ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ایک بیان میں غزہ اور میانمار کے ساتھ ہندوستان کو بھی اس فہرست میں رکھا تھا، جہاں مسلمانوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔ ہندوستان نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقلیتوں پر بیان بازی کرنے والے ممالک کو دوسروں کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے سے پہلے اپنا ریکارڈ چیک کرنا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای۔ (تصویر بہ شکریہ: CC BY 4.0/وکی پیڈیا)
نئی دہلی: ہندوستانی وزارت خارجہ نے ہندوستان میں مسلمانوں کے حوالے سے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے تبصرے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کے بارے میں بیان بازی کرنے والے ممالک کو دوسروں کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے سے پہلے اپنا ریکارڈ چیک کرنا چاہیے۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، خامنہ ای نے اپنے ایک بیان میں غزہ اور میانمار کے ساتھ ہندوستان کو بھی اس فہرست میں شامل کیا، ‘جہاں مسلمان خراب حالات سے جوجھ رہےہیں۔’
رپورٹ کے مطابق ، ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای سوموار (16 اگست) کو تہران میں عید میلاد النبی کے موقع پر عالم اسلام سے خطاب کر رہے تھے، جس میں انہوں نے اسلامی بھائی چارے کے تصور پر زور دیا اور اپنی کمیونٹی کے دوسرے لوگوں کے دکھوں کے تئیں زیادہ بیدار ہونے کی بات کہی۔
فارسی میں آیت اللہ کی تقریر کو آفیشل ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا ایک اقتباس ان کے
ایکس اکاؤنٹ پر بھی پوسٹ کیا گیا تھا۔
ان کی پوسٹ میں کہا گیا،’حقیقی اسلامی شناخت کے لیے ان تنازعات سے آگاہی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم میانمار، غزہ، ہندوستان یا کسی اور جگہ کے مسلمانوں کو درپیش مصائب سے بے خبر ہیں تو ہم خود کو مسلمان نہیں مان سکتے۔‘
اس کے بعد 16 ستمبر کی رات دیر گئے ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے ایرانی رہنما کے ریمارکس کو ناقابل قبول اور قابل مذمت قرار دیا۔
جیسوال نے کہا، ‘ہم ایران کے سپریم لیڈر کے ہندوستان کی اقلیتوں کے بارے میں کیے گئے تبصروں کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف غلط معلومات پر مبنی ہے بلکہ ایک ناقابل قبول بیان بھی ہے۔ اقلیتوں پر تبصرہ کرنے والے ممالک کویہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں کوئی بیان دینے سے پہلے اپنے ریکارڈ کی جانچ کرلیں۔‘
غور طلب ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ایران کے سپریم لیڈر نے ہندوستان کے بارے میں کوئی تبصرہ کیا ہے، اس سے پہلے بھی وہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے اقدام پر تنقید کر چکے ہیں۔
اس بارے میں انہوں نے لکھا تھا، ‘ہمیں کشمیر میں مسلمانوں کی صورتحال پر تشویش ہے۔ ہندوستان کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ ہندوستانی حکومت کشمیر کے نیک لوگوں کے لیے انصاف پسندانہ پالیسی اپنائے گی اور خطے میں مسلمانوں پر ظلم بند کرے گی۔‘
اس کے بعد وہ مارچ 2020 میں دہلی کے شمال-مشرقی علاقے میں پھوٹنے والے فسادات کے بارے میں
بول چکے ہیں۔ ان فسادات کے درمیان خامنہ ای نے ٹوئٹ کیا تھا، ‘دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل ہندوستان میں مسلمانوں کے قتل عام سے غمزدہ ہیں۔ ہندوستانی حکومت کو بنیاد پرست ہندوؤں اور ان کی جماعتوں کا مقابلہ کرنا چاہیے اور مسلمانوں کی نسل کشی کو بند کرنا چاہیےتاکہ ہندوستان کو عالم اسلام سے الگ تھلگ ہونے سے بچایا جا سکے۔‘
اس سے قبل
نومبر 2010 میں بھی ہندوستان نے قائم مقام ایرانی سفیر کو طلب کر کے آیت اللہ کے کشمیر پر تنقیدی بیانات پر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔