آر ایس ایس کی ترجمان میگزین‘پانچجنیہ’ کے 5 ستمبر کےایڈیشن کےمضمون میں ہندوستانی سافٹ ویئر کمپنی انفوسس کی شدید نکتہ چینی کی گئی تھی اور اسے‘اونچی دکان، پھیکا پکوان’قرار دیا گیا تھا۔ اس میں یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ انفوسس کا ‘ملک مخالف’ طاقتوں سےتعلق ہے اور اس کے نتیجےمیں سرکار کے جی ایس ٹی اورانکم ٹیکس پورٹل میں گڑبڑی کی گئی ہے۔
نئی دہلی:آر ایس ایس نے اتوار کو ہندوستانی سافٹ ویئر کمپنی انفوسس کی تنقیدکرنے والی اس رپورٹ سے خود کو الگ کر لیا، جو آر ایس ایس کی ترجمان میگزین ‘پانچجنیہ’ میں شائع ہوئی تھی۔
آر ایس ایس کے آل انڈیا پرچار پرمکھ سنیل امبیکر نے کہا کہ ‘پانچجنیہ’ آر ایس ایس کا ماؤتھ پیس نہیں ہے اور یہ مضمون لکھنے والے کی رائے ہے اور اسے ادارے سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔
‘پانچجنیہ’ کے 5 ستمبر کے ایڈیشن میں انفوسس پر ‘ساکھ اور آگھات’کے عنوان سے چار صفحات کی کور اسٹوری شائع کی گئی تھی، جس میں اس کے بانی نارائن مورتی کی تصویر کور پیج پر تھی۔
انفوسس کے ذریعے تیار کی گئی جی ایس ٹی اور انکم ٹیکس پورٹلوں میں خامیوں کو لےکر ہفتہ وار میگزین‘پانچجنیہ’ نے ملکی سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی پر حملہ کیا ہے۔
مضمون میں بنگلورو واقع کمپنی کو نشانہ بنایا گیا تھا اور اسے ‘اونچی دکان، پھیکا پکوان’قرار دیا گیا تھا۔ اس میں یہ بھی الزا م لگایا گیا تھا کہ انفوسس کا ‘ملک مخالف’ طاقتوں سے رشتہ ہے اور اس کے نتیجے میں سرکار کے انکم ٹیکس پورٹل میں گڑبڑی کی گئی ہے۔
حالانکہ امبیکر نے سنگھ کے رخ کو واضح کرنے کے لیے ٹوئٹ کیا،‘ہندوستانی کمپنی کے ناطے انفوسس کا ہندوستان کی ترقی میں اہم کردارہے۔ انفوسس کے ذریعے چلائے جانے والے پورٹل کو لےکر کچھ مدعے ہو سکتے ہیں لیکن‘پانچجنیہ’ میں اس سیاق میں چھپے مضمون ،لکھنے والے کے اپنے ذاتی خیالات ہیں اور‘پانچجنیہ’ سنگھ کا ماؤتھ پیس نہیں ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ‘پانچجنیہ’ میں شائع مضمون یا خیالات سے آر ایس ایس کو نہیں جوڑا جانا چاہیے۔
अतः राष्ट्रीय स्वयंसेवक संघ को इस लेख में व्यक्त विचारों से नहीं जोड़ा जाना चाहिए । @editorvskbharat
— Sunil Ambekar (@SunilAmbekarM) September 5, 2021
حالانکہ‘پانچجنیہ’کےمضمون میں ذکر کیا گیا تھا کہ میگزین کے پاس یہ کہنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے، لیکن اس میں کہا گیا ہے کہ انفوسس پر کئی بار ‘نکسلیوں، لیفٹسٹ اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ ’کی مدد کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
اس میں یہ بھی سوال کیا گیا تھا کہ کیا انفوسس ‘اپنے غیر ملکی صارفین کے لیے اس طرح کی گھٹیاسروس فراہم کرےگی۔’
سنیچر(چار ستمبر)کو رابطہ کرنے پر ‘پانچجنیہ’ کے مدیر ہتیش شنکر نے کہا تھا کہ انفوسس ایک بڑی کمپنی ہے اور سرکار نے اس کی ساکھ کی بینادپر اسے بہت اہم کام دیے ہیں۔
شنکر نے کہا، ‘ٹیکس پورٹلوں میں گڑبڑیاں قومی تشویش کاموضوع ہیں اور جو اس کے لیے ذمہ دار ہیں انہیں جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔’
حالانکہ جہاں اس رپورٹ کی اپوزیشن نے نکتہ چینی کی اور مضمون کو ‘ملک مخالف’ بتاتے ہوئے میگزین کو تنقید کا نشانہ بنایااور صنعتی دنیا کی اہم آوازوں نے بھی انفوسس کی حمایت کی،لیکن بی جے پی ، مرکزی حکومت اور لیڈنگ صنعتی اداروں نے اس پورے معاملے پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
بتا دیں کہ محکمہ انکم ٹیکس کے نئے پورٹل میں شروعات سے ہی دقتیں آ رہی ہیں۔ انکم ٹیکس رٹرن داخل کرنے کے لیے اس نئے پورٹل کی شروعات سات جون کو ہوئی تھی۔
اس کے بعد وزارت خزانہ نے پورٹل بنانے والی انفوسس کے سی ای اوسلل پاریکھ کو طلب کیا تھا۔ تب وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے پاریکھ کوہدایت دی تھی کہ ٹیکس کے اس پورٹل میں آ رہی دقتوں کو 15 ستمبر تک دور کر دیا جائے۔
انفوسس کو انکم ٹیکس داخل کرنے والا نظام تیار کرنے کا معاہدہ 2019 میں ملا تھا۔ جون2021 تک سرکار نے انفوسس کو پورٹل کے فروغ کے لیے 164.5 کروڑ روپے کی ادائیگی کی ہے۔
تین ستمبر تک 721244 کروڑ کی بازار پونجی کے ساتھ فی الحال چوتھی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اس کا قیام سال 1981 میں این آر نارائن مورتی اور نندن نیلےکنی سمیت سات پارٹنرس کے ذریعے کیا گیا تھا۔ کمپنی کی 50 سے زیادہ ملکوں میں موجودگی ہے، جس میں 2.64 لاکھ سے زیادہ لوگ کام کرتے ہیں۔’