اقلیتوں کے معاملے میں دونوں طرف کے لیڈران ، سیاسی پارٹیاں اور حکومتیں مخلص نظر نہیں آتی ہیں۔ دونوں طرف سے محض بیان بازیاں ہوتی ہیں۔ اور ان بیان بازیوں کا مقصد وقتی طور پر سیاسی فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان (السٹریشن: دی وائر)
گزشتہ دنوں ہریانہ اور پاکستان کے سندھ سے ایک دن کے وقفے سے دو خبریں آئیں۔ دونوں خبروں میں مماثلت اس طرح ہے کہ دونوں ہی جگہ مذہبی اقلیت غیر سماجی عناصر کے نشانے پر تھی اور دونوں ہی جگہ پولیس، مقامی انتظامیہ، حکومت اور میڈیا کے رویہ پر سوال اٹھا۔21مارچ کو
ہریانہ کے شہر گروگرام میں چند غنڈہ صفت لوگ جن کی تعداد 25 سے 30 تک بتائی جاتی ہے ایک گھر میں گھس گئے اور گھر کے مکینوں کی لاٹھی، ڈنڈوں اور لوہے کی راڈ سے پٹائی شروع کر دی۔ حملہ آوروں نے عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشا۔ اس حملے کا ویڈیو دیکھئے تو دل دہل جاتا ہے۔ ملک کے جو حالات ہیں اور حاکم وقت نے جو ماحول بنا رکھا ہے اس کے نتیجے میں ایسا واقعہ کسی کے ساتھ کہیں بھی پیش آسکتا ہے۔
پولیس نے شروع سے اس کو غنڈہ گردی کا عام سا واقعہ بتا کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی مگر جب معاملے نے طول پکڑا تو پولیس کو حرکت میں آنا پڑا اور چند گرفتاریاں ہوئیں۔ ہندی اخبارات بھی حملہ آوروں کے دفاع میں آگئے اور اسے”دو گُٹوں” کا تنازعہ کہنے لگے۔ اس کے باوجود یہ حقیقت دبائی نہیں جا سکی کہ یہ معاملہ نہ صرف فرقہ وارانہ تھا بلکہ ہیٹ کرائم کا بھی تھا۔
جس خاندان پر حملہ ہوا وہ مسلمان ہے اور بائیک پر سوار ہو کر آئے جن لوگوں نے حملہ کیا انہوں نے ان کے مذہب کو بھی نشانہ بنایا۔ حملے سے پہلے گھر کے باہر کھیل رہے بچوں کو مبینہ طور پر یہ کہہ کر ٹوکا کہ کرکٹ کھیلنا ہے تو پاکستان جاکر کھیلو۔ گھر کے بڑے نے جب مداخلت کی تو اسے تھپڑ مارا اور تھوڑی دیر بعد ایک بھیڑ لے کر آئے اور گھر کے مکینوں پر حملہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ “ملّوں نے یہاں محل بنا لیا ہے”۔
جس گھر پر حملہ ہوا اسے امروہہ سے آئے ہوئے ایک مسلمان کاروباری نے چند سال قبل ہی تعمیر کیا ہے۔ چاروں طرف ہندو آبادی ہے۔ اس ایک مسلمان خاندان کے علاوہ اس گاؤں میں مزید دو چار گھر مسلمان ہیں۔ حملہ آوروں نے کیا سوچ کر یہ حرکت کی ہوگی سمجھنا مشکل نہیں۔ نہ ہی یہ سمجھنا کہ کس کی شہ پر اتنی تواتر سے ایسی حرکتیں انجام دی جارہی ہیں۔
اس خبر کے ساتھ ہی
ایک خبر پاکستان کی ریاست سندھ سے آئی۔
وہاں دو ہندو بچیوں کو جن کی عمریں تیرہ اور پندرہ سال بتائی جاتی ہیں کو اغوا کیا گیا، پھر انھیں مسلمان بنایا گیا اور دو لوگوں سے ان کا نکاح کروا دیا گیا۔یہاں بھی وہی ہوا۔ پولیس اور مقامی انتظامیہ معاملے کو دبانے میں لگ گئی۔ مقامی اخبارات بھی لیپا پوتی میں لگ گئے۔ یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ اغوا شدہ لڑکیاں بالغ ہیں۔ اگر بالغ بھی ہیں تو کیا ایسی حرکت بجا ہے؟ کیا گزرے گی ہم پر اگر یہی حرکت ہمارے گھر کی بچیوں کے ساتھ ہو۔
دوسری خبر پر وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایک ٹوئٹ کے ذریعہ اپنی بے چینی کا اظہار کیا۔سشما سوراج بی جے پی کی سنجیدہ لیڈروں میں شمار ہوتی ہیں۔ وہ اس قسم کے عوامی مسائل میں دلچسپ لیتی رہتی ہیں جو قابل ستائش ہے۔ کاش کہ انہوں نے ایسی سنجیدگی کا مظاہرہ ہریانہ کی خبر پر بھی کیا ہوتا۔ قابل ذکر ہے کہ ہریانہ کے واقعہ پر ان کی حکومت یا پارٹی کا کوئی رد عمل تاحال نہیں آیا ہے۔
خیر، سشما سوراج کی تشویش کا ایک ٹکا سا جواب فوراً ہی پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری کا آگیا کہ یہ ان کے ملک کا داخلی معاملہ ہے، اور یہ کہ پہلے ہندوستان گجرات اور کشمیر کے لوگوں کی فکر کرے۔ ہماری وزیر موصوف دباؤ میں آگیں۔ گھبرا کر کہا نہیں، نہیں یہ بیان پاکستان کے لئے نہیں بلکہ اسلام آباد میں مقیم ہندوستان ہائی کمشنر سے معاملہ کی تفصیل جاننے کے لئے تھا۔
سشما سوراج کی گھبراہٹ سمجھ میں نہیں آئی۔ جب تشویش ظاہر کی تھی تو اس پر قائم رہنا چاہیے تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ ہوئی، وہ بھی پاکستان میں، اس حرکت پر گریراج سنگھ اور یوگی آدتیہ ناتھ جیسوں نے بھی کچھ کہنے سے گریز کیا۔ بلکہ پورا سنگھ پریوار جو کہ پاکستان اور مسلمانوں کو لعنت و ملامت کرتا رہتا ہے اور تاک میں رہتا ہے کہ کس بہانے سے پاکستان پر حملہ کیا جائے اس معاملے کو پی گیا۔
غور کیجئے تو اقلیتوں کے معاملے میں دونوں طرف کے لیڈران ، سیاسی پارٹیاں اور حکومتیں مخلص نظر نہیں آتی ہیں۔ دونوں طرف سے محض بیان بازیاں ہوتی ہیں۔ اور ان بیان بازیوں کا مقصد وقتی طور پر سیاسی فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ اقلیتوں کا حال جاننے میں دلچسپی کسی کی نہیں ہوتی ہے۔ جبکہ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو ایک دوسرے کی اقلیتوں کے بارے میں پوچھنے کا حق حاصل ہے۔
یہ حق انھیں نہرو-لیاقت معاہدہ کے تحت ملتا ہے جس پر جواہر لعل نہرو اور لیاقت علی خان نے 1950، یعنی آزادی کے صرف تین سال بعد، دستخط کیا تھا۔ اس معاہدہ کے ذریعہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے ایک دوسرے کو اپنے یہاں موجود اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت دی تھی۔ کچھ ایسی ہی ضمانت 1973 میں اندرا گاندھی اور ذو الفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدہ کے ذریعہ ایک دوسرے کو دی تھی۔
پاکستان میں ہندو اقلیت کی آبادی ہندوستان کی مسلمان آبادی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ 2017کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ ہے۔ اس میں ہندوؤں کی آبادی 36 لاکھ یعنی کل آبادی کا ایک اعشاریہ چھ فی صد ہے۔ یہ آبادی تقسیم کے وقت کافی زیادہ تھی جو دو وجہوں سے گھٹتی گئی۔ پہلی وجہ تو مسلسل نقل مکانی۔ پچاس، ساٹھہ اور ستر کی دہائی میں مغربی پنچاب سے ہندو ہندوستان کی طرف کوچ کرتے رہے۔ دوسری وجہ بنگلہ دیش کا قیام تھا۔ پاکستان کی اصل ہندو آبادی مشرقی پاکستان میں تھی۔ 1971 میں بنگلہ دیش بننے کے بعد وہ سارے ہندو بنگلہ دیشی کہلانے لگے۔
اس وقت پاکستان میں ہندو آبادی سندھ تک سمٹی ہوئی ہے۔ ان کی غالب اکثریت غریب اور نچلے طبقے کی ہے۔ مسلمان وڈیرے ان کا استحصال کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ ہندوستان اور باقی دنیا میں ہوتا ہے مقامی انتظامیہ اور پولیس اور اخبار والے پیسے والوں کا ساتھ دیتے ہیں اور ان کی زیادتیوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔ ہندو بچیوں کے اغوا کا معاملہ اسی روش کی ایک تازہ مثال ہے۔ سشما سوراج نے اس پر تشویش کا اظہار کرکے کچھ غلط نہیں کیا تھا۔ ان کی اصل غلطی پاکستانی وزیر کے جواب میں ان کا دفاعی طرز عمل تھا۔
ہندو بچیوں کا اغوا انسانی حقوق سے جڑا معاملہ تھا۔ سشما سوراج کے ذریعہ ایک اچھی روایت قائم ہوتے ہوتے رہ گئی۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی ابتدائی دنوں میں مبنی بر حق ہوا کرتی تھی۔ اسی کے نتیجے میں ہندوستان نے فلسطینیوں کا ساتھ دیا تھا۔ ساؤتھ افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی قیادت میں سیاہ فام لوگوں کی حمایت کی تھی۔ پاکستان کے ہندوؤں کے لئے بولنے کا تو ہمارے پاس حق موجود ہے۔ ایسا ہی حق پاکستان کو ہندوستانی مسلمانوں پر بولنے کا حاصل ہے۔ مگر جب بھی ایک دوسرے پر سوال سوال اٹھتا ہے دونوں طرف سے ایک ہی جیسا جواب آتا ہے: یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے۔ اگر داخلی تھا تو معاہدہ کیوں کیا۔ اور جب کیا تھا تو اب اسے ٹھنڈے بستے میں کیوں ڈال رکھا ہے؟