بہار پولیس شہریت قانون اور این آر سی کی مخالفت میں راشٹریہ جنتا دل کی ایک ریلی میں حصہ لینے گئے امیر حنظلہ نامی ایک نوجوان کے قتل کی جانچ کر رہی ہے۔
نئی دہلی: شہریت قانون اور این آرسی کی مخالفت میں راشٹریہ جنتا دل (آرجے ڈی) کی ایک ریلی میں حصہ لینے والے ایک نوجوان کے قتل کے معاملے میں پولیس نے چھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے، جن میں سے دو ہندوتوادی تنظیم سے ہیں۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، نوجوان کو آخری بار دس دن پہلے آرجے ڈی کی ایک ریلی میں ہاتھوں میں جھنڈا لیے مظاہرے میں حصہ لیتے دیکھا گیا تھا۔ بعد میں 31 دسمبر کو اس کی لاش آمد کی گئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ‘ہندوپتر’ تنظیم کے ناگیش سمراٹ (23) اور ‘ہندو سماج سنگٹھن’ کے وکاس کمار (21) پر نوجوان امیر حنظلہ کے قتل کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔ امیر (18) پھلواری شریف علاقے میں بیگ کی سلائی کا کام کرتے تھے۔پھلواری شریف پولیس اسٹیشن کے انجارچ رفیق الرحمٰن نے کہا، ‘ہماری جانچ میں پتہ چلا ہے کہ مظاہرے میں بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کے ذریعے فورس استعمال کرنے کے بعد امیر نے جائے واردات سے جانے کی کوشش کی لیکن سنگت گلی میں کچھ لڑکوں نے انہیں پکڑ لیا۔’
پولیس نے آگے کہا، ‘پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اینٹ اور دیگر دھاردار ہتھیاروں سے مارا گیا، جس سے ان کی موت ہو گئی۔ ان کے سر پر چوٹیں لگی تھیں اور جسم پر دو کٹنے کے نشان بھی تھے۔ ان کے پیٹ سے بہت سارا خون نکلا، جس سے پتہ چلا ہے کہ اندرونی طور پر بھی ان کا بہت خون نکلا ۔’ حنظلہ کے والد سہیل احمد نے کہا کہ ان کے بیٹے نے پہلی بار کسی مظاہرے میں حصہ لیا تھا۔ احمد نے کہا، ‘اس کا کیا قصور تھا؟ اس نے ہاتھ میں ترنگا پکڑا ہوا تھا۔’
پولیس نے تصدیق کی ہے کہ ‘ہندوپتر’ تنظیم ان 19 تنظیموں میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں بہار پولیس کی اسپیشل برانچ نے گزشتہ مئی مہینے میں ان کے دفتروں اور متعلقہ لوگوں کے بارے میں جانکاری مانگی تھی۔حنظلہ کے قتل معاملے میں دیگر جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ دیپک مہتو، چھوٹو مہتو، سنوج مہتو عرف دھیلوا اور رئیس پاسوان ہیں، جنہیں پولیس نے مجرم بتایا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دیپک، چھوٹو اور سنوج کو حنظلہ کی لاش کی لوکیشن کے بارے میں پتہ تھا۔
پولیس آرجےڈی کے بند اور مظاہرے کے فیس بک لائیو ویڈیو کے ذریعے مظاہرین کے خلاف تشدد بھڑ کانے میں سمراٹ اور کمار کے رول کی بھی جانچ کر رہی ہے۔پولیس انچارج رفیق نے کہا، ’21 دسمبر کو مظاہرے کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی بھڑ کانے میں ان دونوں نوجوانوں کا کلیدی رول تھا۔’ انہوں نے کہا کہ ان دونوں کے خلاف مجرمانہ سازش کرنے کا معاملہ بھی درج کیا گیا ہے۔
ان ویڈیو میں سے ایک میں دکھ رہا ہے کہ کمار پولیس پر ہندوؤں کا استحصال کرنے کا الزام لگا رہے ہیں اور سبھی ہندوؤں سے پھلواری شریف آنے کو کہہ رہے ہیں۔ ایک دیگر ویڈیو میں سمراٹ نے خود کو’ ہندوپتر’ بتایا ہے۔رحمٰن نے کہا، ‘ ہم دونوں تنظیموں کے ٹاپ لوگوں سے پوچھ تاچھ کریں گے۔ اس طرح کی تنظیم باہر سے بھیڑ کو اکٹھا کرنے کا کام کرتی ہیں۔ یہ دونوں لڑکے پٹنہ کے نہیں ہیں۔ تین سال پہلے بھی فرقہ وارانہ تناؤ کے دوران اسی طرح بھیڑ کو اکٹھا کیا گیا تھا۔ ہم اور زیادہ ثبوت جمع کر رہے ہیں۔ ہمارا کیس بہت مضبوط ہے۔’
فیملی کے مطابق، حنظلہ نے 10ویں کلاس کے امتحان کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی اور سلائی کا کام کرنے لگے تھے۔ پولیس انچارج نے کہا، ‘وہ (حنظلہ ) 21 دسمبر کو اپنی سائیکل سے کام کے لیے گھر سے نکلے تھے لیکن بند کی وجہ سے ان کا سلائی کارخانہ بند تھا اس لئے وہ آرجے ڈی کے مارچ میں شامل ہو گیا۔ ویڈیو میں اس کو ہاتھ میں ترنگا پکڑے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے گھروالوں نے آخری بار ان سے صبح 11.45 پر بات کی تھی اور ان کا موبائل سوئچ آف ہونے سے پہلے ان کی آخری لوکیشن پھلواری شریف بلاک آفس کے پاس تھی۔ اسی علاقے سے ان کی لاش برآمد ہوئی ۔’
حنظلہ کے والد نے 21 دسمبر کی رات کو اپنے بیٹے کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی۔ ان کی فیملی دربھنگہ کی رہنے والی ہے اور پچھلے آٹھ سال سے پھلواری شریف علاقے کے ہارون نگر میں کرائے کے مکان میں رہ رہی ہے۔