ہندوستان- چین سرحد پر 20 ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کو کل جماعتی اجلاس میں کہا کہ ہندوستانی سرحد میں نہ کوئی داخل ہواتھا نہ کسی پوسٹ کو قبضے میں لیا گیا تھا۔ ان کے بیان پر اپوزیشن نے سوالات اٹھائے ہیں۔
نئی دہلی میں ویڈیو کانفرنسنگ کےذریعے ہندوستان- چین سرحدی تنازعے پر کل جماعتی اجلاس کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی:وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے ساتھ چھ ہفتے سےسرحد پر بنے حالات پر جمعہ کو کہا کہ کوئی ہندوستانی حدودمیں داخل نہیں ہوا اور نہ ہی ہندوستانی چوکیوں پر قبضہ کیا گیا ہے۔وزیر اعظم نے گلوان گھاٹی میں چین کے ساتھ پرتشدد جھڑپ میں 20 جوانوں کی ہلاکت سے متعلق پیش رفت پر سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو جانکاری دی۔
مودی نے اس میں کہا، ‘نہ وہاں کوئی ہماری سرحد میں گھس آیا ہے، نہ ہی کوئی گھسا ہوا ہے۔ نہ ہی ہماری کوئی پوسٹ کسی دوسرے کے قبضے میں ہے۔انہوں نے آگے کہا، ‘لداخ میں ہمارے 20 جاں باز شہید ہوئے لیکن جنہوں نے بھارت ماتا کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھا تھا، انہیں وہ سبق سکھاکر آئے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ فوج کومناسب قدم اٹھانے کی آزادی دی گئی ہے۔ سرکار کے ایک بیان کے مطابق وزیر اعظم نے رہنماؤں کو یقین دلایا کہ مسلح افواج ملک کی حفاظت کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہیں۔
اس سے پہلے 17 جون کو وزارت خارجہ کی جانب سے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کے چینی وزیر خارجہ وانگ ژئی سے بات کرنے کے بعد جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ جئےشنکر نے یہ یاد دلایا کہ 6 جون کو سینئر ملٹری کمانڈر کے ساتھ ہوئی میٹنگ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر ڈی اسکیلیشن اورتعطل کوختم کرنے پر سمجھوتہ ہوا تھا۔
اس بیان میں کہا گیا تھا، ‘پچھلے ہفتے سے زمین پر کمانڈروں کی باقاعدہ بیٹھک ہو رہی تھی۔ اس بارے میں تھوڑی پیش رفت ہوئی تھی، لیکن چینی فریق نے ایل اے سی پر ہماری طرف گلوان گھاٹی میں تعمیرکی کوشش کی۔ جہاں یہ تنازعہ کی وجہ بنا، وہیں چین نے پہلے سے طے شدہ حکمت عملی کے تحت اپنے کارنامے کو انجام دیا، جس کا نتیجہ تشدد اورجانوں کی ہلاکت کے طور پر سامنے آیا۔ یہ حالات کو بنائے رکھنے کے ہمارے تمام سمجھوتے کی خلاف ورزی کے بطور زمینی سچائی کے بدلنے کے ارادہ کوظاہر کرتا ہے۔’
اس سے پہلے 16 جون کو وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ شریواستو نے کہا تھا کہ ‘چین اتفاق رائے سے گلوان گھاٹی میں ایل اےسی کااحترام کرتے ہوئے وہاں سے نکل گیا ہے۔ انہوں نے آگے کہا تھا کہ ہندوستان اس بارے میں صاف ہے کہ ان کی تمام سرگرمیاں ہمیشہ ایل اےسی میں ہندوستان کی طرف ہوئی ہے۔
اپوزیشن نے اٹھائے سوال
اب جمعہ کو وزیر اعظم مودی کے ہندوستانی سرحد میں کسی کے بھی نہ آنے کے بیان کے بعد اپوزیشن نے سوال اٹھائے ہیں۔ سیتارام یچوری نے کہا، ‘تو وہاں کوئی تنازعہ نہیں ہے؟ ہمارے بہادر فوجی کیوں شہید ہوئے ہیں؟ پھر یہ کل جماعتی میٹنگ کیوں ہو رہی ہے؟
عام آدمی پارٹی کے سنجے سنگھ نے بھی سوال کیا، ‘کیا ہندوستان نے گلوان گھاٹی پر اپنا دعویٰ چھوڑ دیا ہے؟ اگر چین ہمارے حدود میں داخل نہیں ہواہے، تو ہم چین پربحث کیوں کر رہے ہیں؟
وہیں راہل گاندھی نے بھی الزام لگایا کہ وزیر اعظم نے ہندوستانی علاقہ چین کو سونپ دیا ہے۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں لکھا، ‘وزیر اعظم نے چینی جارحیت کے سامنے ہندوستانی علاقہ چین کو سونپ دیا ہے۔’
کانگریس رہنما نے سوال کیا کہ اگر یہ سرزمین چین کی تھی تو ہمارے فوجی کیوں شہید ہوئے؟ وہ کہاں شہید ہوئے؟پارٹی ترجمان منیش تیواری نے ٹوئٹ کیا،‘وزیر اعظم نے ہندوستانی سرحدوں کی مؤثر طریقے سے تجدیدکر دی ہے۔ انہوں نے چین کے رخ کو درست ٹھہرایا ہے اور اپنے وزیر خارجہ کی بات کو کاٹ دیا ہے۔’
انہوں نے سوال کیا،‘کیا ہندوستانی فوج چینی حدود میں تھے؟ اب ہندوستان کے حساب سے ایل اےسی کیا ہے؟ کیا ہمارے اتنے جاں بازوں نے بےوجہ جان دے دی؟’تیواری نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم کا بیان گمراہ کن ہے۔وزیر اعظم کا یہ بیان ان خبروں کے بیچ آیا ہے کہ چینی فوج نے پیانگونگ تس اور گلوان گھاٹی سمیت مشرقی لداخ کے کئی علاقوں میں ایل اےسی کے ہندوستانی علاقے کی طرف دراندازی کی ہے۔
وہیں، چین نے گلوان گھاٹی پر اپنی مکمل ملکیت کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ وزیر اعظم کے ساتھ یہ بیٹھک تقریباً چار گھنٹے تک چلی، جس میں سونیا گاندھی، شرد پوار، ممتا بنرجی اور سیتارام یچوری سمیت اپوزیشن پارٹیوں کے اہم رہنماؤں نے حصہ لیا۔اجلاس میں کانگریس صدرسونیا گاندھی نے اپنے شروعاتی بیان میں کہا کہ اس سطح پر بھی وہ اس بحران کے کئی اہم پہلوؤں سےناواقف ہیں۔
انہوں نے سرکار کے سامنے سوال رکھے اور پوچھا کہ چینی فوج ہندوستانی سرحد میں کب داخل ہوئی؟ انہوں نے یہ بھی پوچھا، ‘کیا سرکار کولگتا ہے انٹلی جنس کی سطح پر ناکامی ہوئی؟’سابق وزیر دفاع اوراین سی پی رہنما شرد پوار نے کہا کہ کشیدگی کم کرنے کے لیے سفارتی ذرائع کا استعمال ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ چینی فوج کو گلوان گھاٹی میں اونچے میدانی علاقوں سے باہر نکالا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ چین کی فوج ہندوستانی سرحد کی طرف دربوک ڈی بی او روڈپر اثرانداز ہونے کے مقصد سے گلوان گھاٹی میں اونچے علاقوں میں ڈٹی ہوئی ہے۔ترنمول کانگریس کی صدرممتا بنرجی نے کہا کہ ان کی پارٹی بحران کی اس گھڑی میں حکومت کے ساتھ پرزور طریقے سے کھڑی ہے اورمرکز کو اسٹریٹجک طور پر اہم بنیادی منصوبوں میں چین کو سرمایہ کاری کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
ترنمول کے ذرائع نے کہا کہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہندوستان کواس مشکل وقت میں متحد رہنا چاہیے اور رہےگا۔دریں اثناآر جے ڈی،عآپ اور اےآئی ایم آئی ایم جیسی اپوزیشن پارٹیوں نے کل جماعتی اجلاس میں مدعو نہیں کئے جانے پر جمعہ کو ناراضگی کا اظہار کیااور اس کے عمل پرسوالات قائم کیے۔
لالو پرساد کی قیادت والی راشٹریہ جنتا دل کے ارکان پارلیامان نے پارلیامنٹ کیمپس میں مہاتما گاندھی کے مجسمہ کے سامنے دھرنا دیا اور کہا کہ بہار میں مرکزی اپوزیشن پارٹی اور اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود اس کومدعو نہیں کیا گیا۔ دھرنا دینے والوں میں لالو پرساد کی بیٹی میسا بھارتی اور منوج جھا شامل تھے۔
جھا نے اس طرح کےقومی اہمیت کے مدعے پر کل جماعتی اجلاس سے باہر رکھے جانے پر ‘گہرے رنج‘کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی کو ایک خط لکھا۔ذرائع کے مطابق، پارٹیوں کو دعوت بھیجنے کے لیے جن اصولوں پر عمل کیا گیا تھا ان میں سبھی تسلیم شدہ قومی پارٹی، لوک سبھا میں پانچ سے زیادہ ممبران والی پارٹی، نارتھ ایسٹ کی اہم پارٹی اورمرکزی کابینہ میں وزرا والی پارٹی شامل تھی۔
اس عمل پر سوال اٹھاتے ہوئے جھا نے ٹوئٹ کیا، ‘پانچ ممبروں کی دلیل کاانکشاف… راجیہ سبھا میں ہماری تعدادپانچ اور دوسرا۔ چار ممبروں والی تیلگو دیشم پارٹی کو مدعو کیا گیا، اپنا دل دورکن پارلیامان، مدعو کیا گیا، اکالی دل… دو ، مدعوکیا گیا،سی پی آئی دو مدعو کیا گیا…۔’آرجےڈی رہنما تیجسوی یادو نے بھی اس عمل پر سوال اٹھایا۔
اروند کیجریوال کی عآم آدمی پارٹی (عآپ) نے بھی بیٹھک میں نہیں بلائے جانے پر ناراضگی کا اظہارکیا۔ راجیہ سبھا رہنما سنجے سنگھ نے کہا کہ ان کی پارٹی کی دہلی میں سرکار ہے اور پنجاب میں یہ مرکزی اپوزیشن پارٹی ہے۔ لیکن پھر بھی بی جے پی اتنے اہم معاملے پر اس کی رائے نہیں چاہتی ہے۔
سنگھ نے صحافیوں سے کہا، ‘مرکز کی بی جے پی سرکار کو قومی سلامتی جیسے اہم مدعے پر سب کو ساتھ لینا چاہیے۔جمہوریت کے لیے یہ شرمناک ہے کہ تین بار کے وزیراعلیٰ کو ایک اہم معاملے پرصلاح دینے کے لیے نہیں بلایا گیا ہے۔عآپ نے ایک بیان میں کہا، ‘یہ فخرکی بات ہے کہ کل جماعتی میٹنگ نئی دہلی میں ہو رہی ہے، جہاں عآپ کی حکومت ہے۔ امید ہے کہ بیٹھک میں چین سے پیدا ہوئے خطرے اور لداخ میں چل رہے بحران کاقابل احترام حل نکلےگا۔’
اےآئی ایم آئی ایم چیف اسدالدین اویسی نے بھی مودی کو خط لکھ کراجلاس میں مدعو نہیں کیے جانے پرناراضگی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب قومی اتفاق رائےاورمتحدہ ردعمل ضروری ہے، یہ بدقسمتی ہے کہ ان کی پارٹی کواجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)