کینیڈا کی قومی سلامتی کی مشیر نتھالی ڈروئن نے پارلیامانی کمیٹی کو بتایا کہ اس کیس کے پس منظر پر واشنگٹن پوسٹ سے بات کرنا ہندوستانی حکومت کی طرف سے پھیلائی جا رہی غلط جانکاری کا مقابلہ کرنے کے لیے میڈیا اسٹریٹجی کا حصہ تھا۔
نئی دہلی: ہندوستان اور کینیڈا کے سفارتی تعلقات پہلے ہی خراب ہو چکے ہیں۔ اس بیچ خبر آرہی ہے کہ کینیڈا کے نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ موریسن نے ہی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو تصدیق کی تھی کہ ہندوستان کے وزیر داخلہ امت شاہ کینیڈین شہریوں کے قتل کی سازش میں ‘ملوث’ تھے۔
منگل (29 اکتوبر ) کو موریسن نے یہ انکشاف پبلک سیفٹی اینڈ نیشنل سکیورٹی کو لے کر بنائی گئی کینیڈا کی پارلیامانی کمیٹی کی شنوائی میں کیا۔
کینیڈا کی قومی سلامتی کی مشیر نتھالی ڈروئن نے پارلیامانی کمیٹی کو بتایا کہ اس کیس کے پس منظر پر واشنگٹن پوسٹ سے بات کرنا ہندوستانی حکومت کی طرف سے پھیلائی جارہی غلط جانکاری کا مقابلہ کرنے کے لیے میڈیااسٹریٹجی کا حصہ تھا۔
تاہم، کنزرویٹو پارٹی کی ایم پی راکیل ڈانچو نے واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ جانکاری شیئر کرنے کے کینیڈا کے فیصلے پر سوال اٹھایا۔
ڈانچو نے جب کینیڈا کے نائب وزیر خارجہ موریسن سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا، ‘صحافی نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ کیا یہ وہی شخص ہے؟ میں نے تصدیق کی کہ یہ وہی شخص ہے۔’
دونوں سینئر کینیڈین حکام کے ساتھ، رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس کمشنر اور دیگر حکام نے بھی پارلیامانی کمیٹی کی سماعت میں شرکت کی۔ انہوں نے ‘حکومت ہند کے ایجنٹوں کے ذریعےکینیڈا میں انتخابی مداخلت اور مجرمانہ سرگرمیوں’ سے متعلق سوالات کے جوابات دیے۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ 14 اکتوبر کو سامنے آئی تھی
واضح ہو کہ 14 اکتوبر کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم کینیڈین حکام کے حوالے سے لکھا تھا کہ ہندوستانی سفارت کاروں کی بات چیت اور پیغامات میں’مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور را کے ایک سینئر اہلکار ‘ کا ذکر ہے ، جنہوں نے کینیڈا میں انٹلی جنس اکٹھا کرنے والے مشن اور سکھ علیحدگی پسندوں پر حملے’ کی اجازت دی تھی ۔
اسی تاریخ کو ہندوستان نے ‘سکیورٹی خدشات ‘ کے پیش نظر اپنے سفارت کاروں اور ہائی کمشنر کو واپس بلا لیا تھا ۔ حالانکہ کینیڈا نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ہندوستانی سفارت کاروں کو ملک بدر کیاہے۔ اسی دن ہندوستان نے کینیڈا کے چھ سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا تھا۔
ہندوستان اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تنازعہ ایک سال قبل ایک قتل سے شروع ہوا تھا۔ دراصل، 18 جون 2023 کو کینیڈا کے شہری ہردیپ سنگھ نِجر (جسے ہندوستان نے دہشت گرد قرار دیا تھا) کو کینیڈا کے شہر وینکوور میں گرو نانک سکھ گردوارے کی پارکنگ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اس واقعے کے فوراً بعد کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنے ملک کی پارلیامنٹ میں کہا تھا کہ ‘ہندوستانی حکومت کے ممکنہ طور پر ملوث ہونے کے الزامات’ کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے پہلے ورژن میں نہیں تھا امت شاہ کا نام
شاہ کا نام واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے پہلے ورژن میں نہیں تھا۔ اس میں صرف ‘ایک سینئر ہندوستانی اہلکار’ کے ملوث ہونے کا حوالہ دیا گیا تھا۔
تاہم، رپورٹ شائع ہونے کے کئی گھنٹے بعد اخبار نے اپنے ذرائع سے مزید تفصیلی معلومات حاصل کیں اور سینئر ہندوستانی اہلکار کی شناخت امت شاہ کے طور پر کرتے ہوئے اس رپورٹ کو اپڈیٹ کیا۔
خفیہ ملاقات پر بھی انکشاف!
واشنگٹن پوسٹ نے ہی اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور کینیڈا کی قومی سلامتی کی مشیر نتھالی ڈروئن کے درمیان سنگاپور میں ملاقات ہوئی تھی۔
اس ملاقات میں کینیڈا کے نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ موریسن کے ساتھ رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس کے اعلیٰ عہدیدار نے بھی شرکت کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق، اس ملاقات میں کینیڈا کی جانب سے شاہ کے ملوث ہونے کے بارے میں تفصیلی معلومات اور دیگر شواہد شیئر کیے گئے تھے۔ لیکن ڈوبھال نے کچھ بھی ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
اب اس ہفتے کے شروع میں کینیڈا کے اخبار دی گلوب اینڈ میل نے کینیڈین حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سنگاپور میٹنگ میں اصل میں کیا ہوا تھا۔
سنگاپور میں 12 اکتوبر کو ایک میٹنگ طے کی گئی جس میں ڈروئن، موریسن اور ڈپٹی آر سی ایم پی کمشنر مارک فلین نے مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کے سامنےشواہد پیش کیے تھے۔ کینیڈین نے میٹنگ میں تین تجاویز پیش کیں؛ ہندوستان اپنے چھ سفارت کاروں سے مراعات واپس لے تاکہ آر سی ایم پی ان سے پوچھ گچھ کر سکے؛ اس کے علاوہ ایک اور آپشن یہ تھا کہ کینیڈا ان چھ سفارت کاروں کو ملک بدر کر دے؛یا ہندوستان ایک آف ریمپ قبول کرے۔’
گلوب اینڈ میل کے ذرائع نے کہا کہ این ایس اے ڈوبھال نے ‘کینیڈا کی تمام درخواستوں کو مسترد کر دیا’، جس کے بعد کینیڈا نے چھ ہندوستانی سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا۔
ڈوبھال کے دفتر نے دی وائر اور دیگر میڈیا تنظیموں کی طرف سے سنگاپور میں پیش رفت کے حوالے سے کینیڈا کے بیان پر اٹھائے گئے سوالات کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )