اگرجناح، جو کم از کم 1937 تک ملک کی مشترکہ جدوجہد آزادی کا حصہ تھے، کی تعریف کرنا جرم ہے تو ہمارے ماضی قریب میں بی جے پی کے کئی بڑے لیڈر یہ جرم کر چکے ہیں۔
جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں، تب اکتیس اکتوبر یعنی سردار ولبھ بھائی پٹیل کی 146ویں سالگرہ کو دس دنوں سے زیادہ کا وقت گزر گیا ہے۔ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کو ابھی بھی یہ بات ‘پریشان’کرتی آ رہی ہے کہ مذکورہ موقع پر ہردوئی میں سردار کی یاد میں منعقد ایک تقریب میں اس کی حریف سماجوادی پارٹی کےسپریمو اکھلیش یادو نے پاکستان کے بانی و مسلم لیگ کےرہنما محمدعلی جناح کوبابائےقوم مہاتما گاندھی، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور پنڈت جواہر لال نہرو کی صف میں کھڑا کر دیا!
یوں اکھلیش نے صرف ایک تاریخی حقیت کی یاد دلائی تھی۔ یہ کہ مہاتما گاندھی، سردار پٹیل، جواہر لال نہرو اور جناح نے لندن واقع ایک ہی انسٹی ٹیوٹ سے بیرسٹری کی پڑھائی کی تھی اور آزادی کی لڑائی میں کبھی کسی جدوجہدسے پیچھے نہیں ہٹے۔
یہ کہیں سے بھی جناح کی قصیدہ خوانی نہیں تھی، جس کا الزام لگاکر بی جے پی لیڈر ابھی تک مانگ کرتے آ رہے ہیں کہ اکھلیش کو اس کے لیے معافی مانگنی چاہیے۔ ان میں سے ایک نے تو اکھلیش کو یہ مشورہ بھی دے ڈالا ہے کہ انہیں اپنا نام بدل کر ‘اکھلیش علی جناح’کر لینا چاہیے۔
یہ لیڈر ایسا نہیں کر پاتے، اگر انہیں یا ان کی پارٹی کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ذرا بھی عادت ہوتی۔ کیونکہ اگر جناح کی، جو کم از کم 1937 تک ملک کی مشترکہ جدوجہد آزادی کا حصہ تھے، تعریف کرنا جرم ہے تو ہمارے ماضی قریب میں بی جے پی کے کئی بڑے لیڈر یہ جرم کر چکے ہیں۔
کسے نہیں معلوم کہ 2005 میں بی جے پی کے اس وقت کےصدر اور آج کے ‘مارگ درشک’لال کرشن اڈوانی کو اپنی امیج بدلنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اپنے پاکستان دورے کے دوران جناح کے مزار پر جاکر ان کو سیکولر ہونے کا سند دے آئے تھے۔ اتنا ہی نہیں، سروجنی نائیڈو کے لفظ ادھار لےکر انہیں ہندو مسلم ایکتا کا سفیربھی بتا دیا تھا۔
بلاشبہ، ان سب کو لےکراڈوانی نہ صرف ہندوستان میں اپنی جماعت کے لوگوں کے نشانے پر آ گئے تھے، بلکہ پاکستانی شدت پسندوں کی نکتہ چینی کے شکار بھی ہوئے تھے۔ انہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دینے کو مجبورہونا پڑا تھا، سو الگ۔
پھر بھی بی جے پی رہنماؤں کے ذریعےجناح کی تعریف کا سلسلہ ٹوٹا نہیں تھا۔ 2009 میں اس کے سینئر رہنما جسونت سنگھ نے اپنی ‘جناح انڈیا، پارٹیشن، انڈپینڈینس’کے عنوان سے کتاب میں جناح کو ملک کی تقسیم کا واحد ذمہ دار ماننے سے انکار کر دیا اور لکھا کہ اس ذمہ داری میں ولبھ بھائی پٹیل و جواہر لال نہرو کا بھی حصہ تھا، تو دعویٰ کیا تھا کہ جو کچھ بھی لکھا ہے، گہرے مطالعہ کی بنیاد پر لکھا ہے اور جنہیں لگتا ہے کہ انہوں نے جناح کی تعریف کی ہے، انہیں ان کی پوری کتاب پڑھنی چاہیے۔
لیکن بی جے پی نے اس کو جسونت سنگھ کا جرم ہی مانا تھا اور اس سے پہلے ایسے ہی‘جرم’کو لےکراڈوانی سے کیے گئےسلوک کے تناظرمیں ان کو پارٹی سے ہی نکال دیا تھا۔ لیکن اپنے رہنماؤں کے ذریعےجناح کی تعریف کرنے کی روایت کو اور ‘مالامال’ہونے سے نہیں روک پائی۔
ابھی بھی جب وہ اکھلیش یادو کےذریعے باپو، سردار، نہرو اور جناح کے ایک ساتھ بیرسٹری پڑھنے اور آزادی کے لیے لڑنے کے ذکر بھر سے بپھر کر ان پر حملہ آور ہے، اس کے سینئر رہنما اورآر ایس ایس کے ماؤتھ پیس‘آرگنائزر’کے سابق مدیر شیشادری چاری نے کہہ ڈالا ہے کہ جناح کو پہلا وزیر اعظم بناکر ملک کو بٹوارے سے بچایا جا سکتا تھا۔
جئے پور میں انفارمیشن کمشنر ادے ماہورکر کی کتاب‘ویر ساورکر:د ی مین ہو کڈ ہیو پروینٹیڈ پارٹیشن’ کے اجراکے موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ‘بدقسمتی سے ہمارے رہنماؤں نے اس بارے میں نہیں سوچا۔اگرسوچا ہوتا اور جناح کو وزیر اعظم کےعہدےکی پیشکش کی ہوتی تو کم ازکم تقسیم نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہ الگ مدعا ہے کہ ان کے بعد وزیر اعظم کون بنتا، لیکن اس وقت تقسیم نہیں ہوتا۔’
انہوں نے یہ کہنے سے بھی عار محسوس نہیں کیا کہ اگر 15 اگست، 1947 کو جناح وزیر اعظم بن جاتے تو ہم بھگوان سے دعا کرتے کہ ان کا سایہ دیر تک قائم رہے۔ بی جے پی کے نظریے سے دیکھیں تو اس طرح انہوں نے‘ویر’ ساورکر کے‘دی مین ہو کڈ ہیو پروینٹیڈ پارٹیشن’والے کریڈٹ میں کٹوتی کر اس کا ایک حصہ جناح کے کھاتے میں ڈال دیا۔
ایسے میں‘اکھلیش علی جناح’کے خلاف اس کی مہم تھوڑی بہت جائز دکھنے لگتی، اگر وہ شیشادری چاری کے ذریعےجناح کےتعریف کو لےکر ان کے خلاف ویسا ہی سخت رویہ اپناتی جیسا اس نے کبھی لال کرشن اڈوانی اور جسونت سنگھ کے خلاف اپنایا تھا۔
وہ چاہتی تو شیشادری چاری کو یہ بھی بتا سکتی تھی کہ ان کا یہ کہنا ان کی جہالت کا ثبوت ہے کہ تقسیم کو ٹالنے کے لیے ہمارے رہنماؤں نے جناح کو پہلا وزیر اعظم بنانے پر غور نہیں کیا۔
جانکاروں کے مطابق، مہاتما گاندھی نے اس بابت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل دونوں کو خط لکھے تھے۔ لیکن نہرو نے جہاں خط میں دیے گئے ان کے اس مشورےپر کسی ردعمل کا اظہارنہیں کیا تھا، پٹیل نے اس کو پوری طرح سے مسترد کردیا تھا۔یہ کہہ کر کہ اس وقت کے حالات میں کانگریس کے مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے ہونے کا بہت غلط پیغام جائےگا۔
شیشادری چاری کو یہ بات بتاکر بی جے پی جتا سکتی تھی کہ جناح کی تعریف کو لےکر وہ اپنے رہنماؤں کے ساتھ رعایت نہیں برتتی تو اکھلیش کے ساتھ کیوں کر برتےگی؟ لیکن فی الحال، اس نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے، جس سے صاف ہے کہ اس کے کھانے کے دانت اور تو دکھانے کے دانت اور ہیں۔ اسی لیے وہ اکھلیش پر جناح کی اس تعریف کی تہمت لگا کرتنازعہ کھڑا کر دیتی ہے، جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔ لیکن شیشادری چاری ‘آ بیل مجھے مار’ کی حالت میں آگے آ جاتے ہیں تو چپی اختیارکر لیتی ہے۔
اس کی اس موقع پرستی کی صرف ایک ہی وجہ ہے: اسے پتہ ہے کہ اتر پردیش اسمبلی کے آئندہ انتخاب سماجی اقتصادی مدعوں پر مرکوز ہو گئے تو بازی اس کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ ایسا نہ ہو، اس لیے وہ جناح کے معاملے کو طول دےکر ایک بار پھر ‘ہندو مسلمان’کرنا مفید سمجھ رہی ہے۔ لیکن کیا وہ اس میں کامیاب ہو پائےگی؟
لگتا نہیں، کیونکہ اسی مقصد سے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سرکاری اسکولوں کے گارجین سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو قومی ہیرو و غداروں میں فرق کرنا سکھائیں، تو کئی حلقوں سے ایسےسوال اٹھنے لگ جاتے ہیں، جن سے بازی بی جے پی کے ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ اور بڑھ جاتا ہے۔
یہاں یہ بتانا تو خیراعادہ کے علاوہ کچھ نہیں کہ ہماری مشترکہ جدوجہد آزادی کو لےکر بھارتیہ جنتا پارٹی کی بے چینی نئی نہیں بلکہ اس کے پیش رو اور مربی تنظیم آر ایس ایس جتنی پرانی ہے۔ اسی لیے وہ باربار اس کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھنے کی ضرورت کا اظہار کرچکی ہے۔
اور جب سے اس کے منھ اقتدارلگنے لگی ہے، وہ لگاتار اس سمجھ کےفروغ کے راستے بند کرنے میں لگی ہے کہ کسی بھی تاریخ سے تبھی انصاف کیا جا سکتا ہے، جب سماج میں اس کے لیے فیاض اور جامع صلاح ومشورہ کے ماحول کی تخلیق کی جائے۔ اس سلسلے میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ اب اس کی غیرفیاضی اسے ہی پھنسانے اور بے نقاب کرنے لگی ہے۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)