ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی میں پڑھانے والے سبیہ ساچی داس نے اپنے ایک تحقیقی مقالہ میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ‘ہیرا پھیری ‘ کا خدشہ ظاہر کیا تھا، جس پر تنازعہ کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔سوموار کو انٹلی جنس بیورو کے افسران ان سے بات کرنے کے مقصد سے یونیورسٹی پہنچے تھے۔
اشوکا یونیورسٹی کیمپس۔ (فوٹو بہ شکریہ: یونیورسٹی کی ویب سائٹ)
نئی دہلی: ہندوستان میں تعلیمی آزادی پر اٹھنے والے سوالات کے درمیان انٹلی جنس بیورو (آئی بی) نے ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے ایک سابق پروفیسر کے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے حوالے سے’
ڈیموکریٹک بیک سلائیڈنگ ان دی ورلڈ لارجیسٹ ڈیموکریسی‘(دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں جمہوری پسپائی) کے عنوان سے لکھے گئےریسرچ پیپر کی کی جانچ شروع کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آئی بی اس کے مصنف سبیہ ساچی داس کا انٹرویو کرنا چاہتی ہے اور اس بارے میں شعبہ معاشیات کے فیکلٹی ممبران سے بھی بات کرنا چاہتی ہے۔
آئی بی کے افسران کچھ اخباری تراشے لے کر سوموار کو سونی پت واقع یونیورسٹی کیمپس پہنچے تھے اور انہوں نے داس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔ داس پونے میں ہیں۔ افسران نے داس کے تحقیقی مقالے کے مواد کے بارے میں دیگر فیکلٹی ممبران سے بات کرنے کی بات کہی، لیکن اس کے لیےکوئی راضی نہیں ہوا کیونکہ افسران نے اس بارے میں اپنی درخواست کو تحریری طور پر دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد وہ یہ کہہ کر واپس چلے گئے کہ وہ منگل کو دوبارہ آئیں گے۔
دی وائر کے پاس اس بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے کہ وہ منگل کو دوبارہ یونیورسٹی پہنچےیا نہیں۔
سبیہ ساچی نے اپنے تحقیقی مقالہ میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ‘ہیرا پھیری ‘ کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ بی جے پی اس عام انتخابات میں 2014 کے مقابلے زیادہ سیٹوں کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی تھی۔
سبیہ ساچی داس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ 25 جولائی 2023 کے ان کے مقالے ‘
ڈیموکریٹک بیک سلائیڈنگ ان دی ورلڈس لارجیسٹ ڈیموکریسی‘میں انہوں نے جن طریقوں اور اثرات کا مشاہدہ کیا، وہ صرف 11 نشستوں تک ہی محدود تھے۔ تاہم، اس کے مطالعہ نے سوشل میڈیا پر کافی ہنگامہ برپا کیا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے ان کے نتائج کے حوالے سےانہیں نشانہ بنایا تھا۔
دی وائر کو موصولہ اطلاعات کے مطابق، کچھ صنعت کار، جنہوں نے یونیورسٹی میں سرمایہ کاری کی ہے اور اس کے بورڈ کے ممبر ہیں، کو پی ایم او اور مرکزی وزارت تعلیم سے ناراضگی کے فون کال موصول ہوئے تھے، جن میں داس کی منشا کے حوالے سےسوال اٹھائےگئے تھے۔
اس سے پہلے اشوکا یونیورسٹی میں اکثر ریاست کے لوکل انٹلی جنس بیورو (ایل آئی بی) کے ‘جاسوس’ پہنچتے رہے ہیں- جو سیمینار اور تقریبات میں اس بات پر نظر رکھنے کے لیے شرکت کرتے ہیں کہ موضوع کےتھوڑا سا سیاسی ہو نے پر اس کا نوٹس لے سکیں- لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ آئی بی کے افسران سونی پت کیمپس پہنچے تھے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اس طرح کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ استعفیٰ دے چکےسبیہ ساچی داس کو یونیورسٹی واپس بلانے والی ہے۔ گزشتہ ایک اگست کو اشوکا یونیورسٹی نے داس کے تحقیقی مقالے سے خود کو الگ کرتے ہوئے ایک
بیان جاری کیا تھا، جس کے کچھ دنوں بعد داس نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
داس کی حمایت میں شعبہ معاشیات کے ایک اور پ
روفیسر پلاپرے بالاکرشنن نے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس کے بعد متعلقہ شعبہ کے علاوہ کئی دیگر شعبوں کے اساتذہ داس کی حمایت میں آگےآئے اور ان کی بحالی کرنے سمیت کچھ دوسرےمطالبات پیش کیے۔ فیکلٹی ممبران نے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں ستمبر سے شروع ہونے والے سیشن میں کام کا بائیکاٹ کرنے کی بات کہی تھی۔
اتفاق سے، یونیورسٹی کا فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ (ایف سی آر اے) لائسنس بھی ستمبر 2023 میں ہی تجدیدی مرحکے سے گزرنے والا ہے۔ کسی ایسے ادارے، جو حکومت، بی جے پی یا اس سے وابستہ اداروں جیسی سوچ نہیں رکھتا، کے پیچھے پڑنے کے لیے مرکزی وزارت داخلہ ایف سی آر اے کے لائسنس کی تجدید کو کسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹلی جنس ذرائع کی جانب سے رپورٹ بھی اکثر تیار کی جاتی ہیں، بالخصوص، ان معاملوں میں جہاں وزارت داخلہ کو حکومت کے خیالات یا مقاصد سے ہم آہنگی کے فقدان کا شبہ ہوتا ہے۔
دی وائر نے آئی بی کے دورے پر باضابطہ بیان کے لیےیونیورسٹی انتظامیہ سے رابطہ کیا ہے۔ ان کا جواب آنے پررپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)