کووڈ- 19 لاک ڈاؤن کے دوران ملک میں بھوک مری کی حالت دیکھنے کے بعد اس سے انکار کرنا غیر انسانی ہے۔ جب گلوبل ہنگر انڈیکس نے ہندوستان کی حالت زار کی نشاندہی کی تو مرکزی حکومت نے رپورٹ کو ہی خارج کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی حکومت نے پچھلے آٹھ سالوں میں بھوک مری اور غذائیت کے مسئلے کو دور کرنے کے لیے کیا کیا ہے؟
حال ہی میں جاری ہوئی
گلوبل ہنگر رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں
بھوک کی صورتحال سنگین اور اکثر ممالک سےبدتر ہے (121 ممالک میں107 ویں پوزیشن)۔ اگرچہ 2006 سے ہر سال جاری ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق ملک کی حالت ہمیشہ تشویشناک ہی رہی ہے، لیکن اس کے بعد سے 2014 کے درمیان غذائی قلت اوربھوک مری کی حالت میں بہتری دیکھنے میں آئی تھی۔ لیکن گزشتہ چند سالوں میں حالات بد سے بدتر ہیں۔
گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی مرکزی حکومت نے اس رپورٹ کو غلط کہہ کر
خارج کر دیا ہے۔
اس رپورٹ میں بھوک کا حساب لگانے کے لیے چار اشاریے استعمال کیے جاتے ہیں- عمر کے لحاظ سے کم قد والے بچوں کا تناسب، قد کے لحاظ سے کم وزن والے بچوں کا تناسب، بچوں کی اموات کی شرح اور کم کیلوری والی آبادی کا تناسب۔
پہلے تین اشاریے حکومت کے اپنے اعداد و شمار ہیں اور چوتھا حکومت کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پرایف اے او کی تشخیص ہے۔ بھوک کی تشخیص کے لیے کون سا موزوں ترین اشاریہ ہوگا یا کون سا سائنسی طریقہ کار ہوگا، یہ بحث کا موضوع ہوسکتا ہے۔ لیکن ہندوستان میں بڑے پیمانے پر غذائی قلت، غربت اور بھوک مری سےکسی بھی صورت میں انکار نہیں کیا جا سکتا۔
حکومت کے اپنے مختلف اعداد و شمار(جن میں سے
کچھ کوحکومت نے شائع کرنا ہی بند کر دیا ہے) سمیت بہت سے تحقیقی اداروں کے اندازے اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔ شہر کی بستیوں یا دیہاتوں میں جا کر بھی دیکھنے سےحقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ ناک کو سیدھے پکڑیں یا گھماکر، ناک کی پوزیشن اور اس کا ڈھانچہ وہی رہتا ہے۔
سال 21-2019 میں کیے گئے
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5 کے مطابق، ہندوستان میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً ایک تہائی بچوں کا وزن اور قد عمر کے لحاظ سے کم ہے۔ 2015-16 کے سروے کے مقابلے بہت کم بہتری آئی ہے۔ جھارکھنڈ اور بہار جیسی کچھ ریاستوں میں صورتحال خوفناک ہے۔
کووڈ لاک ڈاؤن نے ملک میں بھوک مری کی صورتحال کو بے نقاب کردیا تھا۔ کچھ دن روزگار نہ ملنے کی وجہ سے حاشیے پر رہنے والے کروڑوں لوگوں کومحض پیٹ بھرنے کے لیے کھانے کے لالے پڑ گئے تھے۔ ان دو سالوں کا غذائی قلت پرہوئے اثرات کا ابھی تک صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ ایسے میں غذائی قلت اور بھوک مری سے انکار کرنا غیر انسانی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مودی حکومت نے انہیں کم کرنے کے لیے گزشتہ آٹھ سالوں میں کیا کیا ہے؟
پچھلی کئی دہائیوں کی عوامی جدوجہد کی وجہ سے یو پی اے حکومت کے دور میں بہت سے اہم خوراک اور سماجی تحفظ کے قوانین اور اسکیمیں لاگو کی گئی تھیں، خاص طور پر منریگا اور نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ۔2001 میں شروع ہوئے خوراک کے حق کے معاملے میں سپریم کورٹ کے احکامات اور 2013 میں پاس ہوئے فوڈ سیکورٹی ایکٹ سے پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم، آنگن واڑی خدمات، مڈ ڈے میل اور زچگی کے فوائد کو ایک قانونی ڈھانچہ ملا اور ان میں توسیع کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی سوشل سیکورٹی پنشن میں بھی توسیع کی گئی تھی۔ یہ اسکیمیں ملک کی ایک بڑی آبادی کے لیے لائف لائن کی مانند ہیں۔
یہ سمجھنے کے لیے کسی ماہر کی ضرورت نہیں ہے کہ آنگن واڑی میں اگر بچے، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو باقاعدگی سے انڈے، گوشت، مچھلی، پھل، دودھ، دالیں اور سبزیاں وغیرہ کے ساتھ مکمل خوراک مل جائے تو غذائیت کے مسئلے میں کمی آئے گی۔ لیکن آنگن واڑی سے ملنے والی غذائیت کو بڑھانے کے بجائے مودی حکومت کے دور میں آنگن واڑی پروجیکٹ کا بجٹ گھٹتے گھٹتے 2022-23 میں 2014-15 کے مقابلے
38 فیصدکم ہو گیا ہے۔
سال 2018 میں بہت دھوم دھام سے شروع کیا گیا پوشن ابھیان صرف تشہیر اورآنگن واڑی خدمات میں ٹکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینے کا منصوبہ ہے نہ کہ غذائیت کی خدمات کی توسیع کا۔ مڈ ڈے میل کا بھی یہی حال ہے۔ بچوں میں غذائیت کے مسئلے کو کم کرنے کے لیے زچگی سے متعلق فائدہ کی اسکیم خصوصی طور پرمعاون ہوسکتی ہے۔ لیکن حکومت نے نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے تحت حق کے برعکس پردھان منتری ماترو وندنا یوجنا کو صرف پہلے زندہ رہ جانے والے پہلے بچے تک محدود کر دیا۔
کووڈ کے دوران عوامی دباؤ اور سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد مرکزی حکومت نے راشن کارڈ ہولڈروں کو اضافی 5 کلو فی شخص مفت اناج دینا شروع کیا۔ پچھلے دو سالوں سے چل رہی اس اسکیم کی مدت ریاستی انتخابات کی تاریخ کے مطابق بڑھائی جا تی رہی۔ لیکن پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم میں کارڈ ہولڈرز کی تعداد جو کہ اب بھی2011 کی مردم شماری پر مبنی ہے، موجودہ آبادی کے مطابق نہیں بڑھائی جا رہی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس کی وجہ سے ملک کے تقریباً 10 کروڑ اہل لوگ راشن سے محروم ہیں۔پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم میں دالیں اور تیل دینے پر بھی حکومت خاموش ہے۔ نیز، مرکزی حکومت بہت کم بزرگوں کو پنشن دیتی ہے، وہ بھی صرف 200 روپے (کچھ خاص معاملات میں 500 روپے) ماہانہ۔
یہ محض چند مثالیں ہیں، جو پچھلے آٹھ سالوں میں مودی حکومت کی خوراک، غذائیت اور سماجی تحفظ کی اسکیموں کے تئیں بے حسی کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان اسکیموں کو آدھار پر مبنی بایو میٹرک سسٹم سے جوڑنے کے آمرانہ فرمان کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہو گئے اور بہت سے لوگ
بھوک مری کا شکار بھی ہو گئے۔
بایو میٹرک سسٹم کی وجہ سے لوگوں کو درپیش مسائل کے باوجود حکومت نے بڑی دھوم دھام سے ‘ون نیشن، ون راشن’ اسکیم شروع کی، جو اسی نظام پر مبنی ہے۔ تکنیکی مسائل کے علاوہ اس اسکیم کے تحت نہ تو عوامی تقسیم کے نظام سے باہر رہ جانے والے مہاجر مزدوروں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے اور نہ ہی حقوق میں توسیع کی گئی ہے۔
پچھلے کچھ سالوں میں بہت سی ریاستی حکومتوں نے اپنے فنڈز لگا کر خوراک اور سماجی تحفظ کی اسکیموں کو بڑھایا ہے۔ مثال کے طور پر، جھارکھنڈ نے 2021-22 میں عوامی تقسیم کے نظام میں
پندرہ لاکھ چھوٹ گئے لوگوں کو شامل کرنے کے لیے اسٹیٹ فوڈ سکیورٹی اسکیم کو نافذ کیا اور پنشن اسکیموں کے
دائرہ کار کو بڑھایا۔ تمل ناڈو نے 2022 میں اسکولوں میں کلاس 1-5 کے طلباء کے لیے
مفت ناشتہ شروع کیا،
کیرالہ نے اس سال آنگن واڑی میں بچوں کے لیے دودھ اور انڈے کا اعلان کیا۔ زیادہ تر ریاستوں نے آہستہ آہستہ اپنی طرف سے پنشن کی رقم میں اضافہ کیا، وغیرہ ۔
لیکن ریاست کے محدود وسائل میں ایسی پہل کرنے کی حد ہوتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایک طرف مرکزی حکومت ریاستوں کے دائرہ اختیار میں مسلسل مداخلت کر کے سیاسی و اقتصادی مرکزیت(سینٹرلائزیشن) میں مصروف ہے اور دوسری طرف غذائی قلت اوربھوک مری کے خلاف جنگ میں اپنا ہاتھ کھینچ کر اس کی ذمہ داری ریاستوں پر ڈالتی ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی مارزیادہ تر عوام پر پڑ رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں بھی مرکزی حکومت کی توجہ ملک میں بڑے پیمانے پر غذائی قلت اور بھوک مری کو ختم کرنے کے بجائے کارپوریٹ گھرانوں کی قرض معافی، کمپنیوں کو سبسڈی اور ٹیکس میں چھوٹ دینےاور سرکاری خدمات کی نجکاری پر مرکوز ہے۔
(سراج دتامصنف سماجی کارکن ہیں۔)