کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ستمبر 2020 سے اب تک لوک سبھا سکریٹریٹ نےقومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے ہندوستان اور چین کےسرحدی تنازعہ کے بارے میں سترہ سوالوں کاجواب دینے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اور بھی کئی سوال ہیں، جن کا حکومت جواب نہیں دے رہی۔
نئی دہلی: کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے سوموارکو کہا کہ ستمبر 2020 سے اب تک لوک سبھا سکریٹریٹ نے قومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے، ہندوستان اور چین کےسرحدی تنازعہ سے متعلق پوچھے گئے 17 سوالوں کا جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ، اس طرح کے اور بھی سوال ہیں، جن کا حکومت جواب نہیں دے رہی۔
رپورٹ کے مطابق،تیواری نے تاریخ کے لحاظ سے پوچھے گئے ان سوالوں کی فہرست منسلک کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ہے اوراس میں لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا اور راجیہ سبھا کے چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو کو ٹیگ کیا ہے۔
انہوں نے کہا،اپریل2020 کے بعد سے چین پر ایک بھی ٹھوس بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ کیا ہم اب بھی جمہوریت ہیں؟
تیواری کے ذریعہ شیئر کیے گئے17سوالوں کی فہرست میں سب سے زیادہ 10 سوال وزارت دفاع سے پوچھے گئے تھے۔ وہیں پانچ سوال وزارت داخلہ سےپوچھے گئے۔ باقی ایک سوال وزارت خارجہ اور ایک سوال وزیر اعظم دفتر (پی ایم او)سے پوچھا گیا تھا۔
Snap Shot of 17 questions on Sino- Indian Border Situation disallowed by Lok Sabha Secritariat on specious grounds of National Security. There are many more.
Not one substantive discussion on China since April 2020.
Are we a Democracy any longer? @ombirlakota @MVenkaiahNaidu pic.twitter.com/KtQVZARtkM
— Manish Tewari (@ManishTewari) December 20, 2021
واضح ہو کہ لداخ کی وادی گلوان میں15 جون 2020 کو ہوئےجھڑپ کے دوران ہندوستانی فوج کے 20 اہلکار شہید ہوئے تھے۔ بعد میں چین نے بھی اعتراف کیاتھاکہ اس کے پانچ فوجی افسران اور جوانوں کی موت ہوئی تھی۔یہ تقریباً45 سالوں میں ہندوستان اور چین کی سرحد پر سب سے زیادہ پرتشدد جھڑپ تھی۔
ہندوستان اور چینی فوج کےدرمیان سرحد پر تعطل کی صورتحال گزشتہ سال 5 مئی کو پیدا ہونا شروع ہوئی تھی، جس کے بعد پینگونگ جھیل کے علاقے میں دونوں طرف کے فوجیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپ ہوئی تھی۔ اس کے بعد دونوں اطراف نے سرحد پر ہزاروں فوجی اور بھاری ہتھیار اور گولہ بارود تعینات کر دیا تھا۔
ہندوستانی فوجیوں نے ایل اے سی پرمعمول کی گشت کے پوائنٹ سے آگے چینی دراندازی کا پتہ لگائے جانے کے بعد مشرقی لداخ میں پچھلے سال مئی کے اوائل سےہی ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے درمیان متعدد جھڑپیں ہوئی تھیں۔
دونوں ممالک کے بیچ جاری کشیدگی کے دوران پہلی جھڑپ وادی گلوان میں5-6 مئی2020 کی درمیانی شب میں ہوئی تھی۔اس کے بعد’فنگرز 4’کےقریب10-11مئی2020 کو مشرقی لداخ میں پینگونگ جھیل کے شمالی کنارے پر جھڑپ ہوئی تھی۔
چین نے’فنگر 4’تک پختہ سڑک اور دفاعی چوکیاں بنائی تھیں۔ ہندوستانی فوجی اس سے پہلے’فنگر 8’تک باقاعدگی سے گشت کرتے تھے،لیکن چین کی طرف سے تجاوزات کے بعد ہندوستانی فوجیوں کا گشت ‘فنگر 4’ تک محدود ہو گیا۔
ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول’فنگر 8’سے گزرتی ہے، جبکہ چین کا دعویٰ ہے کہ یہ’فنگر 2’پر واقع ہے۔
اس معاملے کو لے کرپچھلے کئی مہینوں سے اپوزیشن لیڈرحکومت سے سوال کر رہے ہیں۔ ایسی کئی خبریں آئی ہیں کہ چین مسلسل ہندوستانی سرحد میں مداخلت کی کوشش کر رہا ہے۔
ان سوالوں میں چین اور سرحد پر صورتحال سےمتعلق کئی مدعےشامل تھے۔ کچھ سوالات ہندوستانی سرزمین پر قبضے اور چینی دراندازی اور تجاوزات سے متعلق تھے،وہیں دیگرجھڑپوں میں شہید ہوئے ہندوستانی فوجیوں، بحالی کے عمل، ایل اے سی اور چین کے جوہری پروگرام وغیرہ سے متعلق تھے۔
حالاں کہ، حکومت نے ان تمام سوالوں کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔
ستمبر 2020 کے بعد لوک سبھا میں چین سے متعلق 18 سوالوں کے جوابات دیے گئے
ستمبر2020 کے بعد لوک سبھا میں چین پر پوچھے گئے کل سوالوں کے ریکارڈ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے اس دوران 18سوالوں کے جواب دیے ہیں۔یہ سوال چین سے ہندوستان میں پروڈکشن شفٹ کرنے، چین سے درآمدات اور ہندوستان-چین سرحد پر تعمیرات جیسےامور سے متعلق تھے۔
تیواری کی طرف سے پوچھے گئے کچھ سوالوں کے جواب بھی دیے گئے، جن میں’چین کےڈیم بنانے’اور ‘چین کے ساتھ ورچوئل میٹنگ’جیسے موضوعات شامل ہیں۔
وزارت خارجہ نے 16ستمبر 2020 کو ‘ہندوستان-چین سرحد پر چرچہ’پرایک سوال کا جواب دیا تھاجس میں انہوں نے کہا تھا:
اس سال اپریل-مئی سےچینی فریق نےسرحدی علاقوں اور مغربی سیکٹر میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی)پرفوجیوں اور فوجی ہتھیاروں کی تعیناتی میں اضافہ کیا ہے۔ مئی کے وسط سےچینی فریق نے ہندوستان-چین سرحدی علاقے کے مغربی سیکٹر کے کئی علاقوں میں ایل اے سی کو عبور کرنے کی کوشش کی۔ ان کوششوں کو ہمیشہ ہماری طرف سے مناسب جواب ملا ہے۔
اس بیان میں مزید کہا گیا تھا:ایسی کوششوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لیےدونوں فریق فوجی اور سفارتی ذرائع سے بات چیت میں شامل ہوئے۔
وادی گلوان جھڑپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھاکہ:
سینئر کمانڈروں کی ایک میٹنگ6 جون 2020 کو ہوئی اور دونوں فریق اپنی اپنی جگہ پر جانے کے عمل پر متفق ہوئے تھے۔ اس کے بعد اعلیٰ سطح پر اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنانے کے لیےگراؤنڈ کمانڈروں کی کئی میٹنگ ہوئیں۔
حالاں کہ، چینی فریق ایل اے سی کا احترام کرنے کے لیے اس اتفاق رائے سے پیچھے ہٹ گیا اور یکطرفہ طور پراس کوبدلنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں15جون 2020 کی شام اور رات کو ایک پرتشدد جھڑپ ہوئی۔دونوں طرف سے جانی نقصان ہوا،اگر چینی فریق سینئر کمانڈروں کی سطح پر ہوئے سمجھوتے کی ایمانداری سے پیروی کرتےتواس کوٹالا جا سکتا تھا۔
اس کےبعد ہوئے غوروخوض کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا:
جیسے ہی حالات معمول پر آتے ہیں، دونوں اطراف کو سرحدی علاقوں میں امن برقرار رکھنے کے لیے نئے اقدامات کو تیز کرنا چاہیے۔ توقع کی جاتی ہے کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہوئے سمجھوتوں پر عمل درآمد اور سرحدی علاقوں میں مکمل امن کی بحالی کو یقینی بنانے کے لیے فوجی اور سفارتی حکام کی ملاقاتیں جاری رہیں گی۔