جمہوریت کو اپنےٹھینگے پر رکھے گھوم رہے لٹھیتوں کے اس دور میں46 سال پہلے کی ایمرجنسی کے 633 دنوں پر خوب ہائےتوبہ مچائیے،مگر پچھلے 2555 دنوں سے بھارت ماتا کی چھاتی پر چلائی جا رہی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی چکی کے پاٹوں کونظرانداز مت کریے۔
ہر سال ایمرجنسی کی سالگرہ پر چونکہ ان ‘کالے دنوں’پر ہائے ہائے کرنے کا دستور ہے، اس لیے اس بار جب 46 سال پورے ہو گئے ہیں،میں بھی آپ سے کچھ گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے کہ ان ساڑھے چار دہائیوں میں یہ تصور بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ہے کہ جمہوریت سے اندرا گاندھی کا کوئی لینا دینا تھا ہی نہیں۔
سال 1975 کے بعدجنم لینے والی نسل کو تو یہ سکھانے میں کوئی کسر چھوڑی ہی نہیں گئی ہے کہ اندراجمہوریت مخالف تھیں اور ایک طرح سے تاناشاہ ہی تھیں۔ ہم اپنے بچوں کو لگاتار یہ بتا رہے ہیں کہ اندرا نے عوام کے بنیادی حقوق ختم کر دیےتھے، اپوزیشن کے تمام بڑے رہنماؤں کو جیل بھیج دیا تھا اور ان ‘کالے دنوں’میں جیسی زیادتیاں ہوئیں،کبھی نہیں ہوئیں۔
اندرا نے ایمرجنسی کیوں لگایا تھا، اس پر لمبی چرچہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اپوزیشن رہنماؤں کو کیوں جیل بھیجا تھا، اس پر بھی کافی بحث کی گنجائش ہے۔اورایمرجنسی میں سچ مچ کتنی زیادتی ہوئی یا نہیں ہوئی اورکی تو کس نے کی،کس کے اشارے پر کی، اس پر تو مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ لیکن چونکہ ایسا کرنے میں بدنام ہونے کا پورا خطرہ موجود ہے، اس لیے آج تک یہ کام کسی نے نہیں کیا۔
میں بھی مانتا ہوں کہ اندرا نے ایمرجنسی لگاکر اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی۔ لیکن یہ بھی تو ایک سچائی ہے کہ انہوں نے اپنی غلطی مان لی تھی۔ خود اس کے لیے معافی مانگی تھی۔
ان کے بعد راجیو گاندھی نے بھی اس کے لیے معافی مانگی۔سونیا گاندھی کی کانگریس بھی ایمرجنسی کی بھول کوقبول کر چکی ہے۔ آج کے دور میں جب اپنی غلطی ماننے کے بجائے ارانے کا رواج ہے، آپ کو نہیں لگتا کہ اندرا اور کچھ بھی تھیں، تاناشاہ نہیں تھیں؟
قابل ذکر ہے کہ 25 جون 1975کی آدھی رات کوایمرجنسی لگی تھی۔ 21 مارچ 1977 کو اندرا نے ایمرجنسی ہٹانے کا اعلان کر دیا تھا۔میں نہیں کہتا کہ اندرا کے ان 633 دنوں کو کوئی بھولے۔ جنہیں یاد رکھنا ہے، وہ ضرور یاد رکھیں، لیکن اتنی گزارش میں ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ صرف ان 633 دنوں کی بنیاد پر اندرا کی زندگی کے پورے 67سالوں پر اپنی پسند کا رنگ پوت دینا ٹھیک نہیں ہے۔
مجھے تو لگتا ہے کہ جتنی گہری جمہوری ذمہ داری کی سمجھ اندرا میں تھی، بہت کم سیاستدانوں میں ہوتی ہے۔ بھلے ہی اندرا کے دامن پر ایمرجنسی لگانے کے داغ ہیں، لیکن ان کے جیسا جمہوری ہونے کے لیے بھی کئی جنم کی نیکیاں درکار ہیں۔
ایک لڑکی،جس کے والدتحریک آزادی کی مصروفیت کے باعث کبھی کبھار ہی گھر رہ پاتے ہوں؛ ایک لڑکی، جس کے بچپن کا زیادہ تر حصہ اس لیے اکیلےپن میں گزرا ہو کہ والدکل ملاکر 11 سال انگریزوں کی جیلوں میں رہے؛ ایک لڑکی،جس کا پورا بچپن اپنی بیمار ماں کی دیکھ بھال اور پھر اسے کھو دینے کے ذاتی المیے کے بیچ گزرا ہو؛ ایک لڑکی، جو خود اپنی نرم صحت سے پریشان رہتے ہوئے بھی آزادی کی لڑائی میں اپنارول ادا کرتی رہی ہو؛ وہ لڑکی، جب اپنے ملک کی وزیر اعظم ہو جائے تو میں نہیں مانتا کہ اتنی غیرحساس ہو سکتی ہے کہ تاناشاہ بننے کی سوچ لے۔
اندرا کی پرورش طرح طرح کی محرومیوں میں ہوئی تھی۔ اگر میں کہوں گا کہ ان میں اقتصادی محرومی بھی شامل تھی تو آپ کو تعجب ہو سکتا ہے۔لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ ایک وقت میں اندرا کی ماں کا علاج کرانے تک کے پیسے ان کے والد جواہر لال نہرو کے پاس نہیں تھے۔
نہرو کی شادی کملا سے 8 فروری1916 کو ہوئی تھی۔ اس دن وسنت پنچمی تھی۔ کملا کے والد کا نام تھا اٹل کول۔ کملا 16سال کی تھیں۔ شادی کے وقت نہرو 27 سال کے تھے۔ اندرا کو جنم دینے کے بعد سے ہی کملا نہرو بیمار رہنے لگی تھیں۔
اندرا کے جنم کے 7 سال بعد 1924میں انہوں نے ایک بیٹے کو بھی جنم دیا تھا۔ وہ کچھ ہی دن زندہ رہا۔ نہرو تب جیل میں تھے۔ 7 سال کی اندرا گاندھی پر اپنے چھوٹے بھائی کی موت کے حادثے نے اثر نہیں ڈالا ہوگا؟
کملا کو ٹی بی ہو گئی تھی۔ وہ مہینوں لکھنؤ کے اسپتال میں بھرتی رہیں۔ اندرا الہ آباد سے لکھنؤ کے بیچ آتی جاتی رہتی تھیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں علاج کے لیےسوئٹزرلینڈ لے جانے کی صلاح دی۔یہ1926 کی بات ہے۔ جواہر لال کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ یہ خرچ اٹھا پاتے۔ شادی شدہ تھے۔ بیٹی بھی ہو گئی تھی۔ اس لیے انہیں اپنے والدموتی لال جی سے خرچ کے لیے پیسے لینا اچھا نہیں لگتا تھا۔
موتی لال جی کو کہاں کوئی کمی تھی؟ لیکن جواہر لال کے پاس خود کے پیسے نہیں تھے۔ انہوں نے نوکری تلاش کرنی شروع کی۔ والد کو پتہ چلا تو وہ بہت ناراض ہوئے۔ان کا ماننا تھا کہ ہندوستان میں سیاسی کام کرنے والے کو سننیاسی کی طرح رہنا ہوتا ہے۔ وہ روزگار کمانے کے لیے نوکری دھندا نہیں کر سکتا۔ ورنہ لوگ اسے رہنما نہیں مانیں گے۔
موتی لال نے جواہر لال سے کہا کہ جتنا تم ایک سال میں کماؤ گے، اتنی تو میری ایک ہفتے کی کمائی ہے۔ لیکن بیٹے کی خودداری کا مان رکھنے کے لیے موتی لال نے جواہر لال کو اپنے کچھ مقدموں کی عرضیاں تیارکرنے کا کام دیا اور بدلے میں دس ہزار روپے کا محنتانہ دیا۔ تب نہرو اپنی بیوی کو لےکر مارچ کے مہینے میں علاج کے لیے پردیس گئے۔
تحریک آزادی کے دنوں میں اندرا کو اپنے والد سے جو تہذیب ملی تھے، وہ انہیں زندگی بھر اپنے پلو سے باندھے رہیں۔ جمہوریت میں نہرو کا گہرا عقیدہ تھا۔ اندرا کی تہذیب بھی تحریک آزای کی آنچ میں نہ پکے ہوتے تو بات الگ ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے دیکھا کہ اگر سنجے گاندھی کی ماں نے بھارت کو ایمرجنسی کے حوالے کر دیا تھا، تو نہرو کی بیٹی نے بھارت کو ایمرجنسی کی اندھیری کوٹھری سے آزادکر پھر جمہوریت کے باغوں میں کھلنے بھیج دیا۔
کتنے لوگ ہیں،جو اپنی بھول سدھار کا مادہ رکھتے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں، جو ایسا کفارہ ادا کر سکتے ہیں؟ جمہوریت کے تئیں یہ سمجھ ہی اندرا کو دوسروں سے الگ بناتی ہے۔
ہم نے پڑھا ہے کہ اندرا گاندھی کو ایمرجنسی لگانے کی صلاح دینے والوں میں سدھارتھ شنکر رائے اہم تھے۔ لیکن 25 جون کی آدھی شب کو ایمرجنسی لگنے کے وقت کا ایک واقعہ اور ہے۔
راجیندر کمار دھون صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمد سے آرڈننس پر دستخط کرا لائے تھے۔ اندرا 26 جون کی صبح ملک کو خطاب کرنے کے لیے اپنا اسپیچ تیار کر رہی تھیں۔ دیوکانت بروا اور رائے اس میں ان کی مدد کر رہے تھے۔ وزیر داخلہ تو برہمانند ریڈی تھے، لیکن وزیر مملکت برائے داخلہ اوم مہتہ سنجے گاندھی کے چہیتے تھے۔ دہلی کے ایل جی کشن چند اور اوم مہتہ سنجے کے تابعدار تھے۔
رات کو تین بجے اندرا سونے چلی گئیں۔ اوم مہتہ نے برآمدے میں آکر ہدایت دی کہ اخباروں کی بجلی کاٹ دی جائے تاکہ صبح کوئی اخبار نہ آئے۔ رائے نے یہ بھی سنا کہ انتظام کیے گئے ہیں کہ کل صبح کوئی عدالت نہیں کھلےگی۔ انہوں نے اعتراض کیا۔ لیکن اوم مہتہ اڑے رہے تو رائے نے اندرا کےمعاونین سے انہیں جگانے کو کہا۔
اندرا کو جگایا گیا۔ وہ باہر آئیں تو رائے نے انہیں ساری بات بتائی۔ کہا کہ بجلی کاٹنا ٹھیک نہیں ہے اور عدالتوں کو بند رکھنا تو حد ہی ہے۔ اندرا اندر گئیں۔ بیس منٹ بعد لوٹیں۔ رائے سمیت سب کو بلایا اور کہا کہ بجلی نہیں کٹےگی۔ عدالتیں بھی کھلی رہیں گی۔
صبح عدالتیں تو کھلی رہیں،لیکن زیادہ تر اخباروں کی بجلی غائب رہی۔ کچھ اخبار ہی نکل پائے۔ یعنی اندرا کو اندھیرے میں رکھ کر کام کرنے کی شروعات ایمرجنسی کے پہلے دن سے ہی ہو گئی تھی۔
اندرکمار گجرال نشریات و اطلاعات کے وزیر تھے۔ رات کو دو بجے کابینہ سکریٹری نے انہیں فون کر اٹھایا اور کہا کہ 6 بجے کابینہ کی بیٹھک ہے۔ جب بیٹھک میں اندرا نے اعلان کیا کہ ایمرجنسی لاگو کر دیا گیا ہے اور جئےپرکاش نارائن، مرارجی دیسائی اور باقی بڑے رہنما گرفتار کر لیے گئے ہیں، تووزیر دفاع سورن سنگھ نے کچھ سوال اٹھائے۔
بیٹھک سے سب باہر نکل رہے تھے تو سنجے باہر کھڑے تھے۔ انہوں نے گجرال سے کہا کہ سارے نیوز بلیٹن نشر ہونے سے پہلے ان کے پاس بھیجے جائیں۔ گجرال نے کہا کہ جب تک نشر نہیں ہوتے، نیوز بلیٹن خفیہ ہوتے ہیں۔ اس لیےانہیں نہیں بھیجے جا سکتے۔
اندرا بھی بغل میں ہی تھوڑی دور تھیں۔ انہوں نے سنجے اور گجرال کے بیچ ہو رہی کچ کچ سنی تو پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ گجرال نے بتا دیا۔ گجرال گھر لوٹے اور اپنا استعفیٰ تیار کرنے لگے۔
تبھی انہیں وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر واپس بلا لیا گیا۔ وہاں اندرا نہیں تھیں۔ وہ دفتر چلی گئی تھیں۔ سنجے تھے۔ انہوں نے گجرال سے کڑک آواز میں پوچھا کہ وزیر اعظم کا پیغام صبح آکاش وانی کے سبھی ویو لینتھ پر نشر کیوں نہیں ہوئے؟ گجرال نے سنجے سے کہا کہ اگر آپ کو مجھ سے بات کرنی ہے تو پہلے تہذیب سیکھنی ہوگی۔ آپ میرے بیٹے سے بھی چھوٹے ہیں اور میں آپ کو کسی بھی بات کا جواب دینے کے لیے مجبور نہیں ہوں۔
اندرا کو پتہ چلا کہ گجرال استعفیٰ دے رہے ہیں تو انہوں نے ان سے لمبی بات چیت کی۔ گجرال نے کہا کہ میں اطلاعات و نشریات نہیں سنبھالوں گا۔
مفکر اور دانشور جے کرشن مورتی ایمرجنسی لگنے سے ناراض تھے۔ جب 24 اکتوبر 1976 کو وہ بیرون ملک سے دہلی آئے تو اندرا ان سے ملنے گئیں۔ بات چیت میں بتایا کہ ہندو پنچانگ کے حساب سے آج میرا جنم دن ہے تو 80 سال کے کرشن مورتی نے اندرا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور دونوں کافی دیر خاموش بیٹھے رہے۔
کرشن مورتی نے پوچھا کہ آپ اندر سے اتنی پریشان کیوں ہیں؟ اندرا نے کہا کہ ہاں، ہوں۔ پھر بتانے کی کوشش کی کہ پچھلے سوا سال میں ملک میں کیا کیا ہوا؟ کرشن مورتی کچھ نہیں بولے۔ بےچین اندرا لوٹ گئیں۔ مہینے بھر بعد 28 نومبر کو صبح 11 بجے اچانک وہ پھر کرشن مورتی کے پاس پہنچیں۔سکیورٹی بھی ساتھ نہیں تھے۔ ایک گھنٹے وہ سنت کرشن مورتی کے پاس رہیں۔ تب وہاں موجود ایک چشم دید نے لکھا ہے کہ اندرا باہر آئیں تو آنسو ان کے گال پر تھے۔
کرشن مورتی نے بھی اس ملاقات کے بارے میں کسی کو زیادہ نہیں بتایا۔ اندرا نے بہت بعد میں اپنی ایک بےحد پرانی سہیلی کو بتایا کہ کرشن مورتی سے اس ملاقات میں وہ اتنا روئیں، اتنا روئیں کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ کتنا روئیں۔ سہیلی سے انہوں نے کہا کہ میں عرصے سے روئی نہیں تھی۔ اس رونے سے میرا جی کتنا ہلکا ہو گیا، میں بتا نہیں سکتی۔
چوبیس اکتوبر کو کرشن مورتی سے ملنے کے چار دن بعد اندرا نے قریب قریب طے کر لیا تھا کہ وہ ایمرجنسی ہٹانے اور انتخاب کرانے کا اعلان کر دیں گی۔ لیکن چوکڑی نے ایسا کھیل کھیلا کہ 5 نومبر کو لوک سبھا کی مدت کار بنا چناؤ کے ہی ایک سال کے لیے بڑھا دی گئی۔ 28 نومبر کو کرشن مورتی سے مل کر لوٹنے کے بعد اندرا کا یہ فیصلہ اور مضبوط ہو گیا کہ وہ انتخاب کرائیں گی۔ اپنے بھروسے کےلوگوں سے انہوں نے ذکر کیا تو سب نے مخالفت کی۔ سنجے گاندھی، بنسی لال، سب نے۔
راء کے آر این کاو نے ملک بھر کی سیاسی صورتحال کا مطالعہ کرنے کے لیے وقت مانگا۔ کچھ ہفتوں بعد انہوں نے اندرا سے کہا کہ چناؤ ہو ں گے تو کانگریس بری طرح ہار جائےگی۔ اس کے بعد سنجے نے جاکر اندرا سے کہا کہ چناؤ کراکر آپ اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر رہی ہیں۔وزرائے اعلیٰ سے پوچھا تو انہوں نے بھی طرح طرح کے خدشات کا اظہار کیا۔ لیکن اندرا کو کوئی نہیں روک پایا۔
انہوں نے18 جنوری1977 کو اعلان کر دیا کہ چناؤ ہوں گے۔ اسی دن تمام اپوزیشن رہنما بھی جیلوں سے رہا کر دیے گئے۔ کسی کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔ جےپرکاش نارائن نے تب کہا تھا کہ اندرا نے جو ہمت دکھائی ہے، برلے ہی دکھا سکتے ہیں۔ نہرو کی بیٹی کے ضمیر نے سنجے کی ماں کے دل پر جو جیت حاصل کی، وہ بے مثال ہے۔ اندرا میں فسطائی کروموسوم تھے ہی نہیں، اس لیے وہ یہ کر پائیں۔
آج یہ کہہ دینا تو بڑا آسان ہے کہ جواہر لال نے اپنی بیٹی کو وراثت سونپ دی، لیکن کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ ایک والد نے جیل کی تنہائی کی زندگی میں رہ کر اپنی بیٹی کو چٹھیوں کے ذریعے جمہوریت کے کیسے ٹھوس اقدار دیےتھے؟ آج ہندو قدروں کے خودساختہ مخافظ ہر مہینے اپنے‘من کی بات’سنا سناکر جواقدارملک کو دے رہے ہیں، آپ دیکھ نہیں رہے؟
جمہوریت کو اپنے ٹھینگے پر رکھے گھوم رہے لٹھیتوں کے اس دور میں اندرا کا قد تو اور بھی سو گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے46 سال پہلے کی ایمرجنسی کے 633 دنوں پر خوب ہائے توبہ مچائیے، مگر پچھلے 2555 دنوں سے بھارت ماتا کی چھاتی پر چلائی جا رہی غیراعلانیہ ایمرجنسی کی چکی کے پاٹوں کو نظرانداز مت کریے۔
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ آج آپ کے کتنے بنیادی حقوق سچ مچ باقی رہ گئے ہیں؟ کاشی کی گنگا کا پانی آج جیسا بھی کر دیا گیا ہو، لیکن ہے تو گنگا کا، سو یہ پانی ہاتھ میں لےکر پوری ایمانداری سے بتائیے کہ وہ دن تو چلیے کالے تھے، لیکن یہ‘اچھے دن’کیسے ہیں؟
(مضمون نگار نیوزویوز انڈیا کے مدیر ہیں۔ یہ مضمون بنیادی طور پر نیا انڈیا پرشائع ہوا ہے۔)