سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے یوم آزادی کے موقع پر لکھے اپنے ایک مضمون میں کہا کہ تفرقہ بازی کی سیاست سے وقتی طور پر فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ ملک کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ۔
نئی دہلی: یوم آزادی کے موقع پر سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نےاپنے ایک مضمون میں کہا کہ ہندوستانی شہریوں کو یہ عزم کرنا چاہیے کہ وہ ‘آمرانہ غرور’ کے ذریعے انہیں دی گئی آزادی نہیں چھننے دیں گے اور نہ ہی نفرت سے اتحاد اور یکجہتی کو کمزور کرنے کا موقع دیں گے۔
دی ہندو میں شائع ہوئے اس مضمون میں سابق وزیر اعظم نے کہاکہ ، جب ہر ہندوستانی ترنگے کو فخر سے سلامی دے گا،تو ترنگا ہمیں اس جامع ثقافت کی بھی یاد دلائے گا جو ہمیں دنیا کی ایک اہم اورعظیم جمہوریت بناتا ہے۔
سنگھ نے کہا کہ آزادی کی جدوجہد نے الگ الگ پہچان رکھنے والے ہندوستانیوں کو متحد کیا اور اس اتحاد کو فرقہ وارانہ تقسیم، لسانی انتہا پسندی ، ذات پات اور صنفی طور پرغیر حساس مہم سے تباہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے وقتی طور پرسیاسی فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا کام کرے گا۔
کانگریس لیڈر نے کہا کہ خوشحالی اور ثروت مندی کے فائدے چند منتخب تاجروں تک محدود نہیں ہونے چاہیے۔
انہوں نے کہا،1991 میں معیشت کے لبرلائزیشن کے بعد غربت کو دور کرنا اور معاشی عدم مساوات کو ختم کرنا عوامی پالیسی کا بنیادی اصول بن گیا۔ جب ہم جامع اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں تو ہمیں ملک کے چند منتخب تاجروں کو ہی اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے جبکہ آمدنی کا فرق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ روزگار کے بغیر ترقی کسی بھی معیشت کے لیے اچھی چیز نہیں ہے۔بے روزگاری نہ صرف ہمارے انسانی وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو محدود کرتی ہے بلکہ سماجی انتشار اور تفرقہ انگیز سیاست کے لیے ایک سازگار زمین بھی فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ اور لسانی رکاوٹوں کی وجہ سے ملک بھر میں شہریوں کی نقل و حرکت میں مشکلات پیش آئیں گی اور ترقی پراس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
سنگھ نے کہا، ہندوستانی صنعت کے رہنماؤں کو ان خطرات کو سمجھنا چاہیے اور ایسے میں جب تقسیم کی سیاست ملک کی معیشت کے لیے خطرہ بن چکی ہےتو خاموش تماشائی بنے رہنے کے بجائے قومی اتحاد کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔
ملک میں سائنسی نقطہ نظر کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہو گی اگر ہمارے سائنسی ادارے، یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے کو کام چلاؤقیادت کو سونپ کر کمزور کر دیا جائے۔ ایک ایسی قیادت جس کی ترجیح علمی سالمیت کی قیمت پر ثقافتی احیاء پسندی کو آگے بڑھانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں قدیم زمانے سے سائنسی روایت رہی ہے، لیکن اس طرح کے سیوڈو سائنس کا چھلاوہ تیار نہیں کیا جانا چاہیے جس کی وجہ سے ہماری سائنسی کمیونٹی کی بدنامی ہو۔
اس کے علاوہ انہوں نے نوجوانوں کی اچھی صحت کو یقینی بنانے کی بات کہی۔ این ایف ایچ ایس کے حالیہ سروے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سروے ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تولیدی عمر کے بچوں اور خواتین میں بڑے پیمانے پر غذائی قلت، نشوونما کا جمود اور خون کی کمی دیکھی گئی ہے۔ ان کے لیے غذائیت پر مبنی اسکیمیں شروع کی جائیں۔
انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کس طرح کووڈ 19 کی وبا نے ہمارے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام شہریوں کو مناسب مالی تحفظ کے ساتھ صحت کی ضروری خدمات فراہم کرنا یونیورسل ہیلتھ کوریج کا ہدف ہونا چاہیے اور اسے پورے ملک میں یکساں طور پر حاصل کیا جانا چاہیے۔
ملک کی آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر اپنی جوانی کے دنوں کے تجربات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 14 سال کے نوجوان کی حیثیت سے میں نے ملک کی تقسیم کے بعد رونما ہونے والے دردناک سانحات کا سامنا نئی نئی آزادی کے جوش و جذبے سے کیا۔ مجھے امید تھی کہ ہندوستان اس طرح کی پھوٹ کا سامنا کیے بغیر ایک قوم اور ملک کے طور پر مضبوط ہوگا۔ ہندوستان نے آج جو کچھ حاصل کیا ہے اس پر مجھے ناز ہے اور میں اس عظیم ملک کے مستقبل کو لے کر مطمئن ہوں۔ لیکن مجھے سماجی ہم آہنگی کو خراب کرنے والے فرقہ وارانہ نعروں اور گالیوں کے بارے میں تشویش ہے جو لوگوں کو تقسیم کر رہے ہیں۔
دس سال تک ملک کے وزیر اعظم رہے سنگھ نے اپنے اس مضموں میں’جمہوری آزادی کا دفاع کرنے والے اداروں کے کمزور ہو جانے’ پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ انتخابی سیاست کو پیسے کی طاقت اور ان کی مددگار سرکاری ایجنسیوں سے بچانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ ، یہ ملک کے شہریوں پر منحصر ہے کہ وہ محنت سے حاصل کی گئی آزادی کو محفوظ رکھیں۔