یونان کے ساتھ دفاعی شراکت داری کا اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوان جی–20کے سربراہی اجلاس کے لیے ہندوستان جا رہے ہیں۔ اگرچہ ترکیہ اور یونان دونوں ناٹو کے رکن ممالک ہیں، مگر یہ کئی دہائیوں سے مختلف دوطرفہ مسائل پر تنازعات کا شکار رہے ہیں۔
ترکی صدر طیب اردگان، وزیر اعظم نریندر مودی یونان کے وزیر اعظم کیریاکوس میتسوٹاکیس کے ساتھ (فوٹو بہ شکریہ،ٹوئٹر پی ایم او انڈیا/ پی آئی بی)
گو کہ حالیہ عرصے میں ہندوستان اور ترکیہ کے تعلقات میں خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، دو طرفہ سالانہ تجارت کا حجم بھی 10بلین ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے، اور نئی دہلی میں ہونے والی گروپ 20ممالک کی میٹنگ میں صدر رجب طیب اردوان بھی شرکت کرنے والے ہیں، مگر پچھلے ہفتے ہندوستانی
وزیر اعظم نریندو مودی کے یونان کے ایک روزہ دورے نے ترکیہ کو تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے۔ کیونکہ ایتھنز میں جس جامع دفاعی شراکت داری کا اعلان کیا گیا ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ ہندوستان اب بحیرہ روم میں نئی گریٹ گیم کا حصہ بننے والا ہے۔
اس گریٹ گیم میں اسرائیل، یونان اور یونانی قبرص، ترکیہ کی گھیرا بندی کرکے اس کے بحری اقتصادی زون کو سکیڑکر اس خطے میں موجود تیل اور گیس کے ذخیروں کو اس کی دسترس سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ بحیرہ روم ایک انتہائی اسٹریٹجک زون میں واقع ہے، اس کی 46ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی پر 22ممالک آبادہیں۔
مودی کے دورے سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ شایدہندوستان اب اس سمندر میں مستقل طور پر بحری افواج کی ایک ٹکڑی کو تعینات کرنے والا ہے، جو اس کے بحری جہازوں کو اسرائیل اور یونان کی بندر گاہوں کے درمیان سفر طے کرتے ہوئے حفاظت فراہم کریں گے۔
دو سال پہلے جب ترکیہ-آذربائیجان اور پاکستان نے ایک سہ فریقی دفاعی تعاون کے ایک معاہدہ کا اعلان کیا تھا، تو ہندوستان میں دفاعی امور کے ماہرین نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اس اتحاد کا توڑ کرنے کے لیے ہندوستان کو یونان، اسرائیل اور آرمینیاء کے ساتھ ایک گٹھ جوڑ کرنا چاہیے۔
نگورنو کاراباخ کی جنگ کے دوران ہندوستان نے آرمینیا ء کو آذربائجان کے خلاف جنگ میں ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ اس جنگ میں آرمینیاء کو قطعی شکست سے دوچار ہوکر نگورنو کاراباخ کا وسیع علاقہ آذربائیجان کے حوالے کرنا پڑا۔ مگر جلد ہی ان ماہرین پر یہ بات واضح ہو گئی کہ اسرائیل اور آرمینیاء نظریاتی اور تاریخی مناشقات کی وجہ سے کسی ایک اتحاد کا حصہ نہیں بن سکتے ہیں۔
دوسری طرف اسرائیل آذربائیجان کا حلیف بھی ہے۔ اس لیے بعد میں آرمینیاء کو چھوڑ کر یونان، یونانی قبرص اور اسرائیل کے ساتھ ایک محور بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ کیونکہ ایک تو اس دوران ترکیہ نے ایف اے ٹی ایف کو پاکستان کے خلاف کسی سخت قدم اٹھانے سے باز رکھا، پھر 5اگست 2019 کوکشمیر کے حوالے سے ہندوستانی اقدامات کی کھل کر مخالفت کی اور اسی دوران ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر بھی آواز اٹھائی، اس لیے کچھ باز پرس تو ہونے ہی والی تھی۔
یونان کے ساتھ دفاعی شراکت داری کا اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوان جی–20کے سربراہی اجلاس کے لیے ہندوستان جا رہے ہیں۔ اگرچہ ترکیہ اور یونان دونوں ناٹو کے رکن ممالک ہیں، مگر یہ کئی دہائیوں سے مختلف دوطرفہ مسائل پر تنازعات کا شکار رہے ہیں، جن میں سمندری سرحدوں کی حدود کے تنازعات، اپنے براعظمی شیلفوں کے دعوے اور طویل عرصے سے جاری قبرص تنازعہ شامل بھی ہے۔ گزشتہ 50 سالوں میں کم از کم تین بار یہ دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔
مودی کے دورے سے قبل ہندوستانی فضائیہ اور بحریہ نے یونان میں اور پھر بحیرہ روم میں مشقیں کرکے خطے میں اپنی موجودگی درج کروائی۔ دو نوں فریقوں کے درمیان دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے انٹلی جنس شیئرنگ کا ایک طریقہ کار طویل عرصے سے موجود ہے۔
یہ 40 سالوں میں کسی ہندوستانی وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا۔ اندرا گاندھی نے 1983میں یونان کا دورہ کیا تھا۔
ایتھنز یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے ماہر آئیونس کوٹولاس کے مطابق ہندوستان چونکہ معاشی طاقت بننے کا خواہاں ہے، اس لیے وہ یورپ جانے والی سمندری گزرگاہوں پر اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے یا کم از کم ان کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔
ہندوستان کے اسٹریٹجک مفادات مغرب کی طرف بحر ہند کے علاقے سے مشرقی بحیرہ روم تک پھیلے ہوئے ہیں، جہاں ایک سرے پر یونان، تو دوسرے سرے پر اسرائیل اس کے روایتی حلیف ہیں۔ اگر ہندوستان کے پاس دنیا کی مضبوط زمینی فوج ہے، تو یونان کے پاس دنیا کی 16ویں مضبوط فضائیہ ہے۔ یورپی یونین میں اس کی فضائیہ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس ایک بڑا اور مضبوط بحری بیڑا بھی ہے۔
سابق ہندوستانی سفارت کار انل تریگنایت کے مطابق یونان بحیرہ روم کی طاقت ہونے کی وجہ سے ہندوستان کے مفادات میں فٹ بیٹھتا ہے۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوستان ایک ملٹی موڈل کوریڈور تیار کرنے پر غور کر رہا ہے۔ اس میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سعودی عرب اور اردن کے راستے ایک ریل نیٹ ورک کی تعمیر شامل ہے، جو بحیرہ روم میں اسرائیلی بندرگاہ حیفہ سے منسلک ہوگی۔ اس کے بعدبحری جہازوں کے ذریعے اس کوریڈور کو یونان کی بندرگاہ پیریوس سے جوڑا جائےگا۔
پچھلے سال ہی مودی کے حلیف کاروباری گروپ اڈانی نے حیفہ کی بندر گاہ کو 1.2 بلین ڈالرکی خطیر رقم ادا کرکے خریدا۔ اڈانی گروپ کے چیئرمین گوتم اڈانی نے بحیرہ روم کی اس بندر گاہ کی اسکائی لائن کو تبدیل کرنے کا عزم کا اظہار کیا۔ پچھلے چھ سالوں میں، اڈانی گروپ نے ایلبٹ سسٹمز، اسرائیل ویپن سسٹمز، اور اسرائیل انوویشن اتھارٹی جیسی کمپنیوں کے ساتھ کئی اہم شراکت داریاں کی ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ مودی کے یونان کے دورہ کا مقصد ہی
پیریوس بندر گاہ کو اڈانی کے لیےحاصل کروانا تھا۔ یہ منصوبہ نہ صرف ہندوستان کو ایران میں چابہار کی بندرگاہ کا متبادل فراہم کرے گا بلکہ ہندوستان، اسرائیل اور یونان کے درمیان تعاون کو بڑھاوا دیکر ترکیہ کے لیے مشکلات پیدا کرکے اس کی صلاحیتوں کو محدود کردےگا۔
اس منصوبے پر سب سے پہلے نومبر 2021 میں 12ویں سر بنی یاس فورم کے موقع پر دبئی میں ہندوستان، متحدہ عرب امارات، یونان، یونانی قبرص، اسرائیل اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں تبادلہ خیال کیا گیا تھا ۔
یونان بحیرہ روم میں اپنے جزائر کے لیے 1982 کے کنونشن آن دی لا آف دی سی (یواین سی ایل او ایس) کا حوالہ دیتے ہوئے اس سمندر کے بڑے حصہ کو اپنا اقتصادی زون قرار دیتا ہے۔۔یو این سی ایل او ایس کے تحت ایک خودمختار ریاست کو اپنے ساحل سے 200 ناٹیکل میل تک سمندری وسائل کی تلاش اور استحصال کے حوالے سے خصوصی حقوق حاصل ہیں۔
تاہم، کنونشن کے رہنما اصولوں کے تحت ممالک کو یہ فاصلہ اپنے کسی پرنسپل جزیرہ یا اپنے ملک کے ساحل سے ماپنا چاہیے۔ 1919 سے 1923 تک جاری رہنے والی ترکیہ کی جنگ آزادی میں یونانی افواج کو ترک ا فوج نے جب شکست دیکر اپنی سرحدوں کا تعین کیا، تو اس وقت سرحدوں کے قریب جزیروں کی ملکیت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
اب ایک یونانی جزیرہ مئیس ترکیہ کے جنوبی ساحل سے بس دو کلومیٹر کی دوری پر ہے اور یہ یونان کے ساحل سے 570 کلومیٹر دور ہے۔ اگر اب اس جزیرہ سے یونان کے اقتصادی زون کو ماپا جائے، تو ترکیہ کے پاس سمندری حدود ہی نہیں رہتی ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ اردوان اپنی تیسری صدراتی مدت میں جس طرح مشرق وسطیٰ کے ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ امارات، و لیبیا وغیر ہ کے ساتھ تعلقات کو استوار کر رہے ہیں، کیا وہ اپنے سفارتی داو پیچ سے موجودہ دور کے پورس اور سکندر اعظم کے درمیان ہونے والی شراکت کو مات دیکر ترکیہ کو مفادات کی حفاظت کرکے بحیرہ روم کو ‘گریٹ گیم’ سے آزاد رکھوانے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ یہ وقت ہی بتاپائے گا۔