہوتی ہے کہ کسی کو بھی اپنی منفی سوچ، احساس برتری،نفرت، فریسٹریشن چھوڑکر ساتھ آنا پڑتا ہے۔ ان باتوں کو چھوڑے بنا ساتھ ناچنا مشکل ہے۔ اس لیے آدی واسی اجتماعی طور پر ناچ پاتا ہے۔یہ سب آدی واسی سماج کے اندر فطرت کے ساتھ جیتے ہوئے ایک پروسس میں پیدا ہوا ہے۔ وہ کب ، کیوں اور کیسے ٹوٹتا چلاگیا؟ اس لیے ٹوٹتا چلا گیا کیونکہ بدلتے وقت میں نئے طریقے سے خود کو سمجھنے کی کوشش نہیں ہوئی۔
لوگ یہ نہیں سمجھ سکے کہ جب فطرت سے رابطہ ٹوٹتا ہے اور منافع کی ایک سرمایہ دارانہ طرز زندگی سے کوئی سماج جڑتا ہے، تو وہاں آدی واسی تہذیب کے بچنے کاامکان ختم ہوجاتا ہے۔آدی واسی سماج منظم مذہب کے ساتھ اس تہذیب و ثقافت کا جب بھی حصہ ہو جاتا ہے تب وہ آنکھ بند کرکے بنا سوال پوچھے اندھی پیروی کرنے لگتا ہے۔
اور اندھی پیروی یا عقیدت میں سوال پوچھنے کی جگہ نہیں ہوتی اور سوال پوچھتے لوگ خطرناک قراردیے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کو سماج سے نکال دیا جاتا ہے۔کوئی منظم مذہب اپنی جگہ برا نہیں ہے، لیکن جب اس کا استعمال سب کے حصہ کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے ہتھیار کےطور پر ہوتا ہے، سیاست اس کا استعمال ہتھیار کے طور پر کرتی ہے تب مذہب اپنے خطرناک روپ میں ہوتا ہے۔
منظم مذہب نے آدی واسی سماج کے اندر بڑے تبدیلیاں کی ہیں۔آدی واسی سماج کے اندر مشنریوں کے داخلہ نے انقلابی تبدلی کی ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے۔سنگھ دوردرازکےآدی واسی علاقوں میں طویل عرصہ سے تعلیم ، صحت کو لےکر مشنریوں کی طرح ہی کام کرنے کی کوشش کر رہا لیکن ان سے وابستہ لوگ کھلے طور پر یہ قبول کرتے ہیں کہ ان کا مقصد آدی واسی سماج کو، ان کی پہچان سے اکھاڑ کر خود میں شامل کرنا ہے۔ تاکہ وسائل کا استعمال ملک کی ترقی کے لیے ہو سکے۔
منظم مذہب آخرکار کس تہذیب اورطرز معاشرت کاکیریئر ہے اور آدی واسی سماج کس نظام اور تہذیب کاکیریئر ہے؟اس کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔ دونوں کی تہذیب کو سمجھے بنا ہم چیزوں کو ٹھیک طریقے سے سمجھ نہیں سکتے ہیں۔مذہب اپنے ساتھ کون سی تہذیب لےکر آتا ہے اور کون سی چیزوں سے آدی واسی سماج کو اکھاڑتا ہے، اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
منظم مذہب اور اس سے متعلق طرز زندگی کہیں نہ کہیں منافع کی تہذیب سے مضبوطی سے جڑا رہتا ہے۔اسی تہذیب کے اندر وہ خدمت اور لوگوں کو کچھ سہولت دینے کا کام کرتا ہے لیکن وہ آدی واسیوں کو اجاڑنے، ان کی زبان-بولی چھین لینے، اس کو بے گھر کرنے کے خلاف مضبوطی سے لڑ نہیں پاتا۔ مذہبی ادارے،اعلیٰ نظام اتنےوسیع اور غلامی سے آزاد نہیں ہوتے۔
اس لیےمذہب بدلنے والے آدی واسی سماج بھی اس طرح کے سیاسی پارٹیوں کے حامی ہو جاتے ہیں، جو مذہبی آزادی سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرتی لیکن وہ ترقی کے نام پر آدی واسیوں کو ختم کرتی ہے اور اس کے خلاف ، مذہب کے نام پر بٹا ہوا آدی واسی سماج کبھی بھی ایک ساتھ نہیں آ پاتا۔
آدی واسیوں کو، ملک کا وسیع ہندو سماج خود کے پیڑ اور عورت کی پوجا کرنے کی یکسانیت پر سناتن دھرم کا حصہ بتاتا ہے۔ لیکن آدی واسی جب پیڑ اور عورت کو بچانے کے لیے لڑتا ہے تب یہ وسیع ہندو سماج اس کے ساتھ کیوں نہیں کھڑا ہو پاتا ہے؟کیوں وہ ہمیشہ آدی واسیوں کو ترقی مخالف بھی سمجھتا ہے؟ آدی واسیوں کے جنگل زمین بچانے کی لڑائی میں یہ ہندو سماج کبھی بھی ساتھ آکر کھڑا نہیں ہوتا ہے۔
اور اس سماج سے جو بھی لوگ آدی واسی سماج کے حق کے لیے لڑتے ہیں، وہ ان کے بھی خلاف لڑتا ہے۔ کیونکہ ان کی پوری تہذیب سرمایہ دارانہ نظام، منافع کے نظا م سے چلتی ہے۔وہ مذہبی طور پرآدی واسیوں کو ایک بتاتا ہے اور دوسری طرف ان کا وجودختم ہونے پر چپ بھی رہتا ہے۔ اس فرق کو سمجھے بنا آدی واسی سماج اپنے آپ کو سہی طریقے سے نشان زد نہیں کر سکتا ہے۔
آدی واسی سماج دنیا کے لیے واحد امید ہے، جہاں سے سرمایہ دارانہ طرز زندگی اورنظام کے خلاف لڑنےوالے لوگ راستہ پا سکتے ہیں۔دنیا کو راستہ آدی واسی سماج کے اصل انسانی نظام اور آدی واسیت سے ہی مل سکتی ہے۔ ایک دن وقت یہ سب لکھےگا۔ لیکن آدی واسی سماج کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیےفطرت سے وابستہ ان کے اپنے نظام پر ان کایقین کیوں نہیں ہے؟
کہاں سے وہ کمتر ہیں؟ کیوں آدی واسی خود کو غیر مہذب، کمترانسان سمجھتا ہے؟ کیوں آدی واسی کہلانے سے ڈرتا ہے اور دوسروں کی طرح نہیں دکھنے پر مایوس ہوتا ہے؟یہ سب اس لیے کیونکہ ہزاروں سال سے اس کویہی سب بتایا گیا ہے۔یہ سب سنتے سنتے وہ ان باتوں پر یقین کرتا ہے۔ اس کے پاس خود کی تعریف نہیں ہے۔
اپنی کوئی تشریح نہیں ہے۔دوسروں نے جو تشریح کر دی ہے، اسی کے آئینے میں وہ خود کو دیکھتا ہے۔ عالمی یوم قبائلی کے دوران ان کو اپنے آدی واسی ہونے کو نئے نظریے سے دیکھنا ہوگا۔اپنی تعریف خود ہی لکھنی ہوگی، اپنی تشریح خود کرنی ہوگی، اپنے ہونے پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ اس بھروسے سے ہی اپنے بارے میں دنیا کو بتانا ہوگا اور اپنے لیے دنیا کا نظریہ بدلنا ہوگا۔
اسی طرح یہ سماج اپنے آپ کو ڈھونڈ سکتا ہے۔ اسی طرح فطرت سے جڑے لوگ، فطرت کی وسیع سمجھ کے ساتھ دوسرے سماج کو بھی انسانی ہونا اور نئے نظریے سے آدی واسی دنیا کو دیکھنا سکھا سکتے ہیں۔
(مضمون نگارآزاد صحافی ہیں۔)