مودی حکومت نے ملک میں ٹی بی کے خاتمے کے لیے 2025 کا ہدف طے کیا ہے، حالانکہ گلوبل ٹیوبرکلوسس رپورٹ 2024 بتاتی ہے کہ یہ ممکن نہیں ہوگا۔ دنیا بھر میں ٹی بی کے کل معاملوں کا 26 فیصد معاملہ ہندوستان میں ہے۔ اس وقت ملک میں ایک اندازے کے مطابق ٹی بی کے 20 لاکھ کیس ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: ILO/Flickr CC BY NC ND 2.0)
نئی دہلی:گلوبل ٹیوبرکلوسس رپورٹ 2024 بتاتی ہے کہ ہندوستان نریندر مودی حکومت کی طرف سے ٹی بی کے خاتمے کے لیے مقرر کردہ 2025 کے ہدف کو حاصل نہیں کر پائے گا۔ اس رپورٹ کوتیار کرنے والے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے سال 2035 کی گلوبل ڈیڈ لائن طے کی ہے۔
دیگر تمام ممالک کی طرح ہندوستان نے بھی خاتمے کے کئی اشاریوں میں بہتری کی ہے۔ لیکن رپورٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے گہرے تجزیے سے واضح طور پر پتہ چلتاہے کہ ہندوستان 2025 کے لیے مقرر کیے گئے تین عبوری اہداف میں سے دو کو پورا کرنے میں چُوک گیا ہےاور وہ ہندوستانی حکومت کی 2025 کے خاتمے کی ڈیڈ لائن اورڈبلیو ایچ او کی 2035 ڈیڈلائن کو پورا کرنے سے بہت دور ہے۔
اگرچہ یہ رجحان دنیا کے بیشتر ممالک میں نظر آ رہا ہے، لیکن ہندوستان واحد ملک ہے جس نے 2025 کی ڈیڈ لائن طے کی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2023 میں وارانسی میں ایک عوامی ریلی میں اس ہدف کا اعلان کیا تھا۔
ڈبلیو ایچ او نے تمام ممالک کے لیے جو ‘ٹی بی کے خاتمے کی حکمت عملی’ ترتیب دی ہے اس کے لیے تین اہم سنگ میل حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کی اپنی ٹائم لائن تک ٹی بی کے خاتمے کے معیاربھی وہی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے 2035 کے لیے حتمی ہدف اور 2020 اور 2025 تک حاصل کیے جانے والے دوعبوری اہداف طے کیے ہیں۔
ان میں 2015 میں ٹی بی سے ہونے والی اموات میں 95 فیصد کی کمی شامل ہے۔ اسی طرح ٹی بی کے کیسز میں 2015 کی شرح کے مقابلے میں 90 فیصد کمی لانی ہوگی۔ ٹی بی کے علاج پر ‘تباہ کن اخراجات’ برداشت کرنے والے ٹی بی کے مریضوں کی تعداد کو صفر پر لانا ہوگا۔
ہندوستان کا بوجھ
تاریخی طور پر ہندوستان میں ہمیشہ دنیا میں ٹی بی کے معاملات کا سب سے زیادہ بوجھ رہا ہے۔ موجودہ رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں ٹی بی کے کل کیسز کا 26 فیصد ہندوستان میں ہے۔ ہندوستان کے بعد انڈونیشیا (10فیصد)، چین (6.8فیصد)، فلپائن (6.8فیصد) اور پاکستان (6.3فیصد) کا نمبر آتا ہے۔
فی الحال، ہندوستان میں ٹی بی کے کیسز کی تعداد ایک اندازے کےمطابق 20 لاکھ ہے – جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
ہندوستان میں ٹی بی کے معاملوں کی موجودہ شرح 195 کیسز فی لاکھ افراد پر ہے، جبکہ ڈبلیو ایچ او نے 2025 تک فی ایک لاکھ افراد پر 55 کیسز کا عبوری ہدف مقرر کیا ہے۔
دنیا پہلے ہی ان اہداف کو حاصل نہ کرنے کے راہ پرگامزن تھی، لیکن کووڈ 19 وبائی مرض نے اس کام کو اور بھی مشکل بنا دیا کیونکہ اس عرصے کے دوران ٹی بی کنٹرول کے لیے خدمات شدیدطور پر متاثر ہوئیں۔ جس کی وجہ سے گزشتہ برسوں میں ہونے والی ترقی کسی حد تک رک گئی۔
تاہم، ہندوستان کے علاوہ کسی بھی ملک نے 2025 تک ٹی بی کے خاتمے کا ہدف مقرر نہیں کیا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ہندوستانی حکومت نے ہدف کاسال مقرر کرنے سے پہلے کووڈ کے اثرات کو مدنظر رکھا تھا یا نہیں۔
ٹی بی کی وجہ سے ہونے والی اموات میں کمی ایک اور اہم اشارہ ہے۔ ہندوستان میں 2015 میں ہونے والی اموات کے مقابلے 2023 میں اموات میں 24 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔ تاہم، یہ 2020 کے لیے مقرر کردہ ہدف کو حاصل کرنے میں بھی ناکام رہا – جو 35 فیصد کی کمی ہے۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہندوستان عبوری اور حتمی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔
اگرچہ پوری دنیا 2020 کے لیے مقرر کردہ ہدف سے محروم رہی، لیکن کم از کم 43 ممالک اس ہدف تک پہنچ گئے یا اس سے آگے نکل گئے۔ ہندوستان میں ہر سال ٹی بی کی وجہ سے سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
تیسرا انڈیکیٹر ٹی بی کے علاج پر خرچ ہونے والی رقم ہے۔
ایک خاندان عام طور پر ٹی بی کے علاج پر بہت زیادہ خرچ کرتا ہے – اس مقصد کے لیے خاندان کی سالانہ آمدنی کا 20فیصد سے زیادہ خرچ کرنا ‘تباہ کن اخراجات’ سمجھا جاتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق، ان میں علاج کے براہ راست اخراجات کے ساتھ ساتھ بالواسطہ اخراجات جیسے سفری اخراجات، یا رہنے کے اخراجات شامل ہیں۔ مریض اور اس کے خاندان کے افراد جو علاج کے لیے اس کے ساتھ ٹی بی کے علاج کے مرکز میں جاتے ہیں ان کی آمدنی کا نقصان بھی بالواسطہ اخراجات میں آتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘یہ رکاوٹیں علاج تک رسائی اور کامیابی سے مکمل علاج کرنے کی ان کی صلاحیت کوشدید طور پر متاثر کر سکتی ہیں۔’
ہندوستان میں جن گھروں میں ٹی بی کے مریض ہیں ، ان میں سے کم از کم 20 فیصدکو بہت زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ ایسے خاندانوں کی عالمی اوسط 49فیصد ہے۔ ٹی بی کے خاتمے کے ہدف میں یہ تصور کیا گیا تھا کہ ایسے خاندانوں کا تناسب 2020 تک صفر ہو جانا چاہیے۔
حکومتیں عام طور پر ٹی بی سے لڑنے کے لیے گھریلو اخراجات کے علاوہ بین الاقوامی فنڈنگ حاصل کرتی ہیں۔ حکومت ہند کے گھریلو اخراجات سال 2020 سے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ تاہم، اس کو ابھی 2019 کی وبائی مرض سے پہلے کی سطح تک پہنچنا باقی ہے۔
سال 2023 میں گھریلو اخراجات 253 ملین امریکی ڈالر تھے، جبکہ 2019 میں یہ 345 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ تھا۔
ٹی بی کے خاتمے میں سب سے بڑا چیلنج ٹی بی کے چھوٹ جانے والے کیسز کی تعداد ہے۔ ٹی بی کے مریضوں کے ایک بڑے حصے میں یا تو بیماری کا پتہ ہی نہیں لگ پاتایا سرکاری طور پر اس کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ ایسے معاملات جو چھوٹ جاتے ہیں وہ ٹی بی کے خلاف لڑائی کو شدید متاثر کرتے ہیں کیونکہ انفیکشن ایک شخص سے دوسرے شخص میں پھیلتا ہے۔
اس کو سمجھنے کا طریقہ ہے کہ کتنے معاملے چھوٹ رہے ہیں، مریضوں کی اطلاع (نوٹیفیکیشن)کی شرح کو دیکھنا ہے، یعنی کتنے لوگ بیماری کی اطلاع دیتے ہیں۔ نوٹیفکیشن کی شرح جتنی زیادہ ہوگی، اتنا ہی بہتر ہے۔کووڈ 19 کے سالوں کے دوران افریقی خطے کے چند ممالک کے علاوہ زیادہ تر ممالک کے لیے اطلاع کی شرح میں کمی واقع ہوئی۔
موجودہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی بی کے زیادہ بوجھ والے 30 ممالک میں سے زیادہ تر کووڈ سے پہلے کی سطح یا اس سے آگے پہنچ چکے ہیں۔ ہندوستان اور انڈونیشیا نے 2022 اور 2023 میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا، جو پچھلے تین سالوں میں رپورٹنگ میں کل اضافے کا 45فیصد ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کامیابی کے باوجود، ہندوستان میں رپورٹ شدہ اور غیر رپورٹ شدہ کیسوں کے درمیان تقریباً پانچ لاکھ کا فرق ہے، جو کسی بھی ملک کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا سب سے بڑا فرق ہے۔
ایسا ہی اور اہم فرق منشیات کے خلاف مزاحمت کرنے والے ٹی بی کے مریضوں کے معاملے میں موجود ہے۔
وہ مریض جو پہلےمرحلے کی دوائیوں کے خلاف مزاحم ہو جاتے ہیں انہیں ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ (ایم ڈی آر) ٹی بی مریض کہا جاتا ہے۔ وہ لوگ جو دوسرے مرحلے کے علاج کے لیے بھی مزاحم ہو جاتے ہیں انہیں وسیع پیمانے پر منشیات کے خلاف مزاحم (ایکس ڈی آر) ٹی بی مریض کہا جاتا ہے۔
اس میں عالمی فرق کا تقریباً 75 فیصد حصہ دس ممالک کے پاس ہے۔ اس زمرے میں بھی ہندوستان سب سے آگے ہے، اس کے بعد فلپائن، انڈونیشیا، چین اور پاکستان ہیں۔
منشیات کے خلاف مزاحمت عام طور پر اس وقت ہوتی ہے جب مریض دوائیں لینا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ یا تو ان کی اپنی مرضی سے ہوتا ہے یا دوائیوں کی کمی کی وجہ سے۔ ہندوستان پچھلے دو سالوں سے ایم ڈی آر ٹی بی ادویات کی کمی سے نبرد آزما ہے۔ تاہم، ہندوستانی حکومت مسلسل کسی بھی قسم کی کمی کے دعووں کی تردید کرتی رہی ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )