یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ میڈیا، جو جمہوریت کے سب سے زیادہ تسلیم شدہ اداروں میں سے ایک ہے، دلتوں، آدی واسیوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کو نہ صرف نیوز رومز میں نوکریاں دینے بلکہ ان کے ایشوز کو بھی جگہ دینے میں ناکام رہا ہے۔
کسی بھی ملک کا میڈیا اس کے سماج کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اسی لیے سفارت کار جب بیرون ملک پوسٹنگ پر جاتے ہیں، تو عام طور پر وہاں کا میڈیاہی ان کی انفارمیشن کا بنیادی ذریعہ ہوتا ہے اور اس کی بنیاد پر وہ رائے بناکر اپنے ملک سفارتی تجزیے ارسال کرتے ہیں، جو ملک کی خارجہ پالیسی طے کرتے ہیں۔
یہی کچھ باہر سے آئے میڈیا کے نمائندے بھی کرتے ہیں۔ کسی شہر یا ملک کو کور کرنے کے لیے آئے باہری میڈیا کا نمائندہ بھی مقامی اخباروں و چینلز کو اپنی کوریج کے لیے ایشوز کو جاننے اور پرکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ میڈیا ایک ایسا میدان ہے، جس میں صحیح عکاسی کرنے کے لیے سماج کے سبھی طبقات کی نمائندگی ضروری سمجھی جاتی ہے۔
مگر اگرآپ ہندوستان میں ڈیوٹی دینے والے سفارت کار یا بیرون ملک میڈیا کے نمائندے ہیں اور آپ قومی میڈیا پر تکیہ کرکے اپنی رائے بناتے ہیں، تو سو فیصد یہ طے ہے کہ وہ رائے یا تجزیہ غلط ہوگا۔
کیونکہ ابھی حال ہی میں
آکسفیم انڈیا نے مختلف میڈیا کے اداروں کا سروے کرنے کے بعد اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان میں سے صد فیصد کے مالکان یا ایڈیٹرز اونچی ذات کے ہندو ہیں، نیز یہ ادارے ملک کی اکثریتی آبادی کے مسائل کو درکنار کرتے ہوئے صحیح صورت حال کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ جنوبی ہندوستان کے دکن ہیرالڈ میڈیا گروپ کے علاوہ بقیہ سبھی میڈیا کے گروپ، چاہے وہ ٹائمس آف انڈیا ہو یا انڈین ایکسپریس یا زی یا آج تک گروپ، سبھی ویشیہ یا بنیا ذات کے افراد کی ملکیت ہیں۔
یاد رہے کہ ذات پات کے اعتبار سے ہندوؤں میں برہمن، چھتری (راجپوت) ویشیہ (بنیا)اونچی ذات کے زمرے میں آتے ہیں، جن کی کل آبادی میں حصہ بالترتیب 3.5فیصد، 5.5فیصد اور 6فیصد ہے۔ یعنی یہ کل آبادی کا محض 15فیصد ہیں۔ جبکہ بقیہ 85فیصد آبادی دلت، قبائلی (آدی واسی)، دیگر پسماندہ طبقات (مڈل کاسٹ) اور اقلیتوں پر مشتمل ہے۔
آکسفیم کے بقول سال 2022 میں مختلف نیوز رومز میں 121اعلیٰ ادارتی عہدوں پر فائز افراد جن میں ا یڈیٹر ان چیف، مینیجنگ ایڈیٹر، ایگزیکٹو ایڈیٹر، بیورو چیف، ان پٹ/آؤٹ پٹ ایڈیٹر وغیرہ شامل ہیں کا جب انہوں نے جائزہ لیا، تو پایا کہ ان میں سے 106اونچی ذات کے اور پانچ افراد مڈل کاسٹ یا دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔
ہندی ٹی وی چینلوں کے سبھی 40اینکرز اور انگریزی کے سبھی 47اینکرز اونچی ذات کے تھے۔ ان میں دلت یا آدی واسی کوئی نہیں تھا۔ یعنی ہندوستان کی اکثریتی آبادی کا قومی میڈیا کی ادرارتی لیڈرشپ میں کہیں وجود ہی نہیں ہے۔
مزید یہ کہ پرائم ٹائم شو میں بحث و مباحثہ کے لیے جن افراد کو بلایا گیا تھا، ان میں سے 70فیصد اونچی ذات کے تھے۔ انگریزی اخبارو ں کے جائز ے میں بتایا گیا کہ ایک سال میں ادارتی صفحات کے بس پانچ فیصد حصہ میں دلت مصنفین کو جگہ دی گئی۔
ہندی اخبارات میں یہ شرح کچھ بہتر یعنی 10 فیصد تھی۔ نیوز ویب سائٹس میں شائع شدہ 72فیصد مضامین اونچی ذات کے مصنفین یا صحافیوں کے تھے۔ بارہ میگزین میں شائع 972کور اسٹوریز میں بس دس ہی نچلی ذاتوں کے ایشوز پر لکھے گئے تھے۔ ادارتی ملازمین میں انگریزی اخبارو ں میں نچلی ذات یعنی دلت یا آدی واسی کا کوئی فرد نہیں تھا۔
ہندی اخباروں میں دلت برادری کا تناسب 3.23فیصد، انگریزی کے نیوز چینلوں میں 1.64فیصد، ہندی نیوز چینلوں میں 1.61 فیصد، جرنلز یعنی میگزین میں 3.57فیصد اور ڈیجیٹل میڈیا میں 11.1فیصد ریکارڈ کیا گیا۔
رپورٹ نے واضح طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہندوستان کی اکثریتی آبادی نیوز میڈیا میں غیر حاضر ہیں۔ میڈیا کے مالکان یا مدیروں نے نیوز رومز میں تکثیریت لانے کے لیے پسماندہ طبقات کو شامل کرنے اور نیوز رومز میں مساوی نمائندگی پیدا کرنے کے لیے اجتماعی طور پر دیانتدارانہ کوششیں نہیں کی ہیں۔
یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ میڈیا، جو جمہوریت کے سب سے زیادہ تسلیم شدہ اداروں میں سے ایک ہے، دلتوں، آدی واسیوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کو نہ صرف نیوز رومز میں نوکریاں دینے بلکہ ان کے ایشوز کو بھی جگہ دینے میں ناکام رہا ہے۔
آکسفیم انڈیا کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ میڈیا میں کام کرنے والوں کے لیے اہم ہے کیونکہ یہ ان کے سامنے ایک ایسا موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ آگے بڑھنے کا ایک راستہ سوچیں جو برابری اور بھائی چارے کی آئینی ضمانتوں کو برقرار رکھے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا کی نمائندگی ملک میں خبروں کی کوریج کے معیار کو متاثر کر رہا ہے۔ تنوع اور تکثریت کے بغیر جمہوریت کے کوئی معنی نہیں رہتے ہیں، اس لیے صرف چند ذاتوں کے غلبہ والا میڈیا اس کی روح کو متاثر کرتا ہے۔
یہ ہندوستان کی جمہوریت کے معیار پر ایک خوفناک تبصرہ ہے۔ رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ ملک کے سماجی اور آبادیاتی کردار کے مطابق نیوز رومز کو متنوع بنانے کے لیے مثبت اقدام کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ایسا نظام وضع کیا جانا چاہیے تاکہ نچلی ذاتوں اور دبے کچلے طبقات کو میڈیا تک رسائی دینے کے لیے ان کی تربیت کے لیے باقاعدہ پروگرام وضع کرنے کے لیےٹھوس کوششیں کی جائیں۔
ذات پات کی بنیاد پر ہونے والے مظالم اور آدی واسی آبادی کے استحصال پر ہونے والی کوریج و بحث و مباحثوں کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انگریزی چینل این ڈی ٹی وی نے ان ایشوز پرسب سے زیادہ (3.6فیصد) مباحثے دکھے، نیوز 18 اور ری پبلک بھارت نے کچھ نہیں دکھایا۔
ہندی چینلوں میں اس طرح کے ایشوز پر ہونے والے مباحثوں میں اے بی پی نیوز کا حصہ 2.4فیصد تھا، اس کے بعد آج تک کا کا 1.8فیصد، سنسد یعنی ہندوستانی پارلیامان کے اپنے ٹی وی چینل کا 1.3فیصد، زی نیوز کا 1.3فیصد اور انڈیا ٹی وی کا صرف 0.8فیصد حصہ تھا۔
تحقیقی ٹیم نے سات انگریزی اخبارات کی بائی لائنز کا جائزہ لیا۔ معلوم ہوا کہ دی ہندو اور دی انڈین ایکسپریس کے علاوہ تقریباً تمام انگریزی اخبارات میں اونچی ذاتوں کے رپورٹروں کی بائی لائنز 60فیصد سے زائد تھیں۔ تقریباً تمام اخبارات میں دلت صحافیوں کی تعداد 4 فیصد سے بھی کم پائی گئی۔
ادارتی صفحات میں،دیگر پسماندہ طبقات یعنی مڈل کاسٹ کے صحافیوں کی نمائندگی 9-12 فیصد تھی۔ اس کے برعکس، اونچی ذات کے مصنفین کے ادارتی صفحات میں 56-64فیصد مضامین تھے۔ اکانومی پیج پر آدی واسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا کوئی مصنف کسی بھی اخبار میں موجود نہیں تھا۔
ہندستان ٹائمز، دی انڈین ایکسپریس اور دی ٹائمز آف انڈیا میں دلت زمرے کے صحافیوں کے صرف 8فیصد مضامین تھے۔ کھیلوں کے صفحے پر ادارتی اور صفحہ اول کے مقابلے دلت اور آدی واسی مصنفین کی بہتر نمائندگی دیکھنے میں آئی۔
ڈیجیٹل نیوز پورٹلز میں بھی بائی لائنز پر اونچی ذات کے صحافیوں کا غلبہ تھا۔ سروے میں شامل 10 ڈیجیٹل میڈیا آؤٹ لیٹس میں سے چھ میں کوئی دلت مصنف نہیں تھا، سات ڈیجیٹل پلیٹ فارمز میں آدی واسی کمیونٹی سے کوئی صحافی نہیں تھا۔
پسماندہ برادریوں کو درپیش چیلنجوں کو سمجھنے کے لیے، آکسفیم انڈیا کے محقیقین نے 22 دلت اور آدی واسی صحافیوں سے ملاقاتیں کی۔ معلوم ہوا کہ قلیل تعداد ہونے کے علاوہ ان کو نیوز رومز میں امتیازی سلوک کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ان کے لئے ایذا رسانی سے کم نہیں ہوتا ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ اونچی ذات کے افراد بڑے میڈیا ہاؤسز کے گیٹ کیپر کے طور پر کام کرتے ہیں اور وہ دیگر طبقات کے لیے رسائی مشکل بناتے ہیں۔
ایک صحافی نے معروف چینل این ڈی ٹی وی کی مثال دی، جو لبرل تصور کیا جاتا ہے اور نچلے طبقات پر پروگرام بھی کرتا ہے، مگر اپنے نیوز رومز میں ان طبقات کے صحافیوں کو جگہ نہیں دیتا ہے۔جس کا مجھے خود بھی تجربہ ہوچکا ہے۔
میں نے ایک بار اس چینل کے لیے ٹیسٹ وغیرہ پاس تو کیا تھا، مگر بعد میں انٹرویو کے وقت بتایا گیا کہ میں جموں و کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ سے چینل کے مالک کو فون کرواکے یا اس کے نام سفارش لکھوا لوں، جو میرے بس سے باہر تھا۔ اس چینل کے لیے مشہور تھا کہ اس میں بس اعلیٰ سرکاری افسران یا سیاستدانوں کے بچوں کو ہی ادارتی ذمہ داریوں کے لیے نوکریاں ملتی ہیں۔
ایک دلت صحافی نے بتایا کہ ایک معروف یوٹیوب چینل نے ان کو ایک بار نیوز ریڈر کے لیے منتخب کیا،مگر جب معلوم ہوا کہ وہ دلت ہیں تو پھر ان کوتربیت کے لیے نہیں بلایا۔ دی وائس میڈیا کی بانی اور ایڈیٹر ببیتا گوتم نے اس رپورٹ کے خالقوں کو بتایا کہ پسماندہ طبقات کے صحافی جو پہلے ہی سماجی، اقتصادی اور ثقافتی صدمے سے دوچار ہوتے ہیں، اس طرح رویہ ان کی خود اعتمادی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔
ایک اور دلت صحافی نے بتایا کہ ان کو بریکنگ یا بڑی اسٹوریز کرنے نہیں دیا جاتا ہے۔ ان صحافیوں نے کہا کہ امتیازی سلوک نے ان کے کام اور دماغی صحت دونوں کو متاثر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر صبح ان کو نیوز روم کے زہریلے ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک خاتون دلت صحافی نے یہ تک کہا کہ بسا اوقات اس کے دماغ میں خودکشی کے خیالات آتے ہیں اور کوئی بصیرت یا مدد فراہم کرنے والا نہیں ہے۔اس کے علاہ پیشہ ورانہ کیریئر میں ہر وقت اپنی ساکھ ثابت کرنا پڑتی ہے۔
اب آپ اندازہ کریں کہ اس میڈیا کے اداریوں، خبروں اور بین السطور کا مطالعہ کرکے اگر آپ ہندوستان کے حالات کا ادراک کرکے اس ملک کے ماہر کی حیثیت سے اپنے آپ کو متعارف کروائیں، تو اس مہارت کا کیا حال ہوگا۔