فیس بک پر بی جے پی کے لیے اشتہار دینے والے گمنام ایڈورٹائزر کون ہیں؟

فیس بک نے کئی سروگیٹ ایڈورٹائزر کو خفیہ طور پر بی جے پی کی پروپیگنڈہ مہم کو فنڈ کرنے کی اجازت دی،جس کے باعث بنا کسی جوابدہی کے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پارٹی کی رسائی کو ممکن بنایا گیا ۔

فیس بک نے کئی سروگیٹ ایڈورٹائزر کو خفیہ طور پر بی جے پی کی پروپیگنڈہ مہم کو فنڈ کرنے کی اجازت دی،جس کے باعث بنا کسی جوابدہی کے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پارٹی کی رسائی کو ممکن بنایا  گیا ۔

BJP-Facebook-Logo

دی رپورٹرز کلیکٹو اور ایڈ واچ کے چار مضامین کی سیریز کا یہ دوسرا حصہ ہے۔ پہلا حصہ یہاں پڑھیں۔

فیس بک نے گمنام (گھوسٹ) اور سروگیٹ ایڈورٹائزر کی ایک بڑی تعداد کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی انتخابی مہم پر خفیہ طور پر پیسہ خرچ کرنے اور ہندوستان کی حکمراں جماعت کی وزیبلٹی میں اضافہ کرنے کی اجازت دی۔ یہ بات  22  ماہ اور 10 انتخابات کے دوران اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دیے گئے اشتہارات کے تجزیے سے سامنے آئی ہے۔

ان ایڈورٹائزر نے فیس بک کو ایسے اشتہارات دکھانے کے لیے لاکھوں روپے دیے جو بنیادی طور پر ہندوستان کی حکمراں جماعت یا اس کے رہنماؤں کی تشہیر کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ ان ایڈورٹائزر نے یا  تو اپنی پہچان  چھپائی یا بی جے پی کے ساتھ اپنے رشتوں کو اجاگر نہیں کیا۔

یہ گمنام یا سروگیٹ اشتہارات تقریباً اتنی ہی بار دیکھے گئےجتنی بار ہندوستان کی حکمراں جماعت کی طرف سے دیے جانے والے اشتہارات دیکھے گئے۔حالاں کہ، ان سروگیٹ اشتہارات نے ان کے مواد یا ان پر ہونے والے اخراجات کی ذمہ داری قبول کیے بغیر پارٹی کی وزیبلٹی کو دوگنا کردیا۔

پچھلے ایک سال کے دوران  ہندوستان کی ایک غیر منافع بخش میڈیا تنظیم دی رپورٹرز کلیکٹو (ٹی آر سی) اور سوشل میڈیا پر سیاسی اشتہارات کا مطالعہ کرنے والے ایڈ-واچ نےفیس بک پر فروری 2019 سے نومبر 2020 تک سیاسی اشتہارات پر 500000 روپے (6529 ڈالر) خرچ کرنے والے تمام ایڈورٹائزر کی چھان بین کی ہے۔

اس چھان بین میں میٹا (فیس بک) کے تمام پلیٹ فارموں پر سیاسی اشتہارات کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے والے ٹول ایڈ لائبریری ایپلی کیشن پروگرامنگ انٹرفیس (اے پی آئی ) کا استعمال کیا گیا۔ اس دوران لوک سبھا انتخابات کے علاوہ دہلی، اڑیسہ، بہار، ہریانہ، مہاراشٹر جیسی کئی ریاستوں میں بھی انتخابات ہوئے۔

دی رپورٹرز کلیکٹو نے پایا کہ بی جے پی اور اس کے امیدواروں نے باضابطہ طور پر 26291 اشتہارات دیے، جن کے لیے کم از کم 10.4 کروڑ روپے (1.36 ملین ڈالر) خرچ کیے گئے، جس سےانہیں فیس بک پر 1.36ارب ویوزملے۔ اس کے علاوہ 23 گمنام اور سروگیٹ ایڈورٹائزرز نے بھی فیس بک پر 34884 اشتہارات دیے،جس کے لیے انہوں نے فیس بک کو 5.83 کروڑ روپے (761246ڈالر) سے زیادہ کی ادائیگی کی۔

ان ایڈورٹائزرنے اپنی اصل شناخت یا پارٹی سے اپنےتعلق کو ظاہر کیے بغیربنیادی طور پر بی جے پی کا پروپیگنڈہ کرنے یا اس کے مخالفین کو بدنام کرنے والےاشتہار دیے۔ ان اشتہارات کو زبردست انداز میں 1.31 ارب  سے زیادہ ویوز ملے۔

اس کے مقابلے میں بی جے پی کی اہم اپوزیشن جماعت کانگریس کے لیے گمنام یا سروگیٹ اشتہار دینے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔ کانگریس اور اس کے امیدواروں نے باضابطہ طور پر 6.44 کروڑ روپے خرچ کر کے  30374  اشتہارات دیے، جس سے انہیں 1.1 ارب ویوز ملے۔

صرف دو سروگیٹ ایڈورٹائزر (جنہوں نے اشتہارات پر500000روپے (6529ڈالر) سے زیادہ خرچ کرنے والے) نے کانگریس پارٹی سے اپنے تعلقات کو ظاہر کیے بغیر کانگریس حامی صفحات پر3130 اشتہارات دینے کے لیے 23 لاکھ روپے خرچ کیے، ان اشتہارات کو 7.38 کروڑ ویوزملے۔

ایک اور پیج نے خاص طور پر گزشتہ سال اپریل میں مغربی بنگال کے انتخابات میں مودی کے خلاف منفی مہم کے لیے 1364 اشتہارات پر 49.5 لاکھ روپے خرچ کیے، جنہیں 6.24 کروڑ سے زیادہ ویوز ملے۔

(بہ شکریہ: الجزیرہ)

(بہ شکریہ: الجزیرہ)

کانگریس کے لیے سروگیٹ اشتہارات کی تعداد اتنی کم ہونے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک پہلے فیس بک نے پارٹی کی تشہیر کرنے والے ایڈورٹائزر کے خلاف بڑی کارروائی  کی تھی۔ اس وقت فیس بک نے کانگریس کے آئی ٹی سیل سے وابستہ اور اپنی شناخت کو خفیہ رکھ کرپارٹی کا پروپیگنڈہ کرنے والے 687 صفحات کو ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔

اس کارروائی کے دوران فیس بک نے اپنی شناخت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اپنے تعلقات کو چھپا نے والے صرف ایک پیج  اور 14 اکاؤنٹ کو ہٹایا تھا ۔

دی رپورٹرز کلیکٹو کی ایک سال کی لمبی چھان بین سے اب اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اس کارروائی نے جہاں کانگریس کو غیر مناسب طریقے سے فیس بک کے صارفین کومتاثرکرنے سے روکا، وہیں بی جے پی کے خلاف ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا،اورسروگیٹ ایڈورٹائزرز کی ایک بڑی تعداد نے ہندوستان کی حکمراں  جماعت کا خوب پروپیگنڈہ کیا۔

اگرچہ ان میں سے کچھ حقائق پہلے بھی رپورٹ کیے جا چکے ہیں، لیکن سروگیٹ اشتہارات اور اس کے اثرات کے حقیقی سائز کا ابھی تک اندازہ اور انکشاف نہیں کیا گیا ہے۔

ہندوستانی قانون پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں سروگیٹ اشتہارات پر پابندی لگاتے ہیں۔ ان کا مقصد سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کو وسیع پیمانے پر رسائی رکھنے والےمیڈیا پر دکھائے جانے والے مواد کے لیے جوابدہ بنانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ امیدواروں کے انتخابی اخراجات مقررہ قانونی حدود کے اندر رہیں۔

لیکن جیسا کہ ہم نے اس سیریز کی پہلی قسط میں ذکر کیا ہے، الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اس خامی سے آگاہ ہونے کے باوجود ان قوانین کو سوشل میڈیا پر نافذ نہیں کیا۔

فیس بک نے اس انڈسٹری کےنمائندہ انٹرنیٹ اور موبائل ایسوسی ایشن آف انڈیاسے  الیکشن کمیشن آف انڈیا سے اس بات کی لابنگ کرنے کا دباؤ بنایا کہ انتخابات کے دوران سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر سخت قوانین نافذ نہ کریں۔ اس بات کی جانکاری حال ہی میں فیس بک کے وہسل بلور فرانسس ہیگن کی جانب سے لیک ہوئے دستاویزوں سے سامنے آئی۔

اس کی وجہ سے فیس بک پر سروگیٹ اشتہار دینے والوں کو پنپنے کا موقع ملا جس کا فائدہ بی جے پی کو ہوا۔

سیاسی اشتہارات بشمول سروگیٹ اشتہارات کے بارے میں ای میل پر بھیجے گئے مفصل سوالوں کی ایک فہرست کے جواب میں میٹانے کہا،ہم اپنی پالیسیاں کسی فرد کی سیاسی حیثیت یا پارٹی سے وابستگی سے قطع نظریکساں طور پر لاگو کرتے ہیں۔انٹیگرٹی ورک یا کنٹینٹ کو فروغ دینے کے فیصلے کسی ایک فرد کے ذریعےیکطرفہ طور پر نہیں کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کیے جاتے ہیں۔ بلکہ ان میں کمپنی میں موجود تمام مختلف خیالات  کوشامل  کیا جاتا ہے۔

اس میں یہ بھی کہا گیاکہ،کوآرڈینٹیڈ ان اتھانٹک ویہیبیرکے خلاف ہماری کارروائی کبھی نہیں روکی گئی اور اپریل 2019 کے انتخابات کے بعد بھی جاری ہے۔میٹا کا مکمل جواب یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں بی جے پی کے چیف ترجمان انل بلونی اور آئی ٹی اور سوشل میڈیا کے سربراہ امیت مالویہ نے کئی بار یاد دہانی کے باوجود رپورٹرز کلیکٹیو کی طرف سے بھیجے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

بی جے پی کا ‘سروگیٹ ایکو سسٹم’

امریکہ میں مبینہ طور پر انتخابات پر اثر انداز ہونے کے الزام میں سرزنش کے بعد فیس بک نے اپنے پلیٹ فارموں پراشتہارات دینے والے لوگوں کی شناخت اور پتوں کی تصدیق کےلیے 2018 میں ایک پالیسی وضع کی۔جس میں اس کی جانب سے تمام ایڈورٹائزر سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی طرف سےاعلان کریں کہ اشتہارات کی ادائیگی کون کر رہا ہے۔

شفافیت کا دعوی کرتے ہوئے فیس بک نے ان فنڈنگ سے متعلق جانکاری  کو سیاسی اشتہارات کے ساتھ شیئر کرنا شروع کر دیا۔ لیکن یہ نظام ایڈورٹائزر کو سیاسی امیدواروں کی جانب سے،ان سے اپنے تعلقات کو چھپاتے ہوئےانتخابی مہم چلانے یا پروپیگنڈہ کرنےسے نہیں روکتا۔

کئی ایڈورٹائزر نے ایسی ویب سائٹس کے پتے فراہم کیے جن کے یو آر ایل یا تو کام نہیں کر رہے تھے یا یہ صرف ایک ابتدائی پیج تھے، جس میں ان کے مالکان کے بارے میں کوئی معلومات یا فنڈنگ کرنے والوں کے رابطے کی تفصیلات نہیں تھی۔

(بہ شکریہ: الجزیرہ)

(بہ شکریہ: الجزیرہ)

دی رپورٹرز کلیکٹو کو جن 23 ایڈورٹائزر کو بی جے پی کے ساتھ کسی بھی تعلق کا انکشاف کیے بغیر پارٹی کی تشہیر کرنے کا پتہ چلا، ان میں سے چھ ایڈورٹائزر کا رشتہ  بی جے پی سے قائم کیا جاسکتا ہے۔

مائی فرسٹ ووٹ فارمودی ڈاٹ کام، نیشن ود نمو، نیشن ودنمو ڈاٹ کام، بھارت کے من کی بات (نمو یہاں نریندر مودی کا مخفف ہے) اپنے فیس بک پیج یا ویب سائٹ پر بی جے پی کے ساتھ کسی تعلق  کو ظاہر نہیں کرتے ہیں، لیکن انہوں نے فیس بک کے ایڈ پلیٹ فارم پر دہلی میں بی جےپی کے ہیڈکوارٹر کو اپنے پتے کے طور پر درج کیا ہے۔

 (بہ شکریہ: فیس بک ایڈ لائبریری)

(بہ شکریہ: فیس بک ایڈ لائبریری)

ان چار ایڈورٹائزر نے مجموعی طورپر 12328 سے زیادہ بی جے پی حامی اشتہارات پر 3.2 کروڑ روپے (423060ڈالر) خرچ کیے۔

بلیو کرافٹ ڈیجیٹل، جس نے بی جے پی حامی اشتہارات پر 13.3 لاکھ روپے (17366ڈالر) خرچ کیے،اس کے ڈائریکٹر اور چیف ایگزیکٹو ماضی میں بی جے پی کے لیے کام کر چکے ہیں۔ جبکہ اشتہار دینے والےسری نواسن سری کٹن، جنہوں نے بی جے پی حامی اشتہارات پر 13.9 لاکھ روپے (18150ڈالر) خرچ کیے، دائیں بازو کے سوشل میڈیا مبصر ابھینو کھرے کے فیس بک پیج پر بھی اشتہار دیتے ہیں۔

کھرے ماضی میں ایشیا نیٹ نیوز نیٹ ورک کے سی ای او کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، جس کی پیرنٹ کمپنی جوپیٹر کیپٹل کاقیام بی جے پی ایم پی راجیو چندر شیکھرکے ہاتھوں عمل میں آیا۔

ایڈلائبریری پر دیگر 17 ایڈورٹائزر کی تفصیلات اب یا تو بند پڑےویب سائٹس کی طرف لے جاتے ہیں یا خبروں اور تجزیوں کی شکل میں بی جے پی حامی مواد تیار کرنے والے پورٹلوں کی طرف ، جن کے مالکان کے بارے میں اکثر کوئی جانکاری نہیں ملتی۔

اس سیریز کے پہلے حصے میں ہم نے اس بارے میں بات کی تھی کہ کس طرح ریلائنس کی مالی اعانت سے چلنے والی ایک میڈیا فرم نے ایسے اشتہارات شائع کیے، جن میں بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی تشہیر اور ان کے مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے غیر تصدیق شدہ یا توڑ مروڑ کر معلومات کو نیوز مواد کے طور پر پیش کیا گیا۔ کمپنی نے اپنے اشتہارات پر 55.70 لاکھ (72730ڈالر)سے زیادہ خرچ کیا۔

ہمیں دی پلس نامی ایک اور پورٹل ملا، جو خود کو ایک ‘میڈیا/نیوز کمپنی’ بتاتا ہے اور جس نے فیس بک اشتہارات پر 905000 روپے (11817ڈالر) خرچ کیے، ان میں سےزیادہ تر بی جے پی اور مودی کی تعریف کرنے والے تھے۔ جن میں بیچ بیچ میں رائے دہندگان سےووٹ ڈالنے کی اپیل کی گئی تھی۔

دی پلس کا فیس بک پیج اور اس کی ویب سائٹ،  دونوں ہی جگہوں پراس کے مالک یا اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں ملتی ہے۔

اسی طرح، ایک فیس بک پیج دستوئے فرق شیو شاہی پرت (جس کا مراٹھی سے ترجمہ ہوگا: فرق صاف ہے، شیواجی کا راج واپس آگیا ہے) نے بنیادی طور پر 2019 کے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کا پروپیگنڈہ کرنے والے  1748اشتہارات شائع کیے۔

ان اشتہارات پر 22.40 لاکھ روپے (29249ڈالر) خرچ کرنے والا ایڈورٹائزر ڈی ایڈ ایس پی 2019 (ممکنہ طور پرپیج کے نام کا مخفف) کے طور پر اس سے متعلق شخص یا تنظیم کے بارے میں کوئی تفصیل فراہم کیے بغیر موجود ہے۔ اس کے ڈسکلوزر میں درج شیو شاہی پرت ڈاٹ کام نہیں کھلتا۔

کئی دوسرے بی جے پی حامی ایڈورٹائزر جن کا ذکر فنڈ دینے والوں کے طور پر کیا گیا ہے وہ ایڈ آرکائیو ڈیٹامیں ڈیڈیا غیر فعال ویب سائٹس کی طرف لے جاتے ہیں جبکہ ان کے فیس بک پیج فعال ہیں۔

ان میں گھرگھررگھوورڈاٹ کام (اس نے جھارکھنڈ انتخابات کے دوران 954000 روپے (12457ڈالر) خرچ کیے،میں ہوں دلی ڈاٹ کام اورپلٹو عام آدمی پارٹی ڈاٹ کام دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران بالترتیب: 759000 روپے (9911 ڈالر) اور 10.50 لاکھ روپے(13710ڈالر) خرچ کیے)، پھر ایک بار ایماندار سرکارڈاٹ کام (اس نے ہریانہ انتخابات میں 28 لاکھ روہے (36561ڈالر)خرچ کیے) اور اگھاڑی بگاڑی ڈاٹ کام (اس نے مہاراشٹر انتخابات میں 15 لاکھ روپے(19586ڈالر)خرچ کیے)۔

دی رپورٹرز کلیکٹو ان میں سے کچھ ویب سائٹ میں سے آرکائیو کیے گئے صفحات کوتلاش کرنے میں کامیاب رہا، جس کا مطلب ہے کہ یہ صفحات ماضی میں فعال تھے۔ لیکن یہ یقینی نہیں کرپایا کہ کیا انہوں نے پارٹی کے ساتھ کسی رسمی تعلق کا اعلان کیاتھا۔

ہمیں کئی دوسرےبی جے پی حامی ایڈورٹائزر بھی ملے۔ ان میں مودی پارا ڈاٹ کام (اس نے 717000 روپے (9362ڈالر) خرچ کیے)، 2020 مودی سنگ نتیش (اس نے 705000 روپے (9206ڈالر) خرچ کیے)،نرممتا ڈاٹ کام (اس نے 18 لاکھ روپے (23503ڈالر) خرچ کیے)،دی فرسٹریٹیڈ بنگالی ڈاٹ کام (اس نے 11.50 لاکھ روپے (15016ڈالر) خرچ کیے)، راشٹریہ جنگل دل (اس نے 10.70 لاکھ روپے (13971ڈالر) خرچ کیے) اور بھک بڑبک  (685000 روپے  (8944ڈالر) خرچ کیے) کی  فنڈنگ کرنے والے شخص یا تنظیم کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔

فیس بک کا کہنا ہے کہ وہ کارروائی کرتا ہے اگر اسے پتہ چلتا ہے کہ ایڈورٹائزر اپنی شناخت اور تعلقات کو حقیقی طور پر ظاہر نہیں کررہے ہیں،جس میں  ان کے اشتہارات کو بند کرنا یا ان کی پوسٹ یا صفحات کو حذف کرنا شامل ہے۔ لیکن مذکورہ تمام ایڈورٹائزر میں سے اس نے صرف چند صفحات کے اشتہارات بند کیے، وہ بھی تب جب یہ اشتہارات 10 دن تک چل چکے تھے۔

جب مائی فرسٹ ووٹ فار مودی، بھارت کے من کی بات، دستوئے فرق شیو شاہی پرت اور راشٹریہ جنگل دل کے پیج کو  بند کیا گیا، تب انہیں بالترتیب 16.19 کروڑ، 14.57 کروڑ اور 1.53 کروڑ ویوز مل چکے تھے۔

کانگریس سے اپنی کوئی بھی وابستگی ظاہر کیے بغیر پارٹی کے لیے مہم چلانے والے دو لوگ کرن گپتا اور نشانت ایم سولنکی،جنہوں نےبالترتیب 1798 اشتہارات پر 14.80 لاکھ (19325ڈالر) اور 1332 اشتہارات پر 800000 روپے (10446 ڈالر) خرچ کیے۔

ایک اور پیج کھوٹی کروک مودی نے خاص طور پر بنگال کے انتخابات میں مودی کے خلاف منفی مہم چلانے کے لیے 1364 اشتہارات پر 49 لاکھ روپے (63981ڈالر) خرچ کیے۔ ان اشتہارات کو 62 کروڑ ویوز ملے۔ اور ٹی این ڈزروبیٹر ڈاٹ ان نے تمل ناڈو میں بی جے پی کی اتحادی جماعت اے آئی اے ڈی ایم کے کے خلاف مہم میں 839 اشتہارات پر 29 لاکھ روپے (37867ڈالر) خرچ کیے۔ ان اشتہارات کو 5.25 کروڑ ویوز ملے۔

یہ 500000 روپے (6529ڈالر) سے زیادہ خرچ کرنے والےایڈورٹائزر تھے ۔ ایسے سروگیٹ ایڈورٹائزربھی ہو سکتے ہیں،جنہوں نے اس سے کم رقم خرچ کی ہو، لیکن ایسے اشتہارات کی اصل تعداد اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتی جب تک کہ فیس بک اورالیکشن کمیشن ایڈورٹائزر کے اشتہارات اور ان کی شناخت کی مکمل چھان بین نہیں کر تے ۔

ڈیٹا حاصل کرنے اور اس کے تجزیہ کا طریقہ کار

دی رپورٹرز کلیکٹو اورایڈ واچ نے  ایڈ-لائبریری ایپلی کیشن پروگرامنگ انٹرفیس (اے پی آئی) کا استعمال کیاجو فیس بک کی جانب سے ایڈورٹائزر،محققین اور مارکیٹ ماہرین کو مہیا کرایا جاتا ہے، تاکہ وہ  اس کے سیاسی اشتہارات کے آرکائیو ڈیٹا کی جانچ اورتجزیہ کر سکیں۔

دی رپورٹرز کلیکٹو اور ایڈ واچ نے سب سے پہلے 18 نومبر 2020 تک دیے گئے تمام سیاسی اشتہارات کے بارے میں ڈیٹا ڈاؤن لوڈ کیا۔ اس دوران کل 536070 اشتہارات دیے گئے تھے۔

کل 8359 ایڈورٹائزر (افراد اور تنظیموں) نے 454297 سیاسی اشتہارات پر 61.373 کروڑ روپے (8.01 ملین ڈالر) خرچ کیے۔ باقی کےاشتہارات فنڈنگ کے ذرائع کی جانکاری دیے بغیر شائع کیے گئے تھے۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ اس نے بعد میں اس طرح کے اشتہارات کو ہٹا دیا۔

اپنے تجزیہ کے لیے ہم نے 500000 روپے (6529ڈالر) سے زیادہ خرچ کرنے والے تمام ایڈورٹائزر کی پہچان کی۔ ایسے ایڈورٹائزر کی کل تعداد 145 تھی۔ انہوں نے مل کر اس وقت تک تمام سیاسی اشتہارات پر ہونے والے اخراجات کا دو تہائی سے زیادہ خرچ کیا تھا۔

اس ڈیٹا سے ہم نے پارٹیوں اور امیدواروں سے اپنی وابستگی کا اعلان کرنے والے ایڈورٹائزر کو ان ایڈورٹائزر سے الگ کر دیا جنہوں نے اس طر ح کا اعلان نہیں کیا۔ غیر اعلانیہ زمرے کے اندر ہم ان کے اعلان کردہ پتے یا کارپوریٹ ریکارڈ جیسی معلومات کی بنیاد پرصرف چند کا ہی تعلق سیاسی جماعتوں سےقائم کر پائے۔

اس تجزیے کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی اشتہارات کے لحاظ سے بی جے پی نہ صرف فیس بک پر سب سے بڑی ایڈورٹائزر تھی، بلکہ اس کے لیے سروگیٹ ایڈورٹائزرز نے پلیٹ فارم پر پارٹی کی وزیبلٹی کو دوگنا کر دیااور دوسری سب بڑی ایڈورٹائزر کانگریس کو کافی پیچھے چھوڑ دیا۔

(کمار سمبھو اور سری گریش جلیہل رپورٹرز کلیکٹو کے ممبر ہیں۔ نین تارا رنگناتھن ایڈ واچ سے  وابستہ ریسرچ اسکالر ہیں۔)

اس رپورٹ کو  الجزیرہ  انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔