کیوں ہندوستانی جیلوں میں منو کے کاسٹ سسٹم کو دستور العمل کی حیثیت حاصل ہے

04:48 PM Jul 11, 2024 | سکنیا شانتا

کئی ریاستوں میں جیل کے دستورالعمل جیل کے اندر کے کاموں کا تعین  ذات پات کی بنیاد پر کرنے کی دلالت کرتے ہیں۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/د ی وائر)

یہ مضمون‘بارڈ دی پریزن پروجیکٹ’ سیریز کے حصہ کے طور پر پلتجر سینٹر آن کرائسس رپورٹنگ کے ساتھ شراکت میں پیش کیا گیا ہے۔

الورڈسٹرکٹ جیل میں پہلے ہی دن اجئےکمار*اپنے بدترین دنوں کا سامنا کرنے کے لیے کمر کس رہے تھے۔ اذیت، باسی کھانا، شدید سردی اورسخت محنت- جیلوں کے حقائق کے بارے میں اب تک اس کے علم کا واحد ذریعہ ہندوستانی فلمیں تھیں۔

انہیں جیسے ہی ایک بڑے لوہے کے گیٹ کے اندر لایا گیا، انڈرٹرائل سیکشن میں تعینات ایک پولیس کانسٹبل نے سوال کیا، ‘گناہ بتاؤ۔’اجئےابھی بدبداکر کچھ کہہ ہی پائے تھے کہ کانسٹبل نے جواب کا انتظار کیے بغیر دوسرا سوال پوچھا، ‘کون ذات؟’ تذبذب کی حالت میں اجئے نے ہچکچاتے ہوئے کہا، ‘رجک۔’

اس جواب نے کانسٹبل کو مطمئن نہیں کیا۔ اس نے مزید‘برادری بتانے’کے لیے کہا۔ شیڈول کاسٹ کے اندراس کی شناخت کی بھلے ہی اجئے کی زندگی میں آج تک کوئی خاص اہمیت نہ رہی ہو، لیکن آئندہ 97 دنوں کی اس کی جیل والی زندگی کی صورت اسی سے طے ہونے والی تھی۔

یہ2016 کی بات ہے، جب جیل میں محض 18 سالہ  اجئے کو ٹوائلٹ صاف کرنے پڑے، وارڈ کے برآمدے میں جھاڑو لگاناپڑا، پانی بھرنا پڑنااور باغبانی جیسے ناپسندیدہ  کام کرنے پڑے۔

اس کا کام صبح ہونے سے پہلے شروع ہو جاتا تھا اور ہر دن پانچ بجے شام تک جاری رہتا تھا۔ انہوں نے بتایا،‘میں نے یہ مان لیا تھا کہ جیل میں آنے والے ہر نئے قیدی کو یہ کام کرنا پڑتا ہے، لیکن ایک ہفتے میں یہ بات صاف ہو گئی کہ ٹوائلٹ  صاف کرنے کا کام کچھ منتخب لوگوں کو ہی کرنا پڑتا تھا۔’

کاموں کا بٹوارہ صاف صاف تھا۔ صاف صفائی کا کام ذات پات کے نظام  میں سب سے نچلے پائیدان پر کھڑے لوگوں کو کرنا پڑتا تھا۔ اس نظام  میں اوپر کھڑے لوگوں کو رسوئی یالیگل ڈاکیومینٹیشن ڈپارٹمنٹ میں کام کرنا پڑتا تھا۔

پیسے والے اوربااثر لوگ کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنی مرضی چلاتے تھے۔ اس سسٹم کاکوئی تعلق اس جرم  سےنہیں تھا جس کے لیے کسی کو گرفتار کیا گیا ہے، یا جیل میں ان کے رویے سے بھی اس کا کوئی لینا دینانہیں تھا۔ اجئےکہتے ہیں،‘سب کچھ ذات پات پر مبنی  تھا۔’

انہیں جیل بھیجے جانے کے اب چار سال کےقریب ہو گئے ہیں۔ وہ جہاں کام کرتے تھے، وہاں کے مالک نے ان پر چوری کا الزام لگایاتھا۔ نئے منگائے گئے سوئچ بورڈ کے کچھ ڈبے ورکشاپ سے غائب ہو گئے تھے۔وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں،‘میں سب سے نیا اور سب سے کم عمر اسٹاف  تھا۔ مالک نے بنا کسی ثبوت کے مجھ پر الزام  لگایا اور مجھے پولیس کے حوالے کر دیا۔’

جیل میں97 دن گزارنے اور اس کے بعد الور مجسٹریٹ کورٹ میں ٹرائل کے بعد اجئے کو آخرکار بری کر دیا گیا۔ لیکن اس شہر میں رہ پانا ممکن نہیں تھا۔ وہ جلد ہی دہلی چلے آئے۔

بائیس  سالہ اجئے اب سینٹرل دہلی کے ایک مال میں الیکٹریشین کا کام کرتے ہیں۔ وہ  کہتے ہیں کہ جیل میں بتائے ہوئے دنوں نے ان کی زندگی کو کئی معنوں میں بدل دیا،‘ایک پل میں  مجھ پر مجرم  کا ٹھپہ لگا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی میری پہچان ایک چھوٹی کاسٹ  والے کے طور پرمحدود کر دی گئی۔’

بنیادی طو رپربہار کے بانکا ضلع کےشمبھوگنج بلاک کے رہنے والے اجئےکی فیملی 1980کی دہائی  کے شروع میں قومی  راجدھانی(دہلی)آئی تھی۔ ان کے والد دہلی کے ایک کریئر فرم میں کام کرتے ہیں اور ایک بھائی نیشنلزائڈ بینک میں سیکورٹی گارڈ کا کام کرتے ہیں۔

‘ہماری کاسٹ دھوبی ہے لیکن ہمارے گھر میں سے کوئی کبھی بھی اس پیشہ سے وابستہ نہیں تھا۔ میرے والد نے جان بوجھ کر شہر کی زندگی چنی تھی کیونکہ وہ  گاؤں کےکاسٹ سسٹم  کی خوفناک سچائی سے بھاگ جانا چاہتے تھے۔’

اجئے کہتے ہیں،‘لیکن جیل کے اندر میرے والد  کی کوششوں پر پانی پھر گیا۔ میری ٹریننگ ایک الیکٹریشین کے طور پر ہوئی تھی، لیکن جیل کے اندریہ کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔’

نارتھ دہلی میں کرایہ کی برساتی میں بیٹھے اجئے کہتے ہیں،‘میں اس بند جگہ میں بس ایک صفائی والا تھا۔’وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان سب میں سب سے زیادہ دردناک واقعہ وہ تھا جب جیل گارڈ نے انہیں ایک جام ہو گئے سیپٹک ٹینک کو صاف کرنے کے لیے بلایا۔

انہوں نے بتایا،‘ایک رات پہلے سے جیل وارڈ اوورفلو ہو رہے تھے۔ لیکن جیل حکام  نے اسے ٹھیک کروانے کے لیے باہر سے کسی کو نہیں بلایا۔ میں یہ جان کار ہل گیا کہ جیل حکام یہ کام مجھ سے کروانا چاہتے تھے۔ میں نے دبی زبان میں اس کی مخالفت کی اور گارڈ سے کہا کہ میں اس طرح کے کام کرنا نہیں جانتا ہوں۔لیکن اس نے دلیل دی کہ  میرے جتنا دبلا پتلا اور کوئی نہیں ہے۔ اس نے آواز اونچی کرکے کہا اور میں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔’

اجئے کو اپنے سارے کپڑے اتار کر صرف انڈر ویئر میں ٹینک کا ڈھکن کھول کر انسانی غلاظت سے بھرے ہوئے حوض میں اترنا پڑا۔ ‘مجھے لگا کہ میں اس ناقابل برداشت  بدبو سے مر جاؤں گا۔ میں زور زور سے چیخنے لگا۔ گارڈ کو کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کہ کیا کرے۔ اس نے دوسرے قیدیوں کو مجھے باہر نکالنے کے لیے کہا۔’

ہندوستان  میں غلاظت ڈھونے کی روایت  تین دہائی  پہلے ختم  کر دی گئی تھی اور 2013 میں اس قانون میں تبدیلی  کرکے نالوں (سیور)اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کے لیےانسانوں کے استعمال کو ہاتھ سے غلاظت  اٹھانے والے اہلکاروں  کی تقرری پر پابندی  اور ان کی بازرہائش سے متعلق ایکٹ،2013 کے تحت ‘ہاتھ سے غلاظت اٹھانا’جرم مانا گیا ہے۔ یعنی گارڈ نے اجئے کو جو کام کرنے پر مجبور کیا، وہ ایک قابل سزا جرم ہے۔

(السٹریشن:پری پلب چکرورتی/دی  وائر)

وہ کہتے ہیں،‘جب بھی میں اس واقعہ کے بارے میں سوچتا ہوں، میری بھوک مر جاتی ہے۔ جب بھی کسی صفائی اہلکاریا مہتر کو اپنی گلی میں دیکھتا ہوں درد سے بھر اٹھتا ہوں۔ یہ مناظر مجھے اپنی بے بسی کی یاد دلاتے ہیں۔’یہ بات دل دہلا دینے والی لگ سکتی ہے، لیکن یہ صرف کی داستان  نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جیل میں سب کچھ انسان  کی ذات  سے طے ہوتا ہے۔

جیل میں کسی بھی شخص کی طرززندگی کو دیکھ کر وہ  اس کی کاسٹ  بتا سکتے تھے۔ اجئے پری ٹرائل قیدی تھا۔ جرم ثابت ہوجانے والےقیدیوں کے برعکس  انہیں جیل میں کام کرنے سے چھوٹ رہتی ہے۔ لیکن زیر سماعت قیدیوں  کی جیل میں جہاں قیدیوں کی تعدادکافی کم تھی، اجئے جیسے قیدیوں کو مفت میں کام کروانے کے لیے بلایا جاتا تھا۔

جب اصول وضوابط بذات خود ذات پات پر مبنی ہوں

حقیقت  میں ذات پات کے لحاظ سے کام  کئی ریاستوں کے  جیل کے دستورالعمل میں رائج ہے۔انیسویں صدی کے اواخر میں نوآبادیاتی قوانین میں شاید ہی کوئی ترمیم  ہوئی ہے اور ان دستورالعمل میں ذات کے لحاظ سے کام والے حصہ کو چھوا بھی نہیں گیا ہے۔

حالانکہ، ہر ریاست کاجیل سے متعلق اپنامخصوص دستورالعمل  ہے، لیکن وہ اکثر حصوں میں دی پریزن ایکٹ ،1894 پر مبنی ہیں۔جیل کے دستورالعمل ہر طرح کے کاموں کا تفصیل سےذکرکرتے  ہیں۔کھانے کی تول سے لےکرہر قیدی کے درجہ  اور ‘حکم عدولی ’کے لیےسزاتک کا ان میں ذکر ہے۔

اجئے کا تجربہ راجستھان کےجیل کےدستورالعمل سے میل کھاتا ہے۔ جیل میں کھانا بنانے اورطبی سہولیات کی دیکھ ریکھ کا کام اشرافیہ کا  مانا جاتا ہے، وہیں جھاڑو لگانے اور صاف صفائی کو سیدھے نچلی ذات کو سونپ دیا جاتا ہے۔

کھانا بنانے کے بارے میں جیل کا دستورالعمل  کہتا ہے:‘کوئی بھی برہمن یا اپنی کمیونٹی سے اشرافیہ  کا کوئی بھی ہندو قیدی باورچی  کے طور پر بحالی کے لیےاہل  ہے۔’

اسی طرح سے اس دستورالعمل  کا ‘امپلائمنٹ، انسٹرکشن اینڈ کنٹرول آف کنوکٹس’کے عنوان والا حصہ 10 کہتا ہے (یہ پریزن ایکٹ قیدی ایکٹ کے آرٹیکل 59 (12)کے تحت دستورالعمل میں بھی مذکور ہے):

‘صفائی اہلکاروں  کا انتخاب ان کے بیچ سے کیا جائےگا، جو اپنی رہائش  کے ضلع کی روایت کے مطابق یا ان کے ذریعےپیشہ کو اپنانے کی وجہ سےصفائی اہلکار(سوئپر)کا کام کرتے ہیں جب وہ  خالی ہوں۔ کوئی بھی دوسرا قیدی رضاکارانہ طور پر یہ کام کر سکتا ہے، لیکن کسی بھی صورت میں ایک شخص جو  پیشہ ور صفائی اہلکار(سوئپر)نہیں ہے، اسے یہ کام کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائےگا۔’

لیکن یہ ضابطہ‘صفائی اہلکاروں کی کمیونٹی’ کی رضامندی کے سوال پرخاموش  ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/د ی وائر)

یہ ضابطہ بنیادی طور پر مردوں کی بڑی آبادی کو دھیان میں رکھ کر بنائے گئے ہیں اور ان ریاستوں میں جہاں خواتین  کو لےکر الگ ضابطےنہیں بنائے گئے ہیں، خواتین  کی جیلوں پر بھی ان قوانین کو تھوپ دیا گیا ہے۔

راجستھان میں جیل کا دستورالعمل کہتاہے، ‘موزوں ’کمیونٹی گروپوں  کی خاتون قیدی کے نہ ہونے پر ‘دو یا تین خاص طور پر منتخب مرد قصوروارمہتروں کو ایک ادائیگی کیے جانےوالے مزدور کے ساتھ احاطے میں لایا جائےگا، اس شرط کے ساتھ…۔’

مہتر ایک ذات کا نام ہے، جو ذات کے لحاظ سے پیشہ کے طور پر ہاتھ سے غلاظت اٹھانے میں شامل لوگوں کو مخاطب کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

طبی اہلکاروں کو لےکرجیل کا دستورالعمل  کہتا ہے، ‘دو یا زیادہ لمبی قید والے اچھی/اشرافیہ کمیونٹی  کے قیدیوں کو ہاسپٹل اٹینڈنٹ کے طور پر ٹریننگ  اورتقرری  کی جانی چاہیے۔’

تمام ریاستوں میں دستورالعمل اورضابطہ روزمرہ کے ضروری کاموں کو طے کرتے ہیں۔ کام  کابٹوارہ  موٹے طور پر ‘شدھتا اشدھتا’کے پیمانے پر کیا گیا ہے، جس میں اشرافیہ صرف ‘شدھ/مقدس’مانا جانے والا کام کرتے ہیں اور ‘اشدھ/ناپاک’ کام ذات پات کے نظام میں نچلی کمیونٹی  کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

بہارکی مثال  دیکھیے؛‘کھانا بنانے’کے عنوان  والے حصے کی شروعات ان سطروں  سے ہوتی ہے ‘کھانے کا معیار،صحیح طریقے سے اس کی تیاری اور اسے پکانا اور صحیح مقدار میں اس کے بٹوارے کی بھی اتنی  ہی اہمیت ہے۔’

جیل میں تول اور کھانا پکانے میں مہارت کی تفصیلات  دیتے ہوئے جیل ضابطہ میں کہا گیا ہے، ‘کوئی بھی ‘اے زمرہ ’ کا برہمن یااشرافیہ  کا ہندو قیدی باورچی کے طور پرتقرری  کے لیےاہل  ہے۔’

اس ضابطہ میں مزید واضح کیا گیا،‘کسی جیل میں ایسا قیدی جو اتنی اونچی کاسٹ  کا ہے کہ وہ موجودہ رسوئیوں کے ہاتھوں سے بنا کھانا نہیں کھا سکتا ہے، اسے ہی تمام لوگوں کے لیےباورچی بحال  کیا جائےگا۔ کسی بھی صورت میں انفرادی قصوروار قیدیوں کو اپنے لیے کھانا بنانے کی اجازت نہیں دی جائےگی، سوائے اسپیشل ڈویژن قیدی کے، جنہیں ضابطہ کے تحت ایسا کرنے کی اجازت ہے۔’

ایسا صرف کاغذوں پر نہیں ہے

یہ صرف دستورالعمل میں لکھ کر بھلا دی گئی عبارتیں نہیں ہیں۔ برصغیر میں ہر جگہ دکھائی دینے والے کاسٹ سسٹم خود کو کئی  طریقے سے ظاہر کرتے ہیں۔

ہم نے جن قیدیوں سے بات کی، ان میں سے کئی نے صرف ان کی  ذات کی بنیاد پر الگ تھلگ کیے جانے اوربدترین   کام کرنے کے لیے مجبور کیے جانے کے تجربے شیئرکیے۔

برہمن اور اشرافیہ کے دیگرقیدی جہاں چھوٹ کو فخر اور خصوصی حق  کاموضوع سمجھتے تھے، وہیں باقی لوگوں کی حالت کے لیے صرف کاسٹ سسٹم  ذمہ دار تھا۔

‘جیل آپ کو آپ کی اوکاد (اوقات)بتاتا ہے،’جبہ ساہنی بھاگلپور سینٹرل جیل میں قریب ایک دہائی  اور موتہاری سینٹرل جیل میں کچھ مہینے بتانے والے سابق قیدی پنٹو کا کہنا ہے کہ ‘جیل آپ کو آپ کی سہی اوکاد (اوقات)بتاتا ہے۔’

نائی کمیونٹی  سے آنےوالے پنٹو نے جیل کے اپنے دنوں میں نائی کا کام کیا۔ بہار میں جیل ضابطہ بھی کام میں کاسٹ سسٹم  کو رسمی صورت فراہم کرتا ہے۔

مثال کے لیے، صفائی کا کام سونپے جانے والوں کے لیے اس میں کہا گیا ہی ‘صفائی اہلکاروں  کاانتخاب  مہتریا ہری کمیونٹی سے یا چانڈال یادیگر نچلی کمیونٹی  سے اگر اپنے اپنے ضلع کی روایت  کے حساب سے وہ خالی رہنے پر اس سے ملتا جلتا کام کرتے ہیں یا کسی بھی کمیونٹی سے اگر کوئی قیدی اپنی مرضی  سے ایسا کام کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے، کیا جائےگا۔’یہ تینوں ہی کاسٹ شیڈول کاسٹ  کے تحت آتے ہیں۔

وقت وقت پر جیل ضابطوں  میں کچھ تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ کچھ مواقع پر عوامی مخالفت یا سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کی دخل اندازی کے بعد ایسا کیا گیا۔

کچھ مواقع پر خود ریاستوں نے اس کی ضرورت محسوس کی۔ لیکن زیادہ تر ریاستوں میں کاسٹ کے لحاظ  سے کام کے سوال کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

کچھ معاملوں میں، مثال کے لیے اتر پردیش میں،اصلاحی اثرات  کے لیےمذہبی  اور متعصب نسل پرستی  کو اہم  مانا جاتا ہے۔

جیل میں اصلاحی اثرات  پرمرکوز ایک الگ باب میں کہا گیا ہے، ‘تمام معاملوں میں قیدیوں کی مذہبی ممانعت اور نسلی تعصب کو، جہاں یہ ڈسپلن  بنائے رکھنے والا ہو، مناسب احترام  دیا جائےگا۔’

ان تعصبات کی‘معقولیت اورمطابقت’کی حد کو لےکرصوابدیدصرف جیل انتظامیہ کے پاس ہے۔ لیکن، اس معاملے میں معقولیت کا مطلب مرداور خاتون  جیلوں میں کام کا بٹوارہ کرنے اور کچھ لوگوں کو مشکل کام سے آزاد رکھتے وقت ظاہری  نسلی پرستی  کو آگے بڑھانا محض ہی رہا ہے۔

مدھیہ پردیش جیل ضابطہ، جس میں کچھ سال پہلے ہی ترمیم کیا گیا تھا، غلاظت کا کام ہاتھ سے میلا اٹھانے کے لیے استعمال کیے جانے والےعہدے کے کاسٹ سسٹم  کو جاری رکھتا ہے۔

‘غلاظت اٹھانا’کے عنوان سے ایک باب میں کہاگیاہے کہ ٹوائلٹ میں انسانی غلاظت  کی صاف صفائی کی ذمہ داری ‘مہتر قیدی’ کی ہوگی۔

ہریانہ اور پنجاب کے جیل ضابطوں اوراصولوں میں بھی اس طرح کے سلوک  کا ذکر ملتا ہے۔ صفائی اہلکاروں، نائیوں، رسوئیوں، اسپتال کے ملازمین وغیرہ کا انتخاب قیدیوں کے کاسٹ  کےلحاظ سےکیا جاتا ہے۔

اگر کسی جیل میں کسی ضروری کام کو کرنے کے لیےمخصوص کمیونٹی  کے قیدیوں کی کمی ہے، تو نزدیکی جیلوں سے قیدیوں کو لایا جا سکتا ہے۔ لیکن، ضابطہ میں کسی استثنیٰ یاضابطے میں تبدیلی  کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

قیدیوں کےحقوق  پر کام کر رہی  ایک غیر سرکاری تنظیم  کامن ویلتھ ہیومن رائٹ انیشییٹیو(سی ایچ آرآئی)میں کام کر رہیں پروگرام آفیسر ثبیقہ  عباس نے حال ہی میں جب پنجاب اور ہریانہ کی جیلوں کا دورہ  کیا تب اس سلوک  کے کھلے رواج نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔

عباس کہتی ہیں،‘مرداورخاتون  قیدیوں نے ایک آوازمیں کاموں کے بٹوارے  میں ذات پات کے لحاظ کا تجربہ  ان کے ساتھ شیئر کیا۔ کچھ لوگ غریبی اور گھر سے مالی  مدد نہ ملنے کی وجہ سے کام کرنے پر مجبور تھے۔ لیکن یہ قیدی بھی بنیادی طور پر پسماندہ کمیونٹی سے تھے۔’

لیگل سروس اتھارٹی آف ہریانہ اینڈ پنجاب کی جانب سے  مستند ان کی تحقیق میں جیل سسٹم سے جڑے کئی مسائل کو شامل کیا گیا ہے۔عباس کا کہنا ہے کہ حالانکہ شنوائی سے پہلے(پری ٹرائل)قیدی جیل میں کام کرنے سے آزاد ہیں، لیکن تسلیم شدہ نظام  انہیں کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

‘ہم نے پایا کہ دونوں ہی ریاستوں کی زیادہ تر جیلوں میں سوئپر اور کلینر کے زیادہ ترعہدےسالوں سے خالی پڑے تھے۔ یہ مان لیا گیا تھا کہ یہ کام چھوٹی کمیونٹی  سے آنے والے قیدی کریں گے۔’عباس بتاتی ہیں کہ دوسری ریاستوں کی جیلوں کے برعکس جو آج بھی نوآبادیاتی جیل ضابطوں کی پیروی کر رہے ہیں، پنجاب کے ضابطے  میں ترمیم  ہوئے ہیں۔

وہ آگے کہتی ہیں‘پنجاب کے ضابطےنسبتاًنئے ہیں۔ آخری بار اسے 1996 میں اپ ڈیٹ کیا گیا تھا، لیکن اس کے باوجود اس میں کاسٹ سسٹم کو ختم  نہیں کیا گیا ہے۔’

مغربی  بنگال یوں تو سیاسی اور جمہوری تحریک کو لےکر گرفتار کیے گئے قیدیوں کے سلسلے میں خاص اہتمام  کرنے والی  شاید اکلوتی  ریاست ہے، مگر کاسٹ کے لحاظ سے کام کے بٹوارے کے سوال پر یہ بھی اتنا ہی رجعت پسندانہ اور غیر آئینی ہے۔

اتر پردیش کی ہی طرح، مغربی بنگال کے جیل ضابطہ‘مذہبی سلوک  اور نسل پرستی  میں دخل اندازی  نہ کرنے’ کی پالیسی  پر چلتی ہے۔

ضابطے میں کچھ خصوصی ترجیحات کو شامل کیا گیا ہے ‘جنیؤ’ پہننے والے برہمن یا خاص ناپ کے پاجامے کی مانگ کرنے والے مسلمان۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ضابطہ یہ بھی کہتا ہے، ‘کھانا پکانے اور اسے جیل کے کمروں تک پہنچانے کا کام موزوں کاسٹ  کے قیدی باورچی جیل کے حکام  کے نگرانی  میں کریں گے۔’

اسی طرح صفائی اہلکاروں کا انتخاب مہتریا ہری کمیونٹی  سے یا چانڈال یا دیگر کمیونٹی سے کیا جائےگا، اگر اپنے ضلع کی روایت  کے مطابق وہ  خالی ہونے پر اس سے ملتا جلتا کام کرتے ہیں۔ یہ انتخاب کسی بھی کمیونٹی  سے کیا جا سکےگا اگر کوئی قیدی اپنی مرضی سے یہ کام کرنا چاہتا ہے۔’

جیل کے دستورالعمل  میں یہ روایات قائم ہیں اور کسی نے اسے چیلنج  نہیں دیا ہے۔

آندھرا پردیش کے ایک سابق انسپکٹر جنرل آف پریزن اور ویلورواقع سرکاری اکیڈمی آف پریزنس اینڈ کریکشنل ایڈمنسٹریشن کےسابق  ڈائریکٹرڈاکٹر ریاض الدین احمد کا کہنا ہے کہ پالیسی سے متعلق فیصلے کرتے وقت کاسٹ  کے  سوال کا ذکرنہیں ہوتا ہے، ‘34 سال سے زیادہ کے میرے کریئر میں اس سوال پر کبھی چرچہ  نہیں ہوا۔’

احمد کو لگتا ہے کہ ضابطہ  میں مذکوراصول کافی حد تک جیلوں میں بند لوگوں کے لیے سرکار کے رویے کو دکھاتے ہیں۔ احمد کہتے ہیں،‘آخر جیل حکام  بھی جیل کے باہر کے ذات پات کے نظام والے معاشرہ  کی پیدائش ہیں۔ مگر ضابطے میں چاہے جو لکھا ہو، قیدیوں کے وقار اوربرابری کو یقینی بنانا پوری طرح سے جیل ملازمین  پرمنحصر کرتا ہے۔’

دہلی کی وکیل اور ہندوستانی کاسٹ سسٹم  کی کھل کر تنقید کرنے والی دشا واڈیکر جیل قوانین کا موازنہ  منو کے رجعت پسندانہ قوانین سے کرتی ہیں۔ایک دیومالائی کردارمنو کو منوسمرتی کامصنف  مانا جاتا ہے، جنہوں نے قدیم زمانے  میں ذات پات اور جنس کی بنیاد پرانسانوں کی پستی کا ضابطہ بنایا تھا۔

واڈیکر کہتی ہیں،‘یہ جیل سسٹم  بس منو کی دنڈنیتی کی نقل ہے۔ جیل سسٹم  اس مثالی  دنڈ نیتی  پر کام کرنے میں کامیاب رہی ہے، جو قانون کے سامنے سب کی برابری  اور سب کو قانون کے یکساں تحفظ کے اصول پر بنائی گئی ہے۔ اس کےبرعکس یہ منو کے قوانین کی پیروی  کرتی ہے جس کا سنگ بنیادناانصافی  کے اصول  پر رکھا گیا ہے ایک نظام جو یہ مانتا ہے کہ کچھ زندگیوں کو دوسروں سے زیادہ سزا دی جانی چاہیے اور کچھ زندگیاں دوسروں سے زیادہ قیمت رکھتی ہیں۔ ریاست روایت  سے حاصل‘انصاف’کے کاسٹ سسٹم کی سمجھ پر ہی چل رہی ہیں اور کاسٹ سسٹم  میں انسان  کےمرتبہ کی بنیاد پر ہی وہ  سزا اورکام پرفیصلہ  کرتے ہیں۔

مغربی بنگال کو چھوڑ دیں، تو دیگر ہندوستانی ریاستوں نے جیل ایکٹ، 1894 پر کافی کچھ لیا ہے۔ احمد کہتے ہیں، ‘صرف لیا ہی نہیں، بلکہ سہی معنی میں وہ اس سے آگے ہی نہیں بڑھ پاے ہیں۔’

سال 2016 میں بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ نے ایک جامع  ماڈل جیل ضابطہ پیش کیا۔ یہ ماڈل جیل ضابطہ خاتون  قیدیوں کے ساتھ برتاؤ کےیواین ینکاک رولز اور قیدیوں کے ساتھ برتاؤ کے منڈیلا رولز پر مبنی ہے۔

یہ دونوں ہی نسل، رنگ،جنس،زبان، مذہب،سیاست اوردیگر فرقہ، قومی یا دیگر تصور، ارتقا،ملکیت، پیدائش یا کسی دیگر درجے کی بنیاد پر امتیاز کی روایت  کو ختم  کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

سال1977 میں اقوام متحدہ کے ذریعے منظور شدہ شہری  اورسیاسی حقوق  پر بین الاقوامی معاہدہ ، ہندوستان بھی جس کا ایک حصہ ہے، نے یہ صاف طور پر کہا ہے کہ ‘کسی کو بھی جبراً یا لازمی طور پر کام  کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائےگا۔’

تبدیلی  کی کوئی خواہش  ہی نہیں

چونکہ جیل‘ریاست’ کاموضوع ہے، اس لیے ماڈل جیل ضابطہ میں تبدیلیوں کی ان سفارشات کونافذ کرنا پوری طرح سے ریاستوں پر ہے۔مختلف ریاستوں کے موجودہ جیل ضابطوں  میں دقتوں کو قبول کرتے ہوئے ماڈل جیل ضابطہ کہتا ہے،‘جیلوں میں کاسٹ یا مذہب کی بنیاد پر رسوئی گھر کاانتظام یا کھانا پکانا پوری طرح سے بین رہےگا۔’

اسی طرح سے ماڈل ضابطہ کاسٹ  اورمذہب کی بنیادپر کسی قیدی کے ساتھ کسی طرح کے ‘خصوصی سلوک ’ کو بین کرتا ہے۔ اصل میں ماڈل جیل ضابطہ‘کاسٹ  اورمذہب کی بنیادپر مانگ رکھنے یا کام کرنے کو قابل سزا جرم قرار دیتا ہے۔ لیکن اس ضابطہ کو نافذ کرنے کی جہت میں شاید ہی کچھ کیا گیا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ریاست کے جیل شعبوں  نے ضابطے کی کتابوں سے غیرانسانی  اور غیر آئینی روایات کو ہٹایا نہیں ہے۔ گوا، دہلی، مہارشٹر اور اڑیسہ  نے ایسا کیا ہے۔

انہوں نے یہ خاص طور پر یہ لکھا ہے کہ جیلوں کے آپریشن میں ذات پات کی  کوئی اہمیت  نہیں ہوگی۔ گزرتے وقتوں  میں سزا دینے کے لیے پاؤں میں بیڑیاں باندھنے یا چابک مارنے جیسے کئی غیر انسانی روایات کو ختم  کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح سے کچھ ریاستیں جیلوں میں کاسٹ کے لحاظ سے پیشوں کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

لیکن کیا اس نے کاسٹ سسٹم کو پوری طرح سے ختم کر دیا؟ ایک سابق قیدی للتا* اس کا جواب ‘نفی’ میں  دیتی ہیں۔سال 2010 اور 2017 کے بیچ للتا نےممبئی اور مہاراشٹر میں کئی معاملوں کا سامنا کیا۔ ان کی قید کا زیادہ تر عرصہ  خاتون جیل  میں گزار۔

انہیں وقت وقت پر دوسری جیلوں میں بھی لے جایا گیا۔ اس آنے جانے اور دوسرے قیدیوں اور جیل حکام سے بات چیت  نے انہیں جیل سسٹم  کو اس کی پوری پیچیدگی کے ساتھ سمجھنے کا موقع دیا۔مرد قیدیوں کے برعکس خاتون  قیدیوں کی تعداد کم ہوتی ہے، اس لیے ان کے لیےدستیاب اہتمام  بھی کم ہوتے ہیں۔

للتا جیل میں اپنے اور اپنے ساتھی قیدیوں کے لیے بنیادی حقوق  اور عزت کی مانگ کرنے والوں میں سے تھیں۔ اس لیے جب خاتون قیدیوں نے اچھی غذا اور انڈا مرغا میٹ کی مہینے میں زیادہ فراہمی  کی مانگ کو لےکر جیل حکام کے خلاف احتجاج کیا، تو للتا ان میں سب سے آگے تھی۔

جیل ضابطوں  کی تعداد کافی زیادہ ہے اور جیل حکام  ہر بار ان کا استعمال قیدیوں اور ان کے قانونی نمائندوں کی جانب سے کسی دخل اندازی  کو روکنے کے لیے کرتے ہیں۔لیکن قیدیوں کی بات تو جانے ہی دیجیے،یہ سرکاری  دستاویزعام لوگوں کے لیے بھی شاید ہی کبھی دستیاب  ہوتے ہیں۔

للتا کہتی ہیں،‘ایک جانکاری رکھنے والے قیدی کے ذریعے اپنے حقوق  کی مانگ کرنے سے زیادہ خطرناک کچھ نہیں ہے۔’احمد للتا سے اتفاق رکھتے ہیں۔

ترمیم شدہ ضابطوں  کی عدم دستیابی  کوسمجھاتے ہوئے اکیڈمی آف پریزنس اینڈ کریکشنل ایڈمنسٹریشن، ویلور کے پروفیسر اورسینئرفیکلٹی بیلواہ امینئیل کہتے ہیں کہ تبدیلیوں کے ضابطوں میں جگہ پانے میں اوسطاً کم سے کم 15 سال کاعرصہ لگتا ہے۔

امینئیل آگے کہتے ہیں،‘ہر بار جب ریاستی سرکار اس ضابطہ میں کوئی تبدیلی لاتی ہے، اسے صرف سرکاری سطح پر لکھ لیا جاتا ہے۔’جیل ضابطہ میں تبدیلی15سالوں میں ایک بار اس کی  دوبارہ اشاعت(ری پرنٹ)ہونے پر ہی دکھائی دیتی ہے۔تمام ترمیمات کا ایک جگہ مل پانا عملی طور پر لگ بھگ ناممکن  ہے۔’

کئی دہائیوں سے قیدیوں کے حقوق  پر کام کر رہی سی ایچ آرآئی بھی ترمیم شدہ  جیل ضابطوں کو مرتب  کرنے کی اپنی کوشش میں ناکام رہی ہے۔

سی ایچ آرآئی کی سینئر پروگرام آفیسر سگندھا شنکر کہتی ہیں،‘صرف 10 کے قریب ریاستوں کے جیل ضابطوں/اصول ہی ریاست کی جیل ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ دوسری ریاستوں کے ترمیم شدہ ضابطوں  کی کاپی حاصل کر پانا بے حدمشکل  ہے۔ ہمارا تجربہ ہے کہ قیدیوں کے لیے بھی جیل ضابطہ  حاصل کر پانا کافی چیلنجنگ ہے۔مثالی طور پر ہر جیل لائبریری میں ضابطے کی ایک کاپی لازمی طور پر ہونی چاہیے۔’

ہرقانون سے اوپر ایک سادھوی کی کہانی

للتا کہتی ہیں کہ مہاراشٹر میں غیر تحریری کاسٹ سسٹم  کافی مروج  ہیں۔ جب وہ  بائیکلا جیل میں تھیں، اسی وقت نارتھ  مہاراشٹر کے مالیگاؤں میں2008 میں ہوئے بم دھماکے کی کلیدی ملزم  پر گیہ سنگھ ٹھاکر بھی اسی جیل میں تھیں۔

سال2017 میں رہائی کے بعد ٹھاکر کو بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل کر لیا گیا اور بعد میں2019 میں وہ بھوپال سے لوک سبھا کی ایم پی  چنی گئیں۔اپنی گرفتاری کے وقت وہ  ایک خودساختہ  دھرم گرو تھیں۔ لیکن اس سچائی نے  جیل میں انہیں اثر ورسوخ بڑھانے اور جیل حکام کو متاثر کرنے سے نہیں روکا۔

ٹھاکر کو تین‘الگ کوٹھریوں’ میں سے ایک میں رکھا گیا تھا۔ یہ پرائیویسی کی خواہش رکھنے والے مالدار اور بااثر لوگوں  کے لیے‘وی آئی پی سیل’کے طور پر بھی کام کرتا ہے اور غلطی کرنے والے قیدی کے لیےٹارچر روم یا کال کوٹھری کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔

ان کی الگ کوٹھری کے باہر تین دیگرزیر سماعت  قیدیوں کو ان کی‘خادمہ’ کے طور پر تعینات کیا گیا تھا جن کا کام صرف ٹھاکر کے احکامات پر عمل کرنا تھا۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/د ی وائر)

ایک زیر سماعت  قیدی، جو ٹھاکر یعنی کشتریہ کمیونٹی  سے ہی تھی، کو ان کے کھانے پینے کا خیال رکھنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ ٹھاکر کے ذریعے جیل حکام کو  ان کے کھانے میں کیڑے اور انڈے کے ٹکڑے ملنے کی شکایت کے بعد ٹرائل کورٹ نے ٹھاکر کو گھر کا پکا کھانے کی اجازت دے تھی۔

ان کا ایک رشتہ دار بھگوان جھا ہر دن گجرات کے سورت سے 280 کیلومیٹر کا سفرکرکے بڑا ٹفن کیریر لےکر جیل آتا تھا۔ گھر کا پکا ہوا تازہ کھانا ہر دن صبح ہونے سے پہلے ہی جیل پہنچ جاتا تھا۔

خادمہ  کا کام جیل دفتر سے ٹفن  لےکر آنا اور ٹھاکر کو دن میں تین بار کھانا کھلانا تھا۔ اسی طرح سے جاٹ کمیونٹی  کی ایک دیگرخاتون  کو ٹھاکر کا ‘باڈی گارڈ ’بحال کیا گیا تھا۔ وہ ڈرگ کی مبینہ  کاروباری تھی۔ ایک مقامی  دلت خاتون ان کاٹوائلٹ صاف کرتی تھی۔

پر گیہ کے مذہب اور کاسٹ سسٹم  میں ان کی کاسٹ کا درجہ اور ان کے سیاسی اثرو رسوخ نے جیل میں ان کے اور ان کی خدمت کرنے والوں کی جگہ طے کی۔ پر گیہ  نے ان خدمات  کی مانگ کچھ ایسے کی جیسے یہ ان کا قانونی حق  ہو اور سرکار اس کے لیے راضی بھی ہو گئی۔

للتا کہتی ہیں،‘یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی تھی کہ جیل ضابطہ ایسی رعایتوں کی اجازت دیتی ہے یا نہیں! معنی یہ رکھتا ہے کہ یہ سب نہ صرف ہوا، بلکہ جیل حکام  کے مکمل علم میں ہوا۔’کئی دوسرے سابق قیدیوں نے بھی، جو اسی وقت جیل میں تھے، اس بات کی تصدیق کی ہے۔

مہاراشٹر کے 60 ڈسٹرکٹ اور سینٹرل  جیلوں میں، بائیکلا جیل زیر سماعت خاتون  قیدیوں کے لیے بنی جیل ہے، جس میں 262 قیدیوں کی جگہ ہے۔ لیکن کسی بھی وقت زیر سماعت قیدیوں کی تعداد اس کی صلاحیت  سے کہیں زیادہ رہتی ہے۔

کچھ قصوروار قیدیوں کے علاوہ، جو روزانہ کے کاموں کو کرنے کے لیے یہاں خاص طور پر رکھے گئے ہیں، زیادہ ترمحنت کا کام زیر سماعت قیدیوں کو کرنا پڑتا ہے۔ان میں سب سے زیادہ غیر محفوظ حالت بنگلہ بولنے والی  مسلم خواتین  کی ہے، جو بغیرمناسب دستاویز کے، پڑوسی بنگلہ دیش سے آئی مہاجر ہونے کے الزام  میں جیل میں ڈال دی جاتی ہیں۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/د ی وائر)

جب کسی شخص کو گرفتار کیا جاتا ہے، تب باہری دنیا اکثر پولیس کی  کارروائی کے ڈر سے ان سے رابطہ توڑ لیتی ہے۔ممبئی کے رے روڈ علاقے میں گھریلو  کام کرنےوالی نورجہاں منڈل* سے بائیکلا جیل میں ان کے چار مہینے کے رہنے کے دوران کوئی بھی ملنے نہیں آیا۔

بنگلہ دیش کی سرحد پرمغربی  بنگال کے ایک شہر کی دلت مسلم منڈل کہتی ہیں،‘میری فیملی اتنی  ڈری  ہوئی  تھی کہ انہوں نے مجھ سے اس دوران نہ کوئی رابطہ  کیا نہ ہی مجھے کوئی منی آرڈر بھیجا۔ میرے پاس بھوکے ہونے پر تھوڑا بہت ناشتہ خرید لینے کا بھی پیسہ نہیں ہوتا تھا۔ میں اپنا کام چلانے کے لیے جیل میں بدترین   کام کرتی تھی۔’

وہ جھاڑو پوچھا لگایا کرتی تھیں اور بزرگ قیدیوں کی نہانے میں مدد کرتی تھیں۔ اس کے بدلے میں انہیں کینٹین کے کچھ کوپن مل جاتے تھے۔ممبئی میٹروپولیٹن حلقہ میں ان آرگنائزڈ پانچ جیلوں میں کئی بنگلہ  بولنے والے مسلمان تھوڑے سے پیسے یا کھانے کی چیزوں  کے لیے اسی طرح کے کام کرتے ہیں۔

للتا کو لگتا ہے کہ ‘کاسٹ  اور غریبی دونوں ہی یہاں بنیادی عوامل  ہیں۔ آپ جیل میں کسی غریب برہمن خاتون  کو کبھی بھی اس طرح کی مایوس کن حالت  میں نہیں دیکھیں گے۔ ہندوستان  کے اقتدار اور سماج، دونوں ہی ان کی مدد کرنے کے لیے بنے ہوئے ہیں۔ یہ چیزیں دوسروں کے لیے نہیں ہیں۔’

کاسٹ کے لحاظ سے ایک جیل کا نقشہ

سال 1994 کی گرمیوں میں تمل ناڈو کے ایک گاؤں کے مندر میں ہوئے خاندانی  جھگڑے نے ایک عام  سے بحث ومباحثہ سے  بڑھ کر پرتشدد صورت اختیار کر لیا، جس میں ایک نوجوان کی موت ہو گئی۔تب تقریباً25 سالہ سیلوم* نو لوگوں کے ذریعے کئے گئے اس جان لیوا حملے میں شامل تھے۔ انہوں نے جلدی ہی ایک مقامی  پولیس کے سامنے سرینڈر کر دیا۔

یہ پہلی بار تھا جب سیلوم کسی جرم  میں شامل تھے۔ ایک مقامی جیل میں کچھ دن بتانے کے بعد انہیں ترنیویلی کے پلایمکوٹئی سینٹرل جیل  میں منتقل کر دیا گیا۔وہ یاد کرتے ہیں،‘میں وہاں 75 دن کے آس پاس رہا۔کسی  بھی جیل  کی بناوٹ کی طرح اس جیل میں بھی کئی وارڈ اور سیل تھے۔ مجھے ‘کورنٹائن وارڈ 2’ میں رکھا گیا تھا۔’

تمل ناڈو میں کورنٹائن زیر سماعت قیدیوں کے لیےاستعمال کی جانے والی  ایک مقامی اصطلاح  ہے۔ چار سال بعد سیلوم کو مجرم قرار دیا گیا اور سزادی گئی۔سال 1998 کے وسط میں انہیں ایک بار پھر جیل بھیج دیا گیا۔ وہ بتاتے ہیں،‘اب جیل ایک الگ جگہ تھی۔ وارڈوں کا نیا نیا نام کاسٹ کے لحاظ سےرکھا گیا تھا۔زیر سماعت سیل میں تھیور، نادر، پالر سب کا اپنے لیے الگ حصہ تھا۔’

سیلوم کولر یا لوہار کمیونٹی سے تھے، جو تمل ناڈو میں تعداد کے حساب سے ایک چھوٹی کمیونٹی  ہے۔ ان کے مطابق،‘جیل حکام  نے کچھ کمیونٹی  کی پہچان فساد کرنے والی کمیونٹی  کے طور پر کی تھی اور انہیں الگ الگ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ باقی سب کو ان کی کاسٹ  کے آرڈر کے حساب سے رکھا گیا تھا۔’

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/د ی وائر)

ان بیرکوں کی تعمیر کاسٹ  کے لحاظ سے  کی گئی  ہے۔ تھیور ویسے تو اوبی سی  سے آتے ہیں، لیکن جنوبی  تمل ناڈو کے علاقوں  میں ان کا دبدبہ ہے۔ انہیں جیل کینٹین، لائبریری اور اسپتال کے قریب رکھا جاتا ہے۔ اس کے آگے نادر بلاک ہے (یہ بھی او بی سی ہے)سب سے دور پالر بلاک ہے، جس میں دلت قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔

لیکن یہ روایت بنیادی طور پر پری ٹرائل سیل  تک ہی محدود رہی ہے اورقصوروار قیدیوں میں یہ نظام  اتناسخت نہیں ہے۔ اس کی  ایک ممکنہ وجہ مجرم قیدیوں کے مقابلےزیر سماعت قیدیوں کی عدلیہ تک نسبتاً زیادہ پہنچ ہے۔

چلڈرین  قیدیوں کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم  گلوبل نیٹ ورک فار اکویلٹی کے بانی  اور ایڈووکیٹ کے آر راجہ کہتے ہیں،‘جیلوں میں جیل حکام  قیدیوں کے ساتھ بہت سختی سے پیش آتے ہیں۔ لیکن،زیر سماعت  قیدیوں پر ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کو لےکر جیل حکام ہوشیاررہ سکتے ہیں، کیونکہ ان کے کورٹ میں عرضی  دائر کرنے کاامکان  سب سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف مجرم قیدیوں  کے لیے کورٹ کا دروازہ کھٹ کھٹانا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے اور جیل حکام  کو لگتا ہے کہ انہیں زیادہ اثردار طریقے سے قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ آئسولیشن(الگ الگ کرنے)ضابطہ  میں فرق کی یہ وجہ  ہے۔’

ایک ٹرینڈ کاؤنسلر راجہ نے پلایمکوٹئی جیل میں چھ سال سے زیادہ عرصہ تک کام کیا ہے۔ وہ مختلف بیرکوں کے قیدیوں سے ملاقات کرکے جیل کی پریشانیوں  کا سامنا کرنے میں ان کی مدد کرتے تھے۔

راجہ نے پلایمکوٹئی جیل کی بناوٹ کا کافی قریبی مطالعہ کیا ہے۔ وہ  جیل میں ہونے والی تبدیلیوں کو جیل کے باہر کی دنیا میں اس دوران ہونے والی تبدیلیوں سے جوڑتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،‘آخر جیلیں بھی باہر کے سماج کا عکس ہی ہیں۔’

نوےکی دہائی  کے وسط میں تمل ناڈو،بالخصوص ریاست کےجنوبی  ضلع دلت کمیونٹی  کے خلاف ریاست کے سب سے بدترین نسلی تشدد کے گواہ بنی۔

جون،1997 میں مدرئی ضلع کے میلاوالاوو گاؤں میں اچھی خاصی تعداد والےاوبی سی  کے تھیوروں نے گرام پریشد کے الیکشن  کے بعد دلت کمیونٹی  کے چھ رہنماؤں کو مار ڈالا تھا۔

راجہ بتاتے ہیں،‘توتھوکڈی، ترنیویلی، مدرئی اور دھرم پوری علاقے میں حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ریاستی حکومت کے لیے بااثر کمیونٹی پرقابو پانا مشکل ہو رہا تھا اور بنا زیادغور کیےہوئے انہوں نے جیل میں بند قیدیوں کو کاسٹ کی بنیاد پر الگ الگ کرنے کا فیصلہ کیا۔’

یہ روایت  ایک دہائی  سے زیادہ وقت تک بغیر کسی عوامی مخالفت کے چلتی رہی۔ 2011 میں مدراس ہائی کورٹ کی مدرئی بنچ میں پریکٹس کر رہے ایڈوکیٹ آر الگمنی نے اس کو لےکر ایک عرضی  دائر کی۔

الگمنی کہتے ہیں،‘چونکہ میں اپنے موکلوں کے ساتھ براہ راست بات چیت  کرنے کو ترجیح دیتا ہوں، اس لیے اکثر جیل جایا کرتا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں جب پہلی بار مرگن نام کے ایک قیدی سے ملنے کے لیے پلایمکوٹئی جیل میں گیا۔ میرے پاس کافی کم جانکاری  تھی اور میں یہ امید کر رہا تھا کہ جیل کا گارڈ صحیح آدمی  کو ڈھونڈپائےگا۔ جب میں نے مرگن کا ذکر کیاتو گارڈ نے مجھ سے اس  کی کاسٹ بتانے کے لیے کہا۔ میں حیران رہ گیا۔ مجھے مرگن کے کاسٹ کی جانکاری نہیں تھی، اس لیے اس کو تلاش کرنے میں گارڈ میری مدد نہیں کر پایا۔ اس وقت میں نے یہ محسوس کیا کہ پلایمکوٹئی میں ایک قیدی سے ملنے کے لیے اس کا نام اور اس کی کیس ہسٹری ہی کافی نہیں ہے۔ آپ کو اس کی کاسٹ  کی بھی جانکاری ہونی چاہیے۔’

یہ روایت  غیر آئینی تھی، لیکن کئی سالوں کے دوران اس کی حیثیت ادارہ جاتی ہو گئی تھا۔ الگمنی نے ہائی کورٹ  میں اس کو چیلنج  دینے کا فیصلہ کیا۔ انہیں اس بات کی امید تھی کہ کورٹ اس پر نوٹس لےگا اور اس میں فوراً دخل اندازی  کی جائےگی۔

الگمنی کہتے ہیں،‘لیکن اس کی جگہ جیل حکام نے اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ایسے قیدیوں کو الگ تھلگ کرنا ہی جیل میں نظم و نسق  بنائے رکھنے کا واحد راستہ ہے۔ کورٹ نے حلف نامہ قبول  کر لیا اور معاملہ ختم ہو گیا۔’

اس کے ساتھ ہی ایک تقسیم کاری کام  کو سماج میں امن وامان  بنائے رکھنے کے واحد‘قابل قبول  طریقے’ کے طور پر منظوری  دے دی گئی۔الگمنی کی دلیل ہے کہ یہ سہولت  کا معاملہ زیادہ ہے۔ وہ پوچھتے ہیں،‘کیا حکومت ہند جیل کے باہر ایسی پالیسی  اور تفریق  کو جائز ٹھہرا سکتی ہے؟ اگر نہیں،تو یہ جیلوں کے اندر جائز کیسے ہے؟’

حالانکہ، پلایمکوٹئی کی روایت  کے بارے میں کافی لوگوں کو پتہ ہے، لیکن حقیقت میں نسلی امتیاز کودوسرے اضلاع میں بھی دیکھا جاتا ہے۔بنیادی  طور پر تمل ناڈو کے جنوبی علاقے میں۔مثال کے لیے مدرئی سینٹرل  جیل میں نہ صرف امتیاز کی روایت  ہے، بلکہ اس پر ذات کے لحاظ سے کام کی تقسیم کا بھی الزام  ہے۔

یہاں کے جیل حکام  صفائی کا کام صرف دلت کمیونٹی  کو دینے کے لیے بدنام  ہیں۔ اس روایت  کے خلاف بھی الگمنی کی جانب سے  دائر کی گئی ایک عرضی  مدرئی بنچ کے سامنےزیر التوا ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادو شمار نے مستقل  طریقے سے ہندوستانی جیلوں میں ایس سی ، ایس  ٹی  اور اوبی سی  کی اوسط سے زیادہ نمائندگی کو نشان زد کیا ہے۔ لیکن کچھ کاسٹ مخالف تنظیموں  اور الگمنی اور راجہ جیسے کچھ وکیلوں کو چھوڑکر زیادہ ترہیومن رائٹس گروپس  نےہندوستان  کے جیل سسٹم  میں کاسٹ  کی حقیقت کو نظر انداز کیا ہے۔

ریسرح اور پیروکاری مہم کی توجہ بنیادی  طور پر ظاہری خلاف ورزیوں  پر رہی ہے۔ ذات کی بنیاد پر امتیاز اورتفریق  جیسے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی روایات ان کے ڈسکورس کا حصہ نہیں بنتی ہیں۔واڈیکر کہتی ہیں کہ یہ بااثر عہدوں  پر حاشیے کے لوگوں  کےنمائندگی کے شدیدبحران  کی علامت  ہے۔

واڈیکر کہتی ہیں،‘ہندوستان  میں قیدیوں کے لگ بھگ تمام حقوق کی تنظیموں  اور اکادمیوں نے کاسٹ  کے مسئلے کو ان دیکھا کیا ہے۔ وہ اسے اٹھاتے بھی ہیں، تو ضمیمہ  کے طور پر، نہ کہ موضوع کے لازمی  حصہ کے طور پر۔ قیدیوں کے حقوق کے ڈسکورس  سے کاسٹ  کو جبراً باہر کرنا،غیر اخلاقی ہے۔’

ان کا سوال ہے کہ جیلوں اور اس کے سسٹم کے ارد گرد مقبول ڈسکورس سے کاسٹ  کے اس طرح ظاہری  طور پر ندارد رہنے کی آخر اور کس طرح سے تشریح  کی جا سکتی ہے؟

* تبدیل شدہ  نام۔

(اپنی لائبریری اور جیل ضابطوں  کے مجموعوں  کے  استعمال کی اجازت  دینے کے لیے ہم سی ایچ آرآئی کے شکر گزار ہیں۔ ایڈوکیٹ کے آر راجہ کے تمل ناڈو میں سابق  قیدیوں کے انٹرویو کاانتظام  کرنے اور ان کا تمل سے انگریزی میں ترجمہ  کرنے کے لیے ہم ان کے بھی ممنون  ہیں۔)

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)