ایک کینیڈین اہلکار نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ ہندوستانی سفارت کاروں کے درمیان ہوئی بات چیت اور پیغامات میں ‘ہندوستان میں ایک سینئر عہدیدار اور راء کے ایک سینئر اہلکار’ کا ذکر ہے۔ الزامات کے مطابق وہ ‘سینئر عہدیدار’ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ ہیں۔
ہندوستان میں جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ جسٹن ٹروڈو ۔ (تصویر بشکریہ: Facebook/@JustinPJTrudeau)
نئی دہلی: ہندوستان اور کینیڈا کے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ سوموار ( 14 اکتوبر ) کو ہندوستان نے ‘
سکیورٹی خدشات‘ کے پیش نظر اپنے سفارت کاروں اور ہائی کمشنر سنجے ورما کو واپس بلا لیا۔
تاہم، کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے
دعویٰ کیا ہے کہ ان کی حکومت نے چھ ہندوستانی سفارت کاروں کوواپس جانے کو کہا ہے۔
دریں اثنا، ہندوستانی حکومت نے بھی کینیڈا کے چھ سفارت کاروں کو واپس جانے کی ہدایت دی ہے اور انہیں 19 اکتوبر کی رات 11:59 بجے سے پہلے
ملک چھوڑنے کو کہا ہے ۔
ہندوستان کی طرف سے جن سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کو کہا گیا ہے وہ ہیں – اسٹیورٹ راس وہیلر ( قائم مقام ہائی کمشنر )، پیٹرک ہیبرٹ ( ڈپٹی ہائی کمشنر )، میری کیتھرین جولی (فرسٹ سکریٹری )، لین راس ڈیوڈ ٹرائٹس ( فرسٹ سکریٹری )، ایڈم جیمز چوئیپکا (فرسٹ سکریٹری ) اور پاؤلا اورجوئیلا ( فرسٹ سکریٹری )۔
یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟
حالیہ کشیدگی کا تعلق گزشتہ سال ہونے والے ایک قتل معاملے سے ہے۔ 18 جون 2023 کو کینیڈا کے وینکوور میں گرو نانک سکھ گردوارے کی پارکنگ میں کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ہندوستانی نژاد نجر جالندھر کے گاؤں بھار سنگھ پورہ کا رہنے والا تھا۔جس گرودوارہ میں اس کا قتل کیا گیا، وہ اس گردوارے کا صدر بھی تھا۔
یکم جولائی 2020 کو وزارت داخلہ کے جاری کردہ
نوٹیفکیشن کے مطابق، حکومت ہند ہردیپ سنگھ نجر کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث مانتی ہے ۔ اس نوٹیفکیشن میں لکھا گیا ہے ، ‘ہردیپ سنگھ نجر خالصتان ٹائیگر فورس کا چیف ہے اور خالصتان ٹائیگر فورس کاماڈیول ممبران کے کام کرنے ، نیٹ ورکنگ ، تربیت اور مالی اعانت فراہم کرنے میں سرگرم عمل ہیں ۔’
نجر کے قتل کے فوراً بعد جسٹن ٹروڈو نے کینیڈین پارلیامنٹ کہا تھاکہ ‘ ہندوستانی حکومت کے ممکنہ طور پرملوث ہونے کے الزامات ‘ کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ہندوستانی حکومت نے کینیڈا کے اس بیان پر سخت اعتراض ظاہر کیا تھا۔
اس کے بعد سے ہندوستان اور کینیڈا کے تعلقات میں مسلسل کشیدگی کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
دریں اثنا، اتوار (13 اکتوبر ) کی رات وزارت خارجہ کو کینیڈا سے ایک سفارتی پیغام موصول ہوا ، جس میں بتایا گیا کہ کینیڈا میں جاری ایک تحقیقات میں ہندوستانی ہائی کمشنر اور دیگر سفارت کار’پرسن آف انٹریسٹ’ ہیں ۔
بتادیں کہ کینیڈا کے قانون میں ‘پرسن آف انٹریسٹ’ کی اصطلاح عام طور پر کسی ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کے بارے میں حکام خیال کرتے ہیں کہ یا تو اس کا کسی جرم (نجر کے قتل) سے تعلق ہو سکتا ہے ،یا اس کے پاس جرم سے متعلق جانکاری ہوسکتی ہے، لیکن اس کوابھی تک ایسا مشتبہ نہ مانا گیا ہو جس پر باضابطہ طور پر فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے ۔
ہندوستانی حکومت نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ سوموار ( 14 اکتوبر ) کی شام، ہندوستان کی وزارت خارجہ نے اسٹیورٹ راس وہیلر کو
طلب کیا ۔ انہیں بتایا گیا کہ کینیڈا میں ہندوستانی ہائی کمشنر اور دیگر سفارت کاروں اور اہلکاروں کو بے بنیاد نشانہ بنانا پوری طرح سے ناقابل قبول ہے۔
اس کے بعدوہیلرمیڈیا سے مخاطب ہوئے اور
کہا ، ‘کینیڈا نے ہندوستانی حکومت کے ایجنٹوں اور کینیڈین سرزمین پر ایک کینیڈین شہری کے قتل کے درمیان روابط کے ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت فراہم کیے ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان اپنے وعدے پر قائم رہے اور ان تمام الزامات کی تحقیقات کرے۔ اس معاملے کی تہہ تک جانا دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ کینیڈا ہندوستان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔ ‘
دریں اثنا، کینیڈا کے وزیر اعظم نے ایک
بیان جاری کرتے ہوئے ہندوستانی سفارت کاروں کی واپسی کے بارے میں مطلع کیا ، ‘رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر نے آج (14 اکتوبر) کو کہا کہ ان کے پاس واضح اور پختہ شواہد ہیں کہ ہندوستانی حکومت کے ایجنٹ ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں،جوپبلک سیکورٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں ۔ … اس ہفتے کے آخر میں ، کینیڈین حکام نے پولیس کی طرف سے جمع کیے گئے شواہد کا اشتراک کرنے کے لیے ہندوستانی حکام سے ملاقات کی۔ درخواست کے باوجود ہندوستانی حکومت نے تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد میری معاون میلانی جولی ( وزیر خارجہ ) کے پاس ایک ہی آپشن تھا۔ انہوں نے ان چھ افراد کو کینیڈا چھوڑنے کا نوٹس جاری کر دیا۔ وہ اب کینیڈا میں بطور سفارت کار کام نہیں کر سکیں گے ، اور نہ ہی کسی وجہ سے کینیڈا میں دوبارہ داخل ہو سکیں گے۔ ‘
ورلڈ سکھ آرگنائزیشن آف کینیڈا نے ٹروڈو حکومت کے اس فیصلے کو
سراہا ہے ۔
گزشتہ 14 اکتوبر کو ہی جاری ایک
بیان میں ہندوستان کی وزارت خارجہ نے لکھا ، ‘انتہا پسندی اور تشدد کے ماحول میں ٹروڈو حکومت کے اقدامات کی وجہ سے سفارت کاروں کی سکیورٹی خطرے میں پڑ گئی ہے ۔ ہمیں ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کینیڈا کی موجودہ حکومت کے عزم پر کوئی اعتماد نہیں ہے ۔ اس لیے حکومت ہند نے ان ہائی کمشنر اور دیگر سفارت کاروں اور اہلکاروں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے جنہیں نشانہ بنایا گیا ہے ۔’
اس سے قبل جاری ایک اور
بیان میں وزارت خارجہ نے کہا ، ‘وزیر اعظم ٹروڈو نے ستمبر 2023 میں کچھ الزامات لگائے تھے ، لیکن حکومت کینیڈا نے ہماری طرف سے متعدد درخواستوں کے باوجود حکومت ہند کے ساتھ کوئی ثبوت شیئر نہیں کیا ہے ۔ اس نئے قدم میں بھی بغیر کسی حقیقت کے دوبارہ دعوے کیے گئے ہیں ۔ اس سے کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ یہ تحقیقات کے نام پر سیاسی فائدے کے لیے ہندوستان کو بدنام کرنے کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے ۔’
گزشتہ ہفتے ہوئی تھی مودی اور ٹروڈو کی ملاقات
قابل ذکر ہے کہ آسیان سربراہی اجلاس رواں ماہ 6 سے 11 اکتوبر تک لاؤس میں منعقد ہوا تھا۔ اس دوران وزیر اعظم نریندر مودی اور جسٹن ٹروڈو نے ملاقات کی تھی۔ کینیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن ( سی بی سی نیوز ) نے اسے ‘ مختصر بات چیت’ لکھا تھا ۔وہیں،
پی ٹی آئی نے ہندوستانی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ مودی اور ٹروڈو کے درمیان کوئی ٹھوس بات چیت نہیں ہوئی ۔
تاہم، سمٹ کے دوران ہی ٹروڈو نے ایک پریس کانفرنس میں
کہا تھا کہ ‘ میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا جس پر ہم نے بات کی ۔ لیکن میں نے کئی بار کہا ہے کہ کینیڈینوں کی حفاظت اور امن و امان کو برقرار رکھنا کسی بھی کینیڈین حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے اور میں اسی پر توجہ دوں گا۔ ‘
ہندوستانی حکومت کے اشارے پر کام کر رہا ہے بشنوئی گینگ: کینیڈا پولیس
عین اسی وقت جب ہندوستان میں بشنوئی گینگ کا نام نیشنلسٹ کانگریس (این سی پی) کے رہنما بابا صدیقی کے
قتل سے جوڑا جا رہا ہے ، کینیڈا کی پولیس نے اس گینگ پر اپنے ملک میں دہشت گردی پھیلانے کا
الزام لگایا ہے۔
کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں تھینکس گیونگ ڈے کے موقع پر میڈیا سے
خطاب کرتے ہوئے رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر بریگزٹ گوبن نے الزام لگایا کہ ہندوستانی حکومت کے ‘ایجنٹ’ لارنس بشنوئی گینگ کے ساتھ مل کر کینیڈا کی سرزمین پر دہشت پھیلا رہے ہیں۔
دی واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں کینیڈین حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہندوستانی حکومت لارنس بشنوئی گینگ کو ‘ہردیپ سنگھ نجر کے قتل’ جیسی کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہی ہے، ‘کینیڈا میں ہندوستانی سفارت کار مشتبہ سکھ علیحدگی پسندوں کے بارے میں خفتہ جانکاری اکٹھا کرتے ہیں، جس کو بعد میں ہندوستان کی انٹلی جنس ایجنسی را کو بھیجا جاتا ہے، تاکہ بشنوئی گینگ کو ٹارگیٹ کی پہچان کرنے مددمل سکے۔’
اخبار نے ایک کینیڈین افسر کے حوالے سے دعویٰ بھی کیا کہ ‘سینئر ہندوستانی اہلکار’ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ ہیں، جنہوں نے ‘را’ کے ایک سینئر اہلکار کو سکھ علیحدگی پسندوں کے بارے میں مبینہ طور پر خفتہ جانکاری جمع کرنے اور ان پر حملوں کی ذمہ داری دی ہوئی ہے۔
گزشتہ ہفتے کی ایک’خفیہ ملاقات ‘
سوموار ( 14 اکتوبر ) کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے ٹروڈو نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان ہونے والی ملاقات کی اہمیت سے آگاہ کیا تھا ، لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
دی واشنگٹن پوسٹ نے کینیڈا کے ایک اہلکار کے حوالے سے لکھا ہے کہ گزشتہ سنیچر ( 12 اکتوبر ) کو سنگاپور میں ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور کینیڈا کی قومی سلامتی کی مشیر نتھالی ڈروئن کی ملاقات ہوئی تھی۔ میٹنگ میں کینیڈا کے نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ موریسن کے ساتھ ساتھ رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بھی شرکت کی تھی ۔
رپورٹ کے مطابق ،اس ملاقات میں کینیڈا کی جانب سے شاہ کے ملوث ہونے اور دیگر شواہد کے بارے میں تفصیلی معلومات شیئر کیے گئے تھے۔
رپورٹ میں ایک کینیڈین اہلکار کا ایک عجیب و غریب دعویٰ بھی سامنے آیا، جس کے مطابق ، ‘ ڈوبھال نے تسلیم کیا کہ ہندوستان نے لوگوں کا تعاقب کرنے ، تصویریں لینے وغیرہ کے لیے اپنے سفارت کاروں کااستعمال کیا، لیکن انھوں نے دھمکی یا تشدد سے کسی قسم کے تعلق سے انکار کیا۔’ کینیڈین اتھارٹی کے دعووں کے برعکس ہندوستانی حکومت مسلسل اپنے سفارت کاروں کا دفاع کررہی ہے اور ان پر لگائے جانے والے تمام الزامات کی تردید کر رہی ہے۔
مبینہ ملاقات میں ڈوبھال کو نجر قتل اور دیگر معاملات میں بشنوئی گینگ کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی دیے گئے ۔ بتادیں کہ 79 سالہ سابق جاسوس اجیت ڈوبھال گزشتہ ایک دہائی سے ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر ہیں ۔ انہیں وزیر اعظم نریندر مودی کا بھروسے مندسمجھا جاتا ہے۔