ہمارے جوانوں نے اس لیے قربانی نہیں دی کہ ان کا استعمال نفرت پھیلانے کے لیے کیا جائے: سی آر پی ایف

سماج میں نفرت اور بدامنی پھیلانے والی پوسٹ کی اصلیت کو سامنے لانے کے لیے دہلی میں سی آر پی ایف کے 12 سے 15 جوانوں کی ایک ٹیم بنائی گئی ہے۔

سماج میں نفرت اور بدامنی پھیلانے والی پوسٹ کی اصلیت کو سامنے لانے کے لیے دہلی میں سی آر پی ایف کے 12 سے 15 جوانوں کی ایک ٹیم بنائی گئی ہے۔

جموں و کشمیر کے پلواما ضلع‎ کا اونتی پورہ، جہاں گزشتہ 14 فروری کو سی آر پی ایف کے جوانوں پر دہشت گردانہ حملہ ہوا (فوٹو : پی ٹی آئی)

جموں و کشمیر کے پلواما ضلع‎ کا اونتی پورہ، جہاں گزشتہ 14 فروری کو سی آر پی ایف کے جوانوں پر دہشت گردانہ حملہ ہوا (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : پلواما میں دہشت گردانہ حملے میں سی آر پی ایف جوانوں کی موت کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اس کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں مصروف ہیں ۔ فیک نیوز اور فرضی فوٹو کے ذریعے غلط جانکاریاں پھیلائی جارہی ہیں۔اس کے مدنظر سی آر پی ایف نے  ایک ٹیم کی تشکیل کی ہے جو سوشل میڈیا پوسٹ پر نظر رکھ رہی ہے اور اس کو پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔سی آر پی ایف کے ڈی آئی جی ایم دیناکرن نے ان باتوں کی جانکاری دیتے ہوئے کہاہے کہ ، ہمارے جوانوں نے اس لیے قربانی نہیں دی کہ ان کا استعمال فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کے لیے کیا جائے۔

بوم لائیو کی ایک رپورٹ کے مطابق، سی آر پی ایف کے ڈی آئی جی اور کلیدی ترجمان ایم دیناکرن کا کہنا ہے کہ ، پلواما حملے کے بعد کئی طرح کی تصویریں اور ویڈیوز وائرل ہورہے ہیں ۔ اس میں کچھ تو براہ راست متشدد ہیں ۔ یہ تشویشناک بات ہے ۔ کچھ پوسٹ میں تو ہمارے جوانوں کو سیدھے طور پر بے عزت کیا جارہا ہے۔انہوں نے اپنی جان کی قربانی اس لیے نہیں دی کہ ان کی شہادت کا استعمال فرقہ پرستی اور نفرت پھیلانے کے لیے کیا جائے۔جب یہ سب چیزیں پھیلنے لگی تو ہم نے سوچا کہ اس کو روکنے کے لیے اقدام کیا جاناچاہیے۔

غور طلب ہے کہ نفرت اور سماج میں بدامنی پھیلانے والے پوسٹ کی اصلیت کو سامنے لانے کے لیے دہلی میں سی آر پی ایف کے 12 سے 15 جوانوں کی ایک ٹیم بنائی گئی ہے جو ان حقائق کی جانچ کر رہی ہے۔دینا کرن نے کہا کہ ، میں نے بلدھانہ کے کسی کا ایک پوسٹ دیکھا ، جس میں ایک بالٹی میں جسم کے کئی اعضا کو رکھا گیا تھا ۔ اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ایک سی آر پی ایف جوان کے جسم کے حصے ہیں اور اس کو ایک جوان کے اہل خانہ کو سونپا گیا ہے ۔ یہ فوٹو کافی ڈراؤنی تھی اور اس نے مجھے اندر تک جھنجھوڑ دیا تھا۔

بوم لائیو کے مطابق ، ایسے فوٹوز اور پوسٹ کی تصدیق کے لیے ایک دوسرے علاقائی مرکز کی تشکیل کی  گئی ہے۔ فیک نیوز کو ہٹانے اور صحیح جانکاری سامنے لانے کے لیے ایک بڑی ٹیم کی تشکیل کی گئی ہے۔سی آر پی ایف اپنے 3 لاکھ سے زیادہ جوانوں اور ان کے اہل خانہ کی مدد سے صحیح جانکاری سامنے لانے  کی کوشش بھی کررہا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی فیک نیوز کے خلاف سی آر پی ایف نے وارننگ بھی جاری کی ہے۔

Next Article

ترکیہ میں پندرہ جولائی کی اہمیت

پندرہ جولائی 2016 کو ترک فوج کے ایک گروہ نے سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک منظم مگر ناکام کوشش کی تھی۔یوں اس بغاوت کی ناکامی کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں، جن میں کم از کم 40,000 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ان میں 10,000 سے زائد فوجی اور 2,745 جج شامل تھے۔

تمام تصویریں، بہ شکریہ: ترک کمیونیکیشن ڈائریکٹوریٹ

ترکیہ کے شہروں خاص طور پر دارالحکومت انقرہ اور عروس البلاد استنبول کی کئی اہم جگہوں پر آ پ کو شیشے کے کیسز میں جلی ہوئی کاریں اور سڑکوں پر گہرے گڑھے نظر آئیں گے۔ یہ 15 جولائی 2016 کی وہ محفوظ نشانیاں ہیں، جب ترک فوج کے ایک گروہ نے سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک منظم مگر ناکام کوشش کی۔

ترکیہ کی جدید تاریخ میں اس دن کو خاصی اہمیت حاصل ہے اور اس کو جمہوریت اور قومی اتحاد کے دن کے طور پر تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

 ترکیہ کے جمہوری دور کی تاریخ میں چار بار فوج نے مداخلت کرکے سویلین حکومتوں کو برخاست کیا ہے۔ مگر یہ شاید پہلی بار تھا جب رجب طیب ایردوان کی حکومت نے مداخلت کو ناکام بناکر فوج کو ایک سویلین انتظامیہ کے تابع بناکر ہی دم لیا۔

ترک آئین میں فوج کے کردار کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانے کی ذمہ دار ہے۔فوج نے پہلی مرتبہ 1960 میں اپنے اس اختیار کا استعمال کرکے ایک منتخب وزیر اعظم عدنان مندرس کو بے دخل کرکے ان پر مقدمہ چلا کر ایک سال بعد موت کی سزا دے دی۔دیگر ایسی فوجی مداخلتیں 1971، 1980 اور 1997 میں ہوئیں۔

 سخت گیر کمالسٹ ہونے کی وجہ سے فوج ایک فرض یہ سمجھتی تھی کہ وہ اتاترک کی اصلاحات، خاص طور پر سیکولرازم، اور مغرب کے ساتھ تعاون کی محافظ ہے۔

مگر ترک تجزیہ کاروں کے مطابق کمالسٹ یا سخت گیر فرانسیسی طرز کے سیکولرازم کے نفاذ کاسہرا دراصل اتا ترک کے بجائے عصمت انونو  کے سر جاتا ہے، جوملک کے پہلے وزیر اعظم رہے اور پھر بطور صدر1938 سے 1950 تک برسر اقتدار رہے۔ انہوں نے اپنے نظریہ کو تھوپنے کے لیے مصطفیٰ کمال اتاترک کے نام کا خوب استعمال کیا۔جاتے جاتے مگر ان کا احسان یہ رہا کہ انہوں نے ملک میں کثیر جماعتی انتخابات کو منظوری دے دی۔

معروف سرکردہ ترک صحافی مہمت اوز ترک 15 جولائی  2016کو  دن بھر کا کام کرنے کے بعد انقرہ کے نواح میں اپنے گھر لوٹے تھے۔ وہ ان دنوں ترکیہ کی نیم سرکاری اور سب سے بڑی نیوز ایجنسی انادولوکے غیر ملکی زبانوں کی سروس کے چیف ایڈیٹر تھے۔

ڈنر کے بعد جب انہوں نے ٹی وی آن کیا، تو دیکھا کہ استنبول میں بحیرہ اسود اور بحیرہ روم کو ملانے والی آبنائے باسفورس کے ایک پل پر سے فوجی ٹینک گزر رہے ہیں۔ ان کی چھٹی حس نے ان کو خبردار کیا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔

انہوں نے فون کرکے گاڑی منگوائی اور دوبارہ دفتر کی طرف روانہ ہوگئے۔ انقرہ ابھی تک پرسکون تھا۔ویسے بھی استنبول کے برعکس یہ شہر جلدی سو جاتا ہے۔ فوجی بغاوت کی خبر ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ دفتر پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ ایجنسی کے دیگر ذمہ داران بھی کوریڈور میں موجود تھے، تو معلوم ہوا کہ فوجی بغاوت شروع ہو چکی ہے۔

وہ یاد کر رہے تھے 36 برس قبل زمانہ طالبعلمی میں اسی طرح کی ایک فوجی بغاوت کے بعد ان کو انڈر گراونڈ اور پھر ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ترک یونیورسٹیوں میں بائیں بازو، سخت گیر سیکولر نظام یعنی کمال ازم کے حامیوں اور اسلام پسند اور لبرل جمہوریت کے خواہاں گروپوں میں سخت رسہ کشی ہوتی تھی۔

اوز ترک ان دنوں انقرہ یونیورسٹی کے ایک طالبعلم تھے۔ 1980کی اس فوجی مداخلت کے بعد ان کی زندگی اجیرن بنائی گئی اور ان کو ملک چھوڑ کر تقریباً دس سال تک اپنے احباب و اقارب سے دور کئی ملکوں میں پناہ کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔ ان کا اضطراب واجب تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ چند لمحوں کے بعد جیٹ جہازوں کی پرشور اور دھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ معلوم ہوا کہ انٹلی ایجنسی کے صدر دفتر، صدارتی محل، پارلیامنٹ ہاؤس اور شہر کے مرکز پر بمباری ہو رہی ہے۔استنبول میں واقع فاتح سلطان محمد پل اور باسفورس پل بند کر دیے گئے۔فوجی ہیڈکوارٹر میں بعض افراد کو یرغمال بنایا گیا، جن میں چیف آف جنرل اسٹاف حلوصی آقار بھی شامل تھے۔

تقریباً رات 9 بجے باغیوں نے ترک زمینی افواج کے کمانڈر صالح زکی چولاک کو فوجی ہیڈکوارٹر بلایا اور گرفتار کیا۔ترک فضائیہ کے سربراہ عابدین اونال، جو استنبول میں ایک شادی کی تقریب میں شریک تھے، کو وہیں سے اٹھا کر اغوا کیا گیا۔

آقار کو بتایا گیا کہ وہ اس بغاوت کی حمایت کرتے ہوئے جنرل کنعان ایورن کی طرح ملک کا نظم و نسق سنبھال لیں اور انہیں اس موقع پر امریکہ میں موجود د حزمت تحریک کے سربراہ  فتح اللہ گولن سے بھی ٹیلی فون پر بات چیت کرنے کی پیشکش کی گئی الیکن جنرل حلوصی نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا اور آئینی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کو ترجیح دی۔اس دوران بیلٹ سے ان کا گلا گھونٹنے کی بھی کوشش کی گئی۔انکار پر انہیں آکن جی ایئر بیس منتقل کر دیا گیا۔وہاں دیگر کمانڈروں کو بھی رکھا گیا تھا۔

صدر رجب طیب ایردوان جنوب مغربی ترکی کے شہر مارماریس میں بحیرہ روم کے ساحل پر اپنی فیملی کے ساتھ ایک ہوٹل میں تعطیلات گزار رہے تھے۔رات گئے فضا میں تین فوجی ہیلی کاپٹرنمودا رہوئے اور ہوٹل پر بم برسانے لگے۔ اسی دوران چھاتہ بردار فوج کے  کمانڈودستے بھی ہوٹل کے پاس اترنے لگے۔

مگر ان کو معلوم نہیں تھا کہ محض بیس منٹ قبل ایردوان ایک ہیلی کاپٹر پر دالامان کے ایرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے پائلٹ کو ہیلی کاپٹر کی لائٹس بند کرنے اور نچلی پرواز کرتے ہوئے ریڈار کی پہنچ سے دوررہتے ہوئے  ائیر پورٹ پہنچنے کا حکم دیا۔ اس ہوٹل کے پاس اسپیشل فورسز اور باغی فوجیوں میں جھڑ پ بھی ہوئی۔

اوز ترک کے مطابق فرار سے قبل اسی قبل اسی ہوٹل کے صحن میں ایردوان نے صحافیوں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے اس فوجی بغاوت کی مذمت کی اور عوام کو سڑکوں پر آنے مزاحمت کرنے کی ترغیب دی۔ مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ نشر نہیں ہو پائی۔

لیکن جب وہ تقریباً سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے دالامان کے ایرپورٹ پہنچ کر ایک پرائیوٹ جیٹ میں سوار ہوئے، تو رات 12  بجکر 23 منٹ پر انہوں نے سی این این ترک چینل سے رابطہ کیا، جس نے براہ راست ان کا بیان اور اپیل نشر کی۔ اس کے نشر ہوتے ہی عوام سڑکوں پر امنڈ پڑے۔

پارلیامنٹ اسپیکر نے اسی وقت ہنگامی اجلاس طلب کرکے سبھی ارکین پارلیامنٹ کو ایوان میں پہنچنے کی ہدایت دی۔ٹینکوں نے ترک پارلیامان کے قریب فائرنگ کی اور عمارت کو فضائی حملے میں بھی نشانہ بنایا گیا۔ انقرہ کے مئیر ملیح گوکچیک نے میونسپلٹی کے تمام ٹرکوں، جن میں کچرا اٹھانے والے بھاری بھرکم ٹرک بھی تھے کے ڈرائیوروں کو ہدایت دی کہ ان کو فوجی ہیڈکوارٹر اور بیرکوں کے آس پاس کھڑا کردیں، تاکہ فوجی نقل و حمل میں رکاوٹ ڈالی جاسکے۔ ان کا یہ انوکھا پلان خاصا کار گر ثابت ہوا۔باغیوں کی رفتار سست ہوگئی۔

رات ایک بجے کے آس پاس ایردوان نے سی این این ترک چینل کو فون پر تفصیلی انٹرویو دیا اور عوام سے اپیل کی کہ کرفیو کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر اوراستنبول کے اتا ترک ایئر پورٹ پر جمع ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ و ہ جلد ہی استنبول ایر پورٹ پہنچ رہے ہیں۔

ایردوان کا طیارہ دالامان ایئرپورٹ سے رات 11 بج کر 47 منٹ پر روانہ ہوا تھا، اور صبح 2 بج کر 50 منٹ پر اتاترک ایئرپورٹ پر اترا۔بتایا جاتا ہے کہ راستے میں اس کو مار گرانے کی کوشش ہوئی تھی، مگر پائلٹ نے ریڈیو پر اپنے آپ کو ترک فضائیہ کے طیارہ کے طور پر شناخت کروائی۔ ایک امریکی ویب سائٹ نے اس طیارہ کے روٹ کی اطلاع اپنی ویب سائٹ پر دی تھی۔جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی ادارے کسی سطح پر اس بغاوت میں شریک تھے۔

رات 11 بجے سے نصف شب تک انقرہ کے مضافاتی علاقے گولباشی میں پولیس اسپیشل فورسز کے ہیڈکوارٹر اور پولیس ایئر فورس ہیڈکوارٹر پر ہیلی کاپٹروں سے بمباری کی گئی۔گولباشی میں واقع تُرک سیٹ کے ہیڈکوارٹر پر بھی حملہ کیا گیا۔

رات 11 بج کر 50 منٹ پر فوجیوں نے استنبول کے مرکز تقسیم اسکوائر پر قبضہ کر لیا۔ رات ایک بجے تک  ایئرپورٹ کے اندر ٹینک موجود  تھے اور وہاں گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ان کا ہدف کسی طرح ایردوان کے طیارے کو اترنے نہیں دینا تھا یا فوراً گرفتار کرنا تھا۔ ایروان کے انٹرویو اور عوام کے اژدھام کے باعث اسی دوران فوج نے ایرپورٹ سے انخلاء شروع کردیا۔

مگر انقرہ میں صبح 3 بجے تک فوج نے پارلیامنٹ کا محاصرہ کیا ہوا تھا اور ایک فوجی ہیلی کاپٹر فائرنگ کر رہا تھا۔ صبح 3 بج کر 12 منٹ پر وزیر اعظم بن علی یلدرم نے اعلان کیا کہ حکومت نے حالات پر قابو پا لیا ہے، انقرہ پر نو فلائی زون نافذ کر دیا گیا ہے اور جو فوجی طیارے اب بھی پرواز کریں گے، انہیں مار گرایا جائے گا۔

ادھر استنبول پہنچنے کے بعد ایردوان نے ایئرپورٹ کے اندر سے ہی ٹی وی پر خطاب کیا، اس وقت لاکھوں افراد ایئرپورٹ کے باہر جمع تھے۔تقریباً 6 بج کر 30 منٹ پروہ ایرپورٹ سے باہر آئے اور کہا کہ ترکیہ میں حکومت اب صرف بیلٹ بکس سے ہی تبدیل ہوسکتی ہے اور فوج ریاست کو نہیں چلا سکتی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک سابق حلیف اور امریکی ریاست پنسلوانیا میں موجود فتح اللہ گولن اور ان کی حز مت یعنی خدمت تحریک پر غیر ملکی شہہ پر اس بغاوت کا الزام لگایا۔

ادھر  استنبول کے تقسیم اسکوائر اور باسفورس پل پر باغی فوجیوں نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔یہ شاید واحد مثال ہوگی، جب فوج پولیس اور عوام کے سامنے بے بس ہو گئی تھی۔ صبح 5 بج کر 18 منٹ تک حکومت نے اتاترک ایئرپورٹ پر مکمل کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔

مگر انقرہ کے فوجی ہیڈ کوارٹر کے اندر صبح  8 بجے تک بھی جھڑپیں ہورہی تھیں۔ وہاں  700  مسلح فوجیوں نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، جبکہ 150 مسلح فوجیوں کو پولیس نے محصور کر دیا۔ یہ اب طے تھا کہ بغاوت کا زور ٹوٹ چکا ہے۔

جنرل حلوصی آقار کی غیر موجودگی میں استنبول میں تعینات فرسٹ آرمی کے سربراہ جنرل امید دوندار کو قائم مقام چیف آف اسٹاف مقرر کیا گیا۔چند گھنٹوں کے اندر ہی آکن جی  ایئر بیس پر یرغمال بنائے گئے چیف آف اسٹاف آقار کو بھی حکومت کے حامی دستوں نے بازیاب کرا لیا۔اس پوری رات کے آپریشن میں 350افراد ہلاک اوردوہزارکے قریب زخمی ہوگئے۔ انقرہ میں صدارتی محل کے پاس ان کی یاد میں بنائے گئے مینار اور اس کے ساتھ ڈیموکریسی میوزیم میں ان کے نام درج ہیں۔

انقرہ میں 15 جولائی کی یادگار

بتایا جاتا ہے کہ بغاوت کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ باغیوں کی صفوں میں انتشار اور افراتفری اور ایردوان کو حاصل عوامی حمایت تھی۔ اس کے علاوہ ترکیہ کی قومی انٹلی جنس ایجنسی (ایم آئی ٹی) کے سربراہ حکان فدان (موجودہ وزیر خارجہ) کو بغاوت کی سن گن مل گئی تھی۔

کئی ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ اس بغاوت کے تانے بانے امریکہ میں بنے گئے تھے، اس لیے روسی خفیہ ایجنسیوں کو اس کی بھنک مل گئی تھی اور انہوں نے اس کو ترک ذرائع کے ساتھ شیئر کر دیا تھا۔

ترک نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کے ساتھ پچھلے تیس سالوں سے وابستہ معروف صحافی فرقان حمید کے مطابق اس اطلاع کے ملنے کے فوراً بعد فدان نے جنرل آقار کو ٹیلی فون کرتے ہوئے فوری طور پر ملنے کی اطلاع دی اور وقت ضائع کیے بغیر مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گئے۔ وہاں بری فوج کے سربراہ جنرل صالح ذکی چولاک بھی موجود تھے۔جنہوں نے آرمی ہی کے چیف آف اسٹاف، جنرل اِحسان اُیار کو ٹیلی فون کرتے ہوئے آرمی ایویشن اسکول جانے اور حالات کا خود جائزہ لینے کے احکامات جاری کیے۔

 حمید کا کہنا ہے کہ فوج کے جتھے جس نے حکومت کا تختہ الٹنے کا پلان تیار کیا تھا میں صدر کے اے ڈی سی کے علاوہ تینوں افواج کے سربراہان کے اے ڈی سی بھی شامل تھے۔ چیف آف جنرل اسٹاف کے آفس میں انٹلی جنس سروس کے سربراہ  کی آمد نے باغیوں میں خطرے کی گھنٹی بجائی، جس پر انہوں نے رات تین بجے حکومت کا تختہ الٹنے کے پلان میں تبدیلی کرتے ہوئے رات دس بجے  ہی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے علاوہ بغاوت کے اہم منتظمین میں سے ایک جنرل سیمیح ترزی کو آغاز پر ہی ایک سارجنٹ میجر عمر خالص دمیر نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔اس واقعے نے باغیوں کی کمان اور ان کے حوصلے کو شدید نقصان پہنچایا اور ان کی کارروائیاں انتشار کا شکار ہو گئیں۔

ان  دونوں واقعات سے بغاوت بے ربط اور غیر مربوط ہوگئی۔ باغیوں نے جن سپاہیوں کو متحرک کیا تھا، وہ مشن کی اصل حقیقت سے ناواقف تھے اور بعد میں بددل ہو گئے۔ان میں سے کئی نے مظاہرین پر فائرنگ کرنے کے بجائے ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دی۔

بتایا جاتا ہے کہ استنبول میں تعینات فرسٹ آرمی کے کمانڈر جنرل امید دوندار نے خود ایردوان کو بغاوت سے خبردار کیا اور قائل کیا  کہ وہ ہوٹل چھوڑ دیں اور ان کو استنبول پہنچانے میں مدد دی۔

خفیہ ایجنسی ایم آئی ٹی نے اپنی اینٹی ایئرکرافٹ توپیں بھی متحرک کر دیں تھیں جن کی موجودگی سے باغی لاعلم تھے، اور یہ باغیوں کے طیاروں اور کمانڈو ٹیموں کے لیے رکاوٹ بن گئیں۔ایک اسپیشل فورسز یونٹ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے صدر کو قتل یا گرفتار کرنے کے لیے بھیجا گیا، مگر وہ بیس منٹ کی دیری سے وہاں پہنچے، تب تک ایردوان وہاں سے نکل چکے تھے۔

مصنف نونہال سنگھ اپنی کتاب سیزنگ پاور: دی اسٹریٹجک لاجک آف ملٹری کوپس میں تحریر کرتے ہیں کہ اس بغاوت کی ناکامی کی ایک اور بڑی وجہ یہ تھی کہ باغی میڈیا پر کنٹرول حاصل نہ کر سکے اور اپنی مرضی کا بیانیہ ترتیب نہ دے سکے۔

کامیاب بغاوتوں میں لازمی ہوتا ہے کہ باغی ذرائع ابلاغ پر مکمل قبضہ حاصل کریں۔اس طرح چھوٹے باغی گروہ بھی خود کو مکمل طور پر فاتح ظاہر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اپنی کامیابی کو ناگزیر بنا کر پیش کرتے ہیں۔یوں وہ عوام، غیر جانبدار اور حتیٰ کہ وفادار فوجیوں کو قائل کر لیتے ہیں کہ وہ باغیوں کی حمایت کریں یا کم از کم مزاحمت نہ کریں۔

اس کے علاوہ باغی ترک سیٹ، جو ترکی کی مرکزی کیبل اور سیٹلائٹ مواصلاتی کمپنی تھی اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک اور موبائل فون کے نیٹ ورک کو کنٹڑول نہیں کرسکے۔ اسی وجہ سے ایردوان کو فیس ٹائم کال کے ذریعے عوام سے خطاب کرنے کا موقع ملا اور وہ ٹی وی پر براہ راست بات کر سکے۔

اوز ترک کے مطابق باغی گروپ نے ان کی نیوز ایجنسی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ رات گئے فیکس آیا کہ موجودہ انتظامیہ کو برخاست کیا گیا ہے اور نئی انتظامیہ نیوز ایجنسی کی دیکھ بھال کرے گی۔ مگر نئی انتظامیہ نے اپنی شکل ہی نہیں دکھائی۔ اس لیے انہوں نے اپنے نیوز آپریشن جاری رکھے اور ایردوان اور دیگر لیڈروں کے بیانات جاری کرتے رہے۔

اس بغاوت میں امریکی ادراوں کے تانے بانے بعد میں ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ نومبر 2017 کے اوائل میں ترک حکام نے ہنری جے بارکی کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا، جو وُڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز کے مشرقِ وسطیٰ پروگرام کے سابق ڈائریکٹر تھے۔

حکام کا کہنا تھا کہ وہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں، اور  بغاوت کے دوران استنبول میں موجود تھے اور اس کے اہم منصوبہ سازوں میں شامل تھے۔

اسی طرح استنبول کے پراسیکیوٹر آفس نے گراہم ای فلر کے خلاف بھی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔جو ایک  امریکی مصنف اور اسلامی انتہا پسندی کے ماہر سیاسی تجزیہ کار ہیں، جنہوں نے سی آئی اے میں طویل مدت تک خدمات انجام دیں اور امریکہ کی نیشنل انٹلی جنس کونسل کے نائب سربراہ کے طور پر بھی کام کیا۔

پراسیکیوٹر آفس کے مطابق فلر نے بغاوت کی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کی۔ ترک حکام کا خیال ہے کہ انہوں نے بغاوت سے پہلے اور بعد میں فلر کی ترکیہ میں موجودگی کا سراغ لگایا تھا۔

ویسے تو مغربی ممالک جمہوریت کے فروغ اور شہری آزاد ی کے نام پر خاصی رقوم خرچ کرتی ہیں اور مختلف ممالک میں ان تحریکوں کی پشت پناہی بھی کرتی ہیں، مگر جب یہ جمہوریت ان کے اقدار سے زیادہ ان کے مفاد  پر پوری نہیں اترتی ہے تو جمہوری حکومتوں کو اقتدار سے باہر کرنے کی سازشیں کرکے آمروں کو تخت پر بٹھانے میں مدد کردیتی ہیں۔

 عدنان مندرس نے  پہلی بار کثیر جماعتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے 1950 سے 1960 تک  ترکیہ کے وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔21 مئی 1960 کو تقریباً ایک ہزار افراد، جن میں ملٹری اکیڈمی کے طلبا اور افسران شامل تھے، نے حکومت کے خلاف انقرہ میں خاموش مارچ کیا، جس کی بنا پر ان کو معزول کر دیا گیا اور پھر 17 ستمبر 1961 کو 62برس کی عمر میں ان کو امرالی جزیرے پر پھانسی دی گئی۔اس کا نام بدل کر اب ڈیموکریسی جزیرہ رکھا گیا ہے۔

ان کا قصور تھا کہ اس نے شخصی آزادیاں  بحال کرکے  مساجد اور دینی مدارس دوبارہ کھولنے کے احکامات دئے تھے، قانون سازی کرکے اذان، عربی میں دینے کی اجازت دی تھی۔

سال  1950 کے انتخابات میں عدنان بیگ کی ڈیموکریٹ پارٹی نے نعرہ دیا تھا؛ ”بس! اب عوام کی آواز سنی جائے!“اور اب وہ اس نعرے کوعملی جامہ پہنانے نکلے تھے۔

انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے چند ہفتوں میں ہی تمام سیاسی قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا تھا۔پابندیوں کے خاتمے کے نتیجے میں ایک ایسا آزاد پریس وجود میں آگیا تھا، جو ٹائم میگزین کے الفاظ میں”طوروس کی پہاڑیوں سے آنے والی ہوا کی طرح آزاد“ تھا۔ ان سبھی اقدامات کو سخت گیر سیکولرازم کے لیے انتہائی خطرہ قرار دیا گیا۔

اسی طرح ہمسایہ ملک ایران میں 1953 میں مقبول لیڈر محمد مصدق کی حکومت کو ایک بغاوت کے ذریعے برطرف کر دیا گیا، جس میں برطانیہ کی خفیہ ایجنسی (ایم آئی 6) اور امریکہ کی سی آئی اے کا کردار تھا۔مصدق پر بعد میں غداری کا مقدمہ چلایا گیا، انہیں تین برس کے لیے قید کی سزا دی گئی، اور پھر وہ اپنی وفات تک نظر بند رہے۔انہیں ان کے اپنے گھر میں ہی دفنایا گیا۔

خیر ترکیہ میں اس بغاوت کی ناکامی کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں، جن میں کم از کم 40,000 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ان میں 10,000 سے زائد فوجی اور 2,745 جج شامل تھے۔15,000 تعلیمی شعبے کے ملازمین کو بھی معطل کر دیا گیا۔21,000 نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے لائسنس منسوخ کر دیے گئے کیونکہ حکومت نے دعویٰ کیا کہ وہ گولن کے وفادار تھے۔

تقریباً 160,000 سے زائد افراد کو ان کی نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا کیونکہ ان پر گولن سے روابط کا الزام تھا۔اس بغاوت کے بعد بتدریج حکومتی معاملات میں فوجی مداخلت ختم کر دی گئی۔ آئینی عدالت میں جہاں فوجی جنرل کی بھی نشست ہوتی تھی، کو ختم کردیا گیا۔جس کی وجہ سے ترکیہ کی تاریخ میں اتا ترک کے بعد شاید ایردوان ہی واحد ایسے سویلین حکمران رہے ہوں گے، جنہوں نے طاقت کے سبھی اداروں اور مراکز پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔

Next Article

پونے: دو گاؤں میں مسلمانوں کا بائیکاٹ، دھمکیوں کے بعد کئی لوگ گھر چھوڑنے کو مجبور

پی یو سی ایل اور اے پی سی آر کی ایک ٹیم نے گزشتہ ہفتے پونے کے دو گاؤں کا دورہ کیا، جہاں سے مسلم کمیونٹی کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کی اطلاعات تھیں۔ ٹیم نے یہاں خوف و دہشت ، بند پڑی دکانیں، ٹوٹی -بکھری زندگی اور تباہ حال خاندان کا مشاہدہ کیا ۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: مہاراشٹر کے پونے ضلع کے ملشی تعلقہ کے پوڑ اور پیرنگوٹ گاؤں میں مسلمانوں کے خلاف دھمکیوں اور سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ۔

بتایا گیا ہے کہ اس کے بعد کئی مسلم خاندان جو یہاں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے رہ رہے تھے، کو گاؤں چھوڑ کر جانا پڑا۔ گاؤں کے متعدد ہندو باشندوں نے یہ کہہ کر بائیکاٹ کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی کہ یہ لوگ ‘مقامی مسلمان نہیں’ ہیں۔

گزشتہ دو جولائی کو پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کی ایک مشترکہ ٹیم نے دونوں گاؤں کا دورہ کیا اور زمینی حقیقت کا پتہ لگانے کی کوشش کی۔ ٹیم نے وہاں خوف کا ماحول ، بند پڑی دکانیں،  تباہ حال خاندان بکھرتی زندگی کا مشاہدہ کیا۔

پی یو سی ایل اور اے پی سی آر کی طرف سے یہ تحقیقات 2 مئی کو پوڑ گاؤں میں اناپورنا دیوی کی مورتی کی مبینہ بے حرمتی اور 5 مئی کو بی جے پی اور دیگر دائیں بازو کی تنظیموں کی ایک ریلی کے بعد شروع ہوئی، جب گاؤں میں ‘غیر مقامی مسلمانوں’ کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہوئے غیر قانونی پوسٹر لگائے گئے تھے۔ ان ریلیوں میں مسلمانوں کو کھلے عام دھمکیاں دی گئی تھیں۔

پی یو سی ایل کے مطابق، ان پوسٹروں اور مسلسل دھمکیوں نے گاؤں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی۔ تنظیم نے 4 جولائی کو پونے( دیہی) سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سندیپ سنگھ گل کو ایک میمورنڈم بھی سونپا۔ پوسٹر ہٹا دیے گئے، لیکن ان کے اثرات سے مسلمانوں کی دکانیں – بیکری، کباڑ کی دکانیں، حجام کی دکانیں اور چکن سینٹر  اب بھی بند ہیں۔

پوڑ میں روشن بیکری کے مالک نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، ‘ہماری بیکری 40 سال سے چل رہی ہے، لیکن صرف اس لیے کہ میرے والد کا تعلق اتر پردیش سے ہے، ہمیں باہری قرار دیا گیا۔ ہمیں متنبہ کیا گیا کہ اگر ہم نے دوبارہ دکان کھولی تو ہمیں نتائج بھگتنا ہوں گے۔ پولیس کو متعدد بار شکایت کرنے کے باوجود کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی۔’

روشن بیکری کے علاوہ نیو سنگم اور نیو بھارت بیکری پر بھی تالے لگ گئے ہیں، جس کی وجہ سے تقریباً 400 یومیہ اجرت والے مزدور اپنی روزی روٹی سے محروم ہو گئے ہیں۔ بھارت بیکری کے مالک نے کہا، ‘ہماری دکان ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو روزگار فراہم کرتی تھی۔ پانچ ہندو دکاندار جو گھر گھر جا کر ہمارا بریڈ فروخت کرتے تھے اب بے روزگار ہیں۔ یہ صرف مذہب کا معاملہ نہیں ہے، یہ ہماری روزی روٹی چھیننے کی سازش ہے۔’

تفتیشی ٹیم نے پوڑ پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر سنتوش گریگوساوی سے بھی ملاقات کی، جنہوں نے بتایا کہ ایس پی کے حکم پر متنازعہ پوسٹروں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ لیکن صرف پوسٹرز ہٹانے سے مسئلہ حل نہیں ہوا۔

خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور

جانکاری ملی ہےکہ کئی ہندوتوا تنظیموں سے وابستہ لوگوں نے مسلمان دکانداروں کو اپنی دکانیں کرایہ  پر دینے اور علاقہ چھوڑنے کی دھمکی دی ہے۔

ہندو راشٹرا سینا کے ممبر دھننجے دیسائی – جو 2014 میں آئی ٹی پروفیشنل محسن شیخ کے قتل میں ملزم رہے اور شواہد کے فقدان میں بری ہو ئے تھے – کو ایک بار پھر دھمکیوں کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ دیسائی کے خلاف فارم ہاؤس پر قبضہ کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور وہ فی الحال مفرور ہے۔

مقامی خبروں کے مطابق، جون کے اوائل میں ایک اسکریپ ڈیلر کی دکان جلا دی گئی تھی اور انہیں تقریباً 20 لاکھ روپے کا نقصان ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا، ‘میں نے یہیں شادی کی، یہیں سکونت اختیار کی، لیکن اب مجھے اپنے خاندان کو کامشیت (پونے ضلع میں گاؤں) بھیجنا پڑاہے۔ میں نے شکایت درج کرائی ہے اور معاوضے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔’

نفرت کی یہ مہم مذہبی مقامات تک بھی پہنچ گئی۔ دو مساجد کے باہر ایسے پوسٹر لگائے گئے جس میں نماز کوصرف مقامی مسلمانوں تک محدود بتایا گیا، جس سے پڑوس کے  کولوان گاؤں کے لوگ نماز پڑھنے سے ڈرنے لگے۔  ایک مقامی مسلمان نے بتایا ‘اگرچہ پوسٹر ہٹا دیے گئے ہیں، لیکن خوف اب بھی برقرار ہے۔’

حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ بہت سے مسلم خاندان اپنے آبائی گاؤں (خاص طور پر اتر پردیش میں) واپس جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے قریبی کامشیت گاؤں میں پناہ لی ہے۔

اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ نقصان بچوں کی پڑھائی کو ہوا ہے جو درمیان میں ہی چھوٹ گئی۔

ایک مقامی رہائشی نے بتایا کہ مسلمانوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘400 گاؤں والوں کا ایک وہاٹس ایپ گروپ ہماری ہر سرگرمی پر نظر رکھتا ہے۔ میں اپنے بیٹے کے لیے دوائی لینے میڈیکل اسٹور پر گیا تو فوراً میری تصویر گروپ میں پوسٹ کر دی گئی۔’

پیرنگوٹ کے کانگریس کے سابق تعلقہ صدر اشوک ماترے نے ملشی کی ‘گنگا جمنی تہذیب’ پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا،’پہلے مسلم کمیونٹی ہری نام سپتاہ (ہندو تہوار) میں روایتی لباس میں شرکت کرتی تھی۔ لیکن اب آر ایس ایس، شیو پرتشٹھان اور ہندو راشٹر سینا جیسی تنظیموں نے گاؤں کا ماحول خراب کر دیا ہے۔’

اس سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کو ‘آئین کے خلاف’ قرار دیتے ہوئے پی یو سی ایل نے دیگر سول تنظیموں کے ساتھ مل کر اس معاملے میں قانونی کارروائی کی تیاری شروع کر دی ہے۔

Next Article

’ضمانت قانون، جیل استثنیٰ‘ کے اصول کو حال کے دنوں میں فراموش کر دیا گیا ہے: سی جے آئی

چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ حال  کےدنوں میں ‘ضمانت قانون ہے اور جیل استثنیٰ’  کے اصول کو فراموش کر  دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) بی آر گوئی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پرافسوس کا اظہار کیا کہ ‘ضمانت قانون ہے اور جیل استثنیٰ’ کے اصول کو حال کے دنوں میں فراموش کردیا گیا ہے۔

حال ہی میں آئی  خبر کے مطابق ، سی جے آئی گوئی نے مانا کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران عدالتی فیصلوں میں اس معیار کو شامل کیا گیا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس کونیک نیتی سے لاگو نہیں کیا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ چیف جسٹس نے یہ باتیں اتوار (6 جولائی) کو کوچی میں جسٹس وی آر کرشن ائیر میموریل لا لیکچر دیتے ہوئے کہیں۔

اس دوران انہوں نے کہا کہ مختلف مقدمات میں ضمانت دیتے ہوئے انہوں نے خود اس اصول کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے، جس نے ہائی کورٹس اور نچلی عدالتوں کے لیے اسی اصول پر عمل کرنے کی راہ ہموار کی۔

جسٹس گوئی نے کہا، ‘مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ گزشتہ سال، 2024 میں، مجھے پربیر پرکایستھ، منیش سسودیا اور کویتا بنام ای ڈی کے معاملات میں اس قانونی اصول کو دہرانے کا موقع ملا۔’

انہوں نے کہا کہ پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ میں جسٹس ائیر کی خدمات بہت عظیم ہیں۔

واضح ہو کہ حالیہ برسوں میں سپریم کورٹ نے زیر سماعت قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی احکامات پاس کیے ہیں اور کہا ہے کہ مقدمے کی سماعت میں تاخیر اور طویل قید پی ایم ایل اے اور یو اے پی اےکے تحت سنگین جرائم میں بھی ضمانت دینے کی بنیاد ہے، جبکہ خصوصی قوانین کے تحت ضمانت کی شرائط سخت ہیں۔

عدالت نے منی لانڈرنگ اور غیر قانونی سرگرمیوں کے مقدمات میں ملزمان کی ضمانت کا راستہ بھی کھولا ہے۔

سی جے آئی گوئی نے انڈر ٹرائل قیدیوں کو طویل مدت تک بغیر مقدمہ چلائے جیل میں رکھنے کی جسٹس ائیر کی سخت مخالفت کو بھی یاد کیا۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال اگست میں ایک اہم فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ‘ضمانت اصول ہے، جیل استثنیٰ ہے’ کا روایتی خیال نہ صرف آئی پی سی کے جرائم پر لاگو ہونا چاہیے بلکہ ان دیگر جرائم پر بھی لاگو ہونا چاہیے جن کے لیے خصوصی قوانین بنائے گئے ہیں، جیسے کہ یو اے پی اے، اگر اس قانون کے تحت مقرر کردہ شرائط پوری ہوتی ہیں۔

غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے مختلف فیصلوں میں ہائی کورٹس اور نچلی عدالتوں سے ضمانت دینے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ اگر ضمانت کا معاملہ بنتا ہے تو سنگین جرائم میں بھی راحت دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔

Next Article

بہار: ووٹر لسٹ رویژن کے خلاف عرضیوں پر 10 جولائی کو شنوائی کرے گا سپریم کورٹ

بہار میں الیکشن کمیشن کی جانب سے شروع کی گئی  اسپیشل انٹینسو ریویژن  کے عمل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ 2003 کی ووٹر لسٹ کو بنیاد بناکر دستاویز مانگنا کروڑوں ووٹروں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کرسکتا ہے۔ کیس کی سماعت 10 جولائی کو ہوگی۔

سپریم کورٹ (تصویر: پی ٹی آئی/ کمل کشور)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (7 جولائی) کو بہار میں ووٹر لسٹ پر  اسپیشل انٹینسو ریویژن  کرنے کے الیکشن کمیشن (ای سی آئی) کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو فوری طور پر لسٹ کرنے پر رضامندی دے دی ہے۔

یہ عرضی سینئر وکیل کپل سبل، ابھیشیک منو سنگھوی، گوپال شنکر نارائنن اور شادان فراست نے دائر کی تھی۔

یہ عرضیاں راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے ایم پی منوج جھا، ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر)، پی یو سی ایل، سماجی کارکن یوگیندر یادو اور لوک سبھا ایم پی مہوا موئترا نے دائر کی ہیں۔

لائیو لا کے مطابق، جسٹس سدھانشو دھولیا اور جوائےمالیہ باگچی کی بنچ نے درخواست گزاروں کی اس دلیل کو سنا کہ جو ووٹر مقررہ دستاویزوں کے ساتھ فارم جمع نہیں کر پائیں گے، ان کے نام ووٹر لسٹ سے ہٹا دیے جائیں گے، خواہ  وہ پچھلے 20 سالوں سے مسلسل ووٹ دیتے آ رہے ہوں۔ انہوں نےکہا آٹھ کروڑ میں سے چار کروڑ لوگ اس کارروائی  سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

وکیلوں نے یہ بھی بتایا کہ الیکشن کمیشن نے آدھار یا ووٹر شناختی کارڈ کو درست دستاویز کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، جس کی وجہ سے اتنے کم وقت میں اس عمل کو مکمل کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں سے کہا کہ وہ اپنی درخواستوں کی کاپیاں مرکزی حکومت، الیکشن کمیشن آف انڈیا اور دیگر متعلقہ فریقوں کو پیشگی جمع کرائیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ درخواستوں کی کاپیاں اٹارنی جنرل آف انڈیا کو بھی دی کی جائیں۔

سماعت کے دوران سینئر ایڈوکیٹ سنگھوی نے کہا کہ 24 جون کے اسپیشل انٹینسو ریویژن  نوٹیفکیشن میں بہار کے کروڑوں غریب اور پسماندہ ووٹروں پر سخت ڈیڈ لائن لگائی گئی ہے۔ ان لوگوں سے ایسے دستاویزمانگے جا رہے ہیں جن میں آدھار اور راشن کارڈ شامل نہیں ہیں، جبکہ یہی وہ دستاویز ہیں جو عام لوگوں کے پاس ہوتے ہیں۔

کپل سبل نے عدالت سے گزارش کی کہ وہ الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کمیشن اس  اسپیشل انٹینسو ریویژن  کے عمل کو جلدبازی میں لاگو کرنے کی وجہ بتائے، کیونکہ اس عمل سے بہار کے کروڑوں ووٹروں کو ان کے ووٹ ڈالنےکے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ اس نے پورے ملک میں  اسپیشل انٹینسو ریویژن  کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کی شروعات بہار سے کی جارہی ہے۔ دیگر ریاستوں کے لیے الگ الگ پروگرام کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

بنچ ان درخواستوں کی سماعت 10 جولائی کو کرے گا۔

ایک دن پہلے سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسا نے ایک اخباری کالم میں لکھا تھا کہ اس اعلان کا وقت مشکوک تھا، خاص طور پر جب کچھ ریاستوں میں شہریت کی جانچ کو لے کر جنون  کا ماحول بنا ہوا تھا، اور جہاں مقامی سطح پر ‘ پیوریفیکیشن ‘ کے نام پر ووٹروں کے نام ہٹائے گئے ہیں۔

لواسا پوچھتے ہیں، ‘بہار میں 2003 کی ووٹر لسٹ کو ہی بنیاد کیوں بنایا گیا، حالانکہ اس کے بعد بھی ووٹر لسٹوں پر نظر ثانی کی گئی ہے؟’

انہوں نے الیکشن کمیشن کی ہدایات کے پیرا 11 کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ 2003 کی ووٹر لسٹ کو ‘شہریت کے قیاس سمیت اہلیت کا مستند ثبوت مانا جائے۔’ اس بنیاد پر انہوں نے سوال اٹھایا کہ 2003 تک رکے جسٹرڈ ناموں کو ہی ثبوت کیوں مانا جا رہا ہے؟

سب سے اہم بات ، لواسا نے یہ بھی پوچھا کہ جب  ہندوستان میں حکومت کی جانب سے شہریت کے حوالے سے کوئی سرکاری دستاویز جاری نہیں کیا جاتا، تو کیا الیکشن کمیشن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شہریت ثابت کرنے کے لیے ٹیسٹ کرائے ؟

انہوں نے لکھا؛

اب تک الیکشن کمیشن دستاویزی شواہد اور جسمانی تصدیق کی بنیاد پر ناموں کو شامل کرتا رہا ہے اور شہریت قانون کے مطابق شہریت کا کوئی ثبوت نہیں مانگتا رہا ہے۔ ایسے میں یہ بحث طلب ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کو اب ایسا عمل اختیار کرنا چاہیے جس سے لوگوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم ہونے کا خطرہ ہو، یا اسے اپنے آزمودہ عمل پر قائم رہنا چاہیے۔

لواسا مزید لکھتے ہیں، ‘ایسے رائے دہندگان کا کیا ہوگا جن کے نام پہلے فہرست میں تھے، انہیں ووٹر کارڈ بھی جاری کیے گئے تھے، لیکن اب تسلیم شدہ دستاویزنہ ہونے  کی وجہ سے باہر کردیے گئے ہیں؟ کیااب ان کی ذمہ داری حکومت لے گی یا پھر  عدلیہ؟’

بتادیں کہ اشوک لواسا کو 2018 میں الیکشن کمشنر بنایا گیا تھا، انہوں نے 2019 کے انتخابات میں نریندر مودی اور امت شاہ کی جانب سے انتخابی مہم کے قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر کئی بار اختلاف رائے  ظاہر کیا تھا۔

Next Article

ایلون مسک اور امبانی کو سیٹلائٹ اسپیکٹرم: خدشات اور خطرات

ہندوستانی حکومت نے ایلون مسک کی اسٹارلنک اور امبانی کی جیو سمیت کچھ کمپنیوں کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس کی منظوری  دے  دی ہے، لیکن نیلامی کے بغیر ہوئے اس مختص  پر سوال اٹھائے جا رہے  ہیں۔ کیایہ الاٹمنٹ شفاف ہے؟ کیا اس سے قومی مفاد کو خطرہ ہے اور معاشی نقصان کا اندیشہ ہے؟

ایلون مسک اور امبانی کی کمپنیوں کو ہوئے سیٹلائٹ مختص سے  کئی سوال پیدا ہو رہے ہیں۔ | (بائیں سے) مکیش امبانی اور ایلون مسک، پس منظر میں اسٹارلنک سیٹلائٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: ریلائنس/وکی پیڈیا اور برٹانیکا)

قومی سلامتی کو خطرہ ۔ معاشی نقصان کا اندیشہ۔ حکومت کے فیصلے میں شفافیت کا فقدان۔

یہ چند سوالات ہیں جو حکومت ہند کی جانب سے ایلون مسک کی کمپنی اسٹار لنک اور مکیش امبانی کی کمپنی جیو سمیت متعدد کمپنیوں کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کی باضابطہ منظوری کے بعد اٹھ رہے ہیں ۔ مرکزی حکومت نے ابھی تک یہ عام نہیں کیا ہے کہ کس بنیاد پر اور کن شرائط کے تحت اور کس شرح پر ان کمپنیوں کو لائسنس دیے گئے ہیں۔

این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انڈین نیشنل اسپیس پروموشن اینڈ آتھرائزیشن سینٹر کے چیئرمین ڈاکٹر پون گوینکانے تصدیق کی کہ اسٹار لنک کے لیے زیادہ تر رسمی کارروائیاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

ہندوستان جیسے وسیع ملک میں پہاڑی یا دور دراز کے علاقوں میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس یک انقلابی حل بن سکتی ہے۔ دنیا بھر میں اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اکیلےا سٹار لنک   100 سے زیادہ ممالک کو سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس فراہم کر رہا ہے۔ لیکن ہندوستانی حکومت نے جس طرح سے کچھ کمپنیوں کو اس سروس کی منظوری دی ہے اس سے کئی سنگین سوال پیدا ہوتے ہیں۔

سب سے پہلا، مودی حکومت نے ان کمپنیوں کو لائسنس نیلامی کے عمل کے ذریعے نہیں، بلکہ محض ایک ایڈمنسٹریٹو آرڈر کے ذریعے  دیا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ عمل کتنا شفاف تھا کیونکہ حکومت کی طرف سے اس کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔

دوسری بات یہ کہ حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ اسٹار لنک اور دیگر ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کو جاری کیے جا رہے لائسنس کی شرائط کیا ہیں۔ اس سے جانبداری اور وسائل کے غیرشفاف مختص کا سوال اٹھتا ہے۔ غور طلب ہے کہ ٹیلی کمیونی کیشن ایکٹ 2023 میں کہا گیا ہے کہ سیٹلائٹ خدمات کے لیے اسپیکٹرم کا الاٹمنٹ نیلامی کے بجائے ‘ایڈمنسٹریٹو پروسس’ یعنی انتظامی فیصلے کے ذریعے کیا جائے گا۔

حکومت ہند کے سابق سکریٹری ای اے ایس شرما گزشتہ کئی مہینوں سے مرکزی حکومت کے کابینہ سکریٹری ڈاکٹر ٹی وی سومناتھن اور ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ کے سکریٹری نیرج متل کو خط لکھ کر اس موضوع پر سوال اٹھا رہے ہیں  ۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی اور قومی مفاد کو خطرہ

دی وائر سے بات کرتے ہوئے شرما نے کہا،’اسٹار لنک جیسی کمپنیوں کو براہ راست سیٹلائٹ اسپیکٹرم سونپنا سپریم کورٹ کے 2 جی اسپیکٹرم کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کے وسائل کی تقسیم ایک شفاف اور عوامی عمل کے ذریعے کی جانی چاہیے، نہ کہ بند دروازوں کے پیچھے۔’

سابق سکریٹری نے اس بات کو طے  کرنے کے لیے آزاد عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا کہ آیا اسپیکٹرم کی تقسیم نے قانون کی خلاف ورزی کی اور کیا حکومت نے اس عمل میں نجی کمپنیوں کو ناجائز فائدہ پہنچایا ہے؟

شرما اسے ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بھی مانتے ہیں۔ ‘اسٹار لنک کے امریکی فوج کے ساتھ روابط ہیں۔ انہیں ہندوستان میں سیٹلائٹ سے براہ راست نگرانی کرنے کی اجازت دینا قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے،’ وہ کہتے ہیں۔

سیٹلائٹ انٹرنیٹ جدید جنگ کا ایک اوزار بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ممالک غیر ملکی کمپنیوں کو سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کرنے پر پابندی لگا رہے ہیں۔ ایران کی پارلیامنٹ نے حال ہی میں اسٹار لنک پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس اقدام کو ایران کی جانب سے امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد بیرونی اثرات کو روکنے کی کوششوں کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔

روس اور چین میں بھی اسٹار لنک کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم، وال اسٹریٹ جرنل کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ پابندی کے باوجود اسٹار لنک انٹرنیٹ ٹرمینل روس میں بلیک مارکیٹ میں دستیاب ہیں، جنہیں خرید کر اسٹار لنک کی سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس استعمال کی جا رہی ہے۔

اسٹار لنک انٹرنیٹ سروس یوکرین سے سوڈان تک تنازعات والے علاقوں میں فوری اور نسبتاً محفوظ رابطہ فراہم کرتی ہے۔ یہ سہولت ڈرون اور دیگر جدید فوجی ٹکنالوجی کے آپریشن میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے – جو آج جنگوں میں فیصلہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ اسٹار لنک ڈیوائسز کے آسان اور تیز ایکٹیویشن ہارڈویئر کی وجہ سے ایلون مسک کا اسپیس ایکس بہت سے پرتشدد تنازعات کا حصہ بن جا رہا ہے۔

ہندوستان بھی اس کا خمیازہ بھگت چکاہے۔ پانچ ماہ قبل دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، منی پور میں عسکریت پسند گروپ حکومت کی انٹرنیٹ پابندی کو چکمہ دینے کے لیے اسٹار لنک کی سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس استعمال کر رہے ہیں۔ اسٹار لنک کی خدمات ابھی تک ہندوستان میں شروع نہیں کی گئی ہیں، لیکن منی پور سے متصل ملک میانمار میں اس کی اجازت ہے۔ میتیئی علیحدگی پسند عسکریت پسند تنظیم ‘پیپلز لبریشن آرمی آف منی پور (پی ایل اے)’کے ایک رہنما کے مطابق، جب تشدد شروع ہوا تو حکومت نے انٹرنیٹ کو بند کر دیا، تو انہوں نے انٹرنیٹ کے لیے اسٹار لنک ڈیوائسز کا سہارا لیا۔

سرکاری خزانے کو نقصان کا اندیشہ

چونکہ حکومت نے نہیں بتایا  ہے کہ اسپیکٹرم کس شرح پرسونپا گیا ہے، اس لیے ریونیو کے نقصان کا خدشہ ہے۔ نیز، جس طرح سے اسپیکٹرم الاٹ کیا گیا ہے اس سے اجارہ داری کا خطرہ بھی پیدا ہوتا ہے۔

شرماکہتے ہیں،’اسٹار لنک ہندوستان کے معروف ٹیلی کام آپریٹرجیواور ایئر ٹیل کے ساتھ ایک ‘کارٹیل’ بنا رہا ہے، جو انہیں سیٹلائٹ اسپیکٹرم پر اجارہ داری کی اجازت دے سکتا ہے – اور اس سے لاکھوں صارفین کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔’

حکومت شروع سے ہی اس معاملے پر شفافیت سے گریز کرتی رہی ہے۔ اس سال مارچ میں کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے لوک سبھا میں وزیر مواصلات سے سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کے بارے میں سوالات پوچھے تھے۔ اس وقت حکومت نے کسی بھی درخواست گزار کی فہرست شیئر نہیں کی تھی۔

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے وزیر مواصلات سے پوچھا تھا؛

الف- ہندوستانی حکومت سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کو کس طرح منظم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے؟

ب-جب اسپیکٹرم نیلامی کے بجائے انتظامی فیصلے کے ذریعے مختص کیا جائے گا، تو حکومت شفافیت، غیرجانبدار اورا سپیکٹرم کے بہترین استعمال کو کیسے یقینی بنائے گی؟

ج- خاص طور پر دور دراز علاقوں میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر، ملک میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کو آسان بنانے اور ریگولیٹ کرنے کے لیے حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں؟

د-  حکومت نے سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں کے غلط استعمال یا حفاظتی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اختیار کیے گئے حفاظتی اقدامات کی نگرانی اور کنٹرول کرنے کے لیے کیا طریقہ کار وضع کیا ہے؟

 وزیر مملکت برائے مواصلات، ڈاکٹر پیمسانی چندر شیکھر نے جواب دیا تھاکہ یہ کمپنیاں ہندوستان میں رجسٹرڈ ہونی چاہیے اور تمام حفاظتی شرائط کی تعمیل ضروری ہے – جیسے کہ سیٹلائٹ گیٹ وے ہندوستان میں ہونا چاہیے، تمام ٹریفک وہیں سے ہو کر گزرے، اور سرحدوں پر بفر زون بنایا جائے۔

منیش تیواری کے سوالات

اس کے بعد ، اپریل 2025 میں، وینکٹیش نائک، ڈائریکٹر، کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو (سی ایچ آر آئی) نے ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی۔

آر ٹی آئی درخواست اور سی پی آئی او کا گول مول جواب

آر ٹی آئی کے ذریعے پوچھا گیا تھاکہ سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کی اجازت سے متعلق کیا شرائط ہیں؟ کن کمپنیوں نے اپلائی کیا، کن کن شرائط پر منظوری ملی۔

مرکزی حکومت نے ان کمپنیوں کے ناموں کا تو انکشاف کیا جنہیں سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ فراہم کرنے کا لائسنس دیا گیا، لیکن اس کے تحت استعمال ہونے والے معیارات، شرائط اور عمل کی وضاحت کرنے والے دستاویزات کو شیئر کرنے سے انکار کر دیا ۔

پہلی اپیل دائر کیے جانے کے بعد 28 مئی کو، فرسٹ درخواست گزار اتھارٹی نے اپنا حکم جاری کیا، جس میں ان کمپنیوں کی فہرست شیئر کی جنہیں لائسنس دیا گیا ہے، لیکن دیگر معلومات کو آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور 8(1)(ای) کا حوالہ دیتے ہوئےروک دیا۔

یہ دفعات عام طور پر ‘تجارتی رازداری’ اور ‘وفادارانہ تعلقات’ کی بنیاد پر معلومات مہیا کرنے  سے روکنےکے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

جب ان سے ہندوستان میں سیٹلائٹ پر مبنی انٹرنیٹ خدمات کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں اور مذکورہ کمپنیوں کو جاری کردہ اجازت ناموں کی کاپیاں مانگی گئیں، تو حکومت نے کہا کہ یہ معلومات آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور (ای) کے تحت خفیہ ہے اور فراہم نہیں کی جا سکتی۔

آر ٹی آئی کی دفعہ 8(1)(ڈی) اور (ای) کیا کہتی ہیں؟

آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(ڈی اور 8(1)(ای) کے تحت، کچھ معلومات عوامی معلومات کے دائرےمیں نہیں آتی ہیں اور ان کو شیئر کرنے سے منع کیا جا سکتا ہے۔

دفعہ 8(1)(ڈی)؛

اگر معلومات تجارتی رازداری سے متعلق ہے (جیسے کمپنی کی ٹکنالوجی یا کاروباری حکمت عملی)، ٹریڈ سیکریٹس یا دانشورانہ املاک اور اس کے افشاء سے کمپنی کی مسابقتی پوزیشن کو نقصان پہنچ سکتا ہے —  توایسی معلومات آر ٹی آئی ے تحت شیئر نہیں کی جاتی ہیں۔ سیکشن 8(1)(ای)؛

اگر معلومات کسی شخص یا تنظیم کو کسی مخلصانہ تعلقات کے تحت موصول ہوئی ہیں — جیسے کہ کسی وکیل کو اس کے مؤکل سے موصول ہونے والی معلومات، بینک کلائنٹ کا رشتہ، وغیرہ— تو اس معلومات کا اشتراک نہیں کیا جا سکتا۔

اس کیس میں ان دفعات کا استعمال کیوں ہوا؟

ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ کمپنیوں کی درخواست اور انہیں دی گئی منظوریوں کے دستاویز تجارتی رازداری (8(1)(ڈی) کے تحت آتے ہیں۔ اور یہ معلومات ایک مخلصانہ تعلق – 8(1)(ای) کے تحت دی گئی  ہیں۔

لیکن وینکٹیش نائک کا کہنا ہے کہ محکمہ کو یہ معلومات سرکاری کام کے تحت ملی ہیں، نہ کہ نجی  بھروسے کے تحت— اس لیے دفعہ 8(1)(ای) لاگو نہیں ہوتا ہے۔ یہ خدمات عوام کو فراہم کی جانی ہیں اور اسپیکٹرم ایک عوامی وسیلہ ہے- اس لیے کمپنیوں کو دیے گئے لائسنس اور شرائط شفاف ہونے چاہیے۔

وینکٹیش نائک نے محکمہ کے جواب کو ‘قانون کی خلاف ورزی’ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 4(1)(بی) (xiii) کے تحت لائسنس اور اجازت کے دستاویزات کو پبلک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ بھی آر بی آئی بہ نام جینتی لال مستری کیس میں یہ واضح کر چکا ہے کہ حکومت کی طرف سے اپنے قانونی کاموں کے حصے کے طور پر جمع کی جانے والی کوئی بھی معلومات فیڈوشری نہیں ہے۔’

اس کیس میں آر بی آئی کا استدلال یہ تھا کہ وہ جو معلومات بینکوں سے اکٹھا کرتا ہے وہ ایک مخلصانہ تعلق کے تحت ہے، اس لیے اسے شیئر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا، ‘اگر کوئی محکمہ قانون کے تحت کمپنیوں سے درخواست یا معلومات لیتا ہے، تو وہ پرائیویٹ ٹرسٹ (وفادارانہ تعلقات) کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔ یہ عوام کے لیے دستیاب ہونا چاہیے۔’

اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ محکمہ ٹیلی کمیونی کیشن نے آر ٹی آئی کی دفعات کا غلط استعمال کرکے شفافیت سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ محکمہ ٹیلی کمیونی کیشن کی طرف سے دی گئی اجازت عوامی وسائل (اسپیکٹرم) سے متعلق ہے، جن کی خدمات عام لوگوں کو دی جانی ہیں۔

 ٹیلی کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ سے نہیں ملا کوئی جواب نہیں

 آر ٹی آئی کے ذریعے جن سوالوں کا جواب نہیں مل سکا تھا، انہیں اور کچھ اضافی سوالات کے ساتھ دی وائر نےمحکمہ ٹیلی کمیونی کیشن کے سکریٹری نیرج متل اور میڈیا ڈویژن کے ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل ہیمیندر کمار شرما کو ای میل پر سوالات بھیجے، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔