
موجودہ آئی ٹی ایکٹ،1961 میں ٹیکس چوری کا شبہ ہونے پر دفعہ 132 کے تحت انکم ٹیکس افسران کے پاس تلاشی لینے، جائیداد اور اکاؤنٹ سے متعلق دستاویز کو ضبط کرنے کا اختیارتھا، لیکن نئے آئی ٹی بل نے اس اختیار کو شہریوں کے موبائل فون اور کمپیوٹر سسٹم تک رسائی دے دی ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
نئی دہلی: 1 اپریل، 2026 سےانکم ٹیکس حکام کسی بھی فرد کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ، ذاتی ای میل، بینک، آن لائن سرمایہ کاری، ٹریڈنگ کھاتوں اور دیگر تمام مواد تک رسائی حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق ، اگر حکام کو شبہ ہے کہ کسی شخص نے انکم ٹیکس چوری کیا ہے یا ان کے پاس یہ یقین کرنے کی وجہ ہے کہ اس شخص کے پاس کوئی غیر اعلانیہ آمدنی، رقم، سونا، زیورات یا قیمتی اشیاء یا اثاثے ہیں جن پر انکم ٹیکس ایکٹ 1961 کے مطابق قابل اطلاق انکم ٹیکس ادا نہیں کیا گیا ہے، تو وہ اس شخص کی ڈیجیٹل موجودگی تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔
موجودہ آئی ٹی ایکٹ، 1961 کی دفعہ 132 کے مطابق، اب تک انکم ٹیکس حکام کے پاس تلاشی لینے، املاک اور اکاؤنٹ بک کو ضبط کرنےکا اختیار تھا، اگر ان کے پاس یہ معلومات اور یقین کرنے کی وجہ ہے کہ کسی شخص کے پاس کوئی غیر اعلانیہ آمدنی، اثاثے یا دستاویزہیں، جنہیں وہ ٹیکس سے بچنے کے لیے چھپا رہے ہیں۔
اس سے انہیں کسی بھی دروازے، باکس یا لاکر کا تالا توڑنے کی اجازت ملتی ہے، اگر ان کی چابیاں دستیاب نہ ہوں اور اگر ان کے پاس شک کرنے کی کوئی وجہ ہے کہ کوئی غیر اعلانیہ اثاثہ یا اکاؤنٹ سے متعلق دستاویز وہاں ہیں۔
تاہم، نئے آئی ٹی بل نے اس اختیار کو شہریوں کے موبائل فون اور کمپیوٹر سسٹم تک بڑھا دیا ہے، جسے وہ ‘ورچوئل ڈیجیٹل اسپیس’ کہتے ہیں۔ یعنی پہلے حکام کو صرف فزیکل املاک کو تلاش کرنے اور ضبط کرنے کا حق تھا لیکن اب اسے ورچوئل ڈیجیٹل اسپیس تک بڑھا دیا گیا ہے۔
انکم ٹیکس بل 2025 کی وفعہ 247 کے تحت درج اختیارات میں کہا گیا ہے:
‘… شق (i) میں دیے گئے اختیارات کا استعمال کرنے کے لیے کسی بھی دروازے، باکس، لاکر، سیف، الماری، یا دیگر رسیپٹیکل کا تالا توڑیں، کسی بھی عمارت، جگہ، وغیرہ میں داخل ہوں اور تلاشی لیں، جہاں اس کی چابیاں دستیاب نہیں ہیں یا ایسی عمارت، جگہ وغیرہ تک رسائی دستیاب نہیں ہے، یا کسی بھی کمپیوٹر سسٹم، یا ورچوئل ڈیجیٹل اسپیس تک رسائی کوڈ کو اوور رائیڈ کرکے رسائی حاصل کریں، جہاں رسائی کوڈ دستیاب نہیں ہے۔’
نیا بل ‘ورچوئل ڈیجیٹل اسپیس’ کی تعریف اس طرح کرتا ہے:
‘ایک ایسا ماحول، علاقہ یا جگہ جو جسمانی، ٹھوس دنیا سے الگ ہو اور کمپیوٹر ٹکنالوجی کے ذریعے تعمیر اور تجربہ کیا گیا ہو اسے ڈیجیٹل اسپیس میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ حکام کو صارفین کے کمپیوٹر سسٹم، کمپیوٹر نیٹ ورک، کمپیوٹر وسائل، کمیونی کیشن ڈیوائسز، سائبر اسپیس، انٹرنیٹ، ورلڈ وائڈ ویب اور ابھرتی ہوئی ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تعمیر، ذخیرہ کرنے یا تبادلے کے لیے الکٹرانک شکل میں ڈیٹا اور معلومات کا استعمال کرتے ہوئے بات چیت، مواصلات اور سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔’
ان میں ای میل سرور، سوشل میڈیا اکاؤنٹس، آن لائن انویسٹمنٹ اکاؤنٹس، ٹریڈنگ اکاؤنٹس، بینکنگ اکاؤنٹس، وغیرہ، کسی بھی ویب سائٹ جو کسی پراپرٹی کی ملکیت کی تفصیلات کو ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، ریموٹ سرورز یا کلاؤڈ سرورز، ڈیجیٹل ایپلی کیشن پلیٹ فارمز اور اسی نوعیت کا کوئی دوسرا مقام۔
تشویش کی وجہ؟
اس ایکٹ میں حکام کے’یقین کرنے کی وجہ’ کی حد کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، جو کہ تشویشناک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انکم ٹیکس حکام ٹیکس چوری کے شبہ میں ‘کسی بھی مبینہ کمپیوٹر سسٹم، یا ورچوئل اسپیس’ تک رسائی کو اوور رائیڈ کر سکتے ہیں۔
نتیجے کے طور پر، اس نے صارفین کی ڈیجیٹل رازداری کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔
انفوسس کے سابق سی ایف او موہن داس پائی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں وزیر اعظم کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا،’ان معاملات میں اگلے مالی سال سے انکم ٹیکس کے اہلکار آپ کے ای میل اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں – یہ ہمارے حقوق پر حملہ ہے! حکومت کو غلط استعمال کے خلاف تحفظ فراہم کرنا چاہیے اور ایسا کرنے سے پہلے عدالتی حکم لینا چاہیے۔’
اکنامک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کے ایس لیگل اینڈ ایسوسی ایٹس کی منیجنگ پارٹنرسونم چندوانی کہتی ہیں،’اگرچہ حکومت ٹیکس چوری اور غیر اعلانیہ ڈیجیٹل اثاثوں کو روکنے کے اقدام کے طور پر اس کا جواز پیش کر سکتی ہے، لیکن ورچوئل ڈیجیٹل اسپیس کی وسیع اور مبہم لازمی طور پر کسی فرد کی مالیاتی اور نجی ڈیجیٹل موجودگی پر غیر محدود نگرانی کی اجازت دیتی ہے۔’
وہ مزید کہتی ہیں؛’عدالتی نگرانی یا مخصوص طریقہ کار کے تحفظات کی عدم موجودگی میں، یہ شق صوابدیدی تحقیقات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔’
آئینی جواز
آج کی دنیا میں ڈیجیٹل ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل اسپیس کو ٹیکس کی جانچ پڑتال میں لانااہم ہے۔ تاہم ماہرین نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ نیا آئی ٹی بل اپنی موجودہ شکل میں ٹیکس حکام تک بلا روک ٹوک رسائی فراہم کرتا ہے، جو ڈیٹا پرائیویسی کے اصولوں کے خلاف ہے۔
حفاظتی اقدامات کے بغیر اس طرح کے وسیع نگرانی کے اختیارات کسی فرد کے رازداری کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اس طرح یہ آئین کے آرٹیکل 21 کے لیے ایک چیلنج ہے۔
شنوائی میں جسٹس کے ایس پٹا سوامی بنام یونین آف انڈیا، 2017 میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ رازداری کا حق ‘آئین کے آرٹیکل 21 کا ایک اہم پہلو‘ ہے اور ریاست کی طرف سے کسی بھی مداخلت کو اس ‘قانونی جواز کے امتحان’ سے گزرنا ہوگا۔
مزید برآں، نئے آئی ٹی بل کے تحت غیر محدود نگرانی آئین کے آرٹیکل 19(1) کو بھی چیلنج کرتی ہے، جو کہ آزادی اظہار اور اظہار رائے کے فرد کے حق کو قانونی طور پر کمزور اور مشکوک بناتی ہے۔