اکستان نے 27 اگست سے ہندوستان کے ساتھ ڈاک خدمات پر یکطرفہ روک لگائی ہوئی ہے۔ مرکزی وزیر روی شنکر پرساد کا کہنا ہے کہ پاکستان نے یہ قدم ہندوستان کو بنا کسی پیشگی اطلاع کے اٹھایا ہے۔
مرکزی وزیر روی شنکر پرساد (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: ہندوستان نے پاکستان کے ذریعے یکطرفہ طریقے سے دونوں ممالک کےدرمیان ڈاک میل خدمات بند کرنے کو لےکر پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے کہا کہ پاکستان نے کوئی پیشگی اطلاع دئےبغیر ہندوستان کو ڈاک محکمے کے خط بھیجنا بند کر دیا ہے۔ پرساد نے پاکستان کے اس قدم کو بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئےکہا کہ پاکستان نے یہ قدم ہندوستان کو بنا کسی پیشگی اطلاع کے اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘پاکستان کا یہ فیصلہ بین الاقوامی معاہدے (ورلڈ پوسٹ یونین کے ضوابط)کی خلاف ورزی ہے، لیکن پاکستان تو پاکستان ہے۔ ‘
ستمبر کے آخری ہفتے میں آئی
میڈیا رپورٹس کے مطابق ہندوستانی ڈاک محکمے کےڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اجئے کمار رائے کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ پاک کےکسٹم محکمے نے 23 اگست کو اپنے ایک حکم میں ڈاک کی آمد ورفت پر روک لگائی تھی۔یہ یکطرفہ حکم 27 اگست سے نافذ ہوا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پاکستان سے آنے والی ڈاک سعودیہ عربیہ ایئر لائنس کے ذریعے ہندوستان بھیجی جایا کرتی تھی۔ غور طلب ہے کہ تقسیم، ہند وپاک جنگ، سرحد پر چل رہی کشیدگی وغیرہ کےدرمیان بھی کبھی پاکستان نے ڈاک خدمات پر روک نہیں لگائی تھی۔ پاکستان کا یہ قدم جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتمام ہٹاکر اس کا خصوصی درجہ ختم کر کے دو یونین ٹریٹری میں بانٹنے کے مودی حکومت کے فیصلے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
تقریباً ڈیڑھ مہینے سے زیادہ وقت سے لگی اس روککے بعد ہندوستانی افسروں کو بھی پاکستان جانے کے لئے آئی ڈاک کو ‘ ہولڈ ‘ پر رکھنا پڑ رہا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پوسٹل سروس (میل اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ)،دہلی کے ڈائریکٹر آروی چودھری نے بتایا، ‘یہ ان کی طرف سے کیا گیا یکطرفہ فیصلہ تھا۔ یہ پہلی بار ہے جب انہوں نے ایسا قدم اٹھایا ہے ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ یہ حکم کب ہٹےگا۔ ‘ملک بھرکے 28 ڈاکخانے کو ہی انٹرنیشنل کنسائنمنٹ لینے-دینے کی اجازت ہے، لیکن پاکستان سے آنے-جانے والی ڈاک پر صرف دہلی اور ممبئی کے غیر ملکی ڈاکخانہ (ایف پی او) میں کام ہوتا ہے۔
جہاں دہلی کے کوٹلہ شاہراہ پر بنا ایف پی او چھ ریاستوں-راجستھان، اترپردیش، دہلی، ہریانہ، پنجاب اور ہماچل پردیش کے کنسائنمنٹ کے لئے نوڈل ایجنسی کےطور پر کام کرتا ہے، وہیں ممبئی ایف پی او جموں و کشمیر کے علاوہ پورے ملک کے لئےایکس چنج آفس کا کام کرتا ہے۔ دہلی ایف پی او کے سپرٹنڈنٹ ستیش کمار نے اس اخبار کو بتایا، ‘پاکستان کوڈاک زیادہ تر یہیں سے جاتی ہے اور ان میں بھی زیادہ تر پنجاب اور جموں و کشمیر سےہوتے ہیں۔ اس میں زیادہ تر اکادمک اور ادبی ڈاک ہی ہوتی ہے۔
ستمبر میں
خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس سے بات کرتے ہوئے ہند و پاک کےدرمیان امن کے لئے کام کرنے والے کارکن چنچل منوہر سنگھ نے اس جانب توجہ مبذول کرائی تھی۔ ہند و پاک کے درمیان کئی وفد میں شامل رہے سنگھ نے ڈاک خدمات رکنے کوانسانی حقوق کی خلاف ورزی بتایا اور جلد سے جلد یہ پابندی ہٹانے کی مانگ کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا، ‘یہ ہندوستان کی ادبی دنیا کے لئے جھٹکا ہے۔ پنجاب میں لوگ لاہور سے گرمکھی میں چھپنے والے سہ ماہی رسالہ ‘ پنجاب دے رنگ ‘ کے بہت شوقین ہیں اور اب یہ آنا بند ہو چا ہے۔ ‘
حالانکہ ہندوستان میں پاکستان کے پریس اٹیچ خواجہ تقی میر کا کہنا ہے کہ ان کو اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ جتن دیسائی پاکستان انڈیا پیپلس فورم فارپیس اینڈ ڈیموکریسی کے ممبر ہیں اور مانتے ہیں کہ انٹرنیٹ کے دور میں اس طرح کی پابندیوں کا کوئی مطلب نہیں ہیں، پھر بھی خطوط بات کہنے کا ایک ذریعہ ہیں اور کوئی حکومت لوگوں سے یہ حق نہیں لے سکتی۔ ‘انہوں نے کہا، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ پہلے کبھی ایسا ہوا ہو۔ یہاں تک کہ 1965 اور کارگل جنگ کے وقت بھی ڈاک خدمات پر پابندی نہیں لگی تھی۔ ‘اس کے علاوہ دیسائی یہ بھی مانتےہیں کہ کچھ سرکاری کاموں کے لئے ڈاک کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ آگے بتاتے ہیں، مان لیجئے کہ وہاں کوئی ہندوستانی ماہی گیر گرفتار ہوجاتا ہے، تو ان کے وکیل کو بھی بھیجی جانے والی پاور آف اٹارنی کوریئر سے نہیں بھیجی جا سکتی اور عدالت ای میل منظور نہیں کرتا۔ ‘انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان آنے-جانے والی ڈاک میں زیادہ ترویزا سے جڑے کاغذات ہوتے ہیں، جن کو ای میل اور کوریئر سے بھیجنے کا بھی اختیارموجود ہے۔
ان سب کے درمیان آروی چودھری کا کہنا ہے کہ وہ اگلے قدم کے بارے میں مرکزی حکومت کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا،’ہم نے اس بارے میں وزارت کو لکھا ہے اور عارضی طورپر یہاں سے پاکستان کے لئے کنسائنمنٹ کی بکنگ بندکرنے کی اجازت مانگی ہے۔ ابھی تک ہمیں کوئی ہدایت نہیں ملی ہیں۔ ‘
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)